English   /   Kannada   /   Nawayathi

کنڑا سورنا نیوز کے اسپیشل اسٹوری FIR(ایف آئی آر) میں بھٹکل کے سلسلہ میں کیا کہا گیا؟؟

share with us

ہندوستان کے 18مطلوب ترین (Most wanted) دہشت گردوں میں سے ایک دہشت گرد یٰسین بھٹکل کا یہ گھر ہے۔ گھر کہنے کے بجائے اس کو بنگلہ کہنا ہی صحیح ہے۔سات آٹھ سال پہلے بھٹکل کے نوائط مسلم کے لوگ یہاں جمع ہوکر سکھ دکھ کے باتیں کیا کرتے تھے۔قوم کے چھوٹے موٹے مسائل حل کرلیا کرتے تھے،راضی پنچایت کی مجلسیں بھی ہوا کرتی تھیں۔یہ بنگلہ ہندو اور مسلمان دونوں قوموں کی جانب سے عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔محمد ضرار سدی باپا ہوں یا ان کے بھائی یعقوب سدی باپا راستے میں ان کو سلام کئے بنا کوئی آگے نہیں بڑھتا تھا۔اب تو جان پہچان والوں کی دور کی بات خود رشتہ دار بھی یہاں جھانک کر نہیں دیکھتے۔ان کے گھر جانے پر جاسوی نگاہوں کے پیچھا کرنے کا خدشہ۔یہاں ہم جیسے لوگ ہی آتے ہیں۔بدقسمتی یہ ہے کہ گھر میں داخل ہوتے ہی محسوس ہوتا ہے کہ پورا گھراوڑھنے میں دب کر سونے کی طرح نظر آتا ہے(دراصل یہ کنڑا محاورہ ہے، اس کا آسان ترجمہ ،سنسان یاسناٹا کرسکتے ہیں)یہاں اس طرح بغیر اطلاع کے آنے والے ٹی وی چینل پہلا بھی نہیں اور آخری بھی نہیں۔ مختلف جگہوں سے آنے والے پولس، نامہ نگار، صحافی،تحقیقی ایجنسیاں، ہر ایک کا ایک ہی سوال ، ’’ کیا آپ ہی یٰسین بھٹکل کے باپ ہیں‘‘
بیٹے کے کرتوت پر ان کے گھر والے کیا سز ابھگت رہے ہیں یہ اللہ ہی جانے۔۔اس گھر کے لڑکے کی وجہ سے ہندوستان میں 6بم دھماکے ہوئے ہیں،214افراد اپنی جان کھوبیٹھے ہیں۔اور پھر اپنے ہی الگ پہنچان کے شہر بھٹکل پر داغ لگ گیا۔
جی ہاں ضرور! وہ سب عدالت میں ثابت ہونا ہے،لیکن ایک چھوٹا لڑکا بھی یہ کہتا ہے کہ بغیر آگ کے دھواں کیسا؟؟
جب جواب نہیں بن پاتا تو یہ ضرار سدی باپا آنکھوں سے آنسو بہادیتے ہیں۔
(ضرار سدی باپا کا انٹرویو دکھایا گیا ہے)’’بھٹکل میں وہ بہت اچھا تھا،اپنے مطلب سے مطلب رکھتا تھا، تعلیم حاصل کرتا تھا،ایسی کوئی بات نہیں تھی،کبھی ہم نے ایسا محسوس نہیں کیا،بھٹکل سے باہر نہیں گیا‘‘۔
(پھر ٹی وی رپورٹر کی بات کا آغاز یہاں سے)اس طرح کچھ نہیں تھا، اس طرح کی بے مطلب اور پرانی باتوں سے ہی ان کے باتوں کا آغاز ہوتا ہے۔یہ باتیں جھوٹی بھی نہیں ہیں؟بچپن میں یہ بہت اچھا ہی تھا،ساتھ ہی شرمیلی طبیعت،اور پڑھائی میں چالاک نہیں تھا۔ انگلش میڈیم کی تعلیم دماغ میں نہیں گھس رہی تھی،ایس ایس ایل سی میں ناکام ہوا،اس کے بعد یہیں بھٹکل میں ہی قیام پذیر تھا۔بالآخراس کے والداسے اپنے ساتھ دبئی لے گئے۔
اس کے بعد ضرار سدی باپا کا انٹرویو دکھایا گیا ہے۔اچھا تھا، الگ تجارت کے لیے بات کرنے لگا، تو میں نے انکار کیا کیوں کہ دبئی میں الگ تجارت کا مطلب بہت خرچ ہوتا تھا، پھر خبرآئی کہ وہ کسی کے ساتھ مل کر تجارت کررہا ہے۔ میں خاموش رہا پھر اس کے بعد دیکھا گیا تو اس کی دکان بند تھی اور پھر وہ لاپتہ
(رپورٹر کا تبصرہ شروع )
وہی آخر، سات سال کے بعد اس کے باپ نے اس کو پولس گرفتار کرنے کے بعد دیکھا۔
گھر میں ایک ساتھ ماں باپ اور بھائی بہنوں کے ساتھ رہنے والے خاندان کو اس بات پر یقین نہ آئے،بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر یٰسین بھٹکل اور اس کے باپ کے درمیان ایک باپ اور بیٹے کا رشتہ ہوتا تو باپ اس بات کا پتہ ضرور لگاتا کہ وہ کہاں ہے اور اس کی غلطیوں پر سرزنش کرتا۔
بیٹے نے جب تجارت کی بات کی توباپ نے اس کو قبول نہیں کیا،باپ کی مرضی کے بنا اس کا بیٹا کسی پارٹنر کے ساتھ مل کرکوئی تجارت شروع کردیا۔ایک مہینے کے بعد وہ اچانک لاپتہ ہوگیا،پولس میں جب شکایت در ج کرنے گئے تو وہاں کہا گیا کہ آپ کے بیٹے کو کچھ نہیں ہوا، واپس آجائیگا، اس کو سن کر اس کے باپ بھی خاموش ہوگئے۔یہ جواب سننے کے بعد ، آپ کو نہیں لگتا کہ اگر ایک باپ اپنے فرائض کو انجام دیتا تو وہ ایک دہشت گرد کوجنم لینے سے روک پاتے۔؟؟
2007، شہر ممبئی میں ایک تاجر کے طور پر لاپتہ ہونے والا نوجوان اب نیپال بارڈر میں دہشت گرد کےروپ میں  گرفتار ہوا ہے, تو سوچئے بیچ کے 6سالوں میں اس نے کیا کیا ہوگا؟چھ سال کے اس وقفہ میں ہی اس کے اندر اس طرح کا بدلاؤ آیایا پھر ا س سے پہلے ہی اس کے اندر موجود بدلاؤ کو کسی نے محسوس نہیں کیا؟
2007میں یٰسین دبئی سے اچانک لاپتہ ہوجاتا ہے،دبئی میں صرف چیک بونس کے جرم میں پولس ملزم کو پکڑ کر واپس کردیتی ہے، جب یٰسین کے باپ شکایت درج کرنے گئے تو ان سے کہا گیا کہ اسی طرح کی کسی کیس میں آپ کا بیٹا فرار ہوگیا ہوگا،اس بات پر یقین کرتے ہوئے اس کاباپ واپس آگیا۔ 
دبئی میں کس پارٹنر کے ساتھ اس نے اپنی تجارت کا آغاز کیا یہ اس کے باپ کو بھی نہیں معلوم،ایک ہی مہینے میں دکان بند کرکے کہاں چلا گیا اس کابھی ان کو علم نہیں،دوسال کے بعدبم دھماکے کے پیچھے یٰسین بھٹکل کے ملوث ہونے کی خبر ٹی وی میں نشر ہوئی،مگر تصویر جو شائع ہوئی وہ ان کے بیٹے کی تھی۔
یٰسین کے باپ محمد ضرار کے کہنے کے مطابق انہوں نے اپنے بیٹے کی تصویر ایک بم دھماکے کے الزام میں ٹی وی میں دیکھا،گرفتار شدہ دہشت گردوں سے تحقیقا ت کے بعد تحقیقی ایجنسی کے افسران بھٹکل پہنچے ۔ان کے باپ کا ماننا ہے کہ اسکول سے ان کے بیٹے کی تصویر لی گئی۔ 
یٰسین بھٹکل کے نام سے ٹی وی میں نشر ہونے والی اپنے بیٹے کی تصویر دیکھ کر باپ پریشا ن ہوا۔اس کے بعد این آئی اے افسران جب گھرپہنچے تو پوری بات سامنے آئی۔دبئی میں لاپتہ ہونے والا ان کا بیٹا انڈین مجاہدین کے سرغنہ کے روپ میں ظاہر ہوا تھا۔مگر ابھی ان کا دل اس کو قبول نہیں کرتا۔
(ضرار سدی باپا انٹرویو) سوال: کیا آپ کو یقین ہے کہ اس طرح کرسکتا ہے۔
مجھے ابھی بھی یقین نہیں ہے کہ وہ اس طرح کرسکتا ہے۔ہمارے دھر م میں ایک بے گناہ انسان کو مارنا ساری انسانیت کو مارنا ہے،قرآن میں ہے، کسی نے ایک انسان کو بچادیا اس نے ساری انسانیت کو بچادیا۔ہمارا یقین اور ایمان ہے اس پر ہم ایسا نہیں کرسکتے۔ 
(رپورٹر کا تبصرہ ) ایک اچھا مسلمان اسلام کو اس طرح سمجھا، اور اس طرح گفتگو کررہا ہے۔مگر یہ بات ان کے بیٹے کے سلسلہ میں سچ ثابت نہیں ہوئی۔ایس ایس ایل سی فیل ہونے کے بعدوہ قرآن پڑھنے کے لیے جارہا ہے اس طرح سوچ کر یہ دبئی میں برسرِ روزگا ر تھے۔یہا ں انجینئرنگ کے دو طلباء کے سنگت میں دھرم(مذہب ) سے زیادہ دھرم یدھ (مذہبی جنگ) میں اس نے دلچسپی لی،اور پھر ریاض بھٹکل ، اور اقبال بھٹکل کے ساتھ گھل مل گیا۔افغانستان میں امریکہ کی جانب سے ہونے والے مظالم کا تذکرہ کرتے ہوئے گھومنے لگا۔بھٹکل کے بحرین بیچ میں اقبال اورریاض بھٹکل کی قیادت میں اجلاس منعقد ہونے لگے۔اس اجلاس میں 15سے 20تک نوجوان ہوا کرتے تھے، مگر اس اجلاس میں جب دہشت گردی کے سلسلہ میں چرچہ ہونے لگا تو کئی نوجوان آہستہ سے اپنی راہ لی۔ اب یہ لوگ جو بیتی کہانی ہے وہ سب کے پاس تذکرہ کرتے ہوئے آرام سے زندگی بسر کررہے ہیں ۔مگریٰسین کو یہ باتیں غلط نہیں لگی۔تقریباً اسی موقع پر اس کے والد اس کو لے کر دبئی چلے گئے۔ ان کے والدبھولے بھالے،یہ سمجھ رہے تھے کہ اپنے ساتھ ایک عام سے فرزند کو دبئی لے جارہے ہیں ،مگر ان کو علم نہیں تھا کہ وہ اپنے ساتھ ایک مذہبی نوجوان کو لے جارہے ہیں۔انٹلی جنس بیورو میں درج تحقیقات کے مطابق یٰسین دبئی جانے کے بعد وہاں القاعدہ کے کارکنان کے ساتھ مل گیا۔ اس بات سے ان کے والد ناراض ہوگئے،
(محمد ضرار سدی باپا انٹرویو ) سوال: سننے میں آیا ہے کہ آپ کا جھگڑا اپنے بیٹے سے اس بات کو لے کر ہوا تھا کہ وہ کچھ غلط لوگوں سے مل رہا تھا۔ 
جواب:’’ نہیں بالکل نہیں، وہاں سب اپنے کام دھندے سے مطلب رکھتے ہیں،جب وہ کسی آدمی سے ملتا تھا تو میں اس کو روک دیتا تھا، ڈانٹ دیتا تھا۔ وہ بہت شرمیلہ تھا ، اپنے کام سے کام رکھتا تھا،پھر پتہ نہیں کیا ہوگیا، سچ ہے جھوٹ ہے ، اس کے بارے میں ہمیں کچھ نہیں معلوم‘‘
اسی طرح، اپنا بیٹا کہاں ہے ، کیا کررہا ہے ، اس طرح اپنے فرائض سے کوتاہی کرنے کی وجہ سے باپ اب یہ مشکلیں اُٹھار ہاہے، اس طرح کوئی اور نہیں بلکہ یہاں کچھ نوائط مسلمان کے تنظیموں کے ذمہ دارن ہمارے سامنے اس بات کو بیان کیا۔
اب تک جو کہانی سنائی گئی وہ اس گھر کی کہانی تھی۔
ابھی اسی بھٹکل کے تنگن گنڈی روڈ پر اسی طرح کا ایک اور گھر ہے،وہاں بھی ایک بوڑھا ہے۔وہ یٰسین بھٹکل کے باپ سے زیادہ پریشان ہے۔ایک لڑکا نہیں بلکہ بلکہ دو دو بیٹے دہشت گردی کا کلنک لے کر ملک چھوڑ بیٹھے ہیں۔ان کے نام ریاض بھٹکل اور اقبال بھٹکل ہے ۔
اسی بھٹکل کے ایک چھوٹے سے گھر میں ایک بوڑھے ماں باپ،بھارت دیش، یہاں کی پولس ، یہاں کے قانون اور مذہبی تنظیموں کو بددعادیتے ہوئے ایک اندھیر کوٹھری میں بیٹھے ہیں,وہ ریاض بھٹکل اور اقبال بھٹکل کے والدین۔
بھارت کے مطلوب ترین دہشت گردوں کے سلسلہ میں کہا جائے تواحمد محمد سدی باپا عرف یٰسین بھٹکل کے ساتھ ریاض بھٹکل اور اقبال بھٹکلکا تذکرہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ممبئی کے چھوٹے مجرم کہلائے جانے والے یہ لوگ کس طرح دہشت گرد بنے ، یہ کہانی بھی بڑی لچکدار ہے،اگلے ایپی سوڈ میں اس کو بھی بیان کیا جائے گا۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا