English   /   Kannada   /   Nawayathi

شوق ہم سفر میرا 

share with us

 

بقلم : عبدالمستعان أبو حسينا 


آذان ظہر کی صدائیں بلند تھیں، اچانک مسوری جانے کا خیال میرے ایک دوست  کے دل میں انگڑائی لینے لگا، ویسے گزشتہ دو چار دنوں سے سیر  و تفریح کے منصوبے بن رہے تھے مگر کوئی قطعی فیصلہ نہیں ہوا تھا، یہ بھی بتاتا چلوں کہ راقم کی خواہش اس طرف بالکل نہیں تھی، دلّی جانے کا ارادہ دل میں تھا مگر دوست کے منصوبہ کے خلاف بھی تو نہیں جا سکتا  شاعر  کی زبانی

          خیالِ  خاطر   احباب    چاہیے    ہردم 
           انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو 

خیر اپنے جذبات بر طرف، اپنی آرزویں در کنار، میں نے ہاں کر دی ، مزے کی بات تو یہ ہے کہ ٹرین کا وقت چار بجے کا تھا، فقط دو ساتھی تو جانے سے رہے مزید دو ساتھی  درکار تھے،جناب پورے مدرسے کا چکر لگا رہے ہیں ،کبھی اس ساتھی کو مدعو کر رہے ہیں، کبھی اس ساتھی کو فون کیا، کبھی اس کے کمرہ میں گئے، پہلے تو کوئی تیار نہ تھا، اور ہوتا بھی کیونکر  ایک تو  تیاری کا نہ ہونا ،دوسرے مزید چھٹیاں تیسرے ٹرین کا وقت بھی بہت کم تھا ،چوتھے ٹکٹ بھی بنوانا تھا، پانچویں روزہ سے بھی تھےیہ سب خیالات گردش میں تھے، آخر لشتم پشتم چھ آدمیوں کی جماعت تیار ہو گئی ۔ 

دوسری طرف ہمارا ایک قافلہ مسوری جانے کے لیے تیار تھا، ان سے ٹکٹ بنوالیا گیا، پیر 4:30 کو ہم ٹرین میں سوار ہو گئے،سلیپر تو ملنے سے رہی، جنرل پر چڑھ گئے، جنرل سنتے ہی عام طور پر جو خیالات آتے ہیں اتنی بری حالت تو نہیں ہوئی، بفضل اللہ سفر کٹ گیا اور ہم منگل کی صبح ساڑھے چھ (6:30) بجے دہرادون میں داخل ہو گئے۔ 

دہرادون سے ہمارا سفر بس کے ذریعے تھا، چونکہ وہ پہاڑی علاقہ ہے اس لئے وہاں ٹرین کی آمد و رفت نہیں ہوتی، اسٹیشن کے پہلو میں ہی بس اسٹاپ تھا،بس کا نام سنتے ہی طبیعت اُوب گئی،چونکہ راستہ بھی کوہستانی تھا،طبیعت کا بگڑنا بھی بجا، اور ہوا بھی ایسا ہی، لیکن دلکش مناظر، حسین وادیاں،پر رونق فضا،سلسلہ کوہ کے پر کیف نظاروں سےطبیعت ہری ہو گئی، اور ہم  نے تقریباً (8:00) بجے مسوری میں قدم رکھا۔  

لگے ہاتھوں مسوری کا تعارف بھی سنتے چلیے، مسوری ہندوستانی ریاست اتراکھنڈ کے دہرادون ضلع کے قریب ایک پہاڑ پر واقع ہے، جسے پہاڑوں کی ملکہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ملک کے مشہور پہاڑی علاقوں میں سے ایک ہے، جو دہرادون سے تقریباً 36 کلو میٹر اور دلّی سے تقریباً (300) کلومیٹر کی دوری پر ہے اور (2,005.5) میٹر (6,579.7) فٹ کی بلندی پر ہے، جس کے ارد گرد تاحد نگاہ کوہستانی سلسلہ ہے۔ 
                       بڑھے جا یہ کوہ گراں توڑ کر 
                     طلسم زمان  و مکاں   توڑ کر  
                 
پہنچتے ہی پہلا کام استراحت کے لیے کمرہ کی تلاش تھی، جو ہر مسافر کی منزل اولین ہوتا ہے،ہم ٹہرے نووارد، چونکہ نوواردوں کو قیمت کا اندازہ نہیں ہوتا ہے، ہمیں دیکھ کر قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا، ہم بھی کچھ کم نہ تھے، تھوڑی تگ و دو کے بعد کمرہ ہاتھ آگیا،  

                     خودی کی یہ ہے منزل اولیں
                     مسافر یہ تیرا نشیمن نہیں ہے

ناشتہ کے بعد ہم نے دوپہر تک آرام کیا، عصر کے بعد چہل قدمی کے لیے نکلے، موسم سہانا تھا ہر طرف کہرا تھا جو کبھی گھر کے چھا جاتا کبھی چھٹ جاتا، ٹھنڈک تھی اور کیوں نہ ہو مسوری کا رخ اسی لیے تو ہوا تھا، سرد موسم کے مزے لیتے ہوئے ہم گن ہیل (gun hill) کی طرف چلے گئے، جسکا کرایہ ایک آدمی کےلیے  180 تھا، گن  ہیل ایک طرح کی سواری ہوتی ہے جو ایک اوپری جگہ پر لے جاتی ہے، وہاں ایک آدھ گھنٹہ گھوم کر اسی پر واپسی ہوتی ہے،ہم سوار ہوئے، اوپر کئی دکانیں  تھیں، فلک بوس کوہ کے ایسے پر بہار اور حسیں نظارے تھے جو شاید ہی ہم میں سے کسی نے دیکھے تھے  گویا پہاڑ صدا دے رہے ہوں  ع

                         سر اٹھا کر جیو زمانے میں 
                       یہ  اشارہ  ہے  کوہساروں  کا

اور کہرا جیسے پورے شہر کو گھیرے ہوئے تھا، گویا پورے شہر کا سائبان بنا ہوا تھا منظر کشی سے تو زباں عاجز ہے،اور قدرت ایزدی مجھ جیسے ناچیز سے کیا بیاں ہو ، مگر اتنا ضرور ہے کہ وہ مناظر ابھی تک آنکھوں میں روشن ہیں، واپسی کے بعد غیر ارادی طور پر ہم نے سائیکل کراۓ پر لیں جس کی قیمت فی گھنٹہ 60 روپئے تھی،سواری کے دوران بچپن کی یادیں  تازہ ہو گئیں،سائیکل پر پورے گاؤں کا چکر لگانا، کبھی گرنا، کبھی اٹھنا، گرنے پر روتے گھر چلے جانا، ماں کا تسلی دینا، ہاۓ وہ بچپن کی یادیں ۔ کسی نے عجیب سی سچائی بھر دی ہے اس مصرع میں  ع

              دو دن کو اے جوانی! دیدے ادھار بچپن

 چند مقامی جگہوں کی سیر کے بعد کمرہ لوٹ گئے اور راحت کی سانس لی۔  

آج ہمارا مسوری میں دوسرا دن تھا(بدھ)، تقریباً نو بجے ناشتے سے فارغ ہو گئے، اور ہم نے تین گاڑیاں کرایہ پر لیں ایک گاڑی کی ایک دن کی قیمت 350 تھی۔تب تک شاید دوپہر کی اذان کا وقت قریب تھا ۔ وہاں سے ہم نے کیمپٹی آبشار (kempty falls ) کا رخ کیا،گویا وہ پہاڑوں کو چیرتا ہوا ہم تک پہنچ رہا تھا اقبال نے کیا خوب کہا ہے   ع 

                    وہ جوۓ  کہستاں اچکتی  ہوئی 
                    اٹکتی   لچکتی   سرکتی    ہوئی
                    اچھلتی پھسلتی سنبھلتی ہوئی
                    بڑے  پیچ  کھا  کر  نکلتی  ہوئی
                    رکے جب تو سل چیر دیتی ہے یہ
                    پہاڑوں کے دل  چیر دیتی ہے  یہ

کسی اور جگہ:
                آتی ہے  ندی   فراز   کوہ  سے   گاتی    ہوئی
                کو ثر و تسنیم کی موجوں کو شرماتی ہوئی
                آئینہ سا  شاہد   قدرت   کو   دکھلاتی   ہوئی
                سنگ رہ سے   گاہ  بچتی  گاہ   ٹکراتی   ہوئی 

جہاں ہم نے ایک آدھ گھنٹے پیراکی کی،راقم کو پیراکی کا پہلے سے شوق کم ہے اور کم کیا نہ ہونے کے برابر  ہمیشہ جی چراتا تھا لیکن ساتھیوں کے اصرار کی وجہ سے راضی ہوگیا،اوپر بتا چکا ہوں کہ موسم ٹھنڈا تھا ایک تو موسم ٹھنڈا دوسرے آبشار کا پانی قدرتی ٹھنڈا ہوتا ہی ہے، پانی کی ٹھنڈک میں بہت اضافہ ہوگیا، ہم زیادہ دیر نہ تیر سکے آدھے گھنٹے کے اندر ہم باہر نکل آۓ، آبشار کے پاس دکانیں موجود تھیں دوپہر کا کھانا ہم نے وہیں کھایا، فراغت کے بعد ایک باغ میں گئے وہاں تھوڑی دیر ٹہلنے بعد کمرہ چلے گئے،گاڑی کا ایک ہی دن کا ارادہ تھا مگر ساتھیوں نے دوسرے دن بھی گاڑی لینے کی خواہش ظاہر کی، اور پوری بھی ہوئی، جمعرات کو ہم نے اور ایک دن کے لیے  گاڑی لی اور چند پر رونق  پر بہار باغات اور آبشار کی سیر کی، 
    
       اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں
      مگر   تیرے   تخیّل  سے  فزوں   تر  ہے   وہ  نظارہ

جب سیرو تفریح ختم ہوئی اور ہم کمرہ لوٹ ہی رہے تھے کہ راقم پر ایک آفت آن پڑی۔ ہوا یوں کہ کمرہ لوٹتے ہوئے مجھے موبائل کی ضرورت پیش آئی،گاڑی کے سامنے والے حصہ پر موبائل رکھا تھا،لیکن موبائل  نہ گاڑی میں نہ میرے پاس نہ ساتھیوں میں سے کسی کی پاس تھا، میں ہکا بکا رہ گیا، دماغ میں ہلچل سی مچ گئی، بد حواس ہو کر موبائل تلاش کرنے لگا، خود کی جیب میں ساتھیوں کی جیب میں گاڑی میں بستہ میں مگر ہوتا تو ملتا ،اور اندھیرا بھی چھا گیا تھا، ڈھونڈیں تو کہاں،اور بیٹری بھی 10 فیصد تھی،ساتھیوں نے فون لگا یا اور فون چالو تھا لیکن کوئی اٹھا نہیں رہا تھا ، تھوڑی دیر کے بعد فون بند ہو گیا۔ نہ جانے کہاں گر گیا، کاش میں بے احتیاطی نہ برتتا،کاش کہ اپنی جیب میں یا بستہ میں رکھتا کاش میں یہاں آتا ہی نہ تو یہ نوبت نہ آتی، یہ سب خیالات میں گھوم رہے تھے،جہاں سے ہم آۓ تھے ساتھیوں نے دو تین چکر لگائے،خود میں نے بھی چکر لگایا، ایک جگہ کو چھوڑ کر،اس لۓ کہ وہ سنسان علاقہ تھا اور اچھا خاصا اندھیرا بھی ہو گیا تھا کل صبح جانا طے پایا،گھر والوں کو جب اطلاع ہوئی تو انھوں نے تسلی دی،فقط تسلی سے تو کچھ ہونے والا نہ تھا،چہرہ اداس، دل غمگین اور اعضاء مانند پڑ گئے تھے،پورے دن کا مزہ بلکہ پورے ٹور کا مزہ کرکرا ہو گیا تھا، ساتھیوں نے میری وجہ سے کھانا بھی نہیں کھایا تھا اسی قلق اور آشفتگی میں ہم نے کھانا کھایا، اور رات جھنجھلاہٹ، خلش اور بے قراری میں کٹ گئی۔ اگلی صبح جمعہ تھا، صبح سویرے میں اور چند ساتھی تلاش میں نکلے، جہاں کل رات نہیں گئے تھے، بہت دور جانے کے بعد بھی کچھ اتا پتا نہ تھا، بالآخر  اسی رستے پر ایک دکاندار کے پاس موبائل مل گیا، میری خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا، اداس چہرا ہشاش بشاش ہو گیا،غمگین دل مسرور اور بدن ترو تازہ ہوگیا،گویا مرجھائی کلی کھل اٹھی ہو،اور جان میں جان آگئی ہو۔ اللہ کا شکر ادا کیا پھر گھر والوں کو اطلاع دی وہ بھی مطمئن ہوگئے ۔ کلاوڈ اینڈ قریب ہی تھا  یہ مسوری کی مشہور جگہ ہے جہاں سے ہمالیہ کی سر بہ فلک چوٹیاں نظر آتی ہیں، اسے دیکھ کر اقبال کا یہ شعر حافظہ میں گردش کرنے لگا  ع 

           برف نے باندھی ہے دستار فضیلت تیرے سر     
           خندہ  زن  ہے   جو  کلاہ مہر  عالم  تاب  پر 

اس سے لطف اندوز ہوئے،پھر کمرہ لوٹ گئے، نماز کے بعد  قریب تین (3:00) بجے دہرادون جانے والی بس تھی ایک گھنٹے میں دہرادون پہنچے، ٹرین رات میں تھی، یہاں سیرو تفریح کی اور تقریباً دس (10:00) بجے ٹرین میں سوار ہوئے اور سنیچر کی صبح ساڑھے نو (9:30) بجے ہم بفضل اللہ ندوہ پہنچ گئے۔ 

            چمن سے روتا ہوا موسم بہار گیا 
          شباب سیر کو آیا تھا ، سوگوار گیا

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا