English   /   Kannada   /   Nawayathi

احساس ذمہ داری اور جواب دہی سے ہی بگاڑ دورکیا جاسکتا ہے

share with us


سراج الدین ندویؔ
چیرمین ملت اکیڈمی۔بجنور


آج ملک کے حالات بد سے بدتر ہیں۔ہر طرف افرا تفری ہے۔کرپشن اپنے عروج پر ہے۔پورا ملک مالی بحران کا شکار ہے۔بے روزگاری اور مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔دوسری طرف معاشی استحصال اورسیاسی عدم استحکام اپنے عروج پر ہے۔پورا ملک اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوچکا ہے۔اخلاقیات کا ہر پہلو نہایت افسوسناک ہے۔فحاشی اور عریانیت کے دیو ننگا ناچ ناچ رہے ہیں۔ظھر الفساد فی البر والبحر کے منظر نے ہر انسان کو بے چین کررکھا ہے۔
جب ہم انگریزوں کے غلام تھے تو یہ کہا جاتا تھا کہ کرپشن اور بگاڑ کی اصل وجہ غلامی ہے۔جب ہم آزاد ہوجائیں گے،جب ہم اپنی پسند کا قانون بنائیں گے،اپنی مرضی سے ملک کا نظام چلائیں گے توکرپشن اپنی موت آپ مرجائے گا۔لیکن جب آزادی کا سورج طلوع ہوا توہم نے دیکھا کہ پنجاب سے لے کر کلکتہ تک خون کی ندیاں بہہ گئیں۔لاکھوں انسانوں کو تہہ تیغ کردیا گیا۔کتنے بچے یتیم ہوکر رہ گئے۔لوگ غلامی کے دور کو یاد کرنے لگے اور کہنے لگے کہ اس آزادی سے تو غلامی کا دور بہترتھا۔
بعض دانشوروں نے کہا کہ ہم اس لیے بگاڑ کا شکار ہیں کہ ہماری قوم جاہل ہے۔لوگ ان پڑھ ہیں جب تعلیم عام ہوجائے گی لوگوں کو شعور وآگہی حاصل ہوگی  تو کرپشن دور ہوجائے گا۔ملک بھی ترقی کرے گا اور فرد کی بھی ترقی ہوگی۔چنانچہ ہر جگہ اسکول کھولے گئے۔کالجیز کی بنیاد ڈالی گئی،یونیورسٹیاں بنائی گئیں،بہتر سے بہتر نصاب تعلیم تیار کرنے کی کوشش کی گئی۔کمیشن پر کمیشن بٹھائے گئے۔ماہر ین تعلیم تیار کیے گئے۔اساتذہ کی تربیت کی گئی۔لیکن ہم نے دیکھا کہ تعلیم جیسے جیسے بڑھتی گئی بگاڑ عام ہوتا گیا۔ان پڑھ غبن اور گھوٹالے نہیں کرتے تھے۔مجھے اہل علم معاف فرمائیں کہ یہ بڑے بڑے گھوٹالے،سرکاری اسکیموں کو چونا لگانا،سازشیں کرکے خرد برد کرنا یہ تمام کام تعلیم یافتہ لوگ کرتے ہیں۔اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ محض تعلیم سے کرپشن کو دور نہیں کیا جاسکتا۔
بعض لوگوں نے کہا کہ ہمارے لوگ اس لیے کرپٹ ہیں کہ یہاں غربت ہے۔غربت کی وجہ سے بگاڑ اور فساد پایا جاتا ہے۔اگر غربت دور ہوگی،خوش حالی آئے گی،لوگ آسودہ حال ہوں گے،ملک خود کفیل ہوجائے گا،تو لوگ کرپشن کرنا چھوڑ دیں گے۔چنانچہ اس کے لیے بڑے بڑے کارخانے لگائے گئے۔ملیں اور فیکٹریاں کھلیں،بیرونی کمپنیوں کے لیے ملک کے دروازے کھولے گئے،بینکنگ کا جال بچھا دیا گیا،کاروبار کے لیے بڑے بڑے قرضے دیے گئے۔بہت سی سرکاری اور نیم سرکاری معاشی اسکیمیں نافذ کی گئیں لیکن ہم نے دیکھا کہ جیسے جیسے ملک میں پیسہ آیا اور لوگوں میں خوش حالی آئی تو کرپشن مزید بڑھ گیا۔مجھے اہل ثروت معاف کریں اور یہ کہنے کی اجازت دیں کہ کرپشن اور بگاڑ غریبوں کے مقابلے میں اہل ثروت کے یہاں  زیادہ پایا جاتا ہے۔معلوم ہوا کہ کثرت مال اور دولت سے بھی کرپشن دور نہیں ہوسکتا بلکہ مال کی کثرت بگاڑ میں اضافہ کرتی ہے۔
بعض لوگوں نے کہا کہ بگاڑ کی وجہ یہ ہے کہ ایک پارٹی بہت دنوں سے اقتدار میں ہے۔اس کے فیصلے ملک کو ترقی نہیں کرنے دے رہے ہیں۔ایک خاندان کی حکومت پورے ملک میں نافذ ہے۔چنانچہ دوسری پارٹیوں کو اقتدار دیا گیا۔جنتا پارٹی حکومت میں آئی،لیکن جلد ہی کانگریس دوبارہ آگئی۔پھر بے جے پی اور جنتا دل کا تجربہ کیا گیا۔لیکن ملک میں کرپشن بڑھتا ہی گیا۔بڑے بڑے اسکینڈل سامنے آئے،بوفورس،رافیل،تابوت،چارہ گھوٹالوں سے لے کر نوے ہزار کروڑ سے زیادہ کے بینک گھوٹالے ہوئے،کتنے ہی سرمایہ دار لاکھوں کروڑ روپے لے کر ملک سے فرار ہوگئے۔بجائے اس کے کہ ملک میں شانتی،سکون،اطمینان کی فضاہوتی خوف،دہشت،انتشار، افتراق،نفرت اور عصبیت بڑھ گئی،لوگ تنہا سفر کرنے میں ڈرنے لگے۔لوگوں کے کھانے پینے پر پابندیاں لگائی گئیں،لوگوں کو کپڑوں سے پہچاننے کی بات کہی گئی،ایک فرقے کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیااور پورے ملک میں پیار محبت کی بجائے نفرت کی آگ بھڑکنے لگی اور ہمارا ملک جو امن وشانتی کے لیے پوری دنیا میں پہچانا جاتا تھا وہ ظلم اور عصبیت کے لیے پہچانا جانے لگا۔یہاں تک کہ حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیموں نے ملک کے بارے میں شرمناک اور افسوس ناک رپورٹیں شائع کیں۔ان کی رائے ہے کہ بھارت میں حقوق انسانی کو پامال کیا جارہا ہے اور ایک فرقے کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
کبھی کبھی یہ بات بھی کہی گئی کہ اگر انفرادی ملکیت کے بجائے قومی ملکیت کا نظام ملک میں نافذ ہوجائے تو کرپشن دور کیا جاسکتا ہے۔چناچہ ہم نے دیکھا کہ کمپنیاں اور تجارتی اداروں کا نیشنلائزیشن کیا گیا۔بہت سے بینکوں کو قومیایا گیا ایک طرح سے نصف اشتراکی نظام ملک میں نافذ کیا گیا لیکن ہم نے یہ بھی دیکھا کہ اس کے نتائج مزید بگاڑ کی شکل میں نمودار ہوئے۔اس کے بعد یہ آواز اٹھی کہ پرائیوٹائزیشن ملک کے لئے سود مند ہے،بجائے اس کے کہ قومی ادارے ہوں ان اداروں کو انفرادی ہاتھوں میں دے دیں تو خوش حالی آجائے گی۔چنانچہ کمپنیان اور تجارتی ادارے بیچے جانے لگے۔حکومت نے سرکاری املاک کو پرائیوٹ ہاتھوں میں دے دیا۔لیکن ا س کا انجام اور زیادہ خطرناک شکل میں نظر آرہا ہے۔ملک دیوالیہ ہوتا جارہا ہے۔ملازمین کی تعداد کم کی جارہی ہے۔تنخواہیں نہیں مل رہی ہیں،نئی بھرتیوں پر روک لگی ہوئی ہے۔یہ وہ صورت حال ہے جو بہت دھماکہ خیز ہے۔اب بہت سے تجربات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ محض نظام چلانے والے ہاتھوں کے بدلنے سے کوئی تبدیلی متوقع نہیں ہے۔
میں سمجھتا ہوں اور میرا اس پر یقین ہے کہ معاشرے میں اگر انفرادی اور اجتماعی ہر دو سطح پر احساس ذمہ داری پیدا ہوجائے۔اور لوگ یہ سمجھنے لگیں کہ ہمیں اپنے سے بالا تر ہستی کو جواب دینا ہے۔وہ یہ یقین کرنے لگیں کہ ہم میں سے ہر فرد کو اپنے ایشور اور خداکے سامنے حاضر ہوکر اپنے کرموں کا حسا ب دینا ہے۔جب ہر بھارت کے باشندے کے اندر اپنے خدا کے سامنے جواب دہی کا احساس پیدا ہوجائے گااور ہر فرد کی اصلاح ہوجائے گی تو اجتماعی ادارے اور ریاست بھی صحیح کام انجام دینے لگیں گے 
     اصل بگاڑ یہ ہے کہ انسان کے اندر سے ذمہ داری اور جواب دہی کا احساس ختم ہوگیا ہے۔وہ خدا کے سامنے جواب دینے کے بارے میں نہیں سوچتا بلکہ ہر انسان کے سامنے اس کی دنیا ہے وہ زیادہ سے زیادہ دولت کمانا چاہتا ہے۔دولت کی اس ہوس نے اسے خود غرض،لالچی اور حرص کا بندہ بنادیا ہے۔دولت کی چکا چوندھ نے انسان کو جانور سے بھی بدتر بنادیا ہے۔ اگر ہر انسان دوسروں کے حقوق ادا کرے خواہ اس کو اپنا حق ملے یا نہ ملے،کیوں کہ اسے اپنے خالق کو دوسروں کے حقوق کے بارے میں جواب دینا ہے۔اگر ہر انسان میں جواب دہی کا یہ تصور جاگزیں ہوجائے تو کرپشن اور بگاڑ دور ہوسکتا ہے۔
 جو لوگ جرم کرتے ہیں،جو قانون شکنی کے مرتکب ہوتے ہیں ان پر قانون کا شکنجہ جرم کرنے کے بعد کسا جاتا ہے،قانون جرم ہوجانے کے بعد حرکت میں آتا ہے۔مثال کے طور پر جب چور ی ہوجائے اور پولس کو اطلاع دی جائے تب قانون اپنا کام کرنے کے لیے بڑھتا ہے جب کسی کی آبرو لٹ جائے تب قانون مجرم کو تلاش کرتا ہے۔لیکن مذہب انسان کو جرم کرنے سے پہلے ٹوکتا اور روکتا ہے۔وہ جرم کو سرزد نہیں ہونے دیتا۔خدا کے سامنے جواب دہی کا احساس اسے جرم سے باز رکھتا ہے۔دنیا کے تمام قوانین جرم کے بعد کچھ کرسکتے ہیں۔صرف خدا کا قانون ہی ہے جو جرم ہونے سے پہلے مجرم کے پاؤں میں خدا کے سامنے حاضر ہونے اورجھنم میں جلائے جانے کی بیڑیاں پہناتا ہے۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس پر تاریخ گواہ ہے۔اگر تاریخ کا سچائی اور ایمان داری سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات کھل کر صاف ہوجائے گی کہ خدا کے قانون نے اس معاشرے میں ایک انقلاب برپا کردیا تھا جہاں برائیاں اور جرائم اپنی انتہا کو پہنچے ہوئے تھے۔جہاں چوری،ڈکیتی،لوٹ مار لوگوں کا محبوب مشغلہ تھا،جہاں جوئے،سٹے اور شراب کے مقابلے ہوتے تھے،جہاں لڑکیوں کو زندہ دفن کردیا جاتا تھا،جہاں انسان بیچے جاتے تھے۔لیکن جب اس قوم میں احساس جواب دہی پیدا ہوگیا۔جب وہ قوم خدا کے سامنے کھڑے ہونے سے کانپنے لگی تب وہ قوم اور اس کے ذریعے قائم ہونے والی ریاست،امن و سکون،عدل و انصاف کا گہوارہ بن گئی،ایک عورت صنعاء سے حضر موت تک سونے چاندی کے زیورات پہنے چلی جاتی تھی اور اسے خدا کے سوا کسی کا ڈر نہیں  ہوتا تھا۔ تاریخ کی آنکھوں نے وہ منظر بھی دیکھا جب شراب اور جوئے کے دلدادہ اسے روکنے والے بن گئے،جب عصمتوں کو لوٹنے والے خواتین کے محافظ بن گئے،اونٹ اور بکریوں کے چرواہے دنیا کے امام بن گئے۔اگر آج بھی ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک اور ساری دنیا امن و سکون کا گہوارہ بنے،یہاں عدل و انصاف کے پھول کھلیں،یہاں امن و شانتی کی فضا قائم ہو،پیار و محبت کے گنگ و جمن بہیں تو ہر شخص کو اپنے اندر احساس ذمہ داری اور خدا کے سامنے جواب دہی کے تصور کو جاگزیں کرنا ہوگا۔

مضمون نگار ماہنامہ اچھا ساتھی کے مدیر اور ملت اکیڈمی بجنور کے چیرمین ہیں۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا