English   /   Kannada   /   Nawayathi

پارلیمانی انتخابات:مجلس اصلاح وتنظیم کا فیصلہ اور ہماری ذمہ داریاں :سیدھی بات: انصارعزیز ندویؔ

share with us

خوبیاں کسی بھی پارٹی میں نظر نہیں آرہی ہیں، یہی وجہ تھی کہ احبابِ بھٹکل اور شہر بھٹکل کے مشہور ومعروف تنظیم جس کا دائرہ کار اُترکنڑا ضلع کے اکثرعلاقوں میں پھیلا ہوا ہے،اس پارٹی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ایک بہترین فیصلہ لیا تھا، جس کے نتائج کچھ بھی آئیں مگر گذشتہ د و دہائیوں سے شہر میں راج کررہی پارٹی کو یہ ماننے پر مجبور ہونا پڑا کہ مسلمان جس کو سر پر بٹھاکر عزت بخشتے ہیں اس کی نیا بھی ڈبو سکتے ہیں، اور گذشتہ اسمبلی حالات میں ہم نے یہ منظر دیکھا اور اُس چہرے کے سلوٹوں کو بھی دیکھا جو شکست کی وجہ سے جھریوں میں تبدیل ہوگئے تھے۔ان کی آمریت کو ختم کرنے کے لیے اپنا تن من سب کچھ داؤ پر لگا دیا تھا۔ اسمبلی انتخابات میں بھٹکل کی قوم نے اپنے اتحاد کے ذریعہ بجز چندے اپنی ذمہ داری پوری کردی تھی۔ 
مگر حالیہ پارلیمانی انتخابات کے لیے مجلس اصلاح وتنظیم سے لیا گیا فیصلہ دوراندیش ہے، اس بار کسی کو جتانے کے لیے نہیں بلکہ کسی کوہرانے کے لیے یہ فیصلہ لیا گیا ہے۔ تنظیم کو اس بار فیصلہ لینا شاید آسان ہوا ہوگا کیوں کہ کرناٹک کی ریجنل پارٹی جے ڈی ایس کے اُمیدوار اپنے کچھ سیاسی مہروں اور مطلب پرستی کے آڑ میں اُمیدواری واپس لے کر فیصلے کے راستے کو آسان کردیا تھا۔ مگر! ایک پارٹی جو حالیہ دہلی کے اسمبلی انتخابات میں اُبھر کر آئی ’’عام آدمی پارٹی‘‘ اُس نے اپنے پر کئی علاقوں میں پھیلانا شروع کردیا ہے ، اور پارٹی میں کھنچاؤ ہونے اور نئی پارٹی ہونے کی وجہ سے کچھ اپنے چہرے بھی اس پارٹی میں نظر آنے لگے ہیں، ایسے میں خدشہ ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کی نادانی اور بھول کی وجہ سے کہیں پورے قوم کو خمیازہ نہ بھگتناپڑے۔ عام آدمی پارٹی سے کوئی شکایت نہیں مگر اُس کی حمایت کا یہ وقت بھی نہیں ہے۔ کیوں کہ اس کو اُترکنڑا میں اپنے پیر مضبوط کرنے کے لئے وقت درکار ہے۔ 
مہنگائی ار بے روزگاری کا خاتمہ ہوجائے گا، امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہوگی، اجناس خوردو نوش سستی و عام ہوگی، بجلی اور گیس کی فراہمی میں کوئی تعطل نہیں ہوگا، عدلیہ آزاد اور بحال ہوگی ، یہ سب وہ نعرے ہیں جو ہر پارٹی ہر انتخابات میں لگاتے آرہے ہیں ، اور اس بار ان نعروں کو دیکھ کر ہمیں ووٹ کااستعمال نہیں کرنا ہے بلکہ اس بار ہمیں ایک قاتلِ انسانیت کو شکست دینے اور ملکِ ہندکے امن و امان ، آپسی بھائی چارگی کو برقرار رکھنے کے لیے ووٹ کرنا ہے۔ 
جب امن برقرار رہے تو مندرجہ بالا تمام نعرے خود بخود پورے ہوجاتے ہیں، مگرامن ہی برقرار نہ رہے تو پھر ان نعروں سے عوام کا کیا لینا دینا۔
ایک بات صاف اور واضح کرلیں کہ ہندوستان کی اکثر پارٹیاں جنہوں نے سیکولر کی چادر اوڑھی ہوئی ہے ان میں سے کوئی بھی سیکولر نہیں، کیوں کہ ووٹ کے لیے مسلم اقلیتی علاقے جلائے جاتے ہیں، مارے جاتے ہیں، قتل کئے جاتے ہیں، اور پھر تمام پارٹیاں مرنے والوں کا دیدار کرنے کے لیے ایک دو دن کے فرق کے ساتھ پہنچ جاتے ہیں، دونوں جانب سے نقصان اپنا ہی ہے۔ یہ تو اُن پارٹیوں کا حال ہے جو اپنے پن کا احساس دلاتے ہیں ، سوچنے کی بات ہے جو کھلم کھلا دشمنی پر اُتر آتاہے، رام مندر کے تعمیر کا وعدہ کرکے جو ہندو بھائیوں کو بھی اندھیرے میں ڈال رکھا ہے، جو گلابی انقلاب کی بات کرتاہے ،آئندہ جاکر ایسے شخص کے کتنے سنگین فیصلے ہوں گے۔
عوام اپنے رائے میں آزاد ہیں ،کیوں کر ہم گلہ کریں؟؟مگر قوم کے کچھ ایسے اُصول ہوتے ہیں جس کے گٹھ جوڑ سے اتحاد کی اُمید لگاسکتے ہیں۔ کانگریس ہو یادیگر پارٹیاں اس سے کسی کو ہمدردی نہیں کیوں کہ مفادات اور منافقت کی سیاست ہی دنیا بھر میں بظاہر کامیاب نظر آرہی ہے۔ یہ فیصلہ لینا مشکل ہے کہ کون لوگ ہیں جو اس ملک اور اس ملک کے عوام کے لئے سیاست کررہے ہیں اور کون ہیں جو اپنے تخت و تاج کیلئے کوشاں ہیں۔ 
مگر ہمارا ووٹ یہاں فیصلہ کن ہوسکتاہے، تنظیم کے متحدہ فیصلے پر ہم نے ہمیشہ سے لبیک کہا ہے اور اس بار بھی ہمیں اسی اتحاد کا ثبوت دینا ہوگا، اور ووٹنگ کے دن سستی و کاہلی کو جھٹک کر ووٹ بوتھ تک جانا ہوگا، اور کسی کو جتانے کے لئے نہ صحیح مگرکسی کو شکست سے ہمکنار کرنے کے لیے ہمیں ووٹ کرنا ہوگا۔ تاکہ ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کو اس بات کی شکایت نہ رہے کہ ہم نے کبھی کوئی غلط فیصلہ لیا تھا۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا