English   /   Kannada   /   Nawayathi

نیک عمل ہی انسان کی اصل پونجی ہے۔اسی سے کامیابی ملتی ہے

share with us


ابونصر فاروق

    اپنے مکان کے باہر ایک ضعیف شخص ایک درخت لگا رہا ہے۔ اسی دوران اُس طرف سے شہر کا گورنر گزرتا ہے۔وہ رک کر اُس شخص سے پوچھتاہے، تم کیا کر رہے ہو؟ ضعیف جواب دیتا ہے کہ میں اخروٹ کا درخت لگا رہا ہوں۔گورنر پوچھتا ہے کہ یہ درخت کتنے دنوں بعد پھل لائے گا؟ ضعیف جواب دیتا ہے کہ تقریباً بیس سال بعد۔گورنر کہتا ہے تمہاری عمر دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اُس وقت تک تم اس درخت کا پھل کھانے کے لئے زندہ نہیں رہو گے، تو اس درخت کے لگانے کا تم کو کیا فائدہ ہوگا؟ضعیف جواب دیتا ہے کہ جناب! میں یہ درخت اپنے لئے نہیں بلکہ اپنے بچوں کے لئے لگا رہا ہوں۔ اس درخت کا پھل میرے بچے کھائیں گے۔گورنر کہتا ہے گویا یہ عمل تم اپنے لئے نہیں دوسروں کے لئے کر رہے ہو؟ ضعیف کہتا ہے جی ہاں۔ گورنر کہتا ہے تم ایک قابل قدر کام کر رہے ہو، لو میری طرف سے یہ انعام قبول کرو۔ اور اُس ضعیف کو اشرفی کی ایک تھیلی پیش کرتا ہے۔ ضعیف جواب دیتاہے کہ جناب میرا درخت تو میری زندگی ہی میں پھل لے آیا۔گورنر اُس کے اس جواب سے خوش ہو کر اُس کو دوسری تھیلی پیش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ تم دانش مند بھی معلوم ہوتے ہو۔ضعیف کہتا ہے کہ جناب دنیا کے درخت سال میں ایک بار پھل لاتے ہیں، میرا درخت تو دو بار پھل لے آیا۔گورنر کہتا ہے بہت خوب تم حاضر جواب بھی معلوم ہوتے ہو۔اور یہ کہتے ہوئے اُس ضعیف کو اشرفی کی تیسری تھیلی پیش کرکے رخصت ہوجاتا ہے۔
    یہ ایک کہانی ہے جو میں نے بچپن میں پڑھی یا سنی تھی۔ یہ کہانے مجھے آج تک یاد ہے اور اس کہانی نے میری زندگی کو سنوارنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔آج  اس کہانی کو میں اپنے انداز سے میں نے آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔اس کہانی کو سنا کر میں آپ کو چارباتیں سمجھانا چاہتا ہوں۔پہلی بات یہ کہ انسان دنیا میں عمل کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔انسان کو اپنی زندگی میں زیادہ سے زیادہ عمل کرنا چاہئے۔انسان کا عمل ہی اُس کا اصل سرمایہ ہے۔انسان کا عمل ہی دنیا میں بھی اُس کو سرخرو بناتا ہے اور آخرت میں بھی اُس کو سرفراز کرے گا۔جن لوگوں کے پاس عمل کی دولت نہیں ہوتی ہے وہ مفلس ہوتے ہیں۔ 
    جو نوجوان بھی نوکری کے لئے انٹرویو دینے جاتا ہے کہ اُس سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ جس کام کے لئے آئے ہیں کیا اُس کا کوئی تجربہ ہے آپ کو ؟  کیا پہلے آپ نے یہ کام کیا ہے ؟  یعنی جس کام کو آپ کرنا چاہتے ہیں اُس کو آپ نے پہلے سیکھا ہے اور اُس کو اچھے طریقے سے کرنا جانتے ہیں ؟  نوجوان جواب دیتا ہے، جناب آپ کام دیں گے تب تو میں کام سیکھوں گا اور مجھے کام کا تجربہ ہوگا۔ اُس نوجوان کو جواب ملتا ہے، ہم نے کام سکھانے کا ادارہ نہیں کھولا ہے۔ ہم کام کر رہے ہیں، ہمیں کام کرنے والا تجربہ کار آدمی چاہئے۔مطلب یہ نکلا کہ دنیا کو کام کرنے والے تجربہ کار آدمی کی ضرورت ہے۔سیکھنے والے ناتجربہ کار آدمی کی نہیں۔کیا آج کا ہر نوجوان اس سچائی کو جانتا ہے اور وہ اس طرح تیاری کر رہا ہے ؟
    تیسری بات یہ کہ انسان عمل دو مقصد کے لئے کرتا ہے۔ ایک عمل کا مقصد اپنی ذات کو فائدہ پہنچانا ہوتا ہے اور دوسرے عمل کا مقصد دوسروں کو فائدہ پہنچانا ہوتا ہے۔جو عمل اپنے لئے کیاجاتا ہے اُس کی عمر بہت کم ہوتی ہے اور اُس کا اثر اور فائدہ بھی بہت محدود ہوتا ہے۔لیکن جو عمل دوسروں کے لئے کیاجاتا ہے اُس کی عمر زیادہ طویل ہوتی ہے اور اُس کا اثر اور فائدہ بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔
    ایک آدمی نے نوکری کی۔ زندگی بھر روپے کماتارہا، اپنی ضرورتیں پوری کرتا رہا اور مر گیا۔اُس نے اپنی کوئی یادگار نہیں چھوڑی۔ اُس کی موت کے ساتھ اُس کی کہانی ختم ہو گئی۔لیکن ایک آدمی نے نوکری کی جگہ ایک فیکٹری لگائی یا ایک کاروبار شروع کیا۔اس طرح اُس نے اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی روزی روٹی کا بھی انتظام کیا۔اُس کی فیکٹری یا کاروبار اُس کے مرنے کے بعد بھی اُس کے نام کی یاد لوگوں کو دلاتا رہا۔اور لوگ اُس آدمی کو اچھے نام سے یاد کرتے رہے۔اسی کو کہتے ہیں مر کر امر ہو جانا۔

مضمون  نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا