English   /   Kannada   /   Nawayathi

انکوائری کمیشن ایک سراب ۔ دھولیہ فساد کی روشنی میں

share with us

عام طور سے جب کبھی بھی مسلمانوں کا جانی اور مالی نقصان ہوا ایسے وقت میں تجربہ یہ آیا ہیکہ چیف منسٹر شہر کے چاپلوس اور مفاد پرست سیاسی رہنماؤں کی تلاش کر کے انکے ذریعے نا عاقبت اندیش مولویوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھکر حکومت کی ساری مصیبتیں ٹل جاتی ہیں۔ ایسا ہی کچھ متذکرہ سانحہ کے وقت ہوا ۔ ۶ معصوم بچوں کی پوسٹ مارٹم شدہ لاشیں سیول ہاسپیٹل کے باہر رکھی ہوئی تھی ۔ معتبر اور مستند زرائع سے پتہ چلا ہیکہ مقتول بچوں کے سرپرست رشتہ دار اور شہر کے عام مسلمانوں نے ضد رکھی تھی کہ مقتولین کی لاشیں اسی وقت اٹھائی جائینگی جب تک اس سانحہ کی FIR مظلومین کی طرف سے درج نہیں کی جائیگی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور آج تک اس تعلق سے دھولیہ کے کسی پولس اسٹیشن میں مقتولین کے کسی بھی رشتہ دار کی طرف سے کوئی FIR درج نہ ہو سکی۔ کیونکہ ہوم ڈپارٹمینٹ کو اچھی طرح پتہ چل گیا تھا کہ ظالم خاکی وردی کس طرح اندھا دھند گولیاں چلا رہے ہیں اس کی ویڈیو کلپ مسلمانوں کے پاس آ چکی تھی اور اگر FIR درج ہوتی تو یقیناًملزم آج سلاخوں کے اندر ہوتے یا پھانسی کا فندہ انکے گلے میں لٹکٹا ہوا نظر آتا ۔ اس حقیقت کو دبانے کیلئے حکومت نے انکوائری کمیشن بٹھا دیا۔ 
انکوائری کمیشن کا نام لیکر پولس نے اس ضمن میں مظلومین کی طرف سے کوئی بھی فریاد یا FIR درج نہیں کی ۔ بات یہ سمجھ میں آئی کہ ایسے فسادات میں پولس کے تمام جرائم کو پوشیدہ رکھنے کیلئے ایک کمیشن کی تقرری کافی ہے۔ جہاں تک سی آر پی سی کا تعلق ہے کہیں بھی اس بات کا ذکر نہیں ہیکہ کسی کمیشن کا تقرر ہونے کے بعد پولس اسٹیشن میں کوئی فریاد یا شکایت درج نہ کی جائے۔ لیکن کمیشن کا بہانہ کر کے قتل کی ایک بھی واردات یا دیگر واردات کو پولس اسٹیشن میں درج نہیں کیا گیا۔ 
اس وقت کے چیف منسٹر نے اعلان کیا تھا کہ تین مہینے کے اندر کمیشن اپنی رپورٹ دے دیگا ۔ لہٰذا اس سیاسی مکروفریب کا شکار دھولیہ کے مسلمان ہوئے۔ لیکن افسوس کہ تین مہینے کیا ۲۹ مہینے ہو گئے کمیشن کا فیصلہ سرد خانے میں پڑا ہے۔ کمیشن کی تقرری اور یہ کمیشن سراب کیسے ہوتے ہیں اس کی تفصیل ہی مقصد ہے اس آرٹیکل لکھنے کا۔ راقم الحروف نے فساد کے دوسرے دن سے ہی اس معاملے میں RTI کی مدد سے معلومات حاصل کرنا شروع کی اور وہ سلسلہ آج تک شروع ہے ۔ RTIکے ذریعے حاصل شدہ دستاویز کی بنیاد پر اس آرٹیکل میں تمام تفصیل دی جا رہی ہے ۔ اس سے ثابت ہو گا کہ کانگریس اور راشٹروادی پارٹی جو اس وقت برسر اقتدار تھی یہ بھی BJP یا RSS سے کم نہیں ۔ ہرچند کے ۱۵؍ مارچ ۲۰۱۳ ؁.ء کو تین مہینے کی مدت کیلئے ریٹائرڈ جسٹس شریکانت مالتے کی قیادت میں یک رکنی کمیشن کا تقرر کیا گیا ۔ یہ کمیشن Enquiry Commission Act, 1952 کے تحت تقرر کیا گیا تھا ۔ تعجب کی بات یہ ہیکہ متذکرہ ایکٹ میں کہیں بھی لکھا ہوا نہیں ہیکہ کمیشن کی تحقیقات کے دوران منسلک فساد کے تعلق سے پولس اسٹیشن میں کوئی فریاد درج نہ کیا جائے۔ لیکن مہاراشٹر کے ہوم ڈپارٹمینٹ نے ہی قانون کو بالائے طاق رکھکر فیصلہ کر لیا تھا کہ ایک بھی فریاد عوام کی طرف سے اس تعلق سے پولس اسٹیشن میں داخل نہ کیا جائے۔ منسلک Enquiry Commission کی مدت ۱۴؍ ستمبر ۲۰۱۳ ؁.ء کو ختم ہوچکی تھی لیکن کمیشن کی رپورٹ ندارد ۔ بعد ازیں اس کمیشن کی مدت کو مزید تین مہینوں کیلئے بڑھا دیا گیا۔ لیکن پھر بھی رپورٹ ندارد ۔ پھر تیسری مرتبہ ۳۱؍دسمبر ۲۰۱۴ ؁.ء تک اس کمیشن کی توسیع کی گئی اس شرط کے ساتھ کے یہ توسیع آخری رہیگی۔ مطلب صاف تھا کہ اب ۳۱؍دسمبر ۲۰۱۴ ؁.ء تک کمیشن اپنی رپورٹ دے دیگا۔ مالتے کمیشن کے یک رکنی سربراہ شری ایس سی مالتے کے حکومت کے نام مورخہ ۱۸؍ ستمبر ۲۰۱۴ ؁.ء کے ایک خط سے انکشاف ہوتا ہیکہ ہر چند کے تیسری مرتبہ منسلک کمیشن کو جو توسیع دی گئی تھی وہ ۳۱؍ دسمبر ۲۰۱۴ ؁.ء تک تھی لیکن اس آخری توسیع خط یعنی مورخہ ۹؍ستمبر ۲۰۱۴ ؁.ء کا خط جب کمیشن کو انٹرنیٹ سے ملا تب سے ہی کمیشن نے اپنا کام بند کر دیا تھا یعنی منسلک کمیشن نے اپنا کام ۹؍ستمبر ۲۰۱۴ ؁.ء سے ہی بند کر دیا اور آج تک نا ہی اس کمیشن سے کام شروع کروایا گیا اور نہ ہی نئے کمیشن کی تقرری کی گئی ۔ 
راقم الحروف نے اس کمیشن کو ایک سراب کا نام دیا ہے اس کا ثبوت یہ ہیکہ کمیشن نے حکومت کے نام جو ۱۸؍ستمبر ۲۰۱۴ ؁.ء کو خط لکھا اس میں چند باتوں کا انکشاف کیا کہ کمیشن کی تقرری کے بعد (ہر چند کے تین مہینے کے اندر کمیشن کا کام مکمل ہونے کی شرط ڈالی گئی تھی ) تقریباً ۱۰ سے ۱۱ مہینے تک کمیشن کو حکومت کی طرف سے ضروری حکمنامے نہیں ملے ، فنڈس مہیا نہیں کیا گیا، کمیشن کے اسٹاف کی تقرری چونکہ حکومت کی تھی، وہ بھی وقت پر نہیں ہو سکی ۔ اتنا ہی نہیں کمیشن کے کام کاج کیلئے جو ضروری لوازمات مہیا ہونے چاہئے تھے وہ بھی حکومت کی طرف سے مہیا نہیں کئے گئے اور تقریباً ایک سال تک کمیشن اور اس کے اسٹاف کو معاوضہ ا نہیں دیا گیا۔ کمیشن نے اسکے بعد لکھا ہیکہ جتنی دشواریاں کمیشن کو اس دوران ہوئی اس کی لمبی فہرست ہے ۔ پھر بھی کمیشن نے حکومت کو اطلاع دی کہ ۸ سے ۱۵ دن کے اندر اگر کمیشن کو مناسب جواب حکومت کی طرف سے ملتا ہے تو کمیشن اپنے کام شروع کر دیگا لیکن ایسا نہیں ہوا اور کمیشن نے اپنا کام بند کر دیا۔ جب کمیشن کی طرف سے یہ خط لکھا گیا اس وقت بلاشبہ کانگریس اور راشٹروادی کی ہی حکومت تھی۔ 
الحمد ﷲ اس ملک میں عدلیہ ابھی زندہ ہے مسلمانوں کو اگر انصاف کہیں سے مل سکتا ہے تو وہ صرف عدلیہ سے ہی۔ یہ بات سیکولر کیا اور نان سیکولر کیا دونوں حکومتوں کو اچھی طرح پتہ ہے لہٰذا قصداً حادثے کے وقت کی کانگریس اور راشٹروادی حکومت نے قتل و غارت گری کے معاملات کورٹ میں نہ جاسکے اس کیلئے نام نہاد طریقے سے ایک کمیشن کی تقرری کر دی اور کمیشن کے متذکرہ خط کے مطابق جان بوجھ کر عیاری اور مکاری سے کمیشن کو مجبور کیا کہ وہ اپنا کام کبھی مکمل نہ کر سکے ۔ دیگر بات یہ ہیکہ کمیشن کا فیصلہ آنے کے بعد ہو سکتا ہے اس فیصلے سے مسلمانوں کو انصاف نہیں مل سکتا تھا لیکن کمیشن کا کام مکمل ہونے کے بعد کورٹ میں پولس کے خلاف قتل کے معاملے اور دیگر افراد کے خلاف لوٹ کھسوٹ اور آگ زنی کے معاملے چلنے کا راستہ صاف ہو جاتا۔ حکومت چاہے وہ ہو یا یہ ہو اچھی طرح جانتی ہیکہ اگر منسلک معاملات کورٹ میں جاتے ہیں تو یقیناًمسلمانوں کو انصاف ملنا ہی تھا اور ہے ۔ مثال کے طور سے سلمان خان نے شراب کے نشے میں ایک آدمی کو کچل ڈالا اور اس گناہ سے بچنے کیلئے اس نے اس وقت کے گجرات کے چیف منسٹر کے تلوے احمد آباد جاکر چاٹے اور کہیں نہ کہیں سی ایم کو پی ایم بنانے میں اس کی شہرت کا فائدہ دینا چاہا ۔ لیکن الحمدﷲ ، عدلیہ کا کہ وقت کے پرائم منسٹر کے چہیتے کو بھی عدالت نے معاف نہیں کیا اور ۵ سال کی اسے سزا ہو گئی۔ جب اتنے امیر ترین آدمی کو نہ پیسا بچا سکا نہ سیاسی اثرورسوخ بچا سکا تو شہر دھولیہ کے ملزم پولس کیا حیثیت رکھتے تھے کہ ان کو کوئی پھانسی کی سزا سے اور دیگر سزاؤں سے بچا لے ۔ لہٰذا خدا نہ خواستہ اس قسم کا فساد کہیں بھی ہو تو ، ہمیں چاہئے کہ سب سے پہلے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے اور ایڑی چوٹی کا زور لگا دے کہ اس فساد کے تعلق سے کسی بھی کمیشن کا تقرر نہ کیا جائے۔ کیونکہ ایسے کمیشن کے نام پر ہمارے لئے کورٹ کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا