English   /   Kannada   /   Nawayathi

اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موجِ تندِ جولاں بھی

share with us
Moulana muhammed ilyas nadwi bhatkali, bhatkal, moulana abul hasan ali nadwi islamic academy, bhatkal academy, dr akram nadwi, oxford, England, madarise islamia, islami madaris, jamia islamia bhatkal, ali public school bhatkal,

(عصرِ حاضر میں مدارسِ دینیہ کی اہمیت وضرورت)

مصنف :  مولانا محمد الیاس ندوی بھٹکلی

مقدمہ: ڈاکٹر محمد اکرم ندوی، آکسفورڈ، برطانیہ

غالباً سن 1997ء کی کوئی تاریخ تھی کہ سیرت سلطان ٹیپو شہید میرے ہاتھ لگی، کتاب مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ اور مشہور مؤرخ پروفیسر خلیق احمد نظامی کے مقدموں سے مزین تھی، یعنی حلقہئ علم ودانش میں نو وارد مصنف دو عادل وثقہ گواہوں کے جھرمت میں تھا، کتاب کا مطالعہ کرتا گیا اور دلچسپی بڑھتی گئی، پوری کتاب ختم کی، خوشی ہوئی کہ کسی عالم کا نقش اولیں اس پایہ کا ہے، ایک ایسے موضوع پر جو ابھی تک تشنہ تھا، مواد جمع کرنا، معلومات کا تحلیل وتجزیہ کرنا اور انہیں اس معیار سے مرتب کرنا علم کی پختگی کی دلیل بیّن ہے، کتاب کے مصنف مولانا محمد الیاس بھٹکلی سے یہ میرا پہلا تعارف تھا، وہ گرچہ عمر میں مجھ سے چھوٹے تھے مگر علمی وعملی صلاحیتیوں کی وجہ سے ان کی عظمت دل میں راسخ ہوتی گئی۔

اس ابتدائی شناسائی کے بعد جب بھی مولانا محمد الیاس صاب کے مضامین نظر آتے، انہیں پڑھتا، اسی بہانہ ان کی ملی وتعلیمی سرگرمیوں سے واقفیت بڑھتی گئی، مختلف علماء کے توسط سے ان کی ترقیات کی اطلاع ملتی رہی، بعد میں ان سے متعدد بار فون پر بات بھی ہوئی، ان کا مطالبہ تھا کہ میں بھٹکل کے لیے کچھ وقت نکالوں اور قریب سے اہلِ بھٹکل کی سرگرمیوں کا مشاہدہ کروں، میری بھی خواہش بھی کچھ اسی طرح کی تھی، مگر کسی نہ کسی وجہ سے سفر کا ارادہ ٹلتا رہا، بہر حال گزشتہ شعبان سنہ 1443 ہجری میں زیارت کے اسباب پیدا ہوئے او راہلِ بھٹکل کے کارناموں کو دیکھ کر غیر معمولی خوشی ہوئی، اس دورہ کی تفصیلات میرے سفر نامہ میں آچکی ہیں۔

بھٹکل کی علمی وتعلیمی ترقی میں مولانا عبدالعزیز بھٹکلی نائب مہتمم دار العلوم ندوۃ العلماء، ہمارے رفیقِ درس مولانا عبدالباری ندوی او رمولانا فیصل بھٹکلی استاد دار العلوم ندوۃ العلماء کا بہت بڑا حصہ ہے، پر جس شخصیت نے اس علاقہ کو قومی بلکہ بین الاقوامی شہرت عطا کی وہ مولانا الیاس بھٹکلی ہیں، وہ فخرِ بھٹکل نہیں بلکہ فخرِ ہندوستان ہیں۔

مولانا الیاس بھٹکلی صاحب کو ملت کا درد ہے، ملت کے ہمہ جہتی ترقی کے لیے ان کے عملی کارناموں کی فہرست طویل ہے، اسی طرح ملی موضوعات پر ان کی تحریریں بھی سیکڑوں صفحات میں پھیلی ہوئی ہیں، وہ جو کچھ بھی لکھتے ہیں اس کے پیچھے کوئی پیغام ہوتا ہے، ان کی آواز کا سر چشمہ ان کا دل ہے اور وہ دلوں کومخاطب بناتے ہیں، وہ ادب برائے ادب یا تصنیف برائے تصنیف کے قائل نہیں، عصرِ حاضر میں مدارس دینیہ کی اہمیت وضرورت کے موضوع پر ان کی پیش ِ نظر تصنیف ”اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موجِ تند جولاں بھی“ اسی سلسلۃ الذہب کی ایک کڑی ہے، جس مصنف کے پہلی تخلیق پر مفکر اسلام جیسی شخصیت کا مقدمہ ہو اور جس کے کارناموں سے ساری دنیا واقف ہو اسی کی کسی کتاب پر پیش لفظ لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں، صرف یہ سوچ کر کہ اس مبارک تصنیف کے ساتھ میرا نام جڑ جائے یہ چند سطریں لکھی جارہی ہیں۔

اس کتاب کے مصنف کوئی روایتی عالم نہیں اور نہ کوئی مقامی داعی ہیں، ان کی فکر ہر محاذ پر کی جانے والی مسلمانوں کی جدوجہد کو محیط ہے، وہ بھٹکل اور کرناٹک کے دائرہ سے نکل کر سوچنے کے عادی ہیں، انہیں اندازہ ہے کہ موجودہ حالات میں کس طرح مدارس کی کردار کشی ہورہی ہے او رکس طرح فسطائی طاقتیں انہیں کمزور کرنے پر تلی ہوئی ہیں، اسی لیے ”نوا را تلخ تر می زن“ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے انہوں نے کما و کیفا اپنی سعی بڑھادی ہے، وہ جب تعلیم وترقی کے موضوع پر بات کرتے ہیں یا لکھتے ہیں تو ان کے اندر مفکر اسلام رحمۃ اللہ علیہ کی فکر کا عکسِ جمیل نظر آتا ہے، ان کے اندر جدید تعلیم کے خطرات کا وہی ادارک ہے جو شاعرِ اسلام کے اردو وفارسی کا مرکزی نقطہ ہے۔

مولانا الیاس صاحب کی جس بات نے مجھے سب سے زیادہ متأثر کیا وہ یہ ہے کہ موصوف لکیر کے فقیر نہیں، وہ کسی روایت دیرینہ کے اندھے محافظ نہیں، وہ مدرسوں کے ان فارغین کی طرح نہیں جن کی زندگی کا مشن مدرسوں کی فوٹو کاپی بنانا یا کسی فرسودہ نظام کی نقالی کرنا ہوتا ہے، مولانا الیاس اپنے عصر میں جیتے ہیں، اپنے ماحول کی بات کرتے ہیں، حالات کے مطابق سوچنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہیں، تغیر پذیر دنیا میں بنائی گئی جمود ورکود کی دیواروں کو توڑنے کا عزم رکھتے ہیں  او رنئی نسل کو فردا کے لیے تیار کرتے ہیں، مدرسوں کے فارغین سوال کرتے رہتے ہیں کہ عالم ہونے کے بعد کیا کریں، افسوس اس تعلیم پر جس نے انہیں اس بنیادی سوال کا جواب نہیں سکھایا، مولانا الیاس کے گوناگوں کاموں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ فکر رسا لکھنے والا انسان کس طرح نئے نئے میدان دریافت کرتا ہے، وہ جدھر کا رخ کرتا ہے خلیل اللہ کی طرح ایک نیا جہاں تعمیر کرتا ہے۔

زیر نظر کتاب کے تین بنیادی مضامین ہیں۔

1) مدرسوں کی عظمت کی یاد دہانی: آج کل مدرسوں کی جو منفی تصویر کشی ہورہی ہے وہ ہر صاحبِ دل انسان کے لیے باعثِ رنج والم ہے، ذہنوں میں یہ تازہ کرنا ضرری ہے کہ مدارس کتنی بڑی نعمت ہیں اور انہوں نے کس عزیمت کے ساتھ دین کی بقا میں حصہ لیا ہے، چین اورو سطی ایشیا کے مدرسوں کی برکتوں پر روشنی ڈالنے کے بعد مصنف کتاب لکھتے ہیں ”مذکورہ بالا دعوتی تجزیوں سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ اسلامی کی عظمتِ رفتہ کی بازیافت میں ان مدارس ومکاتب کا کس قدر بنیادی اور اہم رول ہے اور عالمِ اسلام میں ہمیں اس وقت نظر آنے والے غیر متزلزل اور قابلِ رشک ایمان کی جھلکیاں مدارس کی افادیت پر ایقان میں اضافہ ہوتا ہے، اس جہانِ رنگ وبو میں مدرسے ہی ہیں جہاں عالمِ بالا اور دنیائے قدوسیاں کی روایتیں زندہ ہیں:

تجھے فطرت نے اپنے دستِ رنگیں سے سنوارا ہے

بہشت رنگ وبو کا تو سراپا اک نظارہ ہے

کتاب کے اس حصہ کی ایک اہم سرخی ہے ”دنیا مسلمانوں سے قائم ہے اور مسلمان دینی مدارس سے“ اس میں لکھتے ہیں ”عالم اسلام کے موجودہ ناگفتہ بہ حالات پر جب ہم بصارت کے بجائے بصیرت کی نگاہ دوڑاتے ہیں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت خالص اور حقیقی اسلام صرف ہمارے ان مدارس اسلامیہ ومکاتب دینیہ کی بدولت قائم ہے، تھوڑی دیر کے لیے ہم یہ تصور کرلیں اگر اس وقت روئے زمین پر مدارسِ اسلامیہ کی شکل میں دین کے یہ قلعے نہ ہوتے اور علمائے حق یہاں سے فارغ ہوکر امت کی رہنائی نہیں کرتے تو ملت اسلامیہ کا ا سوقت کیا ہوتا۔“  صفحہ 15

2)  مدرسوں کی اصلاح وترقی:  ہر طرف سے مدرسوں کے نصاب ونظام کے اصلاح کی آوازیں بلند ہورہی ہیں، ایک شور ہے جو دن بدن برھتا جارہا ہے، مدرسوں کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ اپنے نصاب میں جدید موضوعات داخل کریں، غیر معمولی دباؤ سے متأثر ہوکر بہت سے مدرسے نئے نئے مضامین پڑھانے لگے ہیں، اس کا نقصان یہ ہورہاہے کہ ان مدرسوں کا رخ بدل گیا ہے، وہ عربی زبان وادب اور اسلامی علوم کے موضوعات سے بے پرواہ ہوکر اس فکر میں لگ گئے ہیں کہ ان کے فارغین دنیاوی علوم وفنون میں کس طرح ترقی کریں، وہ جدید تعلیمی اداروں سے مقابلہ کی دوڑ میں لگ گئے ہیں اور ان علوم وفنون کی ترقی کا کوئی منصوبہ نہیں جن کے لیے یہ مدارس قائم ہوئے تھے۔

نئی بجلی کہاں ان بادلوں کے جیب ودامن میں

پرانی بجلیوں سے بھی ہے جن کی آستیں خالی

مولانا لکھتے ہیں: ”... اور فارغین کے لیے انگریزی میں مہارت پیدا کرنے کے لیے کوچنگ کلاسس کھولنے کی فکر تو ہے لیکن ہمارے ان فارغین میں خود ان کی دینی تعلیم پر ان کے اعتماد کو بحال کرنے، اخلاقی اعتبار سے ان کو علمائے ربانیین کی سی زندگی گزارنے کی ترغیب دلانے اور دعوتی اعتبار سے ان کو تیار کرنے کے لیے کسی شعبہ کے قیام کے متعلق کوئی خبر سنننے میں نہیں آرہی ہے؟ ہمیں تدریس کے لیے اچھے محدثین اور مفسرین کے فقدان کا شکویٰ تو ہے لیکن فراغت کے بعدا س سلسلہ میں ان کی خصوصی تربیت کے لیے کسی مدرسہ کی طرف سے اس سلسلہ میں کسی نئی پیش رفت کی اطلاع نہیں مل رہی ہے۔ صفحہ53-54

کتاب کا یہ مضمون بہت اہم ہے، خود مجھ سے کئی مدرسوں کے مہتمم حضرات نے شکایت کی کہ انہیں کوئی اچھا محدث ومفسر نہیں ملتا، ماہرین فقہ وافتاء عنقاء ہیں، اگر مدرسوں میں محدث، مفسر اور فقہاء نہ تیار ہوں تو ان مدرسو ں کے قیام وبقاء کی کا وجہِ جواز کیا ہے؟ یہ ایسی ہی ہے کہ شبلی کی اولاد مضمون نگاری کے بجائے کھیل کود کے مقابلہ جیتنے پر فخر ومباہات کرے، اگر اس کمی کا تدارک نہیں کیا گیا تو مدارس کی افادیت مزید مشتبہ ہوجائے گی، ان مدرسوں کی حالت کچھ اس مصرع کی سی ہے، جناب شیخ کا نقشِ قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی

حسن نو کچھ بھی نہیں، عشق جواں کچھ بھی نہیں

ہوش اے دل کہ جہانِ گزراں کچھ بھی نہیں۔

3) جدید تعلیم یافتہ طبقہ کی دینی تربیت:  مولانا کو اس کا احساس ہے کہ مسلمانوں کی پچانوے فیصد سے زیادہ آبادی مدرسوں میں نہیں جاتی، پھر ان کی دینی تعلیم وتربیت کا نظم کیسے ہو؟ کتاب کے آخر میں اس موضوع پر بڑی اہم رہنمائی ہے جسے ہر جگہ کے مسلمانوں کو اپنانا چاہئے، مولانا نے مشورہ دیا ہے کہ کس طرح مسلم سکولز اور کالجز قائم کیے جائیں اور کس طرح جدید تعلیم یافتہ اداروں کے طلبہ کو اسلامی مضامین کی تعلیم دی جائے، خود مولانا نے اس میدان میں بڑے کامیاب تجربات کیے ہیں، ان سے ہر ایک کو مستفید ہونے کی ضرورت ہے۔

مولانا ایک صاحبِ پیغام اور با عزم وحوصلہ داعی ہیں، حاالات کیسے بھی ہوں ناامید نہیں ہوتے بلکہ حالات سنگینی انہیں مزید مہمیز کرتی ہے، وہ ظلمت شب میں صبح کی کرنیں دیکھنے کے عادی ہیں، اسی کتاب میں فرماتے ہیں کہ ہمارے ملک کے حالات مسلمانوں کے لیے اس وقت جس قدر پریشان کن، سنگین اور تشویشناک ہوں لیکن اس گئی گزری حالت میں بھی دعوتی میدان میں کام کرنے والوں کے لیے بے پناہ مواقع ہیں۔  صفحہ  46

بھٹکل کے حالیہ سفر کے دوارن مولانا الیاس صاحب کی کثیر الانواع سرگرمیوں کو قریب سے دیکھنے کے بعداندازہ ہوا کہ گرچہ ان کی ساری کوششوں کا محور مسلمانوں کی ہمہ جہت ترقی ہے، مگر وہ سب کسی نہ کسی طرح علم وتعلیم سے مربوط ہیں، مولانا کو سب سے زیادہ دلچسپی تعلیم سے ہے اور ترقی کے لیے تعلیم کس قدر اہم ہے اس کا انہیں اچھی طرح احساس ہے، یہ کتاب اسی احساس کا بیان ہے، اس میں ایک دردمندانہ اپیل ہے اور ایک پرکشش پیغام ہے۔

آج اکثر مدرسے بے پیغام اور بے فکر ہیں، ان میں حیات وروح کا فقدان ہے، جذبہ کی قوت معدوم ہے، ہندوستان کے طول وعرض میں مدارس کا جال ہے، ہر روز ایک نیا مدرسہ وجود میں آتا ہے، ہائے افسوس کہ عمارتوں کو مدارس کہا جارہا ہے۔

ع: سینہ خالی آنکھیں ویراں دل کی حالت کیا کہیے

ہند میں اب نور باقی ہے نہ سوز

اہلِ دل اس دیش میں ہیں تیرہ روزہ

آج ہر جگہ مسلمانو ں کی پسماندگی کے ڈھول پیٹے جارہے ہیں، نقارے بجائے جارہے ہیں  لیکن پسماندگی بڑھتی ہی جارہی ہے، ایک زمانہ تھا کہ علم وفن کے کسی میدان میں کوئی ہم سے آگے نہیں تھا۔

اسپ تازی کی طرح تھی قوم تازی بھی غیور

جب کوئی بڑھتا تھا ہم سے تلملا جاتے تھے ہم

مگر نظامیہئ بغداد، فرنگی محل، مدرسہئ رحیمیہ اور مدرسہئ خیر آباد کے نام لینے والوں کے دلوں میں غیرت وحمیت نہ رہی، کون ان سادہ لوحوں کو سمجھائے کہ مدرسہ خشت وسنگ کا نام نہیں، مدرسہ وہ جگہ ہے جہاں تازہ افکار کی نمود ہوتی ہے، جہاں سوچنے کاطریقہ سکھایا جاتا ہے، جہاں درسِ آدمیت وسبق تہذیب دیا  جاتا ہے، جہاں کھرے کھوٹے کی تمیز سکھائی جارہی ہے، ایک زمانہ میں مدرسہ کے مکینوں کو بوریہ نشین کہا جاتا تھا، ان بوریہ نشینوں کی جگہ سجادہ نشینوں اور محلوں اور بالاخانوں کے شہزادوں نے لے لی، ان قصور ومحلات پر بہت کچھ خرچ ہوتا ہے مگر ان کا انتاج مفلس کے دیہ کے مقابلہ میں بھی ہیچ ہے۔

اعتراف میں کوئی تردد نہیں کہ مولانا الیاس ایک سنجیدہ مزاج اور ایک دو ربیں نگاہ کے مالک ہیں، وہ قوموں کے عروج وزوال پر غور کرنے والا ذہن رکھتے ہیں، ان کی کوشش ہے کہ مسلمانوں میں تعلیمی بیداری عام ہو، ان کے اندر تفکر وتأمل کے میلان کو فروغ ہو اور دانشوری کی روایت مستحکم ہو

آئینِ نو سے ڈرنا طرزِ کہن پہ اڑنا

منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

قوی امیدی ہے کہ سلطان ٹیپو شہید کی سیرت لکھنے والا یہ عالم قوم کے اندر اک نئی روح پھونکے گا، ان کی ہر آواز نفخہئ صور ثابت ہوگی، یہ مختصر لیکن پر مغز کتاب ان کے اندرونی درد وکرب کی آئینہ دار ہے، التماس ہے کہ مسلمانوں کی ترقی سے دلچسپی رکھنے والے تمام افراد اس کا مطالعہ کریں، بالخصوص مدارسِ اسلامیہ کے ذمہ داران اس کی ہدایتوں کے عملی نفاذ پر توجہ کریں۔

 وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا