English   /   Kannada   /   Nawayathi

اب کوئی امیدباقی نہیں رہی ، کپل سبل نے سپریم کورٹ کی آزادی پر اٹھائے سوال

share with us

دہلی:08اگست 2022(فکروخبرنیوز/ذرائع) راجیہ سبھا رکن اور سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے سُپریم کورٹ کے حالیہ کچھ فیصلوں پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ 'انہیں سُپریم کورٹ سے اب کوئی امید باقی نہیں ہے'۔ سابق کانگریس رہنما و سینیئر ایڈووکیٹ کپل سبل نے کہا کہ 'اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو سُپریم کورٹ سے راحت ملے گی، تو آپ بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں، اور میں یہ سُپریم کورٹ میں 50 سال کی پریکٹس مکمل کرنے کے بعد کہہ رہا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہاں تک کہ اگر عدالت عظمیٰ کی طرف سے کوئی تاریخی فیصلہ سنایا جاتا ہے تو اس سے زمینی حقیقت میں شاید ہی کوئی تبدیلی آتی ہے۔

کپل سبل نے کہا کہ 'اس سال میں سُپریم کورٹ میں پریکٹس کے 50 سال مکمل کروں گا اور 50 سال بعد مجھے لگتا ہے کہ مجھے اس قانونی انسٹی ٹیوٹ سے کوئی امید نہیں ہے۔ آپ سُپریم کورٹ کی طرف سے دیے گئے فیصلوں کی بات کرتے ہیں لیکن زمینی سطح پر جو کچھ ہوتا ہے اس میں بہت فرق ہے۔ سُپریم کورٹ نے پرائیویسی پر فیصلہ دیا اور ای ڈی افسران آپ کے گھر آئیں، آپ کی پرائیویسی کہاں ہے؟

واضح رہے کہ کپل سبل ایک عوامی ٹربیونل سے خطاب کر رہے تھے جس کا اہتمام دہلی میں 'مہم برائے عدالتی احتساب اور اصلاحات، پیپلز یونین فار سول لبرٹیز People's Union for Civil Liberties اور نیشنل الائنس آف پیپلز National Alliance of People's movements کے ذریعہ شہری آزادیوں کے عدالتی رول بیک"Judicial Rollback of Civil Liberties پر کیا گیا تھا

صدیق کپن معاملہ پر بولتے ہوئے انہوں نے کہا کہ"آپ کے پاس کپن کے خلاف کیا ثبوت ہیں؟ وہ ریپ کیس کی رپورٹ کرنے کے لیے ایک کار میں ہاتھرس جا رہا تھا۔ تم نے اس پر 100 مقدمات درج کرادئے ۔ 100 مقدمات میں ضمانت کیسے ہو سکتی ہے؟ تیستا کیس میں کوئی دلیل نہیں تھی۔ درحقیقت، مجھے بتایا گیا تھا، 'آپ اس میں مت پڑیے'۔

کپل سبل نے سابق کانگریس رکن پارلیمان احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری کی طرف سے دائر کی گئی عرضی کو مسترد کرنے پر سُپریم کورٹ پر تنقید کی، جس میں 2002 کے گجرات فسادات میں وزیر اعظم نریندر مودی اور دیگر کئی لوگوں کو خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) کی طرف سے دی گئی کلین چٹ کو چیلنج کیا گیا تھا۔ منی لانڈرنگ کی روک تھام کے ایکٹ کی دفعات کو برقرار رکھنا جو انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کو وسیع اختیارات دیتے ہیں، اور چھتیس گڑھ میں نکسل مخالف کارروائیوں کے دوران سکیورٹی فورسز کے ذریعہ 17 قبائلیوں کے ماورائے عدالت قتل کے مبینہ واقعات کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کرنے والی 2009 میں دائر درخواست کو مسترد کر دیا۔ جسٹس اے ایم کھانولکر کی سربراہی والی بینچ نے جو اب ریٹائر ہو چکے ہیں، یہ تمام فیصلے سنائے تھے۔ سِبل، ذکیہ جعفری اور پی ایم ایل اے ایکٹ کی دفعات کو چیلنج کرنے والے درخواست گزاروں کے لیے پیش ہوئے تھے۔

کپل سبل نے مزید کہا کہ 'حساس مقدمات' صرف منتخب ججز کو تفویض کیے جاتے ہیں اور قانونی برادری کو عام طور پر پہلے ہی معلوم ہوتا ہے کہ فیصلے کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ میں عدالت کے بارے میں ایسی بات نہیں کرنا چاہتا جہاں میں 50 سال سے پریکٹس کر رہا ہوں لیکن وقت آ گیا ہے، اگر ہم نہیں بولیں گے تو کون بولے گا؟ حقیقت کچھ یوں ہے کہ کوئی بھی حساس معاملہ جو ہم جانتے ہیں۔ کچھ مخصوص ججز کے سامنے رکھا جاتا ہے اور ہمیں نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔

کپل سبل نے عدلیہ کی آزادی پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ 'جس کورٹ میں سمجھوتہ کے عمل کے ذریعے جج بٹھائے جاتے ہیں۔ ایک ایسی عدالت جہاں یہ طے کرنے کا کوئی نظام نہیں ہے کہ کس کیس کی صدارت کس بینچ کے پاس ہوگی؟ جہاں چیف جسٹس آف انڈیا فیصلہ کرتے ہیں کہ کون سا معاملہ کس بینچ کے ذریعے اور کب نمٹایا جائے گا، وہ عدالت کبھی آزاد نہیں ہو سکتی۔

سینئر وکیل نے کہا کہ اگر لوگ اپنی سوچ نہیں بدلیں گے تو حالات نہیں بدلیں گے۔ بھارت میں ہمارے پاس 'مائی باپ کلچر' ہے، لوگ طاقتور کے قدموں پر گر جاتے ہیں۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ لوگ باہر نکلیں اور اپنے حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کریں۔ آزادی تب ہی ممکن ہے جب ہم اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہوں اور اس آزادی کا مطالبہ کریں"۔

کپل سبل نے 'سپُریم کورٹ میں زیر التواء دھرم سنسد معاملے کا بھی ذکر کیا کہ عدالت نے اس کیس کی سماعت کی اور حکومتوں سے جواب طلب کیا۔ ملزمین کو گرفتار نہیں کیا گیا اور اگر گرفتار بھی کیا گیا تو انہیں 1-2 دن میں ضمانت پر رہا کر دیا گیا اور پھر انہوں نے دو ہفتوں کے وقفے کے بعد دوبارہ دھرم سنسد کی میٹنگیں جاری رکھیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا