English   /   Kannada   /   Nawayathi

حدبندی کے نام پر مسلم ووٹوں کو غیر موثر کرنے کی سازش

share with us

نور اللہ جاوید، کولکاتا

2011کی مردم کی شماری کے بجائے 2001کی مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندی کا حیرت انگیزفیصلہ


طویل عرصے کے انتظار کے بعد جموں وکشمیر کے بعد آسام میں بھی حد بندی کا عمل شروع کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے اعلان کے فوری بعد آسام کابینہ نے جس طریقے سے چار مسلم اکثریتی اضلاع کو ضم کرنے کا اعلان کیا ہے اسے آسام کے عوام بالخصوص بنگالی نژادمسلمانوں کو دیوار سے لگانے کا پیش خیمہ سمجھا جارہا ہے۔ خدشہ ہے کہ جموں وکشمیر میں جس طریقے سے حدبندی کے دوران مسلم آبادی کے تناسب کو نظر انداز کرکے ہندو اکثریتی حلقے کی تشکیل اور سیٹوں کا اضافہ کیا گیا ہے وہی تجربہ آسام میں بھی نہ دہرایا جائے۔ جموں وکشمیر میں حدبندی کمیشن نے اپنے ہی اصول وضوابط کی خلاف ورزی کی ہے۔الیکشن کمیشن نے حد بندی کا اعلان کرتے ہوئے نئی انتظامی تبدیلی پر روک لگادی ہے۔ ایسے میں سوال ہے کہ آسام حکومت کا چار اضلاع کو ضم کرنے کا فیصلہ کس حد تک قانونی ہے اور کمیشن نے 2011 کی مردم شماری کی بنیاد پر حد بندی کرنے کے بجائے 2001 کی مردم شماری کی بنیاد پر حد بندی کا فیصلہ کیوں کیا ہے؟ اس سوال کا جواب کمیشن کے پاس بھی نہیں جبکہ اس درمیان آبادی کی شرح میں نمایاں فرق آیا ہے۔ 2011 کی مردم شماری کو نظر انداز کرکے نئی حد بندی عوامی امنگوں اور آبادی کے اعتبار سے مناسب نمائندگی کیسے فراہم کی جاسکتی ہے؟
بھارت میں حد بندی ہمیشہ سے متنازعہ رہی ہے۔ چوں کہ حد بندی کمیشن کا فیصلہ آخری ہوتا ہے اور اس کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا اس لیے اس کے متعلق زیادہ گفتگو اور بحثیں سامنے نہیں آئیں، تاہم اب تک جو ملک گیر سطح پر چار مرتبہ 1952، 1963، 1973 اور 2002 میں حد بندی کمیشن کی تشکیل ہوئی اور حد بندیاں کی گئی ہیں اس کے دوران شعوری طور پر ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت مسلمانوں کو سیاسی طور پر بے وقعت بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔2006 میں سچر کمیٹی نے اس الزام کو باضابطہ تحریری شکل میں لاکر اس بات پر مہر لگا دی کہ یہ صرف الزام نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ بھارت کے مسلمانوں کو انتخابی سیاست میں پسماندہ رکھنے کے لیے اس طرح سے حد بندی کی گئی تاکہ مسلم ووٹرس اپنے نمائندوں کو کامیاب نہ کرواسکیں۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ تین ریاستوں اتر پردیش، بہار اور مغربی بنگال میں درج فہرست ذات کے امیدواروں کے لیے مخصوص حلقوں سے متعلق ہمارا تجزیہ بتاتا ہے کہ ان الزامات میں سچائی ہے۔ شیڈول کاسٹ کے لیے ایسی سیٹیں ریزرو کی گئی ہیں جہاں مسلم ووٹرس کی تعداد شیڈول کاسٹ سے کہیں زیادہ ہے۔ سچر کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں امید ظاہر کی تھی بہت جلد ان نا انصافیوں کے ازالہ کےلیے اقدامات کیے جائیں گے مگر المیہ یہ ہے کہ 2008 میں ہونے والی حد بندی میں بھی ان نا انصافیوں کا ازالہ نہیں کیا گیا۔ کئی ایسی لوک سبھا اور اسمبلیوں کی سیٹیں ہیں جو مسلم ووٹروں کی تعداد زیادہ رکھنے کے باوجود شیڈول کاسٹ کے لیے ریزرو ہیں۔ اس کے برعکس مسلم ووٹروں کی نسبتاً کم آبادی والے حلقے غیر محفوظ ہیں حالانکہ ان میں بڑی تعداد شیڈول کاسٹ سے تعلق رکھنے والوں کی ہے۔ سچر کمیٹی نے یہ مشورہ دیا تھا کہ ان حلقوں کو محفوظ کرنا زیادہ منصفانہ ہوگا جہاں شیڈول کاسٹ ووٹروں کی آبادی زیادہ ہے نہ کہ ان حلقوں کو ریزرو کیا جائے جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے؟
اتر پردیش میں حلقہ لوک سبھا نگینہ میں مسلم ووٹرس 53 فیصد اور شیڈول کاسٹ ووٹرس 21 فیصد ہیں مگر یہ سیٹ ریزرو ہے۔ اترپردیش کے رائے بریلی میں جہاں 6 فیصد مسلم اور 29 فیصد شیڈول کاسٹ کے لوگ ہیں مگر یہ ریزرونہیں ہے۔ آسام میں حلقہ لوک سبھا کریم گنج میں مسلم ووٹرس 52 فیصد اور شیڈول کاسٹ 12 فیصد ہیں مگر یہ شیڈول کاسٹ کے لیے ریزرو ہے لیکن اسی آسام میں ڈبروگڑھ اور جورہاٹ جہاں مسلم ووٹرس کی تعداد 5 فیصد یا اس سے کم ہے اور شیڈول کاسٹ ووٹروں کی تعداد بھی زیادہ ہے مگر یہ دونوں سیٹیں ریزرو نہیں ہیں۔ مغربی بنگال کے ضلع مرشدآباد میں کھرگرام میں مسلم ووٹروں کی تعداد 50 فیصد سے زائد ہے اور شیڈول کاسٹ کے ووٹرس کی تعداد 23 فیصد ہے مگر یہ سیٹ ریزرو ہے۔ اسی طرح بنگال کے ہی طوفان گنج میں جہاں مسلم ووٹرس کی تعداد 16 فیصد اور شیڈول کاسٹ ووٹروں کی تعداد 53 فیصد ہے مگر یہ سیٹ ریزرو نہیں ہے۔ بہار کے بگہا اسمبلی حلقے میں مسلم ووٹرس کی تعداد 23 فیصد اور ایس ٹی ووٹروں کی تعداد 14 فیصد ہے اس کے باوجود یہ سیٹ ریزرو ہے لیکن بلیا میں جہاں مسلم ووٹروں کی تعداد 3 فیصد ہے اور شیڈول کاسٹ کے ووٹروں کی 20 فیصد ہے مگر یہ سیٹ ریزرو نہیں ہے۔ درج فہرست ذاتوں و قبائل کو نمائندگی مسلم نمائندگی کی قیمت پر دی گئی۔چنانچہ آزادی کے بعد سے اب تک لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں میں مسلمانوں کی نمائندگی آبادی کے اعتبار سے نہیں ہوسکی۔اب تو پولرائزیشن کی سیاست اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے ذریعہ مسلمانوں کو دیوار سے لگائے جانے کی مہم کے زیر اثر پارلیمانی نظام میں ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت بے حیثیت ہو کر رہ گئی ہے۔
حد بندی کا طریقہ کار اور قانونی پہلو
بھارت میں انتخابات کے انعقاد کے لیے حد بندی کلیدی حیثیت رکھتی ہے اور اس کا مقصد معاشرے کے تمام طبقات کو منصفانہ نمائندگی فراہم کرنا ہے۔ اس مشق کے ذریعہ آبادی میں ہونے والی تبدیلیوں کی نمائندگی کرنے کے لیے لوک سبھا اور اسمبلی سیٹوں کی حدود کی تشکیل نو کی جاتی ہے۔ ’ڈیموگرافک ری ورکنگ‘ سے درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے لیے مخصوص نشستوں کی تعداد میں بھی تبدیلی آتی ہے۔ حد بندی کا عمل ایک خود مختار اور آزاد حد بندی کمیشن کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ حکومت ہند ’حد بندی کمیشن ایکٹ‘ کی دفعات کے تحت مقرر کرتی ہے۔ حد بندی کمیشن کا تقرر صدر جمہوریہ کے ذریعہ ہوتا ہے اور یہ الیکشن کمیشن آف انڈیا کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔ اس کمیشن میں سپریم کورٹ کا ریٹائرڈ جج، چیف الیکشن کمشنر اور ریاستی الیکشن کمشنرشامل ہوتے ہیں۔ حد بندی کمیشن ریاستی اور مرکزی حکومتوں کی مداخلت کے بغیر کام کرتا ہے۔ آئین کے مطابق کمیشن کے احکام حتمی ہوتے ہیں اور کسی بھی عدالت میں اس کے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا ہے۔ آرٹیکل 82 کے تحت پارلیمنٹ ہر مردم شماری کے بعد حد بندی ایکٹ نافذ کرتی ہے۔ ایکٹ کے نافذ ہونے کے بعد، مرکزی حکومت حد بندی کمیشن قائم کرتی ہے۔ حلقہ بندیوں کی تعداد اور حدود کا تعین کمیشن کو اس طرح کرنا ہوتا ہے کہ تمام نشستوں کی آبادی جہاں تک قابل عمل ہو، یکساں ہونی چاہیے۔ حد بندی نافذ ہونے سے قبل حد بندی کمیشن کی تجاویز کا مسودہ عوامی رائے کے لیے شائع کیا جاتا ہے۔ کمیشن عوامی اجلاس بھی منعقد کرتا ہے۔ عوام کی رائے اور تجاویز سننے کے بعد کمیشن اگر ضرورت محسوس کرتا ہے تو کچھ تبدیلیاں بھی کرتا ہے اور اس کے بعد گزٹ آف انڈیا میں شائع ہوتا ہے اور صدر جمہوریہ کی منظوری کے بعد متعینہ تاریخ سے نافذ ہوجاتا ہے۔
آزاد بھارت کی تاریخ میں حد بندی کمیشن 1952، 1963، 1973 اور 2002 میں چار مرتبہ قائم کیے گئے ہیں تاہم 2002 کے قانون نے لوک سبھا کی کل نشستوں یا مختلف ریاستوں کے درمیان ان کی تقسیم میں کوئی تبدیلی نہیں کی تھی۔ 2002 میں آسام، اروناچل پردیش، ناگالینڈ، منی پور اور جموں وکشمیر میں سیکیورٹی وجوہات کی وجہ سے حدبندی نہیں کی گئی تھی۔ اروناچل پردیش، آسام، منی پور اور ناگالینڈ کی کئی تنظیموں کی طرف سے 2001 کی مردم شماری کو گوہاٹی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔ آسام کی سیاسی جماعتوں بشمول بی جے پی نے اس وقت کے وزیر داخلہ شیوراج پاٹل سے ملاقات کرکے مطالبہ کیا تھا کہ حد بندی کی مشق کو ملتوی کیا جائے کیونکہ نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی، جس کا مقصد غیر قانونی تارکین وطن کی شناخت) کا ڈرافٹ فائنل ہونا باقی ہے۔
1971 کی مردم شماری کی بنیاد پر 1976 میں حد بندی کی گئی تھی۔ اس وقت ہی آخری مرتبہ لوک سبھا کی سیٹیوں کی ساخت میں تبدیلی کی گئی تھی۔ دراصل آئین میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی ریاست کو الاٹ کی گئی لوک سبھا سیٹوں کی تعداد ریاست کی آبادی کے تناسب سے ہوگی۔ تمام ریاستوں کو یکساں مواقع دیے جائیں گے۔تاہم اس میں ایک خامی یہ تھی کہ جن ریاستوں نے آبادی کو کنٹرول کرنے کی طرف توجہ دی اور اس کے نتیجے میں آبادی میں اضافے کی شرح میں گراوٹ آئی ایسی ریاستوں کی نمائندگی میں کمی آسکتی تھی۔ جن ریاستوں نے آبادی پر کنٹرول کرنے میں زیادہ دل چسپی نہیں لی وہ زیادہ نشستیں حاصل کر سکتی تھیں۔ سیاسی نمائندگی کھونے کا خوف جنوبی ریاستوں کو درپیش تھا کیوں کہ ان ریاستوں نے نہ صرف آبادی کو کنٹرول کرنے میں زیادہ کامیابی حاصل کی بلکہ معاشی طور پر بھی اس طرح ترقی کی کہ شمالی ریاستوں کے مقابلے میں فی کس آمدنی بہت زیادہ ہے۔ آبادی کی بنیاد پر حد بندی سیاسی طور پر ان کے حق رائے دہی سے محروم ہو جائے گی جبکہ مرکزی حکومت ملک میں ان ریاستوں کی اقتصادی شراکت سے فائدہ اٹھاتی رہے گی۔ ان خدشات کو دور کرنے کے لیے 1976 میں اندرا گاندھی کے ایمرجنسی دور میں آئین میں ترمیم کی گئی اور حد بندی کو 2001 تک معطل کردیا گیا۔ 2002 میں ایکٹ میں ترمیم کرکے یہ فیصلہ کیا گیا کہ 2026 تک کسی بھی ریاستی اسمبلی یا لوک سبھا کی نشستوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا نہ کم کیا جائے گا۔ اس سے یہ امید کی گئی تھی کہ 2026 آبادی میں اضافے کا تناسب یکساں ہو جائے گا۔ یہ الگ سوال ہے کہ کیا 2023 تک آبادی میں اضافے کا تناسب ملک بھر میں یکساں ہوگیا ہے۔ 2021 کی مردم شماری تاخیر کا شکار ہے ایسے میں کیا 2026 میں حد بندی وقت پر شروع ہوسکے گی یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے۔
آسام میں حد بندی سوالوں کی زد میں کیوں ہے؟
نومبر 2022 کو وزارت قانونی کی منظوری کے بعد 27 دسمبر 2022 الیکشن کمیشن نے آسام میں حد بندی کا عمل شروع کرنے کا اعلان کر دیا۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک طویل عرصے سے معلق تھا اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے مگر اس کے دو دن بعد آسام کابینہ نے چار اضلاع کو ضم کرنے اور چودہ علاقوں کے انتظامی حدود کو دوبارہ تشکیل دینے کا اعلان کر دیا۔ دوسرے یہ کہ الیکشن کمیشن نے حد بندی 2011 کی مردم شماری کے بجائے 2001 کی مردم شماری کے مطابق حد بندی کا فیصلہ کیا۔ حد بندی کا مقصد آبادی کے اعتبار سے نمائندگی فراہم کرنا ہے تو اس لحاظ سے 2001 کے مقابلے میں 2011 کی مردم شماری میں کافی فرق آیا ہے جبکہ جموں وکشمیر میں حد بندی کا کام 2011 کی مردم شماری کے مطابق کیا گیا ہے۔ آسام اور جموں وکشمیر کے درمیان فرق کیوں ہے؟ مستزاد یہ ہے کہ ہیمنت بسوا سرما جو نے گزشتہ ڈیڑھ سالوں میں وزیرا علیٰ کی حیثیت سے مسلم مخالف شبیہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور مسلسل مسلم مفادات کو نقصان پہنچارہے ہیں، انہوں نے حد بندی اور اضلاع کو ضم کیے جانے کے متعلق جو بیانات دیے ہیں ان سے بنگالی نژاد مسلمانوں کے مستقبل اور سیاسی نمائندگی پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔چار اضلاع کو ضم کرنے کے بعد خدشہ ہے کہ ان فیصلوں سے تقریباً 35 اسمبلی حلقوں میں مسلم ووٹوں کے انتخابی اثر و رسوخ پر برا اثر پڑے گا۔
ہیمنت بسوا سرما نے جو بیانات دیے ہیں اس سے خدشات مزید گہرے ہو گئے ہیں۔ چار اضلاع کو ضم کرنے کا اعلان کرتے وقت انہوں نے کہا کہ وہ عوامی طور پر صحیح وجوہات کا انکشاف نہیں کر سکتے۔ اس بیان کے اگلے ہی دن انہوں نے کہا کہ حد بندی ایک ایسی مشق ہوسکتی ہے جو ریاست کے مستقبل کو محفوظ بنائے گی۔ وہ آگے کہتے ہیں کہ 1985 میں این آر سی اور آسام معاہدے سے جو امیدیں اور توقعات قائم کی گئی تھیں اس کا خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ در اصل بی جے پی اور کچھ این جی اوز مانتی ہیں کہ این آر سی ڈرافٹ میں شامل ہونے کے لیے 3.3 کروڑ افراد نے درخواستیں دی تھیں مگر ان میں سے صرف 19.6 لاکھ افراد فہرست میں شامل ہونے سے رہ گئے۔ ان 19 لاکھ افراد میں مسلمانوں کی شرح نصف سے بھی کم ہے یعنی اکثریت بنگالی ہندوؤں کی ہے جو 1971 کے بعد بنگلہ دیش سے آتے رہے ہیں۔ چنانچہ ہندوؤں کو خوش کرنے کے لیے شہریت ترمیمی ایکٹ لایا گیا تاکہ ہندو بنگالیوں کو شہریت دی جا سکے۔ پارلیمنٹ میں قانون سازی ہو کر تین سال گزر چکے ہیں مگر اب تک اس قانون کے اصول وضوابط وضع نہیں کیے جا سکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ این آر سی اور آسام معاہدے کا مقصد کیا تھا؟ اگر اس کا مقصد 31 مارچ 1971 کے بعد بنگلہ دیش سے آنے والوں کی شناخت کرنا تھا تو وہ 19.6 لاکھ کی شکل میں حاصل ہو چکا ہے اس عمل سے گزرنے کے لیے آسام کے باشندوں کو سخت مشکلات سے گزرنا پڑا ہے۔ اس کے بعد اگر این آر سی کے پورے عمل کو رد کیا جاتا ہے تو یہ عوام کی قربانیوں کا مذاق ہے بلکہ سپریم کورٹ ک بھی توہین ہے جس کی نگرانی میں این آر سی کیا گیا ہے۔ چنانچہ سپریم کورٹ کے متنازع چیف جسٹس رنجن گوگوئی جنہوں نے این آر سی کے نفاذ میں اہم کردار ادا کیا ہے، بی جے پی لیڈر بالخصوص آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کے تئیں سخت ناراضگی ظاہر کر چکے ہیں۔ دراصل ہیمنت بسوا سرما اصل بات زبان پر لانے سے گریز کر رہے ہیں۔ بی جے پی اور آر ایس ایس جیسی پارٹیاں این آر سی کی آڑ میں مسلمانوں کو بے دخل کرنا چاہتی ہیں اس کے لیے انہوں نے سالہا سال تک بیانیہ مرتب کیا کہ لاکھوں مسلمان بنگالی آسام میں آکر آباد ہو رہے ہیں۔ پارلیمنٹ کے ریکارڈ پر کئی سیاست دانوں کے بیانات موجود ہیں جس کی بنا پر وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں پچاس لاکھ بنگلہ دیشی مسلمان آسام میں آباد ہو چکے ہیں۔ اس طرح کے گمراہ کن بیانات دینے والوں میں صرف بی جے پی کے لیڈر ہی نہیں بلکہ ماضی میں کانگریس کے پرکاش جیسوال اور ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتا بنرجی بھی شامل ہیں جو ماضی میں اس طرح کے گمراہ کن بیانات دے چکے ہیں۔ مگر این آر سی کے فائنل ڈرافٹ نے ایسی ذہنیت کے لوگوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ اگر آسامی دانشوروں کی بات تسلیم کرلی جائے کہ این آر سی کی ڈرافٹنگ کے دوران افسران غیر جانبداری سے کام کرتے تو این آر سی کے ڈرافٹ سے باہر رہنے والے مسلمانوں کی تعداد کہیں زیادہ کم ہوتی۔ دراصل یہ پورا بیانیہ ہی جھوٹ پر قائم ہے۔ بنگالی نژاد مسلمان ایک دو نسلوں سے نئی بلکہ کئی نسلوں سے آسام کا حصہ ہیں اور انہوں نے آسام کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ حد بندی کے اعلان کے فوری بعد اضلاع کو ضم کرنے کی کارروائی جلد بازی میں کیوں کی گئی جبکہ بی جے پی بنیادی طور پر چھوٹی یونٹ کی قائل رہی ہے؟ چھوٹی ریاستوں کا قیام اس کے ایجنڈے میں رہا ہے۔ اضلاع کو ضم کرنے کی کارروائی بی جے پی کے پرانے موقف سے انحراف ہے۔ اس کے باوجود اضلاع کو ضم کرنے کا فیصلہ بتاتا ہے کہ اس کے پیچھے بی جے پی کے کچھ اور ہی مقاصد ہیں جس کا ایک مقصد مسلم اکثریتی اضلاع بجلی، بسوناتھ اور ہوجائی کو ضم کر کے آسام کے 34 فیصد مسلمانوں کو سیاسی طور پر بے حیثیت کرنا ہے۔
2004 میں حد بندی کمیشن کی طرف سے جاری کردہ رہنما خطوط اور طریقہ کار میں کہا گیا تھا کہ ریاست کے ہر حلقے کی آبادی ایک جیسی ہونی چاہیے۔ ضلع کی علاقائی حدود میں ہی سیٹوں کی تقسیم کی جائے گی۔ اس کے تحت 2001 کی مردم شماری کے مطابق ریاست کی آبادی 2,66,55,528 کو کل 126 نشستوں سے تقسیم کیا جانا ہے۔ہر ایک حلقے میں ووٹروں کی تعداد 2,11,155 ہونی چاہیے۔ چنانچہ ایک چھوٹے ضلع میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے تو حد بندی کمیشن کے مطابق نئی حلقہ بندیوں کو اسی ضلع کے علاقائی حدود میں محدود رکھنا ہوگا۔ لہٰذا جو کھیل تین حلقوں والے چھوٹے ضلع میں نہیں کھیلا جا سکتا تھا وہ پانچ حلقوں والے بڑے ضلع میں آسانی سے کھیلا جا سکتا ہے۔ چونکہ حد بندی کی مشق آبادی پر مبنی ہے اور حلقوں کی تعداد کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا اس لیے اس بات کے بہت زیادہ امکانات تھے کہ اگر دوبارہ انضمام نہ کیا گیا تو بہت سے اسمبلی حلقوں میں مقامی برادری (آسامی النسل) کا غلبہ ختم ہو جائے گا۔
آسام میں ہندو اکثریت میں ہیں اور 2011 کی مردم شماری کے مطابق آسام ی کل آبادی 3.1 کروڑ ہے جس میں سے 1.07 کروڑ مسلمان ہیں اور ڈھوبری بارپیتا، کریم گنج، گولپارہ، موریگاؤں، درنگ، ہیلاکنڈی اور بونگائیگاؤں جیسے اضلاع میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ 2001 کے اعداد وشمار کے مطابق چھ اضلاع میں مسلمانوں کی اکثریت تھی مگر 2011 میں نو اضلاع میں مسلمان اکثریت میں آگئے ہیں۔ چنانچہ مولانا بدرالدین اجمل کی سیاست جماعت اے آئی یو ڈی ایف کے ممبر اسمبلی اشرف حسین کہتے ہیں کہ اس ساری ایکسرسائز کا مقصد مسلم قانون سازوں کی تعداد کو کم کرنا ہے۔ اس وقت اکتیس مسلم ممبران اسمبلی ہیں۔ نئی حد بندی اور اضلاع کو ضم کرکے مسلم قانون سازوں کی تعداد پچیس تا چھبیس کرنا ہے۔ بی جے پی کا ہدف 2026 میں سو سے زائد سیٹوں پر کامیابی حاصل کرنا ہے اور وہ ہدف اسی طرح حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اسی وجہ سے 2011 کی مردم شماری کے بجائے 2001 کی مردم شماری کے اعتبار سے حد بندی کی گئی ہے کیونکہ 2001 سے 2011 کے درمیان مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کی شرح 3.3 فیصد رہی ہے۔ ممبر اسمبلی امین الاسلام کہتے ہیں جب 2026 میں لوک سبھا اور اسمبلی کی سیٹوں میں اضافہ ہونا ہے تو پھر محض تین سال کے لیے اس نئی حد بندی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کے علاوہ جب ہمارے پاس 2011 کی مردم شماری کی رپورٹ موجود ہے تو پھر بیس سال پرانے اعداد وشمار کا سہارا کیوں لیا جا رہا ہے۔
آسام اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور سینئر کانگریسی رہنما دیبرتا سائیکا سوال کرتے ہیں کہ ہیمنت بسوا سرما جو یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ اضلاع کو ضم کیے جانے اور نئی حد بندی سے اگلے دو دہائیوں تک مقامی آبادی کے مفادات کا تحفظ ہو گا، وہ دعویٰ ہی سراسر غلط ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ شہریت ترمیمی ایکٹ کو ختم کیا جائے اور آسام معاہدہ کی شق نمبر چھ کو نافذ کیا جائے۔ اس کے بغیر مقامی ثقافت وکلچر کا تحفظ نہیں ہوسکتا ہے۔ سائیکا یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ انیس لاکھ غیر ملکیوں کا مسئلہ حل کرنے کے بجائے حد بندی کرنے سے نتائج کیا حاصل ہوں گے۔
جموں وکشمیر میں حد بندی فرقہ وارانہ عدم مساوات مظہر
مرکز کے زیر انتظام علاقہ جموں وکشمیر میں جس طریقے حد بندی کی گئی ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دراصل ہندو بالادستی اور فرقہ واریت کو ملحوظ نظر رکھا گیا ہے۔ مارچ 2022 میں شائع شدہ گزٹ آف انڈیا کے مطابق 2011 کی مردم شماری کی بنیاد پر مسلم اکثریتی علاقوں میں 86.88 لاکھ باشندوں کی نمائندگی کے لیے سینتالیس نشستیں رکھی گئی ہیں اور 53.78 لاکھ آبادی پر مشتمل جموں خطے کے لیے تیتالیس سیٹیں مختص کی گئی ہے۔ جموں کی آبادی میں 34.1 فیصد مسلم آبادی ہے جہاں پہلے تیرہ سیٹیں مسلم اکثریتی تھیں مگر اب کم کرکے دس کر دی گئی ہیں۔ وادی کے لیے صرف ایک سیٹ کا اضافہ کیا گیا ہے جب کہ جموں جہاں ہندو اکثریت میں ہیں وہاں چھ سیٹوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ضلع کشتواڑ میں دو مسلم اکثریتی اسمبلی سیٹیں تھیں اب تین ہیں، جن میں سے دو ہندو اکثریتی ہیں۔ ضلع ڈوڈا میں دو مسلم اکثریتی حلقے تھے، مگر اب تین میں سے دو ہندو اکثریتی نشستیں ہیں۔
حد بندی کمیشن نے کہا کہ کم آبادی والے دور دراز پسماندہ علاقوں کی بھی نمائندگی کو یقینی بنائیں گے۔ یہ اصول کوئی نیا نہیں ہے مگر نئی حد بندی میں اس اصول کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
پاکستان کی سرحد سے متصل شورش زدہ علاقوں میں آبادی کم ہونے کے باوجود نمائندگی کو یقینی بنانے کے لیے سیٹیں دی گئیں مگر مسلم اکثریتی سرحدی ضلع پونچھ، جسے لائن آف کنٹرول پر پسماندہ اور سورش زدہ علاقوں کی نمائندگی کو یقینی بنانے کمیشن کے معیار کا فائدہ ملنا چاہیے، کوئی اضافی حلقہ نہیں ملا۔ رامبن کو بھی جہاں 146.885 رہائشی ہیں، جن میں سے ستر فیصد سے زائد مسلمان ہیں، اضافی نشست نہیں ملی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کمیشن کے فیصلے سے ہندو علاقے ہی سب سے زیادہ مستفید ہوئے ہیں۔ ہندو اکثریتی پیڈر جو 15,279 افراد پر مشتمل ہے،اسمبلی حلقہ بن گیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جموں کے مسلم اکثریتی علاقے جو جموں لوک سبھا حلقہ کا حصہ تھے، ان کو اننت ناگ حلقہ میں شامل کردیا گیا ہے۔ جموں خطہ کے اضلاع راجوری اور پونچھ جو کہ مسلم اکثریتی ہیں، اب کشمیر کے علاقے اننت ناگ کے حلقے کا حصہ ہوں گے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بی جے پی نہ صرف جمہوریت کو کمزور کر رہی ہے بلکہ ہندو اکثریتی حکمرانی کا ادارہ تشکیل دے رہی ہے۔
آسام کے مسلمانوں کے لیے آگے کی راہ کیا ہے؟
تاہم سوال یہ ہے کہ حد بندی کے دوران ناانصافیوں کے ازالے کا کوئی راستہ بھی ہے یا پھر خاموشی اختیار کرلی جائے؟ اس سوال کے جواب میں سابق آئی اے ایس آفیسر ڈاکٹر سید ظفر محمود جو سچر کمیٹی میں اسپیشل آفیسر کے طور پر کام کرچکے ہیں اور جنہوں نے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے سامنے اس نا انصافی کے ازالے کے لیے کئی تجاویز بھی رکھی تھیں، ہفت روزہ دعوت سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہندوستان کی مردم شماری کے مطابق ملک میں 13.4 فیصد مسلم آبادی ہے۔ اس شرح سے 543 لوک سبھا میں تہتر مسلم نمائندے ہونے چاہئیں لیکن 1952 سے اب تک لوک سبھا میں مسلمانوں کا اوسط تعداد ستائیس رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ مسلم آبادی والے علاقے کو شیڈول کاسٹ کے لیے مخصوص کر دینا ہے۔ مگر جب بھی حد بندی کمیشن حد بندی کا سلسلہ شروع کرتی ہے تو اس کے لیے کچھ اصول وضوابط بناتی ہے اور پھر اس کے مطابق حلقہ بندی کی تجاویز طے کرتی ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ علاقائی سطح پر تعلیم یافتہ مسلمان پہلے حد بندی کمیشن کے اصول و ضوابط کا مطالعہ کریں اور پھر اس کے بعد تجزیہ کریں کہ نئے حلقے کی جو تجاویز سامنے آئی ہیں وہ کمیشن کے اصول و ضوابط کے مطابق ہے یا نہیں۔ اگر کسی حلقے میں نمائندگی کا فقدان ہے تو پھر کمیشن کے سامنے اصول وضوابط کی روشنی میں اعتراضات کو رکھا جائے۔ ڈاکٹر سید ظفر محمود کہتے ہیں ہم نے ماضی میں انہیں خطوط پر کام کیا ہے اور کئی جگہوں پر فائدہ ہوا ہے۔ پنچایت اور میونسپلٹی کی حلقہ بندی ریاستی الیکشن کمیشن کے ذریعہ ہوتی ہے وہاں بھی حلقہ بندی کے دوران انہیں خطوط پر کام کرنا چاہیے۔

بشکریہ : دعوت

 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا