English   /   Kannada   /   Nawayathi

فلک بوس عمارتوں کے سایہ میں : بقلم انصارعزیز ندوی

share with us

یہاں وفاؤں کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں کا لطف آپ کو نہیں ملے گا، خوشگوار موسم کے باوجود اپنوں سے جدائی کا غم کھائے ہوئے بجھے بجھے سے چہرے قدم قدم پر آپ کا استقبال کریں گے۔اس کا نام دور سے سننے میں اچھا ہے قریب جاکر نظارہ کرنے میں بھی لطف آتاہے، مگر وعدے ، انتظار ، اور جدائی کے پھول بھی یہاں کثرت سے ملتے ہیں، یہاں کے لوگوں کا پیشہ مصروف رہناہے، لوگوں میں قانون کی پاسداری کا اتنا خوف ہے کہ قانون کے توڑنے پر لگتا ہے طوفان بپا ہوگا۔سلیقے سے سنوارا گیا یہ شہر درد و غم کی گھٹا ٹوپ اندھیرے میں سانس لے رہاہے۔ چہار سو روشنی ہے ، چوبیس گھنٹے لوگوں کی ایسی بھیڑ کہ جہاں بھی نظر دوڑاؤلگتاہے سارے شہر کے لوگ یہیں جمع ہیں۔
جی ہاں اس شہر سے میرا بھی گذرنا ہوا،اپنے شہر سے نکلا تو ذہن میں کوئی خاص تصویر نہیں تھی، بھلا ایسے شہر کی تصویر خیالات میں لاکر کیا فائدہ جس کے دیدار سے ثواب کی اُمید نہ ہو۔ گوا کے ہوائی اڈہ سے اُڑان بھرنے والے طیارہ میں بیٹھا بلندی سے نیچے کی جانب جھانکا تو چہار سو قدرت کی نشانیاں نظر آرہی تھیں، زمین سے جسے میں آسمان سمجھ رہا تھا وہ تو بادل کے ٹکڑ ے نکلے جو تاحدِ نگاہ پھیلے ہوئے تھے،اور اچانک قرآن کی آیت ’’فبأی آلاء ربکماتکذبان‘‘ کامفہوم ذہن میں گردش کرنے لگا۔طیارے کے پائلٹ نے اعلان کیا تھا کہ دبئی پہنچنے میں پورے تین گھنٹے لگیں گے، آپ سکون کے ساتھ اپنے اپنے سیٹوں سے چپکے رہیں۔ میں نے نظر دوڑایا، کہ عرب ملک کی جانب اُڑان بھر رہے اس طیارے میں ایک تو عرب باشندہ نظر آئے ، مگر میری یہ آرزو پوری نہ ہوئی، اور طیارے میں بیٹھے لوگوں کی طرف دیکھا تویہ فیصلہ کرنے میں رتی برابر دیر نہیں لگی کہ واقعی ہندوستان میں بے روزگاری کے مواقع بہت ہی کم ہیں۔
صبح تڑکے دبئی کے وقت کے مطابق قریب سات بجے پائلٹ نے صبح بخیر کے اعلان کے ساتھ طیارے کو لینڈنگ کرنے کی اطلاع دی،اور میں کچھ اپنے شہر کے ہم سفر ساتھیوں کے ساتھ شارجہ ایرپورٹ کے اُس قطار میں کھڑا ہوگیا جہاں اس ملک کے کچھ قوانین پر عمل پیرا ہونا ضرور ی تھا۔لگ بھگ ایک گھنٹے کے طویل قانونی کارروائی کے بعد میں باہر آیا جو دعائیں یا د تھیں اس کاورد کرنے لگا.  اچانک میرے مشفق و مہرباں میزبان فکروخبر کے ایڈیٹر انچیف مولانا ہاشم نظام ندویؔ کے فرزندان ابوالحسن اور محمد عماد دوڑتے ہوئے بغل گیر ہوئے تھے کہ پیچھے سے مولانا موصوف نے اپنے دیڑھ سالہ پیاری سی بچی بریرہ کے ساتھ سلامتی کی دعا لئے میرا والہانہ خیرمقدم کیا۔ 
خیر خیریت اور ہلکی سی گفت وشنید کے بعد مولانا نے پارکنگ سے کار نکالی اور پھر یوں شارجہ ایرپورٹ سے مولانا موصوف کی کار سائیں سائیں کرتے دبئی کے القصیص نامی علاقے کی جانب چلدی جہاں مولانا موصوف کا گھر تھا۔کار میں مولانا کے ساتھ گفتگو جاری تھی ، مولانا کے فرزندان کے سوالات کا وقفہ وقفہ سے جواب دیتے ہوئے میں صاف و شفا ف کشادہ راستوں کے اطراف پھیلے تاحد نگاہ فلک بوز عمارتوں کو دیکھ رہا تھا ، اور آسمان سے باتیں کرتی یہ عمارتیں اور سڑکوں کے بیچوں بیچ خوبصورتی کو دوبالا کرنے کے لئے لگائے گئے پیڑو پودے میرے ذہن میں کئی سارے سوالات چھوڑ گئے، اور یہ سوالات ہر بار اُبھر کر سامنے آنے لگے جب بھی مولانا کے ساتھ باہر سیر وتفریح کے لیے نکلتا۔ 
وہ سوالات کیا ہیں؟
میں نے کوشش کی ہے کہ اپنے مشاہدوں کو ہلکے پھلکے انداز میں پیش کیا جائے ،سفر وہ کامیاب ہوتا ہے جو پوری بیداری کے ساتھ بصارت اور بصیرت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اُن مناظر کو عبرت کے طور پر قارئین کے سامنے پیش کیا جائے۔ ممکن ہے خطا ہوجائے ، مگر اسی میں تو سبق ہے ؟ اس شہر میں اپنوں سے ملنا ہوا، ساتھیوں سے بیٹھ کر بات کرنے کا موقع ملا، دیارِ غیر میں صبح و شام مزدور ی کرنے والوں کے درد کو سمجھنے کا موقع ملا، میری ہر ملاقات ایک مضمون کو ساتھ لئے ہوئے تھی، فی الحال آنکھیں بند ہوئی جارہی ہیں۔ دن بھر کے اداراتی کاموں کے بعد یہ کچھ ٹوٹی پھوٹی تحریر لکھنے بیٹھ گیا تھا۔سفر کے کچھ اور کھٹاس بھری باتوں کے ساتھ جلد ہی حاضر ہوں گا۔ اجازت دیں اور اگلی قسط کا انتظار کریں۔

dubai jurney fatima maulana hashim nadwi ansar azeez nadwi2

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا