English   /   Kannada   /   Nawayathi

ہندوستانی مسلمان اور تعلیم کی طاقت

share with us

2014ء میں مرکز میں غیر معمولی تبدیلئ اقتدار کے نتیجہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ اقتدار کی تبدیلی کے وقت اورا س کے بعد بھی ہندوستانی مسلمانوں کا ماننا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی مسلمانوں کی فلاح اور ترقی کے میدا ن میں کچھ نہیں کرے گی۔ فی الوقت مسلمان نہ صرف حاشیہ پر کھڑے ہیں بلکہ نا امیدی کا بھی شکار ہیں۔
اگر ہم تاریخ کے اوراق پلٹیں تو دیکھیں گے کہ1857ء میں پہلی جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد بھی ہندوستانی مسلمانوں کواسی قسم کی سیاسی و سماجی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب سرسید احمد خاں نے حالات کا جائزہ لے کر ملک میں سائنس پر مبنی مغربی تعلیم کی بنیاد ڈالی اور 1875ء میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج قائم کیا جو آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل میں فروغ پاکر ملک کی تعلیمی خدمت کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔ سرسید نے اپنی تعلیمی پالیسی سائنس پر مرکوز کی کیونکہ انہیں علم تھا کہ مسلمان صرف انگریزی میڈیم سے سائنسی تعلیم حاصل کرکے ہی انگریزی حکومت کا مقابلہ کرنے کے علاوہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتے ہیں۔
دورِ حاضر کی سیاسی و سماجی صورتِ حال بھی1857کی طرح ہے۔ مرکز میں حکومت کی تبدیلی کے بعد مودی حکومت قائم ہوئی اور ہندوستانی مسلمانوں کے ایک طبقہ میں ناامیدی اور غیر یقینی کی فضا بھی قائم ہوگئی۔ ان مسلمانوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ مودی حکومت میں ان کی ترقی اور فلاح کسی بھی حال میں ممکن نہیں ہے جبکہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ملک میں مسلمان دیگر مذاہب کے لوگوں سے ہر سطح پر کافی پسماندگی کا شکار ہیں۔
ان سلگتے حالات میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے چانسلر اور ممتاز صنعت کار جناب ظفر یونس سریش والا نے ملک بھر میں’’ تعلیم کی طاقت ‘‘ مہم کا آغاز کیا ہے اور اپنی ا س مہم کے توسط سے انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں میں پائی جانے والی غیر یقینی صورتِ حال کو دور کرنے اور مسلمانوں کو تعلیم خصوصی طور پرپیشہ ورانہ تکنیکی تعلیم کے تئیں بیدار کرنے کا کارِ خیر شروع کیا ہے۔
ظفر سریش والانے تعلیم کی طاقت مہم کے تحت بریلی اور ممبئی میں سیمینار منعقد کئے جن میں انہوں نے تعلیم اور دیگر میدانوں سے وابستہ ماہرین کو خطبات کے لئے مدعو کیا۔ بریلی کے سیمینار میں خلافِ امید مسلمانوں نے اتنی بڑی تعداد میں شرکت کی کہ وہاں کا آئی ایم اے ہال بھی چھوٹا پڑ گیا۔ اسی طرح ممبئی کے سیمینار میں بھی مسلمانوں نے دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑی تعداد میں پروگرام میں حصہ لیا اور خود مہاراشٹر کے وزیرِ اعلیٰ مسٹر دیویندر فڑنویس نے پروگرام میں شرکت کرکے مسلمانوں کو یقین دلایا کہ حکومت ان کی ترقی کے تعلق سے سنجیدہ ہے اور مہاراشٹر حکومت اردومیڈیم تعلیمی اور تکنیکی ادارے قائم کرکے اردوکو روزگار سے جوڑے گی۔
بریلی اور ممبئی دونوں جگہ اپنے خطاب میں مسٹر سریش والا نے قرآن کی آیات کاحوالہ دیتے ہوئے مسلمانوں کو یاد دلایاکہ تعلیم حاصل کرنا ان کا مذہبی فریضہ ہے۔ ا س کے علاوہ انہوں نے دورِ حاضر میں ملک اور عالمی سطح پر ہو رہی تبدیلیوں پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی۔
موجودہ حالات اور ظفر سریش والا کے ذریعہ شروع کی گئی’’ تعلیم کی طاقت‘‘ مہم کا باریک بینی سے جائزہ لینے پرکچھ مثبت اشارے موصول ہوتے ہیں۔ اگر مسلم سماج کو حقیقی طور پر ترقی کی راہ پر گامزن ہونا ہے تو اسے اپنی ذہنیت اور فکر کو تبدیل کرنا ہوگا اور خودا سلامی تاریخ اور قرآن کی روشنی میں اپنا تعلیمی سفر شروع کرنا ہوگا۔ یہ صحیح ہے کہ اسلام میں علم حاصل کرنے پر کافی زور دیاگیا ہے اور قرآن نے حکم دیا ہے کہ اگر علم حاصل کرنے کے لئے چین بھی جانا پڑے تو جاؤ۔ اس وقت چین میں کوئی جدید تعلیم تو دستیاب نہیں تھی اس لئے چین جانے کا مطلب تھا کہ چاہے کتنی بھی مشکلیں کیوں نہ درپیش ہوں لیکن ہر حال میں علم حاصل کرو۔
دورِ حاضر میں ہندوستانی مسلمانوں کی اقتصادی صورتِ حال بھی بہتر نہیں ہے اور وہ ایک ہی و قت میں افلاس اور نا خواندگی کا شکار ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کا ایک طبقہ اپنے بچوں کو تعلیم کے حصول کے لئے مدارس بھیجتا ہے۔ ملک میں مدارس کی کوئی کمی نہیں ہے اور یہ نہایت اہم بھی ہے کیونکہ ان مدارس کو ہی جدید تعلیم کا مرکز بھی بنایا جاسکتا ہے۔ اگر مدارس کی جدید کاری کی جائے تو وہاں نہ صرف دینی بلکہ جدید تعلیم بھی بغیر کسی رکاوٹ کے مہیا کرائی جا سکتی ہے۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کو موجودہ حکومت کے تئیں غیر یقینی کیفیت اور عدم اعتماد کی فضا کو ختم کرنا ہوگا اور اس حقیقت کو ہمہ وقت یاد رکھنا ہوگا کہ ملک کی حکومت آئین کی روشنی میں کام کرتی ہے کسی بھی سیاسی جماعت کے ایجنڈے پر نہیں۔ دوسری بات یہ کہ مسلمانوں کو ہر مسئلہ کے لئے حکومت کو ذمہ دار قرار دینے اور ان مسائل کے حل کے لئے حکومت کی جانب دیکھنے کی قدیم روایت کو بھی ختم کرنا ہوگا۔
آج ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ مسلمانوں کو مثبت طور پر ترقی پانے کے لئے ایک اسکیم مرتب کرنا چاہئے جس کی بنیاد صرف اور صرف تعلیم ہی ہوسکتی ہے، اس لئے مسلمانوں کو سنجیدگی کے ساتھ حالات پرغور کرنا چاہئے۔
موجودہ مرکزی حکومت کا ہدف ہے کہ ہندوستان کو دنیا میں ایک بڑی اقتصادی طاقت کے طور پر قائم کیا جائے۔ اپنے ا س مقصد کے حصول کے لئے حکومت کو نہ صرف ہندوستانی سماج کے ہر طبقہ کو اپنے ساتھ لے کر چلنا ہوگا بلکہ ان کے ساتھ انصاف بھی کرنا ہوگا۔ مسلمان بھی اسی ملک کے شہری ہیں اور حکومت کو یہ اچھی طرح علم ہے کہ مسلمانوں کی حصہ داری کے بغیر ملک کی ترقی نا مکمل رہ جائے گی۔دوسری جانب مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ دستکاری سے جڑا ہوا ہے اور حکومت کو ان کی ضرورت بھی ہے۔ میرے خیال سے یہ نہایت مناسب وقت ہے جب مسلمانوں کو اس موقعہ کا فائدہ اٹھاکر اپنی ترقی کے لئے حکومت کے کاندھے سے کاندھا ملاکر کام کرنا چاہئے اور دانش مندی کا بھی یہی تقاضہ ہے کہ ہم ماضی کو پسِ پشت ڈال کر ایک بہتر مستقبل کے لئے لائحۂ عمل تیار کریں جس میں حکومت ہمہ وقت ہمارے ساتھ ہے ا ور ہماری ترقی میں سنجیدگی کے ساتھ دلچسپی لے رہی ہے۔
ہندوستان برق رفتاری کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور ایک اندازے کے مطابق مستقبل میں بڑی تعداد میں نہ صرف ڈاکٹروں اور انجینئروں وغیرہ کی ضرورت ہوگی بلکہ تکنیکی میدانوں میں بھی نئے مواقع مہیا ہوں گے کیونکہ ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہورہا ہے، اس لئے مسلمانوں کوحکومتِ ہند کی جانب سے جاری ہونے والی پالیسیوں اورا سکیموں جیسے اسکل ڈیولپمنٹ وغیرہ کا فائدہ اٹھانا چاہئے۔
مختصر یہ کہ اگر مسلمانوں نے مودی حکومت پر اعتماد کیا اور ظفر سریش والا کے ذریعہ چلائی جا رہی’’ تعلیم کی طاقت ‘‘مہم کی حمایت کی تو ان کی سماجی ا ورا قتصادی صورتِ حال میں غیر معمولی تبدیلیاں واقع ہوسکتی ہیں۔اسی تعلق سے ظفر سریش والا صاحب کی ’’ تعلیم کی طاقت ‘‘مہم کے تحت05؍ستمبر2015ء کو پٹنہ کے موریا ہوٹل میں ’’ تعلیم کی طاقت ‘‘ پروگرام منعقد کیا جارہا ہے جس میں مسلمانوں کی بڑی تعداد میں شرکت ان کے لئے فکر کے کئی باب وا کرے گی۔(یو این این)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا