English   /   Kannada   /   Nawayathi

تأثرات مولوی افراز بن ڈاکٹر آفتاب حاجی فقیہ

share with us
afraz haji faqeeh, afraz bin dr aftab haji faqeeh, jamia islamia bhatkal, green valley shirur,

جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں فارغین کے اعزاز میں منعقدہ نشست میں یہ تأثرات پیش کیے گئے تھے  جس کو یہاں شائع کیا جارہا ہے۔(ادارہ)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمدللہ نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم!

اما بعد!

آج کی اس بابرکت و پر رونق محفل میں جامعہ میں بیتے ہوے ایک طویل عرصے کو کچھ لمحات میں سمیٹنے کی کوشش کر رہا ہوں ۔ اولا اللہ رب العزت کا بےانتہا شکر، اسی کا کرم و احسان ہوا، اسی کی توفیق کہ بدولت مجھے دینی علم کے حصول کی سعادت نصیب ہوئی۔ میرا جامعہ میں پہچنا خود میرے لیے باعث تعجب ہے۔ اس لئے کہ میری عمر کا بڑا حصّہ عصری تعلیم کے حصول میں خرچ ہوا تھا اور، دینی علم کی طرف بھی کبھی رخ کر پاونگا، دور دور تک کوئی تصوّر نہیں تھا۔ 12وی کی پڑھائی کے بعد میں مختلف کورسس میں داخلہ کی کوشش میں مختلف کالجز کی طرف قصد کرتا رہا۔ اور ہر دفعہ كسی نہ کسی وجہ سے میرا داخلہ کسی کالج میں نہ ہو سکا۔ والدہ کی یہ خواہش تھی کہ میں جامعہ میں پڑھوں اور عالم دین بنوں۔مگر میں نے مزید 6 سال کی تعلیم کو بہت طویل جانا اور اسکی ہمت جٹا نہیں پایا۔ انہی کی دعائیں تھی کہ کچھ عرصہ بعد میری ملاقات مولانا شعور صاحب سے ہوئی۔ اُنہوں نے بھی مجھے جامعہ میں داخلہ لینے کی دعوت دی۔

 الله انہیں جزاءِخیر دے انہوں نے میری 6 سال کی تشکیل نہیں کی، بلکہ  مجھے اُس سال کالج میں پڑھنے والے طلبہ کے لیےجامعہ کی طرف سے ایک خُصوصی درجہ کا نظم جو ہوا تھا، اس میں شرکت کرنے کی ترغیب دی۔ میں نے شوق سے اس درجہ میں داخلہ لے لیا، اس لیے کہ میں اکثر اوقات فارغ رہا کرتا تھا اور دن میں، صرف دو گھنٹوں کی تعلیم بوجھ بھی نہیں لگتی۔ اُس وقت میرا مستقل جامعہ میں پڑھنے کا کوئی ارادہ بلکل نہیں تھا۔ لیکِن جِس طرح میں نے کہا، والدہ کی دعاؤں میں ایک الگ تاثیر رکھی ہے خدا نے۔ جب میں نے یہاں پر کچھ دن گزارے تو میرا دل یہاں لگنے لگا۔ اساتذہ کا بہترین رویہ تھا، غیر معمولی توجہ تھی، جس سے میں نے متاثر ہو کر جامعہ اسلامیہ کے خصوصی درجہ میں مستقل داخلہ لے لیا۔

جامعہ سے قبل میری تعلیم گرین والی اسکول میں ہوی تھی۔ وہاں پر میں نے انگیزی تو الحمد للہ اچھی سیکھ لی پر وہاں کے نصاب میں نہ اردو شامل تھی نہ عربی۔ اس لیے دونوں زبانوں سے غیر مانوس ہونے کی وجہ سے جامعہ میں ابتداءً بڑی دقتیں پیش آییں۔ بہت زیادہ مایوسی کا شکار بھی ہوتا رہا، پر میرے مشفق اساتذہ ہمیشہ ہمت افزائی کرتے رہے، کبھی مولانا وصی اللہ صاحب نے ہمت دی تو کبھی مولانا نعمت اللہ صاحب کی دعائیں کام آئیں۔ جامعہ کے مہتمم، مولانا مقبول صاحب سے جب بھی کہیں ملاقات ہوتی، حال دریافت کرتے۔ تعلیم کے سلسلے میں پوچھا کرتے۔ دعائیں دیتے۔ انکا صرف اتنا کرنا مجھ جیسے، گویا کہ دوسری دنیا سے آنے والے، نئے طالبِ علم کے لیے بہت بڑی بات ہوا کرتی۔ ایسا لگتا تھا کہ یہاں پر ہر ایک کو اپنا سمجھا جاتا ہے، اور خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔

  میں جس قدر یہاں کے اپنے ایک ایک استاذ سے متاثر ہوں، لفظوں میں بیان کرنے سے بلکل قاصر ہوں۔ جامعہ کا سب سے بہترین وصف یہاں کے اساتذہ ہیں۔ اُنہیں کی کوششیں، اُنہیں کی محنتیں، اُنکا طلباء سے مخلصانہ تعلق، اُن کی صفات، اُن کے اخلاق، اُن کی قربانیوں نے جس مقام تک جامعہ کو پہچایا ہے ما شاءاللہ ہم سب کو اس پر رشک ہے! آج اگر میں جامعہ میں اتنے سال استقامت سے تعلیم حاصل کر پایا ہوں تو یہ اپنے ان اساتذہ کی شفقتوں اور محبتوں کے نتیجہ میں ہے۔ اللہ کا شکر ہے اللہ نے ہمارے جامعہ کے لیے ان جیسے اساتذہ کو منتخب کیا ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے وہ سب کی حفاظت فرما کر انکی خدمت کا بھر پور جزا عطا کرے ۔ آمین۔

 دوسری طرف مجھے درجہ میں جو ساتھی ملے، وہ بھی یقینا قابلِ ذکر ہیں۔ میں کن کن کا نام لوں۔ ایسا کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ انہوں نے میری فکر مجھ سے زیادہ، بلکہ خود سے زیادہ کی، اپنے ساتھ بٹھا کر پڑھایا، اِن کے ساتھ یہ 5 سال کس تیزی سے گزر گئے پتہ بھی نہ چلا۔ اللہ ایسے ساتھیوں کو سب کے نصیب میں رکھے۔ ہمیشہ انہوں نے میرا اکرام کیا اور میرے اس سفر کو مزید دل چسپ بنایا۔ اللہ ان سب کو بہترین جزا عطا کرے ۔ آمین

  میں جامعہ کے ہر ایک طالبِ علم سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو اساتذہ ہمکو میسر ہیں ہم ان کی قدر کریں، انکے دروس میں جو محبت جھلکتی ہے، جو نور ان کی باتوں سے ملتا ہے، اس نور کو جتنا ہو سکیں ہم اپنے دامن میں سمیٹنے کی کوشش کریں۔ اُس سے مستقبل کے راستے پر روشنی کا کام لیں، ہر قدم پر یہ ہمارے رہنما ہیں، منزل دور نظر آتی ہے اور راستے تنگ معلوم ہوتے ہیں، پر انہیں رہبر مان کر چلو تو ہر میدان ہمارا ہے، ہر منزل آسان ہے۔ خدا کی قسم، میں جہاں سے اِدھر کو آیا ہوں وہاں اِس جیسا کچھ بھی نہیں ہے، ہمیں دنیا کے رنگین نظر آنے والے نظاروں سے متاثر ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اصل تو یہ ہے جو ہم یہاں رہ کر حاصل کر رہے ہیں۔ اللہ کا شکر کریں کہ اُس نے ہمکو یہاں لاکر اپنے محبوب نبی کی وراثت کا کچھ حصہ نصیب کیا۔ اس سے بڑا شرف شاید ہی کچھ ہو سکتا ہے۔ ورنہ آج، ہمارے نوجوان جس تیزی کے ساتھ فکری اِرتداد کا شکار ہو رہے ہیں جان کر حیرت ہوتی ہے۔ دلوں کو ایمان پر اطمنان نہیں، اور اسلام پر اعتماد نہیں۔ احساس بھی نہیں ہو رہا، کس رخ کی طرف بچوں کے خیالات مڑے جا رہے ہیں۔ ہمارے دیندار کہے جانے والے اس ماحول پر آپ مطمإن ہر گز نہ رہنا، اندر سے مختلف شکلوں کے جو دیمک ہمیں کھائے جا رہے ہیں ان سے ہم کم ہی واقف ہیں۔ اپنی ذمیداریوں کو خوب سمجھنا ہے اور قربانیوں کے راستے پر چلنا ہے۔ آج ہم اگر انکی فکر نہیں کریں گے، ہماری نسلوں کا حال کل کو کیا ہوگا؟ اللہ حفاظت فرماۓ۔

  ابھی إس کا احساس ہوتا ہے، اُس وقت اللہ کیوں میرے آگے ہر بار رکاوٹیں پیدا کرتا رہا۔ اگر اُسی وقت کسی کالج میں میرا داخلہ ہو جاتا تو میں یہاں کی اس عظیم الشان دولت سے محروم رہتا۔ یہاں آکر قرآن کی تفسیر کے دروس نے میرے دل کو ایمان کے سلسلے میں جو اطمنان بخشا اس سے پہلے مجھے اتنا سکون کبھی نہ ہوا۔ ایسا لگتا ہے مقدر میں کچھ اور تھا اور میں بھاگ کسی اور چیز کے پیچھے رہا تھا۔ یقین مانو میں نے تقریباً 10 کالجز کے چکر کاٹے ہیں، پر جہاں مجھے سکون نصیب ہونا تھا وہ میری یہ جامعہ تھی۔

  اس جامعہ کی خاطر، ہر کالج قربان ہے، اس تعلیم کے آگے ہر فن ہیچ ہے۔ یہاں میرا جو وقت تھا، جس طرح سے قدر کرنا تھا یقیناً کر نہیں سکا، جس شوق و لگن سے محنت کرنی تھی وہ ہو نہیں پائی۔ پر غنیمت جان رہا ہوں۔ اللہ سے معافی کا طلبگار ہوں۔ اللہ کا شکر بجا لا رہا ہوں ۔ اساتذہ کے حق میں مسلسل گستاخیاں ہوتی رہی ہیں، اپنے دوستوں کو ہمیشہ تکلیفیں دیتا رہا ہوں۔ آپ سب کے پاس معافی کا محتاج ہوں، مزید اگر کسی چیز کا محتاج ہوں تو آپ سب کی دعاؤں کا ہوں۔ میں اپنے والد صاحب ڈاکٹر آفتاب حاجی فقیہ مرحوم کے احسانات کو بھی اس وقت بھول نہیں سکتا۔ اُنہوں نے ہمیں بہترین زندگی دینے میں کوئی قصر نہیں چھوڑی۔ انکی پوری زندگی انسانیت کی خدمت میں گزری ہے۔ اللہ کے پاس وہ یقیناً مقبول ہیں پر ان شاء اللہ قیامت کے دن میرا یہ عالمِ دین بنا اور دین کا کام کرنا انکے رفعِ درجات کا زریہ بن سکے تو یہ میرے لیے سعادت کی بات ہوگی۔

 اللہ مجھے اس قابل بنائے کہ آج انسانیت کے کام آ سکوں اور کل اپنے والدین کے لئے نجات کا ذریعہ بن سکوں۔ آمین۔ بات طویل ہو چکی ہے تو فیض کے ایک شعر سے میں اپنی جگہ لوٹ جاتا ہوں 'ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد'۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا