English   /   Kannada   /   Nawayathi

کاش ججوں سے پہلے وزیر اعلیٰ بول دیتے!

share with us

اگر نئی عمر اور نئی امنگوں والے وزیر اعلیٰ یہ فیصلہ کرلیتے کہ اُن کے بچے سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کریں گے تو پورے اُترپردیش کے بیسک اسکول اور جونیئر اسکول لامارٹینیئر اور لاریٹواسکول بن جاتے۔ جن کی حالت آج یہ ہے کہ وہاں صرف وہ بچے نام لکھوا لیتے ہیں جنہیں دوپہر کو کھانے کے لئے کچھ مل جاتا ہے جو ہزار اعتراض کے بعد بھی اس سے اچھا ہوتا ہے جو اُن غریبوں کے گھر میں بنتا ہے۔
ہم نے ایسے سرکاری اسکول دیکھے ہیں جہاں ٹیچر تو چار ہیں اور ایک چپراسی بھی ہے مگر بچہ کوئی نہیں ہے۔ جبکہ رجسٹر میں 50 بچوں کا نام لکھا ہے جو سب حاضر ہیں۔ اُن اسکولوں میں جو پڑھانے والے یا پڑھانے والیاں کرسیوں پر بیٹھی باتیں کرتی نظر آرہی ہیں وہ اس لئے باتیں کررہی ہیں کہ پڑھنے والا کوئی نہیں ہے اور وہ اس لئے ہیں کہ انہوں نے اپنے بادشاہ بیسک شکشا ادھیکاری کو منھ مانگی رشوت دے دی ہے۔ یہ ماسٹر اور دیدی اتنی تنخواہ پارہے ہیں جتنی انگلش میڈیم اسکولوں کے پرنسپل بھی نہیں پارہے ہوں گے۔
ہم کہہ نہیں سکتے کہ شہروں کے سرکاری اسکولوں کا حال زیادہ خراب ہے یا قصبات اور دیہات کے اسکولوں کا؟ لیکن جس اسکول کے نام کے ساتھ سرکاری لگ گیا وہ تعلیم گھر نہیں حرام خوری کا اڈہ بن جاتا ہے۔
ہمارے ہائی کورٹ کے ججوں کو نظر نہ لگے اور اُن کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ اپنا فیصلہ صادر نہ کرے تو پھر صرف اتنا نہیں کہ اعلیٰ عہدوں پر فائز اہلکاروں کے بچوں پر ہی یہ پابندی ہو بلکہ میونسپل بورڈ کے چیئرمینوں پنچایت کے سرپنچوں ضلع پریشد کے ممبروں اور صدور پر بھی یہ پابندی لگائی جائے کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری اسکول میں پڑھائیں۔ اگر وزیر اعلیٰ اور وزیروں کے بچے سرکاری اسکولوں میں پڑھنے لگیں تو بچوں کے بیٹھنے کے لئے ٹاٹ پٹی کی جگہ کرسیاں آجائیں گی اور پانی پینے کے لئے مٹی کے مٹکوں کی جگہ مشینیں لگ جائیں گی اور پھر پڑھانے والے اس طرح پڑھائیں گے کہ سرکاری اسکولوں کے بچے مشنری اسکولوں کے بچوں کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔
ہمارا بچپن کا زمانہ وہ تھا کہ ہر جگہ سرکاری اسکول ہی تھے اور ہر اسکول سے وہ بچے نکلے جنہوں نے ملک کا نام روشن کیا۔ اس وقت مشنری اسکول بہت بڑے شہروں میں ہوا کرتے تھے۔ ملک کے آزاد ہونے کے بعد رفتہ رفتہ سب کچھ آزاد ہوتا گیا اور وہ سنبھل جو دو چار سال پہلے تک قصبہ تھا اس میں بھی ایک درجن سے زیادہ اسکولوں کی دکانیں کھل گئیں اور ہر کوئی اپنے بچہ کو یونیفارم میں دیکھنے کا شوقین ہوگیا اور جو تعلیم مفت میں حاصل ہوتی تھی اسے سیکڑوں روپئے خرچ کرکے صرف اس لئے حاصل کرنے لگا کہ اس کے بچے یونیفارم میں نظر آئیں۔
آج حالت یہ ہوگئی ہے کہ جس گھر میں دو چار غیرشادی شدہ لڑکیاں بیٹھی ہیں انہوں نے اپنے ہی مکان میں ایک انگلش میڈیم اسکول کھول دیا ہے اور محلہ کے بچوں کو انگلش میڈیم اسکول میں پڑھانا شروع کردیا ہے۔ وہ جنہیں ہائی کورٹ نے سرکاری اسکول کہا ہے اُن کے پاس نہ عمارت ہے نہ فرنیچر ہے نہ بلیک بورڈ ہے اور نہ کوئی جھاڑو لگانے والا اور پانی پلانے والا ہے۔ اگر اپنے حکم میں ہائی کورٹ کے فاضل ججوں نے چیف سکریٹری کے ساتھ سکریٹری تعلیم، ہر ضلع کے بیسک شکشا ادھیکاری اور ڈائرکٹر تعلیم کو بھی مشورہ میں شامل کرادیا ہوتا اور وزیر تعلیم کو بھی حکم دیا ہوتا کہ وہ پوری ایمانداری سے اپنے صوبہ کے اسکولوں کے فوٹو اور اُن کی تعلیمی سرگرمی کی رپورٹ چھ مہینے میں پیش کریں تب معلوم ہوتا کہ بیسک تعلیم صرف ایک محکمہ ہے اور ہزاروں کروڑ کے بدلہ میں دس بچے بھی تعلیم یافتہ نہیں بن پارہے۔
محترم جج صاحبان اپنے ذرائع سے یہ معلوم کرائیں کہ وہ کون سی سرکاری چیز ہے جس کے مقابلہ میں پرائیویٹ چیزوں نے اسے ختم نہ کردیا ہو؟ صرف ریلوے وہ بھی سواری کی حد تک ایسا محکمہ ہے جس کا کوئی کچھ نہ بگاڑ سکا ورنہ پرائیویٹ بسوں اور ٹیکسیوں نے روڈویز کو ختم کردیا۔ پرائیویٹ ٹرکوں نے مال گاڑی کا دیوالہ نکال دیا۔ کوریئر صرف ڈاکخانہ کی نااہلی کے پیٹ سے پیدا ہونے والا کاروبار ہے، نیشنلائزڈ بینکوں کے مقابلہ میں پرائیویٹ بینکوں کی کارکردگی اتنی ہی اچھی ہے جتنی سرکاری اسکولوں کے مقابلہ میں پرائیویٹ اسکولوں کی۔
صوبہ کا وزیر اعلیٰ نام کا جمہوری ہوتا ہے۔ حقیقت میں وہ راجہ ہوتا ہے۔ یہ اس کا فرض ہے کہ وہ ہزاروں کروڑ روپئے برباد کرنے والے سرکاری اسکولوں کو یا تو ختم کردے یا انہیں سدھار دے۔ اگر پورے صوبہ کے عالم، فاضل اور تعلیم کے ماہر بھی اگر سرکاری اسکولوں کو معیاری بنانا چاہیں تو 25 برس میں بھی نہیں بنا سکتے اور اگر وزیر اعلیٰ صرف اپنے دو بچوں کو ان اسکولوں میں داخل کرنے کا اعلان کردیں اور ہر ضلع کے ڈی ایم، ایس ڈی ایم، ایس پی اور ہر تحصیلدار کو اس کا پابند کردیں کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں پڑھائیں اور اگر تبادلہ ہو تو انہیں وہاں بھی ایسے ہی معیاری سرکاری اسکول ملنے کا یقین ہوتو صرف پانچ برس میں ہر اسکول لامارٹینیئر اور لاریٹو کے معیار کا ہوسکتا ہے۔
گذشتہ سال یہ خبر آئی تھی کہ وزیر اعلیٰ کا بیٹا اپنے اسکول اپنی سائیکل سے جاتا ہے اور اس کا بیگ اس کے کاندھوں پر ہوتا ہے۔ صرف ایک محافظ اس کے ساتھ جاتا ہے (جو ضروری ہے) ہمارے پوتے پوتیاں بھی ان ہی اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ ہم نے کبھی کسی کے منھ سے نہیں سنا کہ ان کے اسکول میں وزیر اعلیٰ کے بچوں کے ساتھ کوئی امتیاز برتا جاتا ہو اور نہ ان کا اس طرح ذکر کیا گیا جیسے ان کے سرخاب کے پر لگے ہوں۔ یہ اقدام ایک سماجوادی وزیر اعلیٰ کے لئے قابل فخر ہے۔ ہم پوری سنجیدگی سے کہہ رہے ہیں کہ سرکاری بیسک اسکولوں کو بالکل ختم کردیا جائے اس کے بدلے میں پرائیویٹ اسکول میں پڑھنے والے غریبوں کے بچوں کی فیس معاف یا حالت کی بنیاد پر آدھی اور چوتھائی کردی جائے۔ ہر سرکاری اسکول کا استاد اور استانی حرام کی یا صرف حاضری کی تنخواہ لے رہے ہیں۔ اس محکمہ پر جو خرچ ہورہا ہے اس کا صرف 25 فیصدی اگر غریب بچوں کی فیس کی صورت میں خرچ کردیا جائے تو وہ لاکھوں بچے جو پیسے نہ ہونے کی وجہ سے نہیں پڑھ پارہے ہیں وہ بھی تعلیم یافتہ ہوجائیں گے کیونکہ حکومت یہی چاہتی ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا