English   /   Kannada   /   Nawayathi

ارشد کی شاعری نصاب آگہی کے آئینہ میں

share with us

یوں تو ارشدصاحب سے میری تشنہ ملاقاتوں کی کہانی طویل ہے، ملاقات جب سے ہے جب آتش جوان تھا،تب کچھ شعروں نے دل میںآگ بھڑکا دی تھی : مثلاً
کیوں کسی قدغن پہ کوئی فیصلہ صادر کروں
خانہ زادانِ چمن ہیں خانہ بر اندازِ من
یا
حصارِ کون ومکاں سے نکلوں تو آگہی کا نصاب لکھوں
قلم پہ لفظوں کی بندشیں ہیں وگرنہ اس پر کتاب لکھوں
ایسے شعر یونہی نہیں وارد ہوتے،لوہا بھٹی میں تپ کر کُندن بنتا ہے۔ارشد غازی کی علمی وراثت کئی نسلوں پر محیط ہے، اس سلسلۂ علمی کو بیان کرنا کچھ یوں ضروری ہے کہ اس سے ہم ان کی شاعری اور اس کے پیغام کو زیادہ بہتر طریقے پر سمجھ سکیں گے۔ ان کے جد مولانا انصار علی مہاراجہ گوالیار کے مدارالمہام تھے، ان کے بیٹے مولانا عبداﷲ انصاری(داماد مولاناقاسم نانوتوی)کو سر سیدا حمد خان کئی علمی نسبتوں کے سبب علی گڑھ لائے تھے اور ان کے سپرد شعبۂ دینیات کیا تھا۔دادا مجاہدِ جلیل مولانا محمد میاں منصور انصاری مہا جر کابل، تحریک شیخ الہند(ریشمی رومال) کے سرخیل تھے۔مذکورہ شعروں کے تیور نے قیافہ شناس تجزیہ نگاروں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور جدیدلب و لہجے کی بازگشت نے جدہ کی ادبی نشستوں میں مضبوط دعوے داری پیش کی اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کا نام نامی مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جا نے لگا۔
یونانی مآخذ ایپی کیورس قدیم یونانی شاعر ہے، اس نے اپنے محبوب فلسفی سائنس داں ڈیموکریٹس (۵۰۰ق م) کے ایٹمی نظریہ کو اپنی شاعری کا منبع ومخر ج بنایا ، جب یونانی سائنس انحطاط پذیر ہوئی تو اس کے ملبے کے نیچے بہترے سائنسی نواردات دب کر فنا ہو گئے مگر ایپی کیورس کی شاعری کی بدولت ڈیمو کریٹس کے نظریا ت محفوظ رہے۔ اس تفصیل سے یہ باور کرانا مقصود ہے کہ شاعر اپنے عہد کا سوانح نگار ہو تا ہے اور اس کی شاعری اپنے عہد کے ادبی وعلمی منظر نامے کی تاریخ ہو تی ہے غالب کے شعری قالب ہوں یا میرؔ کے مزامیر یہ اپنے اپنے عہد کی حکایاتِ عشق ہیں بلکہ ہر شاعر اپنے عہد کی سچی تصویر ہے۔
ارشد غازی کا اپنی ہیروغرافی اور پیکٹو غرافی کے ضمن میں استدلال یہ تھا کہ بھئی رات کی تاریکی میں اگر شعر کا نزول ہو تو پھر یہ قدیم مصر ی تصویری انداز تحریر ہی موزوں ہو تا ہے ، جہاں کہیں کہیں ایک صفحے پر متعدد شعر ایک دوسرے میں پیوست تھے اس طرح کہ عروض کے جانے بغیر انھیں ایک دوسرے سے الگ کرنا ممکن نہیں تھا، تصویری بلکہ اشاروں کی زبان کے ’ قیافہ شناس ‘ ڈاکٹر جمیل مانوی اور میرا کام آسان نہیں تھا ۔ ایک روز جب علی گڑھ کے ڈاکٹر انجم قدوسی کے گھر ان کی موجودگی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ارشد غازی سے میں نے عرض کیا کہ غزل کو ہم غزل ہی رہنے دیں توکچھ مضائقہ ہے تو وہ زیر لب مسکرائے، بولے: مطلب! میں نے کہا: محترم..... بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
دوستوں کی فہمائش پر(فرمائش پرنہیں) تب میرے دوست ارشدغازی نے اپنی راہوں کو موڑا، فلسفے اورمشکل پسندی سے سہل ممتنع کی طرف آئے اور کلاسیکی شاعری میں ایسی ایسی غزلیں کہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ قلعۂ معلی کا مثالی دور لوٹ آیا ہے،اس مجموعے کی متعدد غزلیں میرے دعویٰ پر دلیل ہیں۔ا نھوں نے تدریجی طورپر ارتقا کی منزلیں نہیں طے کیں بلکہ وہ پیدائشی شاعر ہیں۔ ان پر طاری ہونے والی کیفیات اپنے روایتی مفاہیم رکھنے کے علاوہ علامتی اور رمزیہ جہات کی حامل بھی ہیں۔ ان کی قادرالکلامی نے یہ ثابت کیا کہ وہ جتنی دستگاہ جدید لب ولہجے پر رکھتے ہیں اتنی ہی صلاحیت کلاسیکی ادب میں رکھتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ارشد غازی قدیم و جدید شاعرانہ روایات سے اچھی طرح واقف ہیں۔ان کے یہاں مضامین کی بہتات ندرت فکر لئے ہوئے ہے۔ارشد غازیؔ کا ماننا ہے کہ شاعری اپنے عہد کا اگر منظر نامہ نہیں تو وہ اپنے عہد کی تاریخ کیسے بنے گی؟
بقول ڈاکٹر معظم ، اُردوغزل شائستہ اور پاکیزہ تہذیب کی علامت ہے اس میں عام بول چال کی زبان کا استعمال ؟ چہ معنیٰ ! یہی سبب ہے کہ ارشدؔ غازی نے قدما ء کی طرح خوش آہنگی زبان اور اس کے سلیس دروبست پر خاص توجہ رکھی ہے۔ لمبی لمبی ردیفوں کی روش جو لکھنؤ اسکول سے شروع ہوئی اور جسے شاہ نصیرؔ نے پروان چڑھا یا ، خیال انگیزی میں ارشد نے ان ردیفوں سے اجتناب برتا ہے البتہ مشکل بحورمیں طبع آزمائی ضرور کی ہے، غزل کی ہیئت، قافیہ،استفہامیہ ردیفوں کی مدد سے ایک تجربے ایک مستور جلوے کی کائنات پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اکثر جگہ جو کچھ کہا گیا اس سے زیادہ سامع کے غور کر نے کے لئے چھوڑ دیا گیا: اوربقول شخصے ان کے یہاں یہ ابہام ہی شاعری کا حُسن ہے ۔ مثلاً ایک جگہ کس خوبصورتی سے ہجر کے کرب کو پیش کرتے ہیں:
جانے کیا بات ہوئی اب کے برس
موسمِ گل بھی سہانا تو نہیں
جگر نے غلط نہیں کہا: 
اے کمالِ سخن کے متوالو!
ماورائے سخن بھی ہے اک بات
ارشدؔ کی شاعری میں مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ تہذیبی وراثت کا نوحہ بھی ہے اور کرب بھی، وہیں زوال تاریخ اُندلس ان کا خاص مضمون ہے جسے وہ متعدد جگہ ڈوب کر بیان کرتے ہیں:
جب خواص اندلس نے کی نہ ایذا پر نکیر
بڑھ گیا اہلِ سیاست کے دماغوں کا فتور
ختم بھی ہو گا شکست اندوہ کا جاری سفر
سوگ آگیں پرچم حیدر ہے اب زخمِ ہلال
جل گیا سارا تمدّن جب بڑھی ایواں کی آگ
کج روئ اندلس کی تہہ میں تھا حُسن و جمال
ارشدؔ چونکہ ہمیشہ سے حزب اختلاف میں رہے، لہذا ان کی گفتگو بھی کسی محتسب کی گفتگو سے مختلف نہیں۔ وہ ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال سے مطمئن نہیں ۔ ان کی گفتگو میں کبھی کبھی ایسے اشارے بھی ملے کہ ہم اَنجانے طور پر کسی آخری معرکے کی طرف’’ دھکیلے‘‘ جارہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، اور یہ جمہوریت ہندوستانی مسلمانوں کے لئے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں، جودراصل سینکڑوں ٹکڑوں میں بٹی ہندو قوم کو متحدہ رکھنے کا حیلہ ہے ۔ ارشد کی شاعری میں ایسے حوالے موجود ہیں جہاں سیاست کے گلیاروں میں اس کی اندرونی سطح اجتماعی اور انفرادی سطح پر شفافیت سے خالی ہے ۔ ۲۵ کروڑمسلمان اورعضومعطل ؟مسلمانوں کے حوالے سے ارشدؔ غازی شکوہ سنج ہیں:
جنوں پہ بند ہوا ہے خرد کا دروازہ

یقیں کے چہرے کا پھیکا ہے کس قدر غازہ
دلوں کو حرص کرم ہے نہ خوفِ خمیازہ

زوالِ فکر وعمل کا نہ ہو یہ آوازہ
اُٹھے ہوئے ہیں بہ صیدِ نگاہ تیر کمان

گمان! طائرِ بسمل کو اب نہیں ہے امان
قدم قدم پہ کئی موشگافیوں کا سوال

ملے ہیں پستی وپاتال میں بلند اقبال
یہاں ثقافت و تہذیب اب ہے روٗ بہ زوال

فغاں نصیب ہوا مملکت کا استقلال
ہوئی خود اپنے ہی ہاتھوں یہ خانہ بر بادی

بقدرِ ظرف عمل میں خمارِ آزادی
دنیا میں جس جذبے سے قومیں زندہ وپائندہ رہتی ہیں وہ آزادی کا جذبہ ہے اور ہر آزادی کی تحریک خون مانگتی ہے، ارشد غازیؔ کے یہاں انقلابی اشاریہ یوں درج ہوا: 
جہاد وقت سے اگلا قدم بڑھائیں جناب
قتال کی ہیں ہویدا علامتیں ساری
جہادِ وقت گر موقوف ہوگا
رہے گا کون پھر دنیا میں غازیؔ 
اساتذہ یا ہم عصروں کے فنّی محاسن سے استفادہ کی روایات پرانی ہیں۔ غالبؔ نے فارسی میں بیدل ؔ کا اعتراف کیاہے۔ اس مثال سے قطع نظر یہ روایت اس وقت اور معنیٰ خیز ہوتی ہے جب شاعر قدماء کے کلام کو اپنے اوپر طاری کرکے اسپ تخئیل کو سرپٹ دوڑنے کے لئے وسیع میدان مہیا کر دیتا ہے،ارشدؔ نے غالب کے حضور میں بیٹھ کر جو غزل کہی اس کے تیور ملاحظہ کیجیے
سلسلہ جنبانئ عہدِ وفا کرتا رہا

کج ادائی کو بحسن زعم سمجھا سوئے ظن
چاہے نیرنگِ تمنّا، قلقلِ مینا کے بعد

گوہرِ یکتا، نگاہِ مست، دلکش پیراہن
ایک غیر شاعر کا قول ہے:’’ اچھی غزل مختصر ہوتی ہے دوغزلے یا سہ غزلے قدرت کا اظہار ہوں تو ہوں، شعریت کا مظاہرہ نہیں، ہر قافیہ کو نظم کرنے کی روش استادی تو کہی جاسکتی ہے ، مگر غزل کی شریعت میں مکروہ ہے۔‘‘ اسیرؔ ایک رات میں دو تین طویل غزلیں کہہ لیا کرتے تھے، امیرؔ مینائی نے ان سے پوچھا: ہر قافیہ کو نظم کرنے کی کیا ضروت ہے۔ اسیر کا جواب تھا: ’’ کیا معلوم کب سند کے لئے ان کی ضرورت پیش آئے۔‘‘طویل غزلوں میں ارشدؔ بھی اسیرؔ کے ہم مسلک معلو م ہوتے ہیں۔تاہم زبان کے دروبست اورمضامین کے اچھوتے اظہار کے اعتبار سے یہ طوالت اضافی نہیں معلوم ہوتی۔ ارشدؔ نے مضامین کی بہتات کو کچھ یوں نظم کیا ہے:
اسی میں ہوگئے گڈمڈ ہمارے چیدہ شعر

حروف فکر کی بہتات سے نکل آئے
اور اُردو کا کرب اور درد اِن الفاظ میں ڈھل گیا:
وہ اک سحر کہ جو گم گشتۂ خیال ہوئی

خدا کرے کہ مرے ہاتھ سے نکل آئے
ارشدؔ غازی کے یہاں داغ اسکول کی چھاپ نمایاں ہے۔ مذہبی معتقدات کے ساتھ ارشدؔ کے غزلیہ کلام میں اخلاقی اور معرفت کے مضامین کی مقدار بھی کم نہیں۔ ایسی غزلوں کی اشاریت اور خیال انگیزی کی کئی تفسیریں کی جاسکتی ہیں،جہاں فکر کی بلندی کے ساتھ ساتھ مناسب پُرحدود الفاظ کا صوتی ترنم ایک حسین تاثر قائم کرتا ہے اور خیال کی آفاقیت بندے کو خدا کے بہت قریب کرتی ہے کہ صریر خامہ کی آواز کانوں سے ٹکرانے لگے:
ذرّ ہ ذرّہ کاملِ حق پر گواہِ کائنات

اور نظر ڈھونڈے خلاء میں سربراہِ کائنات
عالمِ ظاہر کے تخلیقی شواہد عرش تک

کس قدر مستور جلوؤں میں الہٰ کائنات 
معرفت حاصل نہ ہو تو زیست ہے ریگِ رواں

وسعتِ اِدراک ذہن ودل سرابِ آگہی
کیسا پیمانہ ملا قَالوا بَلا یوم الست

ہوش میں آئے ہیں ہم پی کے شراب آگہی
غمِ دوراں کو اس سے بہتر پیرائے میں نہیں بیان کیا جاسکتا:
سوچ کر یہ وطن کو لوٹے تھے
اپنا دروازہ تو کھلا ہوگا
ارشدؔ غازی کا ماننا ہے کہ آسان لکھنا مشکل کام ہے، مگر اس مشکل کو انھوں نے کس خوبصورتی سے آسان بنا لیا ہے: دیکھئے اس کی چند اک مثالیں:
آگیا اُن کا پھر خیال ہمیں
اے غمِ عشق تو سنبھال ہمیں
بے خودی میں یہ ہوش ہی نہ رہا

کس سے کرنا تھا عرض حال ہمیں
سحر ملی نہ ملی رات سے نکل آئے

خدا کا شکر غمِ ذات سے نکل آئے
ہیں کیوں قاصد تری نیچی نگاہیں

ارے پیغام کچھ لایا تو ہوتا
ہائے اب کس لئے کیا پردہ

میری نظروں سے کچھ چھپا بھی ہو
کیا ساعتیں تھیں ، دیدہِ حیران کب ہوا

مت پوچھئے کہ کوئی پشیمان کب ہوا
ارشدؔ کے جذبے بھی اپنے ہیں اور خیالات کی ترتیب بھی اپنی! غزل اپنے حُسن اور لطافت کے لئے صرف موزوں نگاری اور ذوقِ جمال ہی نہیں۔۔ ریاضت اور بصیرت کی بھی طلب گار ہے۔ ارشدؔ نے غزل کے موضوع کو وسعت دی ہے اور زندگی کے تینوں دور یعنی طفلی کا تحیرّ،شباب کی رندی، اورپختہ عمر کی سنجیدگی اور عارفانہ نظر اور فکر سائنس کو غزل کے سانچے میں بڑی خوب صورتی اور خوش اسلوبی سے ڈھالا ہے۔

ذہن جن عوامل سے مل کر تشکیل پاتا ہے یہاں ان کا اظہار برمحل ہو گا،ارشدؔ کی ذہن سازی میں بمبئ کے علاقہ باندرہ میں منعقد ہونے والی ان ادبی محفلوں کا بھی بڑا دخل ہے جس میں اپنے وقت کے تمام نامی گرامی شخصیات مثلاً خمار،شکیل، شمسی مینائی،محشر بدایونی، ساحرؔ لدھیانوی، علی سردار جعفری، کیفی ؔ اعظمی ، اخترؔ الایمان، مجروح سلطان پوری، عصمت چغتائی، واجدہ تبسم، کرشن چندر ساتھ شریک ہوتے تھے ۔ یہ ارشدؔ کے طالبِ علمی کا زمانہ ہے جب وہ آخری صف میں بیٹھ کر بظاہر لطف اندوز ہوتے تھے مگر آنے والا اسٹیج ان کے کمالِ ہنر کا منتظر تھا۔
یہ ارشد ہی تھے جنھوں نے زمانہ طالب علمی میں شکیل بدیونی، کیفی اعظمی اور علی سر دار جعفری کے ساتھ مشاعروں میں کامیاب شرکت کی اور سامعین پر اپنی مخصوص چھاپ بھی چھوڑی۔گو کہ زمانہ حال میں پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ کم ہوا ہے لیکن مشاعروں کی مانگ میں اضافہ ۔اچھا کہنے والوں کی کمی ہے لیکن ارشد جیسے کہنے والوں کی وجہ سے ہی ادب کا بھرم عوام میں باقی ہے میں یہی کہوں گا کہ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا