English   /   Kannada   /   Nawayathi

درد لا دوا پایا

share with us

ایسا لگتا ہے کہ ان کے دل معصوم انسانوں کے خون سے گوندھ کر بنے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے انہیں ایسے خوں آمیز حالات میں ہی توانائی اور لذت ذہن حاصل ہوتی ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ برسہا برس سے یہ خونی کھیل جاری ہے اور یہ سپر طاقتیں اس پر کسی طرح کی بندش یا روک لگانے میں ناکام ہیں۔ یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ یہ بڑی طاقتیں کسی بھی ملک یا خطہ میں جب چاہتی ہیں اور جیسے چاہتی ہیں ہلّہ بول کر داخل ہوجاتی ہیں تو حسب منشا قابض رہتی ہیں اور ارد گرد کے دیگر ممالک ایسی ان چاہی حالت دیکھ کر کپکپانے لگتے ہیں تو ایسی ہیبت ناک اور قوی طاقتوں کے لیے کیا مشکل پیش آرہی ہے کہ برسوں سے چل رہے خونی کھیل کو بہ آسانی اس کے منطقی انجام تک پہنچانے میں ناکام ہیں۔ سیدھی سی بات یہ ہے کہ یہ کام اسی وقت ممکن ہوسکے گا جب ان طاقتوں کے دلوں میں انسانیت اور انصاف پسندی کا دریا موجزن ہوگا۔ بصورت دیگر قتل و غارت گری کا یہ کھیل یوں ہی جاری رہے گا اور پورے خطے یعنی مشرق وسطیٰ کی آنکھیں بھی یوں ہی کسی صلاح الدین ایوبی کے انتظار میں خون بہا بہاکر روشنیوں سے محروم ہوتی رہیں گی۔ 

مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر اس وقت جو کھیل کھیلا جا رہا ہے وہ دنیائے انسانیت کے لیے نہایت شرمناک ہے اور اس کے پس پردہ جو نیتیں چھپی ہوئی ہیں وہ انتہائی افسوس ناک بھی ہیں اور خطرناک بھی۔ دراصل اس کھیل کا محور فلسطین کی سرزمین پر برطانیہ اور امریکہ کی مشترکہ متبنیٰ اولاد اسرائیل کا قیام ہے۔ اپنی اس ناجائز اولاد کو دوامی مقام و حیثیت دینے کے لیے برطانیہ و امریکہ نے تمام یورپی ممالک کو جہاں اپنا ہمنوا بناکر عربوں کے دل میں خنجر پیوست کر رکھا ہے وہیں تمام عالم اسلام کے خلاف جنگی محاذ قائم کرکے ایک ایسی ہلچل پیدا کردی ہے کہ پوری مسلم دنیا کا سکون ہی غارت ہوگیا ہے۔
یورپی ممالک خصوصاً برطانیہ اور امریکہ جہاں یہود و نصاریٰ کا غلبہ ہے، ان کی فطری مجبوری یہ ہے کہ پوری دنیا پر اپنی چودھراہٹ چاہتے ہیں او راپنی خواہش کی تکمیل کے لیے وہ سب کچھ کرنے پر تلے ہوئے ہیں جس پر انسانیت شرم سے پانی پانی ہوجائے۔ مشرق وسطیٰ یا عالم اسلام میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے یہود و نصاریٰ کی اسی چاہت کا نتیجہ ہے۔ یہودیوں اور عیسائیوں کی اہل اسلام سے ازلی پرخاش ہے۔ یہودی ذہین و فطین قوم ہے وہ اپنے آپ کو دنیا کی ساری قوموں سے برتر و بالا سمجھتی ہے اور ساری قوموں پر حکمرانی چاہتی ہے اس لیے وہ اس قدیمی اصول یعنی جنگ و محبت میں سب کچھ جائز ہے، کے مصداق حصول مقصد کے لیے ایک دشمن کو زیر کرنے کے لیے دوسرے دشمن سے ہاتھ ملاکر موت و زیست کا کھیل کھیل رہی ہے۔ برطانیہ اور امریکہ اس وقت اسی یہودی لابی کے زیر اثر ہیں اس لیے یہ بات مصدقہ ہے کہ جب تک امریکی حکمرانوں کے دل و دماغ پر صیہونی و صلیبی لابی قابض ہے دنیا میں امن و امان کی فاختہ زیتون کی شاخ اپنی چونچ میں لے کر چین کی بانسری نہیں بجاسکتی۔ یہ وہ ذہنیت ہے جو نہ چین سے رہ سکتی ہے اور نہ دوسروں کو رہنے دے گی۔ واضح رہے کہ برطانیہ، روس، فرانس اور جرمنی بھی کسی زمانے میں دوسری قوموں کو غلام بنانے اور ان پر اپنی بالادستی قائم کرنے کا ریکارڈ قائم کرچکے ہیں۔ لیکن امریکہ کی صورت حال ان سب سے مختلف اور نرالی ہے۔ آج کے تکنالوجی، راکٹ، ایٹم بم، میزائلوں اور ٹیلی کمیونی کیشن کی ایجادات کی بدولت اب کسی سپر پاور کے کسی دوسرے ملک پر قبضہ کرنے کا تصور عملاً ابھی تک تو ناممکن ہے لیکن ذہنی نظریاتی اور پالیسی پروگرام کے ذریعے دنیا کو اپنا ماتحت بنانے کے لیے فسطائی و استعماری طاقتوں کے پاس بہترین مواقع موجود ہونے کے باوجود ان کی بدنیتی انہیں ایک ایسے اندھیرے غار میں دھکیل رہی ہے جہاں وہ از خود اپنے انجام کو پہنچ جائے گی۔ امریکی حکام ساری دنیا کو اپنے شکنجے میں کسنے کے لیے بیتاب و سرگرم ہیں اور فی الحال وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک اور ان کے حکمراں بالخصوص مسلم حکمراں امریکہ کے سامنے سجدہ ریز ہیں اور بعض حالات میں تو یہ ناک رگڑتے ہوئے بھی نہیں شرماتے۔ 
ظاہر ہے جب ایسی صورت حال مسلم حکمرانوں کی ہوگی تو مسلم دشمن طاقتیں اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گی ہی۔ پورے عالم اسلام میں اس وقت جو بدامنی اور خلفشار ہے اور مسلمان مسلمان کی گردن جس طرح اتار رہا ہے اس کے پیچھے بھی یہی صیہونی لابی کام کر رہی ہے۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ اس صورت حال میں اوروں سے کہیں زیادہ اپنوں کا کردار ہے جو جانتے بوجھتے دشمنوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ پورا عالم اسلام اپنوں کے خون میں لت پت ہے پھر صیہونی اور صلیبی طاقتوں کی پیاس نہیں بجھ رہی ہے۔ کتنے مسلم حکمراں اس سازش کے بھینٹ چڑھ گئے اور کتنوں کو سولی پر چڑھا دیا گیا۔ عراق کے صدر صدام حسین کو عین بقرعید کے روز ہی پھانسی پر چڑھا دیا گیا اور یکے بعد دیگرے ان تمام لوگوں کو جو صدام اور ان کے مشن سے وابستہ تھے، ہلاک کردیا گیا۔ لیبیا کے مرد آہن کہلانے والے کرنل قذافی کا حشر تو سب کے سامنے ہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایک اسرائیل کو امریکہ کی جائز اولاد تسلیم نہ کیے جانے پر اور کتنے عربوں کے سردار پر چڑھتے ہیں۔ کتنی مائیں بیوہ ہوتی ہیں، کتنے بچے یتیم اور کتنے بوڑھے بے سہارا ہوتے ہیں۔ اسلام کے نام پر چلنے والی تحریکیں اپنوں کا خون کتنا اور کب تک بہاتی رہیں گی۔ ایسے بہت سے سوالات ہیں جن کا جواب کسی اور کو نہیں عالم اسلام کو ہی دینا ہے، کیوں؟ اس لیے کہ اسلام تو سراپا امن و سلامتی ہے تو پھر یہ خون خرابہ کیسا؟ 
کہا جاتا ہے کہ سامراجی قوتیں جن ملکوں میں اپنے مفادات تلاش کرتی ہیں تو سب سے پہلے ان میں اپنے آلۂ کار تلاش کرلیتی ہیں۔ آج کل یہی صورت حال عالم اسلام میں دیکھی اور پائی جارہی ہے کیونکہ سیاسی پاکھنڈیوں کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جس سیڑھی سے تم چڑھے ہو اسے پہلے گرادو۔ لہٰذا اسی اصول پر یورپی ممالک عالم اسلام میں سرگرم عمل ہیں۔ 
فلسطین سے لے کر افغانستان، عراق، پاکستان، سوڈان، لبنان، یمن و شام و دیگر مسلم ملکوں میں جو خونی کھیل جاری ہے ہر جگہ انہی صیہونیت اور عیسائیت کے گھناؤنے مقاصد ہی کارفرما ہیں اور ہر جگہ اپنے آلہ کاروں کے ذریعے انتشار پیدا کرکے اپنا مقصد حاصل کر رہے ہیں۔ اسی طرح فلسطین میں بھی اپنے آلہ کاروں کے ذریعہ مقاصد کی تکمیل کر رہے ہیں۔ فلسطینی تحریک کے عظیم لیڈر یاسر عرفات کو مجبور کرکے نہ صرف فلسطینیوں بلکہ سارے عالم اسلام کا سر جھکا دیا گیا تھا اب پھر وہی حربہ محمود عباس کے ذریعہ استعمال کرنے کی سعی جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین کاز کے لیے جو بھی دمدار آواز اٹھتی ہے یا تو اس کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے یا پھر چند سکوں کے عوض کنارے لگا دیا جاتا ہے۔ غور کیجیے کہ کیا ایسا ہی کچھ عرصہ دراز سے مسلم دنیا میں نہیں ہو رہا ہے، آخر مسلم دنیا کے اس درد کی دوا کیا ہے؟ ہمارے نزدیک تو یہ درد لادوا بنتا جارہا ہے، کیا آپ کے نزدیک اس درد کی کوئی دوا ہے؟ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا