English   /   Kannada   /   Nawayathi

حجاب معاملہ : صدر اپنے سر کو پلو سے ڈھانپتی ہیں تو کیا یہ بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جے ڈی ایس لیڈر

share with us

نئی دہلی:20ستمبر 2022(فکروخبرنیوز/ذرائع)کرناٹک میں حجاب پر پابندی معاملے کی سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے، جنتا دل (سیکولر) کے کرناٹک کے سربراہ سی ایم ابراہیم نے آج اسلامی ہیڈ اسکارف کا موازنہ پلو سے کیا (ڈھیلی ساڑی کا ایک ٹکڑا جو سر اور کندھوں کو ڈھانپتا ہے)

"صدر دروپدی مرمو نے بھی اپنا سر پلو سے ڈھانپ لیا ، کیا یہ PFI کی سازش ہے؟" انہوں نے ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ریاست میں حجاب پر پابندی کے خلاف زبردست احتجاج کے پیچھے پاپولر فرنٹ آف انڈیا (PFI) کا ہاتھ ہے۔

انہوں نے کہا کہ "اندرا گاندھی نے اپنے سر کو پلو سے ڈھانپ لیا، صدردروپدی مرمو اپنے سر کو پلو سے ڈھانپتی  ہیں، تو جو لوگ گھونگٹ سے اپنے چہرے کو ڈھانپتے ہیں، کیا ان سب کو PFI کی حمایت حاصل ہے؟ سر کو پلو سے ڈھانپنا ہندوستان کی تاریخ ہے۔

کرناٹک حکومت نے آج عدالت کو بتایا کہ حجاب کے احتجاج کے پیچھے پی ایف آئی کا ہاتھ تھا۔ اس نے دعوی کیا کہ 2021 تک اسکولوں میں کوئی حجاب نہیں پہنا جا رہا تھا۔

کرناٹک حکومت  نے  5 فروری 2022 کے حکم نامے میں اسکولوں اور کالجوں میں "مساوات، سالمیت اور امن عامہ کو خراب کرنے والے کپڑے" پہننے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

مسٹر ابراہیم نے راجستھان میں روایتی لباس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہاں کی خواتین اپنے سر اور چہرے کو پلو سے ڈھانپتی ہیں ۔ "راجستھان میں کوئی بھی راجپوت عورت اپنا چہرہ نہیں دکھاتی ، ان کے پاس لمبا گھونگھٹ ہوتا ہے۔ کیا آپ یہ کہہ کر اس پر پابندی لگا سکتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کا رواج ہے؟" جے ڈی (ایس) لیڈر نے کہا کہ حجاب اورپلو میں فرق صرف زبان کا ہے، لیکن اس کا طریقہ   وہی رہتا ہے۔

سپریم کورٹ میں حجاب پر پابندی کو چیلنج کرنے والے درخواست گزاروں نے دلیل دی ہے کہ حجاب مسلمانوں کی "شناخت" ہے۔

پیر کو ۷؍ ویں دن کی سماعت میں سینئر وکیل ایڈوکیٹ دُشینت دوے نے مدلل انداز میں حجاب پہننے کے مسلم طالبات کے حق کا دفاع کیا اور کہا کہ اگر ایک مسلم خاتون کو یہ لگتا ہے کہ حجاب پہننا اس کیلئے فائدہ مند ہے تو کوئی طاقت یا کورٹ اس کے برخلاف نہیں کہہ سکتی۔‘‘ انہوں نے سپریم کورٹ کے ہی سابقہ فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کرناٹک ہائی کورٹ کی دلیل کو بھی خارج کردیا کہ حجاب اسلام کا لازمی جزو نہیں ہے۔ کہا کہ بھلے ہی یہ یونیفارم کا معاملہ ہو مگر یہ دراصل مسلم طلبہ کو یہ کہنے کے مترادف ہے کہ آپ کو کن چیزوں کی اجازت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ قانونی بدنیتی کا معاملہ ہے۔ یہ ایسا ہے جیسے ہم اقلیتی طبقے کیلئے طے کریں گے کہ وہ کیا کرسکتے ہیں اور کیا نہیں۔‘‘اس موقع پر انہوں نے قانون ساز کونسل میں اقلیتوں کی کمیٹی کے چیئر مین سردار ولبھ بھائی پٹیل کی تقریر کا حوالہ دیا جنہوں نے کہاتھا کہ ’’اقلیتوں کیلئے اس سے بہتر اور کیا ہوسکتاہے کہ انہیں اکثریتی طبقے پر بھر پور اعتماد ہو اور اکثریتی طبقہ یہ محسوس کرے کہ اگر اس کے ساتھ وہی برتاؤ ہوتو وہ کیسا محسوس کریگا۔‘‘انہوں نے سوال کیا کہ کیا حجاب پہننے سے ملک کی سلامتی اور یکجہتی کو کوئی خطرہ لاحق ہو جاتا ہے؟ جواب میں جسٹس دھولیا نے کہا کہ ’’ایسا تو کوئی نہیں کہہ رہا، (ہائی کورٹ کا) فیصلہ بھی ایسا نہیں کہتا۔‘‘سینئر ایڈوکیٹ نے سپریم کورٹ کے ہی سابقہ فیصلوں کا حوالہ دیکر یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہائی کورٹ نے ’’مذہب کے لازمی جزو‘‘ کا جو جواز پیش کرکے پٹیشن حجاب پر پابندی کو برقرار رکھا ہے وہ جواز ہی غلط ہے۔ انہوں نے اس کیلئے سپریم کورٹ کے شیرور مٹھ فیصلے کا حوالہ دیا۔ دوے نے نشاندہی کی کہ کورٹ نے شیرور مٹھ کیس میں اٹارنی جنرل کی مذہب کے لازمی والی دلیل کو خارج کردیاتھا

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا