English   /   Kannada   /   Nawayathi

مولانا شہباز اصلاحی اور والدِ ماجدمولانا عبدالباری ندوی، خطوط اور آپسی تعلقات کے آئینہ میں

share with us
moulana abdul bari nadwi bhatakali, moualana shehbaz islahi, bhatkal, moulana abdun noor fakardey nadwi, nadwi, jamia islamia bhatkal

از:  عبدالنور فکردے ندوی

            شعور کی آنکھیں کھولنے کے بعد سے علمی دنیا کی جن شخصیات سے علمی استفادہ نہ کرنے اور ان کی صحبت میں نہ بیٹھنے کا زیاد ہ قلق واحساس رہا ہے، ان میں ایک اہم شخصیت ہماری قوم کے محسن استاذ الاساتذہ حضرت مولانا شہباز صاحب اصلاحی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی ہے، جس کے دو اہم اسباب ہیں،ایک تو آپ جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے ایسے مہتمم رہے جن کا دور ِاہتمام جامعہ اسلامیہ کی تاریخ کا ایک زریں باب تھا،وہ اس ادارے کے ایسے استاذ بھی تھے جن سے نسلوں نے علوم وفنون کے ذخیروں سے اپنے دامن کو آراستہ کیا،ان کی شخصیت میں ایسا سحرتھا کہ جو بھی طالب ِعلم ان سے قریب ہوتا وہ ان کے سحر میں گرفتار ہوجاتھااور یہ گرفتاری کسی بھی پڑاؤ پر منقطع نہیں ہوپاتی تھی،جس کی گواہی آج بھی ان کے شاگردوں کی زبانی بارہا سننے کو ملتی ہے۔

                                                                            شاگرد ہیں ہم میر سے استاد کے راسخ      استادوں کا استاد ہے استاد ہمارا

            گہری سوجھ بوجھ رکھنے والے،لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کا مزاج،خود پیچھے رہ کر دوسروں کو آگے بڑھانے والے، سادگی پسند،توکل وقناعت اور حلم وبردباری کا ایک اعلیٰ معیار تھے، ان سب کے ساتھ عفو ودرگذر سے کام لینا اور انتقامی جذبے سے اپنے دل کو پاک رکھنا ان کے زندگی کے روشن عناوین تھے،انہیں نہ کسی سے پرہیز تھا اور نہ ہی کسی خاص چیز سے چڑ تھی۔ ایک طرف ان کا بے نیازی والا مزاج،دوسری طرف ان کی درویشانہ زندگی بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ انھوں نے دنیا کی دستیاب آسا ئشوں کو ٹھکرا کر بڑی زاہدانہ زندگی گزاری اور تیسری طرف ان کی بلند عالمانہ وعارفانہ شان،ان سب چیزوں نے مل کر مولانا کی شخصیت کو کچھ اس طرح سانچے میں ڈھال دیاتھا کہ کوئی بھی ان سے محبت کئے بنا نہیں رہ سکتا تھا۔

                                                                           ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں      فقط یہ بات کہ پیر مغاں ہے مرد خلیق

            یقینا آپ اسم بامسمٰی تھے اور اسی شہباز وشاھین کی اونچی اڑان اور فکری بلندی کو وہ اپنے شاگردوں میں پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے،انھوں نے اپنے شاگردوں کے خمیر میں یہ بات ڈالنے کی کوشش کی کہ طالبان علوم نبوت کسی دنیا وی جاہ وجلال اور منصب واقتدار سے مرعوب نہ ہو، وہ متاثر بننے کے بجائے خود مؤثربننے کی کوشش کریں، مدعو ہو نے کے بجائے خودداعی الی الخیر بنیں۔

            مولانا رحمۃ اللہ علیہ سے قلبی لگاؤ کی دوسری اہم وجہ ان کااور ہمارے والد ِماجد مولانا عبدالباری ندوی بھٹکلی رحمۃ اللہ علیہ (سابق امام وخطیب جامع مسجد بھٹکل وسابق مہتمم جامعہ اسلامیہ بھٹکل) کا آپ سے گہرا قلبی لگاؤتھا، راقم کے والد مولانا کے خاص الخاص اور عزیز شاگردوں میں سے ایک تھے، آخر تک دونوں کے بیچ خط وکتابت کا سلسلہ بھی قائم رہا،جس تعلق کی وضاحت ان دو واقعات سے مزید ہو سکتی ہے۔ پہلا واقعہ ایک مرتبہ جامعہ اسلامیہ بھٹکل دوران طالب علمی مولانا عبدالباری علیہ الرحمہ نے پہلی مرتبہ امامت کی تو مولانا کی زبان سے بے ساختہ یہ جملہ نکل پڑا کہ ان کی تلاوت سن کر ایسا محسوس ہوا کہ جیسے قرآن آج ہی نازل ہورہا ہو،دوسرا واقعہ مولانا عبدالباری علیہ الرحمہ اپنے والدِ ماجد کا ہاتھ پکڑ کر راستہ چل رہے تھے، اس وقت باپ بیٹے کی محبت اور تعلق کو دیکھ کر مولانا نے فرمایا تھا کہ جس لڑکے کا اپنے والد کے ساتھ ایسا گہرا تعلق ہو تو اس کا مستقبل ضرور روشن ہوگا۔

            دینی اور غیر دینی اداروں میں ایک بنیادی فرق یہ ہوتاہے کہ غیر دینی اداروں کو صرف باصلاحیت افراد کی ضرورت پڑتی ہے،لیکن دینی اداروں کو صلاحیت کے ساتھ ساتھ صالحیت اور اخلاص وللہیت کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے، اسی حوالے سے مولانا اپنے ایک خط میں اپنے شاگرد کو نصیحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:”عزیزم!اللہ تعالیٰ نے تمھاری سعادت مندی اور نیک بختی کی بناء پر تمھیں جامع مسجد کی خطابت کا منصب عنایت فرمایا ہے، یہ معلوم کرکے بڑی مسرت ہوتی ہے کہ تم اس منصب کا پور احق ادا کرتے ہو اور لوگوں کو فائدہ ہورہا ہے، لوگ مطمئن ہیں،اللہ تعالی مزید کی توفیق عنایت فرمائے، اس سلسلہ میں تمہیں یہ بتا نے کی ضرورت نہیں کہ تقریروں اور خطبوں کا حقیقی اثر الفاظ کی جادوگری اور لہجہ کے زیر وبم میں نہیں پوشید ہ ہے، اگرچہ یہ چیزیں بھی ایک حد تک اثر رکھتی ہے،لیکن حقیقی اثر تو یہ ہے کہ

                                                                           بات جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے      پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے

صرف زبان سے جو بات نکلتی ہے وہ زبان سکھاتی ہے لیکن دل سے نکلی ہوئی بات دل میں اتر جاتی ہے اور سیرت وکردار میں تبدیلی کردیتی ہے۔

اسی طرح ایک دوسرے خط میں ایک اہم چیز کی طرف توجہ مبذول کرتے ہوئے لکھتے ہیں ”یہ بات تو ہمیشہ خیال رکھنے کی ہے کہ کبھی مقامی اور وقتی سیاست میں اپنے کو نہ الجھایا جائے،

                                                                       ان کا جوکام ہے وہ اہل سیاست جانیں     میر اپیغام محبت ہے جہاں تک پہونچے

موجودہ دور میں انتشار کی ایک اہم وجہ بیان کرتے ہوئے اپنے ایک خط میں رقم طراز ہیں ”آپ نے جن حالات میں اور جس طرح کی ذمہ داریاں سنبھال رکھی ہیں قابل ستائش ہے، دنیاسے اور بالخصوص مسلمانوں سے اجتماعی فکر ناپید ہوتا جارہا ہے،اہم تر مقاصد کے لیے کس طرح مل کر رہنا چاہیے کس طرح انفرادی خیالات وآراء کو حرف آخر سمجھنا اور اس کے خلاف کی معقولیت کو کس طرح تسلیم نہ کرنا عام طریقہ ہوتا جارہا ہے،یہ نتیجہ ہے حقیقی اخلاص کی کمی کا،اجتماعی معاملات میں طریقہ یہ ہے کہ دیانت داری کے ساتھ جو بات سمجھ میں آئے اسے پیش کردے اگر مان لیں تو فبھا اور نہ مانیں تو کوئی پروا نہیں“۔

مکتوب الیہ کی زندگی اور مندرجہ بالا خطوط کے مندرجات پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مکتوب الیہ نے کس طرح ان نصیحتوں کو اپنے گرہ میں باندھ کر زندگی پر اس پر عمل پیر ارہے۔

    مولانا شہباز صاحب اصلاحی رحمۃ اللہ علیہ کی پوری زندگی تعلیم وتعلم سے عبارت تھی، اور آخرمیں اپنے مادر علمی سے ایسے وابستہ ہوگئے کہ پھر وہی کے ہوکر رہ گئے اور وہی پر اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی،وہ ایسے چراغ تھے جس سے ہزاروں چراغ روشن ہوئے اور آج اگرچہ مولانا کے انتقال کو دودہاہیاں گذر چکی ہے لیکن مولانا کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کی یادوں کے نقوش بہت دیر تک دلوں میں زندہ رہیں گے، اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کی خدمات کا اپنی شایان شان بدلہ عطا فرمائے،کسی شاعر نے کیا خوب کہاتھا کہ

 زندگی جن کی گذرتی ہے اجالوں کی طرح      یاد رکھتے ہیں انہیں لوگ مثالوں کی طرح

علم والوں کو کھبی موت نہیں آتی وہ      زندہ رہتے ہیں کتابو ں کے حوالوں کی طرح

استاذ الاساتذہ سے محبت اور احسان شناسی کے جذبے کے تحت کچھ سطریں سپردِ قرطاس کی کوشش ہے ورنہ سچ یہ ہے کہ ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا