English   /   Kannada   /   Nawayathi

پچاس سال کے بعد حفظِ قرآن

share with us

ایک اتاہ ساگر ، گہرا سمندر ، بے حد وبے انتہا بلند وبالا آکاش اور نہایت زرخیز اور سر سبز وشاداب چمن زار ہے، انسان علم وفن کے نام سے ہر میدان میں اپنی تلاش اور جستجو، تجسس اور سراغ ، تفحص اور تغمص اور تحقیقات کے نئے نئے منظر نامے اور انسانی دماغ اور عقلوں کو حیران اور شسدر کرنے والی نئی نئی ایجادات پیش کرتے رہتا ہے، علم کی روشنی ساری انسانیت کے جہل کی تاریکی کو دور کر دیتی ہے، علم دینی ہو کہ دنیاوی ، شرعی ہو کہ عصری، جدید ہو کہ قدیم صالح ہوتا ہے نافع ہوتا ہے سومند ہوتا ہے اور صلاح اور فلاح کا باعث ہے، علم کی خاصیت یہ ہے کہ وہ ضار یعنی نقصان دہ نہیں ہوسکتا، بد نہیں ہو سکتا، فتنہ پرداز نہیں ہو سکتا،کمینگی اور باعثِ خباثت نہیں ہو سکتا، انسان اس کے استعمال کو اپنی ہوا پرست شہوانی، حیوانی، بد نیت اور بے ایمان اور بے ضمیر نفس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے بروئے کار لاتا ہے اور خود بھی تباہیوں کے دھانے پر پہونچتا ہے اور اپنے ارد گرد ماحول اور سماج کو بھی ہلاکتوں اور بربادیوں میں ڈال دیتا ہے۔
عام طور پر حصول علم اورتعلیم حاصل کر نے کی مدت ماہرین تعلیم اور اساتذہ فن کے نزدیک بیس سال ہے پانچ سے پچیس ،آغاز سے انجام تک آدمی الف سے یا تک اسی عمر میں پڑتا ہے ، یعنی اسی عمرمیں مکمل گریجویشن حا صل کرتا ہے ۔ دنیا کے تمام انجینیرس ڈاکٹرس ،علماء اور ادباء اور مولوی اور حافظ جو بھی ہو ں اپنے نام کے ساتھ سوابق و لواحق یعنی نام کے آگے ایسے القاب اسی عمر میں لگاتے ہیں ،پھر خود تحقیق علم و فن اور اکتساب معاش کے لیے میدان میں اتر جاتے ہیں، خود بھی سنورتے ہیں اور اپنے اطراف و اکناف ، اپنے سماج و معاشرے ، اپنی قوم و برادری اور اپنے ملک و وطن کو بھی سنوارتے ہیں ،علمی تربیتی ، معاشی معاشرتی اور دینی وعصری اعتبار سے تعمیری وفکری خدمات انجام دیتے ہیں، ورنہ اس کے بعد خانگی امور ، معاشی مسائل، سماجی خدمات، ازدواجی بندھن، فکرِ معاش ، ذکرِ بتاں، یادِ رفتگاں، تقاضائے شباب، رنگینئی بزمِ احباب اور کیا کیا کرے کوئی میں آدمی اس طرح گم صم ہو جاتا ہے کہ علم وتعلیم سے ساری نسبتیں کٹنے لگتی ہیں، ارادے کمزور پڑ جاتے ہیں، قوی مضمحل ہونے لگتے ہیں، حافظے ساتھ چھوڑنے لگتے ہیں، ہمتیں پست ہونے لگتی ہیں، آدمی چاہتے ہوئے بھی انوارِ علم وفن کی روشنی میں اپنی زندگی کی تاریکیوں کو روشن نہیں کر سکتا۔
جناب محیی الدین جیلانی اکرمی کے آگے پیچھے مولانا اور ندوی جیسی علمی پہچان سنہ ۱۹۸۵ ہی میں لگ چکی تھی، وہ جامعہ اسلامیہ کے قابل جامعی اور با صلاحیت ندوی فاضل ہیں، جامعہ سبیل الارشاد بینگلور کے دو تعلیمی سال نکال دئے جائیں تو تمام تعلیمی مراحل جامعہ ہی میں مکمل ہوئے، خوش الحانی اور خوبصورت آواز کے مالک ہیں ، لہجہ قراء ت بہت دلسوز اور مستحکم ہے، بہت پر اثر انداز میں تلاوت کرتے ہیں ، قراء ت کے اسرار ورموز سے واقفیت رکھتے ہیں، اردو شعر وسخن کے ساتھ عربی ادب کا بھی صاف ستھرا ذوق رکھتے ہیں، معلقات ، جاہلی شعر وادب اور اسلامی یعنی عہدِ نبوت کے ادب میں حضرتِ حسان اور امامِ شافعی رحمہ اللہ کے بے شمار اشعار زبان زد رکھتے ہیں، ظریف الطبع ہیں ، بھاری بھرکم، موٹی تازی شخصیت میں خاندانی اور موروثی دینی جذبہ حمیت نظر آتی ہے، وہ آج کے مشغول مشینی دور اور انٹرنیٹ اور میڈیا کی چکاچوند میں بھی تمام علوم وفنون کی اساس قرآن کریم سے اپنا شغف باقی رکھے ہوئے ہیں عمر کی پچاس سال گذرنے کے بعد بھی انھوں نے اپنے محکم ارادے ، کامل یقین اور جذبہ سرشاری کی ساتھ کلام اللہ کو حفظ کرنا شروع کیا، اڈپی کی جامع مسجد کی امامت و خطابت کے دوران شروع کیا ہوا یہ سلسلہ بقر عید کی صبح کو ختم ہوا ،انہوں نے نوائط کالونی جامع مسجد کے امام حافظ محمد عرفان صاحب ندوی کو حرف حرف سنا کر اپنے نام کے سابقے میں حافظ قرآن کا لقب لگا دیا، ہم ان کی اس عالی ہمتی کو سلام کرتے ہیں ،اور ہم ہمیں اور تمام علماء کرام کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ ان کا یہ عمل قابلِ تقلید ہے، خصوصا ان علماء کرام کے لئے جو اپنی تقریروں اور علمی مجلسوں میں قرآنی آیات اتنی فراوانی اور روانی کے ساتھ پڑھتے ہیں کہ دل رشک کرتا ہے اور زبان کہہ اٹھتی ہے کہ کاش حافظِ قرآن ہوتے،مگرایسا نہیں ہوتا ،ان لوگوں کے لئے صرف عزم اور ارادے کے ساتھ دل جمعی اور کلام اللہ سے شغف اور تعلقِ باطن کی ضرورت ہے، جناب حافظ جیلانی اکرمی ندوی دامت برکاتہم عالمِ دین ہیں ، ہمارے اسلاف میں ایسے بھی علماء ومحدثین گذرے ہیں جن کا جوانی اور تعلیم کی عمر میں علم وتعلم سے کچھ ربط ہی نہیں تھا، چالیس پچاس سال کی عمر کے بعد علم حاصل کرنا شروع کیا اور ہرفن مولا ہوئے، مشہور تابعی حضرتِ صالح بن کیسان المتوفی ۱۴۰ہجری ، حضرتِ عمر بن عبد العزیز کے اولاد کے استاذ تھے، امامِ ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں لکھا ہے کہ انھوں نے اڈھیر عمر میں لکھنا شروع کیا ( جلد ۱ ص ۱۴۸)، ابن حجر رحمہ اللہ نے تہذیب التہذیب ( ج۴ ۔ ص ۳۶۶) میں لکھا ہے کہ انھوں نے ستر سال کی عمر میں پڑھنا شروع کیا، مزید امام سیوطی طبقات میں لکھتے ہیں کہ وہ امامِِ زہری کے پاس پڑھنے آئے تو ان کی عمر نوے سال کی تھی۔ حضرتِ محمد بن عبد الرحمن ابی زئب کے بارے میں امام ذہبی نے سر الا۔علام النبلاء ( ج ۷ ۔ ص ۱۴۸) میں لکھا ہے کہ انھوں نے بوڑھاپے میں تعلیم حاصل کی۔ اور تعجب کی بات یہ ہے کہ جس نحوی عالمِ حضرتِ علی بن حمزۃ الکسائی المتوفی ۱۸۰ہجری نے قرآن پر اعراب لگایا ، اور علومِ قرآن پر مہارت حاصل کی انھوں نے علمِ نحو پوڑھاپے میں پڑھا ( القفطی ۔ انباء الرواۃ ج ۲ ۔ ص ۲۰۷۱ )

اس میدان میں مختصر طور پر یہ تین مثالیں پیش کر دی گئیں ورنہ اس سلسلہ میں جس قدر غواصی کریں گے اسی قدر لعل وجواہر حاصل کر سکتے ہیں ، ہم ادارہ فکر و خبر کی طرف سے مولانا جیلانی اکرمی ندوی دامت برکاتہم کو اس عظیم نعمت کے حصول پر دلی میں مبارکباد پیش کرتے ہوئی دعاگو ہیں کہ اللہ تعالی قرآن کریم کے نور سے ان کی ساری زنذگی کو منور فرمائے ۔ آمین

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا