English   /   Kannada   /   Nawayathi

پیکرِ اخلاص مولانا محمود حسن حسنی کا ذکرِ خاص

share with us

  تحریر۔ سید ہاشم نظام ندوی

قدرت کا بھی عجیب کرشمہ ہے کہ جو کل تک اپنے پس ماندگان پرسوانح عمریاں مرتب کر رہے تھے، مرحومین پر تاثراتی مضامین لکھ رہے تھے، یادِ رفتگاں میں محو ہو کر انھیں خراجِ عقیدت پیش کر رہے تھے، دنیا سے جانے والوں کے حق میں جنت کی خوش خبریاں اور رحمت کی بشارتیں سنا رہے تھے اور ارحم الراحمین پروردگار کی ذاتِ کریمی پر ایمان ویقین رکھتے ہوئے انھیں مغفرت کے پروانے تقسیم کر رہے تھے، آج انہی کے لیے وہی سب مراسم ادا کیے جا رہے ہیں جو وہ دوسروں کے لیے کرتے تھے۔ انہیں کے ذکرِ خیر میں وہ سب کچھ کیا جا رہا ہے جو وہ دوسروں کے سلسلے میں کرکے ان کا مقام ومرتبہ لوگوں کو بتا کر ''اذکروا محاسن موتاکم '' کے نبوی حکم پر عمل کر رہے تھے۔
     یعنی وہ ہمارے مخلص دوست جید عالمِ دین اور پیکرِ اخلاص وعمل مولانا محمود حسن حسنی ندوی ہیں، جن کے اس دنیائے فانی سے دارِ باقی کی طرف منتقل ہوئے ایک ماہ سے زائد عرصہ ہو چکا ہے، مگر جن کی یادیں اور باتیں ان کے متعلقین ومعتقدین، شاگردان و محبین کے قلم سے مضامین کی شکل میں نشر ہو رہی ہیں۔ 
                                                        رونق انجمن گل تھا جو لالہ، نہ رہا              ناز تھا جس پہ وہ سروقد بالا نہ رہا
                                               رہ گیا کٹ کے کلیجہ وہ لگی چوٹ کہ ہائے!        دینے والا تھا جو ایسے میں سنبھالا نہ رہا
    دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں ہم سے ایک سال آگے تھے، البتہ اپنے ساتھیوں میں مولوی یحیی برماور ندوی،  مولوی محمد سلیم سدی باپا ندوی اور مولوی سید یاسر برماور ندوی وغیرہ کے بعد سب سے زیادہ روابط ہم سے تھے، درجہ کے خارجی اوقات میں ملاقاتیں رہتیں اور اکثر آپ سے ملاقات کی جگہ مفکرِ اسلام حضرت مولانا علی میاں رحمۃ اللہ علیہ کی مجلسوں میں شرکت کے بعد مہمان خانہ ہی ہوتا، جہاں کچھ دیر تک بات کرتے رہتے اور مختلف موضوعات پر تبادلہئ خیالات کرتے۔  یقینا آپ جس کے دوست ہو گئے آخر تک دوست رہے، رفاقت اور صداقت کا حق ادا کر دیا، جس کی پچاسوں مثالیں موجود ہیں۔
    دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے تین سالہ قیام کے دوران ہمارا مخدومی مولانا سید سلمان صاحب حسینی ندوی دامت برکاتہم کے گھر آنا جانا رہتا تھا، قبر ماموں بھانجہ مسجد کے ہفتہ واری درسِ قرآن میں پابندی سے شرکت کی کوشش رہتی تھی، درس کے بعد یا اس کے علاوہ ایام میں بھی مولانا کے پاس آنے جانے کا سلسلہ رہتا تھا تو بھائی محمود حسن حسنی مرحوم کے علاوہ اس خانوادے کے اکابرین سے بھی ملاقاتیں رہتیں، ''خاتون منزل'' کی اپنی ایک تاریخ ہے، جس پر مستقل تحریر کرنے سے کئی صفحات سیاہ ہو سکتے ہیں۔ جن میں کئی ایک کرم فرماؤں اوربڑوں کے ساتھ سلام ودعا کا سلسلہ جاری رہتا،  ان سے استفادے کے مواقع ملتے اور روابط بڑھتے جاتے جن میں بالخصوص مولانا سید حمزہ حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا سید عبد اللہ حسنی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا سید جعفر مسعود ندوی، مولانا سید بلال عبد الحی حسنی ندوی، مولاناسید اسحاق حسینی ندوی، مولانا سید صہیب حسینی ندوی، مولانا سید عمار حسنی ندوی، مولانا سید مسعود حسنی ندوی وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح بفضلِ خداوندی ان کے علاوہ  ''خاتون منزل '' میں آنے جانے والے علماء اور اکابرین سے شعوری اور غیر شعوری طور پر بہت کچھ سیکھنے اور حاصل کرنے کے مواقع ملے ہیں اور اس میں ہمارے ساتھ رفیقی مولوی نعمان اکرمی ندوی اور رفیقی مولوی عبید اللہ اسحاقی ندوی بھی شامل رہتے۔ 
''لوٹ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو  ''
    آپ کے ہم سے مسلسل تعلقات کی ایک دوسری وجہ شعبہئ نشر و اشاعت سے متعلق تھی، الحمد للہ جب سے  ''  مکتبۃ الشباب العلمیۃ  ''  کے اشاعتی کام میں عملا شرکت ہوئی، اس دن سے آپ ہمارے مشیروں میں رہے، کئی کتابوں کو زیورِ طباعت سے آراستہ ہو کر نشر و اشاعت تک کے مراحل تک پہنچانے میں پورا پورا ساتھ رہا، بالخصوص تذکرہ مولانا عبد الباری، حیات مولانا ابرار الحق حقی، یادوں کے چراغ، وقائعِ احمدی  اور پرانے چراغ کی نئی اشاعت میں تیسری جلد میں نئے تراجم کو شامل کر کے اس کی تکمیل کاکام بھی آپ ہی کے قلمی تعاون سے ہوا تھا۔ مکتبہ سے شائع ہونے والی بعض کتابوں پر عرضِ ناشر بھی آپ ہی کے قلم سے تحریر ہے۔آپ مکتبہ کے ذمے دار مولانا محمد ریان بھٹکلی ندوی کا وقتا فوقتا تعاون فرماتے، مشورہ لینے اور دینے اور کتابوں کی طباعت سے نشر و اشاعت تک آپ کا تعاون شامل رہتا تھا۔ حتی کہ کبھی کتابوں کے سرِ ورق کی تیاری میں مشہور خطاط جناب حامد صاحب وغیرہ کے گھر جا کر جلدی کرنے اور فورا ہاتھوں ہاتھ لانے کا مرحلہ ہوتا تو بھی ساتھ چلنے میں تاخیر نہیں فرماتے تھے۔
    لکھتے اچھا تھے، قلم سیال تھا، جذبات کی ترجمانی بڑی آسان اور سلیس زبان میں  فرماتے، آپ بیتی اور جگ بیتی کو حسین پیرائے میں پیش کرتے، جس پر ان کے قلمِ گوہر بار سے تحریر کردہ دسیوں تصانیف اور پچاسوں مضامین شاہد ہیں، جو متعدد رسائل ومضامین اور علمی تصانیف کی شکل میں یاد گار بن چکی ہیں، جس نے ان کی زندگی کو جاودانی بخشی اور تحریروں کو مقبولیت عطا کی ہے۔ 
    آپ جس طرح لکھتے تھے اسی طرح بولتے بھی تھے، بلکہ کبھی آپ کی تقریر تحریر سے زیادہ بہتر ہوتی، اسی طرح تزکیہ وسلوک کی مجلسوں یا مختصر باہمی گفتگو کی محفلوں میں آپ کے پند وموعظت کا جو رنگ ہوتا وہ کچھ جدا ہی رہتا۔ آپ کی زبان کے ساتھ چہرہ بھی پڑھنے کے قابل رہتا، دلی جذبات کی ترجمانی جہاں الفاظ کے پیراہن میں ادا ہوتی وہیں آپ کے چہرے سے بھی اظہار ہوتا تھا اور مسئلے کی سنگینی اور حقیقت کا آپ کا چہرہ عکاس ہوتا تھا، جس سے دل سے نکلی ہوئی بات کو طاقتِ پرواز ملتی اور آپ کا مخاطب اثر قبول کیے بغیر نہیں رہ پاتا،  جو بلا شبہ ایک کامیاب مقرر ہونے کی دلیل ہے۔
    یہ آپ کا اندازِ گفتگو ایک طرف تھا، لیکن جب اپنے ساتھیوں اور ہم عصروں یا بے تکلف دوستوں سے ملتے تو دوستانہ گفتگو ہوتی،  جس کا لطف ہی الگ رہتا، خوشیوں سے پھولے نہیں سماتے، مسکراہٹوں کے ساتھ چاہتوں کے اظہار کا ایسا تسلسل رہتا جو دیکھنے یا برتنے ہی سے متعلق ہوتا، بالخصوص ہم جیسے پردیسی ساتھیوں سے ملاقات ہوتی جو گاہے بہ گاہے ہوتی تھی، سال دو سال یا تین سال میں ایک مرتبہ بالمشافہ رہتی تو اس وقت ان کا اسلوبِ تخاطب انتہائی الگ رہتا، کافی وقت تک مصافحہ کیا ہوا ہاتھ ملا ہی رہتا۔ جب کہ فون سے ملاقاتیں وقفہ بہ وقفہ ہوتی رہتیں تھیں۔
    آپ کا  اصل ذوق اور فطری شوق تربیت واصلاح اور تزکیہ وسلوک کی مجالس تھیں۔ آپ کو تعلیمِ باطن کے لیے خاندانی  بزرگوں کی صحبت روزِ اول سے ملی، پھر اس میں ترقی ہوتی گئی اور ہندوستان کے اکابرین سے بھی اصلاحی تعلق رہا، اہلِ علم اور اہل اللہ کی صحبتوں سے فیضیاب ہوئے۔
    ذکرِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی آپ کے سامنے آتا تو عشقِ نبیؐ میں سرشار ہو جاتے، یہی وجہ ہے کہ آپ کو اہلِ بیتِ اطہار او ر حضرات ِسادات سے بھی غیر معمولی تعلق تھا، آپ کو اس نسبت کا بھی بے حد خیال ہوتا، جب کسی کے بارے میں پتہ چلتا کہ اس کا انتساب حضراتِ سادات سے ہے، تو نسب نامہ دریافت کر تے، حسنی ہے یا حسینی اس کی بھی تحقیق فرماتے، انھیں اس انتساب پر شکرِ خدا کی درخواست فرماتے اور انہیں اہلِ بیت ِاطہار کے متعلق بتلاتے۔ 
    علامہ حبیب البشر خیر رنگوی (برما) رحمۃ اللہ علیہ کے مجموعہئ درود و سلام مع فضائل و اشعار کو نئی ترتیب اور بعض اہم اضافوں و افادات کے ساتھ زیورِ طباعت سے آراستہ فرمایا، جس پرمفکرِ اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا عشق ومعرفت اور حبِ نبویؐ سے سرشار ہو کر تحریر کردہ گراں قدر مقدمہ بھی موجود ہے۔ گویا یہ مولانا محمود مرحوم کی زندگی کا آخری '' ھدیہ درود وسلام'' کی شکل میں امتِ اسلامیہ کے نام عظیم ترین تحفہ ہے، جو یقینا ختامہ مسک کا درجہ رکھتا ہے۔
    آپ کے مطمحِ نظر صرف اور صرف اپنے خالق و مالک کی رضا تھی، ہر کام میں رضائے رب تلاش فرماتے، اس بات پر عقیدہ بھی پختہ تھا کہ اخلاص اور للہیت کے بنا ہر کام بے سود اور ہرعمل بے کار ہے۔ہم ساتھیوں کو بھی باتوں باتوں میں اس بات کی طرف توجہ دلاتے تھے کہ اللہ تعالی راضی ہو جائے اور بس، کسی کی واہ واہی اور تعریف و ستائش سے کچھ حاصل ہونے والا ہے نہ ہی اللہ تعالی کی رضامندی کے ساتھ کسی کی مخالفت اور ناراضی سے کچھ بگڑنے والا۔ یہ زندگی ایک امانت ہے، اسے اسی اپنے  خالق کی مرضیات پر چلانا اور احکامات کو بجا لانا ہی اصل زندگی ہے۔
                                                                توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے        یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے تھا
    آپ کے سو اوصاف کا ایک وصف یہ تھا کہ ہر ایک کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملتے، تبسم آمیز لب و لہجہ میں مخاطب ہوتے، سنجیدگی و متانت اور ہمدردی کا اظہار فرماتے، کھل کر ملتے، دل و جان سے ملتے، تواضع وانکساری سے ملتے، نخوت اور خود بینی کا مفہوم ہی ان کے ذہن سے غائب تھا، پہلی ملاقات میں ہی بے تکلف ہو جاتے اور اسے اپنائیت دیتے، اسی لیے جو آپ سے ایک بار ملتا وہ بار بار ملاقات کا خواہش مند رہتا تھا۔ اخلاقِ اسلامی کا جو وصف تقریبا اس پورے خانوداے کا بنیادی امتیاز ہے، گویا علم و عمل اور اخلاق و سلوک ان کی میراث ہے۔ 
    ماضی قریب میں اس خانوادے کے کئی افراد نے جو ملتِ اسلامیہ کا قیمتی سرمایہ تھے، ہم سے بچھڑ کر عین جوانی یا کہولت میں داعیِ اجل کو لبیک کہا، جن میں حضرت مولانا ثانی حسنیؒ، مولانا سید محمد حسنیؒ، مولانا سیدعبد اللہ حسنیؒ، مولانا حمزہ حسنیؒوغیرہم تھے اور اب مولانا محمود حسنیؒ بھی اسی فہرست میں شامل  ہیں۔ یہ وہ شخصیات تھیں جن سے ملتِ اسلامیہ ہندیہ کو بڑی امیدیں اور توقعات وابستہ تھیں۔
                                                                  کچھ دن ٹہر سکے  نہ جہانِ خراب میں         اکثر کو موت آ گئی عہدِ شباب میں 
    اے ہمارے مخلص دوست، آپ اپنے مولی کے پاس چلے گئے، آپ کی زندگی کے آخری ایام بیماری میں گزرے، جو بیماری ان شاء اللہ آپ کے رفعِ درجات کا سبب بنے گی اورسیئات کو حسنات میں مبدل کر ائے گی، آپ کا وقتِ موعود بھی اپنے مربی ومحسن حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی کی طرح بروزِ جمعہ نمازِ جمعہ سے پہلے آیا،  جس وقت میں موت آنے کی خوش نصیبی میں کسے شبہہ ہو سکتا ہے۔ مگر آپ اپنے پیچھے کتنوں کو سوگوار اور غم گسار چھوڑ گئے، کتنوں کو آپ سے کیا کیا امیدیں تھیں، قوم نے آپ سے کیا کیا توقعات وابستہ کر رکھی تھیں اور کتنوں نے آپ سے مستفیض ہونے کے کیا کیا خواب دیکھے تھے، جو بظاہر سب تشنہ تکمیل رہے۔ مگر اللہ تعالی ہی کی ذات وہ ہے جو قوم کو آپ ؒکا نعم البدل عطا فرمائے گی، وہی اللہ مجروح دلوں پر مرہمم رکھے گا، ٹوٹے ہوئے حوصلوں کو ہمت دے گا، غم زدہ احباب کو تقویت عطا فرمائے گا۔ جی ہاں بھائی محمود ؒوہی اللہ جو پوری انسانیت کے لیے کافی ہے وہی ہمارے لیے بھی کافی ہے، جسے بقا ہے، جس ذات کو دوام ہے اور باقی صرف اسی کا نام ہے۔ جاتے جاتے شاعرِ مشرق  علامہ محمد اقبال کی زبانی ہمارے دلوں کی ترجمانی میں سن لیں۔        دل ہمارے یادِ عہدِ رفتہ سے خالی نہیں         اپنے شاہینوں کو امت بھولنے والی نہیں 

( تاریخ وفات :۔  بروز جمعہ:۔ 13  / محرم الحرام 1444ہجری   =   مطابق:21  / اگست  2022 عیسوی)
بشکریہ:۔  پیامِ عرفات۔ رائے بریلی  ۔۔۔   فکر و خبر بھٹکل
Posted: www.fikrokhabar.com

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا