English   /   Kannada   /   Nawayathi

مسلم او۔بی۔سی طبقہ کی، ذات کے اسناد سے محرومی

share with us

حالانکہ حکومت مہاراشٹر کے مختلف النوع حکمناموں کے ذریعے یہ کوشش کی گئی ہیکہ جن مسلم امیدواروں کے اسکول کے داخلے میں ذات کا ذکر نہیں ہے ایسے مستحق امیدواروں کے تعلق سے کوئی راستہ نکالا جائے ۔ لہٰذا ۱۹ ؍ اکتوبر ۱۹۹۵ ؁.ء اور ۲۲ ؍جولائی ۱۹۹۶ ؁.ء کے سرکاری احکامات کے تحت ان شرائط سے مسلم او۔بی۔سی امیدواروں کو مستشنیٰ کر دیا گیا اور بالخصوص اس بات کی نشاندہی کے ساتھ کہ مسلمانوں کے دستاویز میں عام طور سے ذات کے کالم میں ذات کی بجائے مسلم ، اسلام یا مسلمان درج ہونے کے امکانات قوی ہیں ۔ لہٰذا اس بات کو دھیان میں رکھتے ہوئے رہائشی تحقیقات نیز تلاٹھی یا سرپنچ کا داخلہ اور حلف نامہ کی بنیاد پر مسلم او۔بی۔سی امیدواروں کو ذات کے اسناد دئیے جانے کا حکم ہے ۔ اس معاملہ میں اور آسانی کیلئے ۳ ؍ جون ۱۹۹۶ ؁.ء اور ۴ ؍ اکتوبر ۲۰۰۱ ؁.ء کے سرکاری حکمنامے کے مطابق مسلم او۔بی۔سی طبقہ کی رجسٹرڈ سوسائٹی کی جانب سے دئیے جانے والے داخلے کو بھی بطور ثبوت تسلیم کئے جانے کا حکم ہے ۔ امیدوار کے دستاویز میں ذات کا ثبوت اگر ملتا ہے تو مزید دستاویز طلب نہ کرنے کی تاکید مورخہ ۲۵ ؍ جون ۲۰۰۲ ؁.ء کے سرکاری حکمنامے میں موجود ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ۲۱؍ جون ۲۰۰۱ ؁.ء کے سرکاری حکمنامے میں اس بات کی تاکید کر دی گئی ہیکہ جو افسران سرکاری احکامات پر لفظ با لفظ عمل نہیں کرینگے انکے خلاف MCSR کے تحت سخت تادیبی کاروائی کی جائیگی۔ اسطرح حکومت مہاراشٹر کے ان گنت احکامات سے پتہ چلتا ہیکہ حکومت کی یہ کوشش رہی ہیکہ کسی بھی طریقہ سے مہاراشٹر کے مستحق مسلم او۔بی۔ سی طبقہ کے افراد کو ذات کے اسناد سے محروم نہ ہونا پڑے ۔ یہ تو رہی سرکاری احکامات کی بات لیکن مہاراشٹر کا ایک بھی افسر ان سرکاری حکمناموں کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ اگر ان افسران کے خلاف منترالیہ میں شکایت درج کی جاتی ہے تو آخر میں منترالیہ بھی یہ جواب دے دیتا ہیکہ اگر آپ کسی افسر کے کام سے مطمئین نہیں ہے تو ہائی کورٹ جائیے ۔ اس سے پتہ چلتا ہیکہ یہ سرکاری احکامات سوائے ممنوعہ پھل کے کچھ نہیں یا ہو سکتا ہے ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور ، کھانے کے اور ۔ 
کاسٹ سرٹیفکیٹ اور انکی ویلیڈٹی کے طریقہ کار کیلئے جو قانون ۲۰۰۱ ؁.ء میں بنا تھا اسکے تعلق سے رول ۲۰۱۲ ؁.ء نافذ ہو چکا ہے ۔ اب ہمیں اس رول کو سمجھنا اور جاننا بہت ضروری ہے ۔ The Maha. SC, ST, VJ, NT, OBC & SBC (Regulation of Issuance & Verification of Caste Certificate, Rule 2012) یہ رول راقم الحروف کی ویب سائٹ www.mwodhule.com سے مل سکتا ہے ۔ اس رول میں او۔بی۔سی کیلئے ۱۳ ؍ اکتوبر ۱۹۶۷ ؁.ء اسے بطور ڈیمڈ ڈیٹ تسلیم کیا گیا ہے۔ امیدوار کے والد کی طرف سے خون کا رشتہ رکھنے والے افراد کو رشتہ دار کے ضمن میں رکھا گیا ہے ۔ رہائش کے تعلق سے اس رول میں ذکر ہیکہ (ڈیمڈ ڈیٹ ) ۱۳ ؍ اکتوبر ۱۹۶۷ ؁.ء کے پہلے امیدوار اسکے والد ، دادا یا پردادا کا جنم مہاراشٹر میں ہونا چاہئے ۔اس رول میں کہیں بھی اسکول کے داخلے میں ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۶۷ ؁.ء کے پہلے کا ذات کے اندراج کے تعلق سے واضح خلاصہ نہیں ہے ، ہاں یہ بات ضرور ہیکہ اس رول کے آخر میں کچھ عریضہ جات کے نمونے دئیے ہوئے ہیں ، ان میں سے نمونہ نمبر ۲۲ کے آخر میں اہم اطلاع کے عنوان کے تحت یہ شرط ڈالی ہوئی ہیکہ او۔بی۔سی کیلئے ۱۳ ؍ اکتوبر ۱۹۶۷ ؁.ء کے پہلے کا ذات کا ثبوت ہونا ضروری ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ کسی بھی قانون یا اس قانون کے تحت بنایا گیا رول اس کے جو نکات ہوتے ہیں وہ تمام اس قانون یا رول کا ایک حصہ ہوتے ہیں ۔ اس رول میں اگر کسی Form کا نمونہ دیا ہوا ہے اور اس کے نیچے کوئی شرط ڈالی ہوئی ہے تو اسکی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی ہے ۔ اگر لیجسلیچر کو اس شرط کو قانونی حصہ بنانا ہوتا تو رول یا قانون کے کسی نہ کسی سیکشن یا رول میں اسے لکھ دیا گیا ہوتا۔بالخصوص یہ بات امیدوار کا عریضہ نامنظوری کے تعلق سے اپیل کے دوران افسران کے سامنے رکھی جائے ۔ 
ٍ اکثر افسران کو جب مندرجہ بالا سرکاری حکمنامے دکھائے جاتے ہیں تو وہ زبانی طور سے اسے تسلیم نہیں کرتے ہیں لیکن وہ ہمیں تحریری طور سے یہ لکھ کر دینے کو تیار نہیں ہوتے ہیں کہ یہ سرکاری حکمنامے اب معطل ہو گئے ہیں ۔ اگر ایک رول نافذ ہو گیا ہے تو اسکے پہلے کے سرکاری حکمنامے ختم نہیں ہو جاتے ہیں۔ اس تعلق سے فاضل سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ان گنت فیصلہ جات دیکھنے ملتے ہیں جہاں پر کسی رول کے نفاذ کے بعد بھی اسکے پہلے کے سرکاری حکمناموں کو تسلیم کیا گیا ہے ۔ (بامبے ہائی کورٹ اورنگ آباد بینچ کے W.P. No. 2626/2013جس کا فیصلہ ۲۶؍ اگست ۲۰۱۴ ؁.ء کو ہوا ہے ) ۔ 
اگر ہم چاہتے ہیں کہ قانونی طور سے ہماری حق شکنی کے خلاف ہم خود ہی کچھ کرے تو ہمیں چاہئے کہ کاسٹ سرٹیفکیٹ کا عریضہ مکمل کر کے ای سیوا کیندر یا سیتو میں دیا جائے اور وہاں سے ایک ٹوکن حاصل کرنا نہ بھولیں ۔ یہ بات خیال رکھے کہ کھڑکی پر بیٹھے آدمی کی کوئی بھی زبانی بات نہ سنیں اور اگر وہ کچھ خامیاں نکالتا بھی ہے تو اسے کہئے کے آپکو جو بھی کہنا ہے اسکے تعلق سے آپکے منسلک ایس ۔ ڈی۔او کی طرف سے ہم کو لیٹر چاہئے۔ کیونکہ رول ۲۰۱۲ ؁.ء کے مطابق اگر ہمارا عریضہ نا منظور کیا جاتا ہے تو منسلک افسر پر لازمی ہوتا ہیکہ وہ نامنظوری حکمنامے میں ، نامنظوری کی وجہ تحریری طور سے دے اور ساتھ میں اس نامنظوری حکمنامے میں یہ بھی لکھ دے کہ آپکو فلاں اپیلیہ ادھیکاری کے پاس فلاں مدت کے اندر اپیل کرنے کا حق ہے ۔ کیونکہ رول ۲۰۱۲ ؁.ء کے مطابق نمونہ ۱۱ میں نامنظوری لیٹر ملنے کے ۳۰ دن کے اندر اپیل کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ اس کے بعد اپیلیہ ادھیکاری پر لازمی ہیکہ وہ ۳ مہینے کے اندر امیدوار کو اپنی بازو پیش کرنے کا مناسب موقع دیکر اپیل کا فیصلہ دے دے ۔ اکثر تجربہ یہ آتا ہیکہ ہم اپنا عریضہ کھڑکی پر لے جاتے ہیں اور سامنے والا زبانی جو کچھ کہتا ہے وہ سن کر ہم احمق کی طرح منہ لٹکائے لوٹ آتے ہیں اور پھر تعصب ، رشوت، ہندو، مسلمان اس قسم کی شکایتیں شروع ہو جاتی ہیں ۔ لیکن ہم میں اتنی مردانگی نہیں ہوتی ہیکہ سامنے والا جو ایک پبلک سرونٹ ہے یعنی ہمارا نوکر ہے اور ہم اسکے مالک ہیں اس سے کہے کہ جو کچھ عریضہ میں خامیاں ہیں وہ منسلک افسر لکھ کر دیگا تمھارا کام صرف ہمارا عریضہ ان تک پہنچانا ہے ۔ بالفرض ہمارا عریضہ نا منظور بھی ہو جاتا ہے تو اس میں وجہ دی ہوتی ہے ، اس کمی کو پورا کر کے اور رول ۲۰۱۲ ؁.ء کے مطابق اگر اسکول کے داخلے میں ذات کا ذکر نہ بھی ہو تو امیدوار، اس کے والد یا اس کے والد کے خون کے رشتہ دار کا ویلیڈٹی سرٹیفکیٹ ، جنم داخلہ ، موت کا داخلہ، محصولی داخلہ ، گرام پنچایت کے دستاویز جیسے گرام نوندوہی نمبر ۱۴ ، کوتوار پستک، نیشنلیٹی کا اندراج اس قسم کے دستاویز تحریری نوٹ کے ساتھ دیں۔ اگر ہمارا عریضہ نا منظور ہو جاتا ہے تو اپیل کے دوران رول ۲۰۱۲ ؁.ء کی شرطوں پر ہمیں اپنی بازو رکھنا چاہئے۔ کاسٹ سرٹیفکیٹ یا ویلیڈٹی سرٹیفکیٹ ملنے کیلئے جو فارم ہوتا ہے اس پر لکھا ہوتا ہیکہ اول درجہ کی معلومات دوم درجہ کی معلومات اور دیگر معلومات ۔ فرض کرو اگر اول درجہ جس میں اسکول کے داخلے میں ذات کے اندراج کی شرط ہے اس قسم کا داخلہ ہمارے پاس نہیں بھی ہے تو دوم درجہ کی معلومات پر ہی اپنی بازو رکھے کیونکہ صاف سی بات ہے اگر اول درجہ کی معلومات پر ہی داخلہ دینا ضروری ہوتا تو عریضہ میں دوم درجہ اور دیگر معلومات کیوں پوچھی گئی ہوتی ۔ کاسٹ سرٹیفکیٹ کے بے انتہا فوائد ہیں ۔ بالفرض ہماری اپیل بھی نا منظور ہو جاتی ہے تو سیدھے ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائیں۔ انشاء اﷲ کامیابی ملنا ہی ہے ایک طرف 15-20 ہزار روپئے کا سوال ہے دوسری طرف ہماری موجودہ اور آنے والی نسلوں کے فوائد ہیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا