English   /   Kannada   /   Nawayathi

بلڈوزر(کہانی) 

share with us


ممتاز عالم رضوی 
    نیلے آسمان کے نیچے۔سرسبز وشاداب فرش کے درمیان، پنور والی پیلی مٹی کا بنا میرا گھر سونے کی مانند چمک رہا تھا۔ملی جلی آبادی والا میرا گاؤں بہت خوشحال تھا۔گاؤں کے مشرقی حصہ میں واقع میرا گھر کافی کشادہ تھا۔گھر کے باہر ایک بڑا سا میدان تھا۔گھر کی پشت پر بھی کافی جگہ تھی جہاں پیڑ پودے لہلہا رہے تھے۔گھر کے باہردروازے پر ایک بیٹھنے کی جگہ تھی جہاں مرد حضرات بیٹھا کرتے تھے۔ اس کو گاؤں کی زبان میں بیٹھکا کہا جاتا تھا۔اس کے درمیان صدر دروازہ تھا۔گھر میں داخل ہوتے ہی داہنی جانب ایک کمرہ تھا۔اس کے بعد ایک دالان تھا۔دالان کی پشت پر تین دروں والا بڑا کمرا تھا۔کمرے کے بغل میں ایک کوٹھری تھی جہاں گھر کا سارا سامانا رکھا جاتا تھا۔ کمرے اور کوٹھری پر مٹی کی چھت تھی۔دالان پر کھپریلا پڑا ہوا تھا۔کھپریلا کو محبت باندھ کر روکا گیا تھا۔در اصل کھپریلے کے لب کو یعنی ابتدائی حصہ کو محبت کہتے تھے جس میں کھپریلے کو باندھا جاتا تھا پھر اس کے بعد اس پر ایک کے بعد ایک کھپریلے رکھے جاتے تھے اور اس طرح کھپریلے کی چھت تیار ہو جاتی تھی۔اس کے لیے ایک خاص کایگر ہوتا تھا۔دالان کے سامنے آگن تھا۔آگن کے ارد گرد بھی کمرے تھے۔ آنگن میں ایک نیم کا پیڑ اور دو تین امرود کے پیڑ تھے۔ ان پیڑوں پر گوریا سمیت طرح طرح کی چڑیاں چہچہاتی تھیں۔امی چڑیوں کے لیے دانا اور پانی کا انتظام بھی کر دیتی تھیں۔امی کو دیکھ کر اکثر چڑیاں ان کو گھیر لیتی تھیں۔جب تک وہ دانا ڈال نہیں دیتی تھیں، چڑیاں بچوں کی طرح ان کو گھیرے رہتی تھیں۔ جب امی دانا ڈالتی تھیں تو کئی مرتبہ بڑی چڑیاں چھوٹی چڑیوں کو مار کر بھگا دیتی تھیں اور خود پورے دانے پر قبضہ کر لیتی تھیں۔امی کو یہ دیکھ کر بہت غصہ آتا تھا۔وہ بہت چلاتی تھیں کہ یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔ اپنا حصہ لو اور دوسروں کا حصہ چھوڑ دو۔چڑیوں کی طرح گاؤ ں کے چھوٹے بچے بھی امی کی جان کھائے رہتے تھے۔امی ان کے لیے بھی کچھ نہ کچھ کھانے کا انتظام کرتی تھیں۔وہ اپنے اس عمل کے لیے کافی مشہور تھیں۔
    امی کو گوریا بہت پسند تھی۔ دوانچ کی چھوٹی سی گوریا کی چھوٹی سی چونچ،روئی کے گالے کی مانند ملائم اس کے پر، چھوٹی چھوٹی جگنوؤں کی طرح چمکتی اس کی آنکھیں،کوئل کی آواز سے بھی زیادہ دل کو چھو جانے والی اس کی چوں چوں، چیں چیں۔ گوریا جب اپنے چھوٹے چھوٹے قدموں سے آنگن میں پھدکتی اور کسی کی آہٹ سن کر فرررر سے اڑ تی تو امی اس کو دیکھتی رہ جاتی تھیں۔بلی اور کتے سے گوریا کو بہت ڈرلگتا تھا۔گوریا اس لیے بھی امی کی بہت چہیتی تھی کہ گھر میں ہی اس نے اپنا گھونسلا بنارکھا تھا۔ گھر کی دہلیز کے اوپری حصہ میں اس نے اپنا گھر بنایا ہوا تھا۔اس نے چھت کی دیوار میں ایسی جگہ کا انتخاب کیا تھا کہ جہاں کوئی خطرہ نہیں تھا۔نہ بلی کا اور نہ کتاکا،نہ سانپ اور کسی دوسرے جانور کا۔نہ ہی انسان اس کو آسانی سے چھو سکتا تھا۔ آہستا آہستا گوریا کا کنبہ بڑا ہوتا گیا۔ دیکھتے دیکھتے دہلیز میں ہی اس کے کئی گھر آباد ہو گئے تھے۔
     آنگن میں جب گوریا کئی کئی دن نظر نہیں آتی تھی تو امی سمجھ جاتی تھیں کہ اب وہ انڈوں پر بیٹھی ہے اور بہت جلد آنگن میں نئے مہمانوں کی آمد ہے۔جب گوریا خود دانا نہ کھاکر اپنے چونچ میں کچھ لیکر اڑتی تھی تو امی سمجھ جاتی تھیں کہ نئے مہمان آ گئے ہیں۔پھر گوریا چھت میں بنے اپنے گھونسلے کے باہر بیٹھ کر چوں چوں کرتی تو نئے مہمان اندر سے چیں چیں کرتے ہوئے برآمد ہوتے تھے۔پھر وہ اپنے بچوں کو داناکھلاتی تھی۔ امی یہ منظر حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتی رہتی تھیں۔ ہم بھی کئی بھائی بہن تھے۔ امی گوریا کی طرح ہی ہم لوگوں کو پال پوس رہی تھیں۔کئی مرتبہ مجھے امی بھی گوریا کی مانند معلوم ہوتی تھیں۔
    ایک واقعہ سناتا ہوں۔ امی کسی کام سے گھر کے باہر گئی ہوئی تھیں۔ ان کی غیر موجودگی میں میرے بڑے بھائی کو شرارت سوجھی۔انھوں نے میز پر کرسی لگائی اور گوریا کے بچوں کو پکڑلیا۔ گوریا بہت چیخی چلائی لیکن بڑے بھائی نے ایک نہ سنی۔بچوں کو گھونسلے سے باہر نکال لیا تھا۔بچے ڈرے سہمے تھے۔ گوریا اپنے بچوں کو بچانے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ امی کو پورے گھر میں تلاش کر رہی تھی تاکہ ان سے شکایت کر سکے۔ تھوڑی دیر بعد جب امی گھر تشریف لائیں تو گوریا چوں چوں کرتے ہوئے امی کے قریب پہنچی۔ ان سے اپنی شکایت درج کرائی اور پھر انھیں بڑے بھائی کے پاس لیکر گئی۔ امی نے دیکھا کہ بڑے بھائی کے ہاتھ میں گوریا کے چوزے ہیں۔ امی یہ دیکھ کر بہت ناراض ہوئیں۔انھوں نے بڑے بھائی کو ڈانٹ لگائی اور حکم دیا کہ جہاں سے بچوں کو نکالا ہے وہیں انھیں رکھ دو۔ یہ اچھی بات نہیں ہے۔ اللہ کی مخلوق کے ساتھ ایسا کروگے تو عذاب نازل ہوگا۔ بڑے بھائی کے پاس اب کوئی راستہ نہیں تھا۔ انھوں نے گوریا کے بچوں کو ان کے گھونسلے میں پہنچا دیاتھا۔جب بچے گونسلے میں پہنچ گئے تو گوریا بہت خوش ہوئی تھی۔وہ بچوں سے ملنے کے بعد پھر امی کے پاس گئی تھی۔ چوں چوں کرکے ایک طرح سے شکریہ ادا کیا تھا۔امی نے بھی پیار کیا اور پھر گوریا اڑ گئی تھی۔
    وقت گزرتا گیا۔ ہم لوگ بھی بڑے ہوتے گئے۔ بہنوں کی شادیاں ہو گئی تھیں۔بڑے بھائی کی بھی شادی ہو گئی تھی۔ گھر بچوں سے آباد تھا۔حالات بھی اب بدل رہے تھے۔گاؤں کے کچے مکان اب آہستہ آہستہ پکے ہونے لگے تھے۔صاحب حیثیت لوگ اپنے پیسوں سے پکے مکانات تعمیر کرا رہے تھے۔زندگی تیزی سے بدل رہی تھی۔نیلا آسمان آلودگی سے چھپا جا رہا تھا۔ امی بھی اب کافی کمزور ہو گئی تھیں۔بڑی مشکل سے اب وہ چڑیوں کو دانا پانی دے پاتی تھیں۔تعلیم مکمل کرکے کام کی تلاش میں ہم لوگ بھی شہر آ گئے تھے۔ امی کی صحت کو دیکھتے ہوئے انھیں بھی شہر آنے کے لیے کہا تھا۔پہلے وہ تیار نہیں ہو رہی تھیں لیکن جب وہ بہت کمزور ہو گئیں تو بڑے بھائی نے کسی کی بات نہیں سنی اور انھیں شہر لے آئے تھے۔ امی کا شہر میں بالکل دل نہیں لگ رہا تھا۔ ان کی نظریں گاؤں کے کچے مکان کی دیواریں، گھر کا آنگن، نیم کا پیڑ، گوریا کا گھونسلا، پرندوں کی چہچہاہٹ تلاش کر رہی تھیں۔وہ دبے لفظوں میں اپنی فکر مندی کااظہار کرتی تھیں۔ وہ کہتی تھیں پیڑوں کا کیا ہوگا؟ چڑیوں کا کیا ہوگا؟ جوبچے آتے ہیں وہ گھر پر تالا دیکھ کر لوٹ جائیں گے۔ مجھے گھر پہنچا دو، جو بھی چند روز کی زندگی ہے وہیں گزر جائے تو بہتر ہے۔ پھر ایک روز شہر سے امی کی لاش آئی۔گاؤں کا بند گھر کھولا گیا تھا۔ جالے صاف کیے گئے تھے۔ گوریا شور سن کر گھونسلے سے نکلی اور اڑ کر نیم کے پیڑ پر بیٹھ گئی تھی۔ اس کی نظریں امی کو تلاش کر رہی تھیں۔ امی کا جنازہ نیم کے پیڑ کے نیچے رکھ دیا گیا تھا۔ ابھی منہ بھی نہیں کھولا گیا تھا لیکن نہ جانے کیسے گوریا سمجھ گئی تھی۔وہ اڑکر امی کے جنازے پر بیٹھ گئی تھی۔ تھوڑی دیر بیٹھی رہی۔پھر وہ اڑ کر اپنے گھونسلے میں چلی گئی تھی۔امی منوٹن مٹی کے نیچے چلی گئیں۔ہم سب پھر شہر لوٹ آئے تھے۔
    اس بار جب ہم سب شہر آئے تو گاؤں سے ایک منصوبہ لیکر لوٹے تھے۔ منصوبہ یہ تھا کہ جب شہر میں رہنا ہے تو گاؤں کا گھر فروخت کیوں نہ کر دیا جائے؟مشورے کے بعد گھر کو فروخت کر دیا گیا۔پھر ایک روز خبر آئی کہ کچا مکان اب پکا بننے جا رہا ہے۔میری خواہش ہوئی کہ کیوں نہ آخری بار اس کی زیارت کر لی جائے۔ جب میں گاؤں پہنچا تو دیکھا کہ گھر پر بلڈوزر چلایا جا رہا ہے۔یہ منظر دیکھا نہیں گیا تو میں امی کی قبر پر آ گیا تھا۔میں امی کی قبر پر بیٹھا فاتحہ پڑھ رہا تھا تبھی میری نظر امی کے قبر کے سرہانے پر گئی۔دیکھا تو گوریا بیٹھی تھی۔وہ میری طرف دیکھتی اور پھر قبرپر ننہی سی چونچ رکھ کر چوں چوں، چیں چیں کرتی۔ میری آنکھوں سے آنسو ٹپک ٹپک کر قبر کی مٹی میں جذب ہو رہے تھے۔پھر اچانک گوریا فر سے اڑ گئی تھی۔میری نظریں اس کا تعاقب کر رہی تھیں۔
    میں ابھی قبر پر ہی بیٹھا تھا کہ موبائل کی گھنٹی بج اٹھی۔جب میں نے کال ریسیو کی تو پیر کے نیچے سے زمین نکل گئی تھی۔شہر میں اچانک پھر فساد ہو گیا تھا۔ فساد میں بڑے بھائی کو فساد کا ماسٹر مائنڈ کہہ کر گرفتار کر لیا گیا تھا اوراب بھائی کے گھر پر حکومت کے اشارے پر بلڈوزر چلایا جا رہا تھا۔میری نظریں اب بھی بے گھر گوریا کا تعاقب کر رہی تھیں۔
تمام شد 

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا