English   /   Kannada   /   Nawayathi

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

share with us

 ماسٹر عبدالغفور صاحب کی رحلت پر ایک تأثراتی تحریر

از:  محمد تعظیم قاضی ندوی

ایک ہی کلپ ہے ، ارے شہر کے تمام گروپس میں وہی آڈیو کلپ گردش ہو رہی ہے ، ارے بھائ سننے تو دو کیا ہے؟  میسیج پر میسیج آرہے ہیں کوئی پوچھ رہا ہے بیمار تھے کیا؟ کوئی پوچھ رہا ہے میت کہاں پر ہے؟ پھر میں نے ایک معتبر وہاٹس اپ گروپ کھولا تو اُس میں بھی اناللہ کے کئی اسٹیکر موجود تھے ، اندازہ ہوا کہ وطن عزیز میں کسی کا انتقال ہوا ہے۔

سینے پر ہاتھ رکھ کر میسیج کھولا تو ایک غم انگیز خبر تھی کہ ہمارے ہردلعزیز استاذ ماسٹر عبدالغفور صاحب (غفور جناب) کا انتقال ہوا ہے۔

پھر میں نے جناب حافظ ریاض صاحب سے رابطہ کیا اور تفصیلات لی اور پھر یہ خبر اپنے دیگر ساتھیوں کو بتائی اور اہل منکی گروپس میں بھی مختصر خبر کی شکل میں بتانا ضروری سمجھا۔

دل رنجیدہ ہے آنکھیں اشکبار ہیں ہاتھوں میں کپکپاہٹ ہے زباں سے الفاظ نکلنا دشوار ہے، جب آپ کی رحلت کی خبر کانوں میں پڑی گویا  آپ کی محبت کا سمندر دل ہی دل میں ٹھاٹے مارنے لگا آپ کی ناقدری آنسوؤں کی شکل میں بہنے لگی، مگر کیا کروں چند باتیں ہیں جس کو بتانا ہے ،  چند صفات ہیں جس کو بیان کرنا ہے ۔

 

انتقال سے کچھ مدت پہلے

حال ہی میں جب آپ کی طبیعت ناساز ہوئی تو ساونتواڑی میں ہی ایک کرایہ کا مکان لیکر اپنا علاج ایک پرائیویٹ اسپتال میں جاری رکھا تھا۔

ایک ماہ قبل گرنے سے کمر میں شدید چوٹ آئی اور گوا کے ایک اسپتال میں اُن کا آپریشن ہوا۔

آخری ایام میں وہ وینٹیلیٹر پر ( آی سی یو ) میں تھے اور پھر اخیر میں ان کو وینٹیلیٹر سے چھٹّى ملى اور صرف آکسیجن پر تھے ، پھر ڈاکٹروں کے مشورہ کے بعد منکی لے جانے کا فیصلہ کیا گیا اور ان کے چھوٹے فرزند محمد آصف نے فوری طور پر منکی میں آکسیجن کا بھی بندوبست کیا تھا۔

 

مرحوم کا آخری سفر

جب طبیعت بگڑنے لگی تو یکم ڈسمبر رات ساڑھے دس بجے ہوناور سری دیوی اسپتال پہنچے جہاں گویا وقتِ موعود بھی آگیا اور ہسپتال پہنچنے تک آپ کی روح  قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی ۔إنا لله وإنا إليه راجعون۔ قریب رات 11:30pm بجے میت منکی لائ گئ۔

 

وہی بزم ہے وہی دھوم ہے ،وہی عاشقوں کا ہجوم ہے

ہے کمی تو بس میرے چاند کی ،جو تہہ مزار چلا گیا

 

تدریسی خدمات

آپ نے اپنی زندگی کی کُل 85 بہاریں دیکھیں، آپ نے مدرسہ رحمانیہ سے قبل کئی اسکولوں کئی شہروں میں تدریسی خدمات انجام دی جس میں (منکی چتار ، سداپور ہلگیری، ڈانڈیلی ، ہلیال ، منکی مڈی ، منکی بنسالے ) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

آپ نے اپنی درس و تدریس کے آخری دس بارہ سال مدرسہ رحمانیہ منکی میں گزارے جس کے بعد آپ پر ایک موذی مرض کا حملہ ہوا اور ایک بڑے آپریشن سے آپ کو گزرنا پڑا، اور اسی دوران آپ نے مدرسہ رحمانیہ کو الوداع کہا۔

مجھے یاد ہے مدرسے کی ایک بڑی تقریب میں آپ کو اعزاز سے بھی نوازا گیا تھا۔

درس کی بات کریں تو کیا کہیں، زبان کی فصاحت اور بیان و ادا کی وضاحت اپنے آپ میں اک مثال رہی، کنڑا نظم پڑھانے کی جب باری آتی تو اِس انداز سے پڑھاتے  گویا کہ کوئی عندلیب مسحور کن آواز میں محو ترنم ہے۔

ریاضی کلاس ہو یا پھر کنڑ کمزور سے کمزور طالب علم پر بھی محنت کرتے اور اُس کو سبق سمجھانے کی پوری کوشش کرتے ، طالب علم کی لکھائی اچھی ہو اِس پر خوب مشق کراتے ، جس نے ان کے بتائے ہوئے طریقے پر لکھنے کی کوشش کی تو اُس کو قریب بلاتے ، پیٹھ تھپ تھپاتے اس کی کاپی لے لے کر دوسرے بچوں کو دکھاتے ۔

میں نے اکثر  اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے اور آج بھی کرتا ہوں ، آج جو بھی چھوٹی موٹی ہم کنڑا بات کرتے ہیں اُس میں ماسٹر عبدالغفور صاحب (غفور جناب) کا بہت بڑا کردار ہے۔

اُن کا معمول تھا جب بھی درجے میں آتے تو بیٹھنے سے پہلے بلیک بورڈ پر اپنی لکڑی والی خصوصی اسکیل سے دو لکیریں کھینچتے ، ان کا پہلا گھنٹہ ہو یا پھر آخری وہ اِس انداز سے درس دیتے اسی جوش و خروش کے ساتھ گویا اس دن کا ان کا پہلا گھنٹہ ہو‌ ، نہ چہرے پر تھکاوٹ کے آثار رہتے ، نہ درس کے دوران ان کا جسم تھکاوٹ ظاہر کرتا۔ آپ کی تدریس کے نرالے انداز دل و دماغ میں اس طرح نقش ہیں کہ وہ کبھی مٹ نہیں سکیں گے۔

اُن کی ایک صفت یہ بھی تھی کہ آپ وقت کے پابند تھے، آپ کا گھر بہت دور تھا مگر وقت سے پہلے مدرسہ تشریف لاتے ، علم دوست تھے ، شہر کے علماء کا احترام ، مدرسے کے اساتذہ کی عزت کرنا یہ آپ کی خصوصیات میں سے ہے۔

سفید لباس ، الگ انداز کے کپڑے ، مسکراتا چہرہ ، چہرے پر سفید داڑھی ، البیلے انداز کی سفید ٹوپی آپ کی ایک پہچان تھی۔

 

درس و تدریس کے بعد کی زندگی

تدریس کے میدان کو چھوڑنے کے بعد تو ایک بالکل الگ ہی فرد تھے۔ وہ گھر اور مسجد کے ہو کر رہ گئے۔ ان کو کسی جلسوں  وغیرہ میں کم ہی دیکھا گیا ،  کبھی کبھار ان کے گھر جانا ہوتا تو باہر برآمدہ میں کرسی پر بیٹھے ہوئے رہتے۔ اکثر دعائیں دیتے اور اپنے لئے دعاؤں کی درخواست کرتے،درس و تدریس کے گزرے حسین لمحات کا ذکر ہوتا ماضی کی یادوں کو کریدتے ،مدرسے کے اساتذہ اور اپنے شاگردوں سے محبتیں اور چاہتیں بانٹتے رہے ، شروع شروع میں وقتاً فوقتاً مسجد نور میں آپ سے ملاقاتیں بھی ہوتی رہتی تھی انتہائی نرم وگداز لہجہ میں بات کرتے ۔

تکبیرِ اولیٰ کی پابندی

ناخدا جماعت المسلمین منکی کے سیکریٹری اور مسجد نور کے امام حافظ ریاض صاحب کہتے ہیں کے مسجد میں تکبیرِ اولی کی ہمیشہ پابندی رہی ، تیز بارش ہو یا پھر تیز ہوائیں ، کڑکتی دھوپ ہو یا پھر سخت سردی ،  مسجد میں آکر ہی باجماعت نماز ادا کرتے، دعوت و تبلیغ سے جڑے رہتے، خود بھی جماعتوں میں نکلتے دوسروں کی بھی تشکیل کرتے ، باہر سے آنے والی جماعتوں کے ساتھ رہتے اُن کی خدمت کرتے ۔

ریاض صاحب مزید کہتے ہیں کہ خفیہ طور پر وہ لوگوں کی مدد بھی کرتے تھے، امام اور وہاں تراویح پڑھانے والوں کو رمضان میں لفافے عیدی وغیرہ دینا ان کا معمول تھا، وہ اپنے گھر کے ہی بڑے نہ تھے بلکہ پورے محلہ میں (ملّا جناب) کے نام سے مشہور اور بڑے  مانے جاتے تھے۔

 

نماز جنازہ اور تدفین

عین ممکن ہے کے اللہ کو ان کی کوئی ادا پسند آئی ہو۔ اس لئے بڑے مبارک دن میں بلاوا آیا ۔ یکم ڈسمبر (جمعرات کے دن جمعہ کی شب) اور سینکڑوں کی تعداد میں فرزندان توحید نے ان کی نماز جنازہ پڑھی اور تدفین میں شریک رہے۔

 غیر مسلموں کے ساتھ بھی آپ کے بڑے اچھے روابط رہے یہی وجہ ہے کہ اُن کے انتقال کے بعد بڑی تعداد غیر مسلم بھی ان کے آخری دیدار کے لیے پہنچے۔

 بعد نماز جمعہ فوراً ناخدا محلہ جامع مسجد منکی میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی جس کی امامت ان کے بڑے فرزند حافظ مشتاق صاحب نے کی ، پھر جامع مسجد نوائط محلہ منکی میں ان کی نماز جنازہ پڑھی گئی جس کی امامت مولانا شکیل احمد صاحب سکری ندوی نے کی اور پھر سینکڑوں سوگواروں نے ان کو آخری آرام گاہ تک پہنچایا۔

آج ان کے اہلِ خانہ اور پسماندگان  کے ساتھ ہم بھی سوگوار ہیں اور لائقِ تعزیت بھی ، اللہ ان کے پس ماندگان کے ساتھ ہم شاگردوں کو بھی صبرِ جمیل عطا کرے ۔ آمین۔

افسوس کہ اک طویل عرصہ گزر گیا  استاذ محترم سے  آخری ملاقات نہیں  ہوئی اور آپ ہمیشہ کے لیے منکی قبرستانِ میں محوخواب ہوگئے۔ حق تعالی آپ کی بال بال مغفرت فرمائے،آپ کی دینی وملی خدمات کو قبول فرمائے اور آپ کا نعم البدل عطا کرے۔ آمین

 

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا