English   /   Kannada   /   Nawayathi

اعتکاف، شب قدر اور صدقہ فطر کے احکام و مسائل 

share with us

  ابونصر فاروق

 اعتکاف:    حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اعتکاف کرنے والے کے بارے میں فرمایا:وہ گناہوں سے رکا رہتا ہے اور تمام نیکیاں کرنے والے کی طرح اُسے نیکیوں کا ثواب ملتا رہتا ہے(جن کو وہ پہلے کیا کرتا تھا)(ابن ماجہ)
    حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں، اعتکاف کرنے والے کے لئے مسنون یہی ہے کہ وہ کسی مریض کی عیادت کرے نہ جنازے میں شرکت کرے، عورت سے جماع کرے نہ اُسے گلے لگائے اور کسی بہت ہی ضروری کام کے علاوہ اعتکاف کی جگہ سے باہر نہ نکلے، نیز روزے کے بغیر اعتکاف ہے نہ جامع مسجد کے بغیر۔(ابوداؤد)
    حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں، نبی ﷺ حالت اعتکاف میں مریض کی عیادت کر لیا کرتے تھے۔نبی ﷺ اپنے حال میں چلے جاتے اور رکے بغیر اُس کا حال دریافت کر لیتے۔(ابوداؤد، ابن ماجہ)
    رمضان عبادتوں کو مہینہ ہے۔جب آدمی خوش ہوتا ہے تو اپنی خوشی کے اظہار کے لئے کچھ ایسی چیزیں کرتا ہے کہ لوگ جانیں کہ اس کو خوشی ملی ہے۔اسی طرح جب اللہ کا بندہ دنیا کے کاموں میں مشغول رہتے ہوئے اللہ کی خاص بندگی کا ارادہ رمضان میں کرتا ہے تو اُس کے معمولات اور مشغولیات سے پتا چل جاتا ہے کہ اس پر عبادت کا رنگ چڑھ گیا ہے۔برائیوں سے بچنے، زیادہ سے زیادہ نیکی کرنے، روزے کی حالت میں زبان، آواز اور نگاہوں کی حفاظت کرنے،پانچ وقت کی نمازو ں کے علاوہ رمضان بھر تراویح اور تہجد کی پابندی کرنے کا اس کا جذبہ اور شوق بتاتا ہے کہ  اس بندے پر رمضان کا رنگ چھا چکا ہے۔اور پھر اس کی انتہا یہ ہوتی ہے کہ یہ بندہ دنیا وی معمولات سے کنارہ کشی اختیار کر کے دس دن کے اللہ کے گھر میں اپنے آپ کو قید کر لیتا ہے۔دنیا کے تمام کاموں اور دنیا کی تمام شرارتوں سے اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے لئے جامع مسجد کو اپنی پناہ گاہ بنا لیتا ہے۔یعنی اعتکاف کر لیتا ہے۔
    اورپر نقل کی ہوئی حدیثوں سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:(۱)اعتکاف کرنے والا عام حالت میں جو نیکیوں کے کام کرتا تھا، اعتکاف میں وہ اُس سے چھوٹ گئے۔ لیکن اُن تمام نیک کاموں کا اجر و انعام اللہ تعالیٰ اپنے اُس نیک بندے کو کام کئے بغیر دیتا رہتا ہے۔(۲)جامع مسجد کے اعتکاف کو چھوڑ کر کسی حال میں باہر نہیں نکلنا ہے یہاں تک کہ مریض کی عیادت بھی نہیں کرنی ہے اورجنازے میں بھی شرکت نہیں کرنی ہے۔بیوی سے بھی کنارہ کشی اختیار کر لینی ہے جیسے بھول جانا ہے۔(۳)دوسری حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مریض کی عیادت کے لئے جا کر اُس کا حال پوچھا جا سکتا ہے۔مگر ا ب اس کی ضرورت نہیں رہی، کیونکہ موبائل کی وجہ سے مریض کے پا س جائے بغیر اُس کا حال چال معلوم کیا جاسکتا ہے۔
    یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر گاؤں، بستی یا محلے کی جامع مسجد میں کسی نے بھی اعتکاف نہیں کیا تو اس کا گناہ پورے گاؤں، بستی یا محلے والوں پر ہوگا۔دنیا پرستی کا رجحان جس طرح مسلمانوں میں بڑھتا جا رہا ہے، تو آگے شاید ہی کوئی آدمی اعتکاف کرنے والا ملے گا۔ایسی صورت میں کرنا یہ چاہئے کہ جو نماز کے پابند لوگ ہیں اُن میں سے کسی ایک  محنت مزدوری کرنے والے آدمی کو کہنا چاہئے کہ آپ اعتکاف میں بیٹھ جائیے۔ہم لوگ اعتکاف کے دوران آپ کے گھر کا ساراکام اورتمام ضرورتیں پوری کرنے کا ذمہ لیتے ہیں۔کاش اللہ مسلمانوں کی ایسی عقل اورسمجھ دے۔
شب قدر:
    ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے شب قدر کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا:وہ پورے رمضان میں ہے۔(ابوداؤد)
    حضرت عائشہؓ بیا کرتی ہیں، میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسولﷺ مجھے بتائیں، اگر میں جان لوں کہ کون سی رات شب قدر ہے تو میں اس میں کیا دعا کروں ؟  نبیﷺ نے فرمایا: کہو”اے اللہ بیشک تو معاف کرنے والا ہے،معاف کرنے کو پسند کرتا ہے،پس میرے سارے گناہوں کو معاف فرما دے۔(احمد، ابن ماجہ،ترمذی)
    حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جب شب قدر ہوتی ہے تو جبرئیل فرشتوں کی جماعت کے ساتھ تشریف لاتے ہیں اور اللہ عز و وجل کے ذکر میں مصروف ہر کھڑے بیٹھے شخص پر رحمت بھیجتے ہیں۔جب اُن کی عید کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُن کی وجہ سے اپنے فرشتوں پر فخر کرتے ہوئے فرماتا ہے:میرے فرشتو! اس مزدور کی کا کیا بدلہ ہونا چاہئے جو اپنا کام پورا کرتا ہے ؟  وہ عرض کرتے ہیں، پروردگار !  اس کا بدلہ یہ ہے کہ اُسے پورا پورا بدلہ دیا جائے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:میرے فرشتو!  میرے بندوں اورمیری لونڈیوں نے میری طرف سے عائد فریضے کو پورا کردیا پھر وہ دعائیں پکارتے ہوئے نکلے ہیں، مجھے میری عزت و جلال کی قسم!  میں اُن کی دعائیں قبول کروں گا۔ وہ فرماتا ہے:واپس چلے جاؤ، میں نے تمہیں بخش دیا اورتمہاری خطاؤں کو نیکیوں میں بدل دیا۔نبیﷺ نے فرمایا:وہ اس حال میں واپس آتے ہیں کہ اُن کی مغفرت ہو چکی ہوتی ہے۔(بیہقی)
    اللہ اپنے بندوں پر حد سے زیادہ مہربان ہے۔وہ اپنے بندے کے گناہوں کو معاف کرنے اور اُن کو اپنی رحمت سے سرفراز کرنے کے بہانے تلاش کرتا ہے۔رمضان میں اُس کی رحمت اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔اس مہینے کے آخری عشرے میں جو پانچ طاق راتیں آتی ہیں اُنہیں میں سے ایک رات کو لوح محفوظ سے پورا قرآ ن نقل کر کے جبرئیل علیہ السلا م کے حوالے کیا گیا تھا امانت کے طور پر اور آگے وقفے وقفے سے تھوڑا تھوڑا جبرئیل علیہ السلام اللہ کے حکم کے مطابق نبی ﷺ تک پہنچاتے رہے۔اس رات کو شب قدر قرار دے کر قیامت تک کے لئے یہ حیثیت دے دی کہ جو بندہ اس رات میں خاص اہتمام کے ساتھ تہجد کی نماز پڑھے گا اور اللہ تعالیٰ سے جو مانگے گا وہ پائے گا۔وہ رات جس میں قرآن نازل ہوا تھا پانچ راتوں میں سے کون سی تھی یہ نہیں معلوم ہے۔بندے کو پانچوں راتوں کو جاگنا ہے۔انشاء اللہ وہ خاص رات جو شب قدر ہے اُس کو یقینا مل جائے گی۔ابوداؤد کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کی ہر رات شب قدر ہے۔مطلب یہ ہوا کہ ایک نسان کو رمضان کی ہر رات میں خاص عبادت کرنی چاہئے۔اُس بندے کا لگن اور شوق دیکھ کر اللہ تعالیٰ اُس کی طرف توجہ کرے گا اور اُس کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔
    دوسری حدیث میں بتا یا جا رہا ہے کہ شب قدر میں وہ کون خاص دعا ہے جس کا ورد ہر وقت کرتے رہنا چاہئے۔بتایا گیا ہے کہ آسمان پر ایک فرشتہ ہے جو ہر تھوڑی دیر کے بعد آمین کہتا رہتا ہے۔جو بندہ شب قدر میں کثرت سے یہ دعا پڑھتا رہے گا تو امکان ہے کہ کسی دعا کے بعد فرشتے کی آمین کا وقت ہو گیا تو اُس کی دعا فوراً قبول ہو جائے گی۔کاش اس دور کے دنیا پرست دولت کے پجاری مسلمانوں کو رمضان کی برکتیں سمیٹنے کی توفیق نصیب ہو۔
    تیسری حدیث میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ فرشتوں کی جماعت کو زمین پر بھیجتا ہے تاکہ وہ بندوں کی کارکردگی کی رپورٹ اُس تک پہنچائیں اور وہ اپنے بندوں کو انعام و اکرام سے نوازے۔
 صدقہ فطر:
    ”حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے،نبی ﷺنے کھجور کا ایک صاع یا جو کا ایک صاع صدقہ فطر ہر غلام اورآزاد،مرد اور عورت اور چھوٹے اور بڑے مسلمان پر فرض کیا ہے۔“(بخاری،مسلم،ابوداؤد، نسائی، ترمذی،ابن ماجہ، احمد)
    حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ سے روایت ہے،نبی ﷺنے صدقہ فطر فرض فرمایا ہے تاکہ روزے دار فضول اور نازیبا قسم کی باتوں سے پاک ہو جائے اور مسکینوں کو(کم از کم عید کے روز خوب اچھی طرح)کھانا میسر آ جائے۔جس نے اسے (عید کی) نماز سے پہلے ادا کیاتو وہ ایک قبول ہونے والا صدقہ ہے۔اور جس نے اسے نماز کے بعد اداکیا تو وہ صدقوں میں سے ایک صدقہ ہے۔ (،ابوداؤد، ابن ماجہ،د ارقطنی)
    ان حدیثوں سے ایک بات یہ معلوم ہوئی کہ صدقہ فطر زکوٰۃ کی طرح ایک فرض صدقہ ہے۔جو شخص صدقہ فطر ادا نہیں کرے گا وہ اُسی طرح گنہگار ہو گا جیسے زکوٰۃ ادا نہیں کرنے والا ہوگا۔دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ صدقہ فطر ہر طرح کے مسلمان پر فرض ہے چاہے وہ امیر ہو یا غریب، عمر میں چھوٹا ہو یا بڑا، مرد ہو یا عورت۔چنانچہ اسی بنیاد پر پوری امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ہر گھر میں جتنے افراد ہیں اُن کے نام سے صدقہ فطر ادا کیا جائے گا۔تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ صدقہ فطر عید کی نماز سے قبل ادا کرنا ضروری ہے ورنہ یہ فرض ادا نہیں ہوگا۔ عید کی نماز کے بعد اگر صدقہ فطر ادا کیا گیا تو وہ ایک صدقہ تو ہوگا لیکن صدقہ فطر نہیں شمار ہوگا۔چوتھی بات یہ معلوم ہوئی کہ صدقہ فطر کی مقدار ایک صاع ہے۔صاع ایک برتن تھا جس سے ناپ کر صدقہ کا اناج نکالا جاتا تھا۔کھجور، کشمش اور منقع ایک صاع نکالنے کا حکم ہے مگر گیہوں آدھا صاع بھی نکالا جا سکتا ہے، کیونکہ دوسرے اجناس کے مقابلے میں گیہوں برتن میں دوگنا سما جاتا ہے۔آدھے صاع کا وزن کتابوں میں ایک سیر تیرہ چھٹانک لکھا گیا ہے۔اب چونکہ سیر نہیں چلتا ہے تو اس کو دو کیلو مان لیجئے۔ اور گیہوں پسا کر آٹا کھانے کا رواج بھی ختم ہو گیا تو گیہوں کی جگہ آٹا مان لیجئے۔گویا ثابت یہ ہوا کہ ہر مسلمان جس قیمت کا آٹا کھاتا ہے اُس کے مطابق دو کیلو آٹے کا دام ایک روزہ دار کی طرف سے صدقہ فطر نکال کر ادا کرے۔
    صدقہ فطر کا اصل مقصد یہ ہے کہ عید کے دن کسی محتاج مجبور مسلمان کا چولہا بجھا نہ رہے۔سماج کا ہر گھر اُس دن پیٹ بھر کر اچھا کھانا کھالے۔اس لئے صدقہ فطر تلاش کر کے ضرورت مندوں کو اتنا دینا چاہئے کہ اُن کے عید کے د ن کے اچھے کھانے کا انتظام ہو جائے۔صدقہ فطر کو عام خیرات کی طرح تھوڑا تھوڑا کر کے دینا،ضرورت سے کم دینا یا کسی ادارے اور انجمن کو دینا صدقہ فطر کو برباد کرنا ہے۔اگر ایک گھر کا صدقہ فطر ایک خاندان کی ضرورت کے مطابق نہ ہو تو رشتہ داروں سے رابطہ کر کے صدقہ فطر کی رقم جمع کر لیں اور بقدر ضرورت حقداروں تک عید سے دو د ن قبل پہنچائیں، تاکہ عید کے کھانے کا انتظام ہو جائے۔
    صدقہ کہتے ہیں سچ کر دکھانے کو۔آدمی دنیا کے سامنے جب کوئی بات کہتا ہے تو اُس وقت تک وہ صرف بات ہوتی ہے جب تک اُس پر عمل کر کے نہ دکھایا جائے۔قرآن میں کہا گیا ہے کہ ”جو لوگ اللہ پر ایمان لانے والے ہوتے ہیں وہ اللہ سے انتہائی شدید محبت کرتے ہیں۔“ساری دنیا جانتی ہے کہ محبت قربانی چاہتی ہے۔محبت کرنے والا اپنے محبوب کے لئے اپنی جان تک قربان کر دیتا ہے۔وطن سے محبت کرنے والے اپنے وطن کے لئے جان دیتے ہیں۔ دولت کو خدا سمجھنے والے دولت کی حفاظت کے لئے اپنی جان دے کر دولت کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں۔ماں اپنے بچے سے بے انتہا محبت کرتی ہے اور وہ اپنے بچے کی زندگی کے لئے اپنی جان دینے پر آمادہ ہو جاتی ہے۔چاہے وہ انسان ہو یا حیوان۔ اسی طرح جو ایمان والے اللہ سے سچی محبت کرتے ہیں وہ اللہ کے حکم پر اپنا مال پوری خوش دلی اورمکمل آمادگی کے ساتھ اللہ کی راہ میں خر چ کرتے ہیں۔اسی کو شریعت کی اصطلاح میں صدقہ کہا گیا ہے۔
    اللہ تعالیٰ قرآن میں یہ بھی کہتا ہے کہ ”تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے ہو جب تک کہ اپنا محبوب مال اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو۔“یعنی جو آدمی اللہ کی راہ میں (محتاج مجبور و معذور بندوں پر) خرچ نہیں کرتا وہ نیک ہو ہی نہیں سکتا ہے، چاہے کتنا بڑا نمازی ہو اور اُس نے کتنی بار حج کر لیا ہو۔صدقہ جب اتنا بڑا عمل ہے تو اس کا اجر و انعام بھی تمام عبادتوں میں سب سے بڑھ چڑھ کر اور زیادہ ہے۔قرآن میں صدقہ کرنے کا حکم شروع سے آخر تک بھرا پڑا ہے۔صارمؔ کے اشعار سنئے:
آفت جان ہے دنیا کی محبت لوگو
کرنے دے گی نہ تمہیں رب کی عبادت لوگو
نیک اعمال ہیں سرمایہئ دین و دنیا
جلد کر لو کہ نہ پھر پاؤ گے فرصت لوگو
مانگنے والوں کو دیتا ہے خدا اے صارمؔ
مانگ لو مانگ لو ایمان و ہدایت لوگو

    

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا