English   /   Kannada   /   Nawayathi

قرآن ِ کریم کلام ِخداوندی اور معجزہ علمی 

share with us


   تحریر :  عطاء الرحمن القاسمی،شیموگہ
     صدر مدرسہ انصارالعلوم،بنگلور

    کسی بھی کلام کی عظمت و مقبولیت اور کلام کی وقعت وجامعےّت اس کے متکلم سے پیدا ہوتی ہے،جس درجہ کا متکلم یعنی کلام کرنے والا ہوگا اُسی درجہ میں کلام کی جامعےّت اور معنوےّت بھی ہمارے سامنے ہوگی۔تو کلام کرنے والا جتنا بڑا اور عظیم الشان ہوگا تو اُس کا کلام بھی اونچا اور با عظمت ہوگا،اگر کلام کرنے والا گھٹیا درجہ کا ہے تواُس کا کلام بھی اُسی طرح گھٹیا اور بے معنی ہوگااور اُس کی عظمت گھٹ جائے گی،کلام کی عظمت اور وقعت کے لئے طبعی طورپر چند چیزیں ضروری ہیں جن کی ذریعہ کلام مزید اعلیٰ اور بلند تر ہوجاتا ہے۔
    سب سے پہلی چیز علم اور خبر ہے، اگر کلام کرنے والا عالم اور با خبر ہے تو اُس کے کلا م میں بھی علم ہوگا اور اُس کی خبر سے اُس کے علم کی وسعت مزید واضح ہو جائے گی،تو پہلی چیز کلام کے لئے علم اور خبر ہے جو ضروری ہے،اس لئے کہ اگر جاہل آدمی کلام کرے تو اُس کے کلام سے وہی جاہلانہ کلمات اور جاہلانہ حرکات ظاہر ہونگی،لوگ پہچان جائیں گے کہ بولنے والا آدمی کوئی جاہل ہے جسے بولنے اور کلام کرنے کا طریقہ وڈھنگ معلوم ہی نہیں۔
    دوسری چیز فہم و دانش ہے، کہ کلام کرنے والے میں عقل و فہم دونوں ہوں،اگر کلام کرنے والا بے وقوف ہو فہم و فراست سے خالی ہو،علم و خبر ہونے کے باوجود بے وقوفی کی وجہ سے ایسے شخص کا کلام بھی بھدّا بن جاتا ہے،اس کی تاثیر بھی لوگوں کے دلوں میں نہیں اُترتی لہٰذا ایسا کلام بھی بیکار و بے سود ثابت ہوگا۔
    تیسری چیز منصب ومقام ہے،کہ کلام کرنے والا صاحب ِ منصب و صاحب ِ حیثیت ہو،اُس کی عرفی حیثیت اونچی ہوتو اُس کا کلام بھی اونچا ہوگا۔
    چوتھی چیز یہ ہے کہ اگر وہ کلام نقل ہوکر پہنچے تو اُس کی سند اور تاریخی حیثیت مضبوط ہو،اگر سند نہ ہو راوی صحیح نہ ہوتو ظاہر ہے ایسے کلام کا لوگوں تک پہنچنا بہت مشکل ہوجائے گا،بہر حال متکلم کے لئے یہ چار چیزیں ضروری ہیں۔اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو اللہ رب العزت کی ذات بہت بلند ہے،چونکہ اللہ کا علم لا محدود ہے،ساری کائنات اُس کے علم میں اور نظروں کے سامنے ہے،یہاں تک کہ چکنے پتھر پر چلتی ہوئی چیونٹی کی کھسکھساہٹ بھی سنتا ہے خود اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں کہا کہ ”وَاللّٰہُ عَلِےْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْر“ کہ اسے دلوں کی کھٹک کا بھی علم ہے۔
قرآ ن کی جامعیت:۔
    غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ کا علم لا محدود ہے اسلئے اُس کا کلام بھی ظاہر و باطن پر حکمران ہے اور اتنا جامع ہے کہ اس سے زیادہ جامعیت کسی اور کے کلام میں ہر گز نہیں ہوسکتی،اس کلام ِ خداوندی میں فصاحت بھی،بلاغت بھی،بداعت بھی،لطافت بھی،ندرت بھی،قدرت بھی،معنوےّت بھی،جامعیت بھی،وحدانیت بھی،ربّانیت بھی،لینت بھی،رحیمیت بھی،رحمانیت بھی،حاکمےّت بھی،آمرےّت بھی،ملوکیت بھی،بادشاہت بھی،سخاوت بھی،شجاعت بھی،معروفات بھی،منکرات بھی،مباحات بھی،ممنوعات بھی،حسنات بھی،سیئات بھی،حلّت بھی،حرمت بھی،ترغیب بھی،تعذیب بھی،تدبّر بھی،تفّکر بھی،تبشیر بھی،تنذیر بھی،اجتہاد بھی اور استنباط بھی تو یہ ساری صفات سے کلامِ خداوندی بھرا ہوا ہے چونکہ صاحب ِ کلا م ہی بے انتہا عظیم اور اعلیٰ صفات سے متصف ہے تو اُسی شان کا اُس کا کلام بھی ہے۔
کلام ِ خداوندی صرف قرآن ہے:۔
    اگر غور کیا جائے تو قرآن کریم کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ کلام ِ خداوندی ہے،حالانکہ آسمانی کتب تورات و انجیل اور زبور بھی ہیں ان کے علاوہ اور بھی آسمانی صحیفے ہیں لیکن ان تمام کو کلام ِ خداوندی نہیں کہا جائیگا،صر ف قرآن ِ کریم کو ہی کلام ِ خداوندی کہا گیا ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ کلام کہتے ہیں مَاےَتَکَلَّمُ بِہٖ ”یعنی کلام جس کا ہے وہ خود تکلم کرے“تو حقیقت میں اُسی کو کلام کہیں گے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود قرآنِ کریم میں تکلم فرمایا کہ ”نَتْلُوْ عَلَےْکَ مِنْ نَبَاءِ مُوْسیٰ “ اے محمد ؐ ہم تلاوت کرتے ہیں تم پر فرعون کے واقعہ کی،دوسری جگہ ارشاد فرمایا ”تِلْکَ آیاتُ اللّٰہِ نَتْلُو عَلَےْکَ بِالْحَق“یہ اللہ کی آیتیں ہم تلاوت کر رہے ہیں تمہارے سامنے۔حدیث میں آیا ہے کہ جب حق تعالیٰ کوئی آیت بھیجتے تھے توخود کلام فرماتے تو وہ کلام سب سے پہلے حضرت جبرئیل ؑ سنتے تھے اور اُس کی عظمت سے بے ہوش ہوجاتے تھے،دوسرے آسمان میں رہنے والے فرشتے بھی کلام کی عظمت سے مغلوب و مدہوش ہوجاتے،جب فرشتوں کو ہوش آتا تو ایک دوسرے کو پوچھتے تھے کہ ماذا قال ربنا؟ہمارے رب نے کیا فرمایا؟ تو جبرئیل ؑ جواب دیتے کہ قَالَ الحَقُّ وَھُو اَلعلُّی الکَبَےْر“تو صحیح معنی میں کلام وہ ہے جس کا تکلم کیا جائے اور وہ قرآن ِ کریم ہے یہی حقیقت میں کلام اللہ ہے۔دیگر آسمانی کتب مجازاً کلام ِ خداوندی ہیں نہ کہ حقیقت  میں۔
    قرآن کریم کی یہ بھی شان ہے کہ یہ فطرۃ ً محفوظ ہے۔چوں کہ کلام جب متکلم کی زبان سے نکلے تو وہ مٹ نہیں سکتا،پھر اُ س کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے مزید صراحتاً حفاظت ِ قرآن کا اعلان بھی فرما دیا کہ”اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْن“،آیات ِ قرآنی میں فرق و کمی بیشی تو دور کی بات حروف کا بھی ذرّہ برابر فرق نہیں،حروف ہی کیا زیر و زَبر اور پیش کا بھی فرق نہیں اتنی محفوظ کتاب آج سوائے قرآن ِ کریم کے اور کوئی نہیں،دیگر کتب ِ سماوی تحریف و تبدیل کا شکار ہوئیں ان کے معانی و مطالب بدل دئے گئے لیکن کلا مِ خداوندی ایک علمی معجزے کے طور پر جوں کاتوں باقی ہے اور قیامت تک باقی ومحفوظ رہے گا۔
    قرآن کریم کا محفوظ رہنا بھی ایک معجزہ ہے آج دنیا کے کسی قوم کے ہاتھ میں کسی پیغمبر کا کوئی معجزہ موجود نہیں بس یہ ایک اُمّت ِ محمد ؐ کی خصوصےّت ہے کہ جس کے ہاتھ میں یہ معجزہ قرآن کریم کی شکل میں موجود ہے آپؐ نے چاند کے دو ٹکڑے کردئے یہ بھی معجزہ تھا جس سے آپ ؐ کی نبوت و رسالت کو پہنچانا گیا کہ آپ ؐ اللہ کے نبی اور رسول ہیں۔ہزاروں معجزات آپ ؐ سے ظاہر ہوئے لیکن پچھلے انبیاء کو جتنے معجزات دئے گئے اس سے ہزاروں گُنا زیادہ رسول امین ؐ کو دئے گئے،مگر اور انبیاء کو جو معجزہ دئے گئے تھے وہ عملی معجزے تھے اور عمل کا خلاصہ یہ ہے کہ جب عامل دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے تو اُس کا عمل بھی رخصت ہوجاتا ہے،تو پچھلے انبیاء کو عملی معجزہ عطا کئے گئے تھے جب وہ دنیا سے پردہ کرچکے تو اُن کے معجزات بھی ختم ہوگئے۔گویا نبوت کی دلیل ہی ختم ہوگئی۔عصائے موسیٰ حضرت موسیٰ ؑ کی نبوت کی دلیل تھی آج نہ عصائے موسیٰ کا معجزہ موجود ہے نہ ہی حضرت موسیٰ ؑ کی نبوت،عیسیٰؑ کو احیائے موتیٰ کا معجزہ عطا کیا گیا تھا یہ معجزہ ان کی نبوت کی دلیل تھی تو آج نہ حضرت عیسٰی علیہ السلام ہیں نہ ہی احیائے موتیٰ کا معجزہ موجود ہے تونبوت کی دلیل ہی ختم ہوگئی،حضرت یوسف ؑ نے قمیص بجھوایا تھا کہ حضرت یعقوبؑ کی آنکھوں پر ڈالدو بینائی واپس آجائے گی،تو آج نہ قمیص ِ یوسف ؑ کا معجزہ ہے نہ حضرت یعقوب ؑ بینا ہوسکتے ہیں تو یہ دلیل نبوت حضرت یوسف ؑ کے پردہ فرما نے کے بعد ختم ہوگئی اس کے علاوہ جتنے انبیاء کے معجزے تھے وہ سب انبیاء کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد ختم ہوگئے چوں کہ یہ سب معجزے عملی تھے عامل کے دنیا سے جانے کے بعد ختم ہوگئے لیکن اگر علم ہے تو عالم کے رخصت ہونے کے باوجود علم باقی رہتا ہے،لاکھوں علماء دنیا سے چلے گئے مگر ان کا علم محفوظ ہے۔
دعوت صرف دین ِ محمدیؐ کی دی جا سکتی ہے:۔
    نبی آخر الزماں ؐ کو جہاں ہزاروں علمی معجزات عطا کئے گئے سب سے بڑا معجزہ آپ ؐ کوعلمی معجزہ دیا گیا اور وہ قرآن کریم ہے،اس کی حفاظت کی گارنٹی بھی دیدی گئی تو اس کا مطلب یہ کہ آپ ؐ کی نبوت کی دلیل آج بھی دنیا میں موجود ہے۔آپ ؐ کی نبوت کی طرف آج بھی دنیا کو دعوت دی جاسکتی ہے چوں کہ دلیل نبوت قرآن کریم موجود ہے جو معجزۂ علمی ہے،نہ حضرت موسیٰ ؑ کی نبوت کی دعوت دی جاسکتی ہے نہ حضرت عیسیٰ ؑ بن مریم ؑ کی نبوت اور نہ حضرت داؤد وغیرہ کی نبوتوں کی دعوت دی جاسکتی ہیے اس لئے کہ ہمارے سامنے ان انبیائے سابقین کی نبوتوں کی دلیل موجود نہیں سب معجزات جو عملی تھے وہ سب ختم ہوچکے لیکن خاتم الانبیاء ﷺ کا معجزہ اور نبوت کی دلیل قرآن کریم کی شکل میں موجود ہے اور قیامت تک موجود اور محفوظ رہے گا۔تو دعوت اسی دین ِ محمد ؐکی دی جائیگی،قرآنی تعلیمات کی دعوت دی جائیگی،اسلامی شریعت کو ہی نافذ کیا جائیگا،یہ اُمّت محمدیہ  ؐ کی عظیم الشان خصوصیت ہے کہ قرآن کریم جو آپ ؐ کاعلمی معجزہ تھا وہ عطاکیا گیا اور شریعت ِ اسلام کا ماخذومرجع اور دستور اساسی قرآن کریم کو ہی قرار دیاگیا،قرآن کریم کی تعلیمات وہدایات اور احکامات پر عمل کرنے کا ہمیں مکلف بنایا گیا اور اسی قرآن کریم کو ہی شریعت اسلام کا بنیادی دستور قرار دیا گیا اس کے بعد آپ ؐ کی احادیث کو اور آپ ؐ کی سنتوں کو دین کا منشور اورنمونہ قرار دیاگیا اسی کو ایک عظیم اسلامی فکر کے شیدائی شاعرنے فرمایا۔  ؎    
رہے قرآں ہمیشہ تیر ادستور        نبیؐ کی سنتیں ہوں تیرا منشور
    حقیقت میں ایک مومن صادق کی علامت یہی ہے کہ وہ قرآن کریم کو دین ِ شریعت کا دستور بنائے اور نبی اکرم ؐ کی سنتوں کو اپنا نمونہ اور منشور بنائے۔آج کے کفر و الحاد اور پُر فتن دور میں قرآنی تعلیمات وہدایات اور قرآنی احکامات کو اپنا رہنما بنانا بہت بڑی دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرانی اور نجات کی علامت ہے۔ایک مومن کی ساری زندگی حقیقت میں قرآن کا عکس اور پَر تو ہونا چاہئے جس طرح رسول اکرم ﷺ کا اخلاق ِ قرآن کریم کو ٹہریا گیا کہ”کان خلقہ القرآن“ گویا قرآن کریم آپ ؐ کا اخلاق تھا۔اس کی ترجمانی علامہ اقبال ؔ ؒ نے فصیح و بلیغ شعر میں فرمایا کہ ایک مومن کی زندگی ہر زاویے اور زندگی کے ہر موڑ پر قرآنی ہدایات و تعلیمات کی آئینہ دار ہونی چاہئے،چنانچہ آپ کا یہ شعر ملاحظہ ہو۔  ؎
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان 
قاری نظر آتا ہے مومن حقیقت میں ہے قرآن
    بس ہم قرآن ِ کریم کو اپنی زندگی کا حقیقی رہبر ورہنما تسلیم کرلیں،قرآنِ کریم کے موضوع پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے مگر یہاں نہ گنجائش ہے نہ ہی مجھ بے بضاعت کی یہ ہمّت ہے،اللہ تعالیٰ ہمیں نیک توفیقات سے نوازیں اور قرآن ِ کریم کا شیدائی بنائیں۔آمین بجاہِ سید المرسلین ورحمۃ للعالمین ونبی الاولین والآخرین ﷺ۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا