English   /   Kannada   /   Nawayathi

چینی قوم بڑی جفاکش‘‘ اور حسد و کینہ سے کوسوں دور ہے۔

share with us

مذہب دشمن کو سمجھانا آسان ہے بمقابلہ اسلام دشمن کے ۔ روس اور چین میں مذہب کے ماننے والوں کے ساتھ جو ظلم ہوا وہ دنیا کی تاریخ میں ایسی نظیر نہیں ملتی۔ اللہ جزائے خیر دے ہمارے علماء کو کہ انہوں نے مدارس کا جال بچھا کر دین کے تحفظ کا کام انجام دیا او رآج دنیا کے سامنے ہے کہ جہاں بھی مدارس کا نظام چلا وہاں دین کی ہوائیں چلیں اور جہاں مدارس کا نظام نہیں رہاوہاں دین کے باقی رہنے کے آثار ختم ہوتے دکھائی دیے ۔ چین میں مدارس دینیہ کی وجہ سے چینی عوام کو دین پر ثابت رہنے میں بڑی مددملی ۔ ان خیالات کا اظہار حال ہی میں چین کے دعوتی سفر سے لوٹے جامعہ اسلامیہ کے استاد تفسیر مولانا الیاس ندوی نے طلباء جامعہ سے خطاب کرتے ہوئے کیااس موقع پر اساتذہ جامعہ کے علاوہ ذمہ دارانِ جامعہ بھی موجود تھے ۔ مولانا موصوف نے کہا کہ دنیا میں جہاں بھی جائیں دین کی خدمت کے جذبہ سے جائیں اور بے غرض ہوکر جائیں ۔ صرف بے غرض ہونے کی نیت کرنا کافی نہیں ہے بلکہ اس کا اعلان بھی ضروری ہے ۔ انبیاء علیہم السلام کے واقعات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے بے غرض ہونے کا اعلان کیا ۔ اس کا اثر سامنے والے پر اچھا پڑتا ہے اور کام کرنے کا جذبہ اس کے اندر پیدا ہوتا ۔ مولانا چین کی آبادی کے تعلق سے کہا کہ آبادی کے اعتبار سے دنیا کا پہلا ملک ہے اور رقبہ کے اعتبار سے تیسرا ملک ۔ اس کی سرحدیں اس قدر بڑی ہیں کہ بیس سے زائد ملک سرحدوں سے جڑی ہیں۔لیکن افسوس ہے کہ دیڑ ھ سو کروڑ کی آبادی میں 138کے قریب اللہ کے بندے ابھی ہدایت سے محروم ہیں۔مولانا نے چینی عوام کے اوصاف کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ چینی لوگوں میں تعصب اور حسد کی بیماری نہیں ہے ۔ اس قوم میں بہت ساری اچھائیاں بھی ہیں اور برائیاں بھی ہیں ۔ اچھائیاں اس تعلق سے ہے کہ وہ بڑی جفاکش قوم ہے ۔ آج بھی وہ کھیتی باڑی کرنے کے لیے پرانے طریقوں کو اپنائے ہوئے ہے ۔ ۔ سب سے خراب مال جو آج دنیا میں تصور کیا جاتا ہے وہ چین ہے لیکن مجھے وہاں جانے کے بعد معلوم ہوا کہ سب سے اچھا مال بھی چین ہی کا ہے ۔ اس کی مثال یہ ہے کہ دنیا کی سب سے اچھی بلٹ ٹرینیں چین ہی میں بنتی ہیں۔مکہ مکرمہ میں جو بلٹ ٹرینوں کا سلسلہ چلا ہے وہ سب چین ہی کا تیار شدہ ہے ۔مولانا نے یہاں کے اقتصادیات، تجارتی ترقیات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہم نے وہاں ایک کامپلیکس دیکھا جس میں ایک لاکھ سے زائد دکانیں ہیں اور اس کامپلیکس کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے پر جانے کے لیے کارکا سہارا لینا پڑتا ہے اقتصادی طور پر صرف امریکہ کا مقابلہ کرنے والا ملک چین ہے مولانا نے اس موقع پر چینی عوام کے برائیوں کو بھی سامنے رکھااور کہا کہ اگر دیکھا جائے تو اس طرح کی گندی قوم دنیا میں کہیں نہیں ہے ۔ سانپ ، بچھو ، مینڈک وغیرہ کھاتی ہے ۔ اور ظاہراً دیکھنے میں بہت صاف رہتی ہے لیکن استنجاء کے بعد پانی کا استعمال نہیں کرتی ۔ صبح سے شام تک محنت کرتے ہیں ۔ صبح چھ بجے کام پر جاتے ہیں اور شام پانچ بجے گھر لوٹتے ہیں ۔ ایک زندگی ہے، کھانا پینا اور سونا ۔ آخرت کا کوئی تصور نہیں ہے ۔ اس دور میں جبکہ چین کا شمار دنیا کے دور دراز ممالک میں ہوتا تھا ۔ اس وقت آٹھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین دین کی دعوت لے کر وہاں پہنچے جس کی برکت کے نتیجہ میں آج وہاں پر بارہ کروڑ سے زائد لوگ اسلام کے ماننے والے ہیں لیکن اب دعوتی اعتبار سے بڑا المیہ یہ ہے کہ مسلمان ملک اس طرف توجہ نہیں دیتے ۔ اگر وہ اس طرف توجہ دیں گے تو وہاں کا حکمراں طبقہ اسلام سے متعارف ہونے کے نتیجہ میں بہت سارے لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بن سکتا ہے ۔ انہو ں نے بہت ترقی کرلی ہے ۔ فی گھنٹہ ساڑھے چار سو کلومیٹر سفر طے کرنے والی بلٹ ٹرین بنالی، اسکا مطلب یہ ہے کہ آپ بھٹکل سے ممبئی کا سفر صرف دو گھٹنے میں طئے کرسکتے ہیں۔ وہاں کا ہر آدمی ایڈریس پڑھ سکتا ہے ۔ چھ سال پہلے اس کا تعلیمی تناسب نوے فیصد تھا ۔ اب اس کا تعلیمی تناسب سو فیصد ہے ۔ دعوتی اعتبار سے ان کا ذہن بہت نیوٹرل ہے اگر اسلام کے متعلق سمجھادیں تو تھوڑے سے عرصہ میں بہت سارے لوگ مسلمان ہوسکتے ہیں ۔ ہم نے وہاں بھٹکل اکیڈمی کااسلامیات نصاب وہاں پیش کیا تو انہوں نے اپنے زبان میں اس کو شائع کرنے کی پیشکش کی ۔اندازہ ہوا کہ تھوڑی سی محنت کے نتیجہ میں ایک بہت بڑی تعداد اسلام کے ماننے والوں کی ہوجائے گی ۔ مولانا اس موقع پر وہاں دعوتی کام کو کیسے انجام دیا جاسکتاہے اس کو وضاحت کے ساتھ پیش کیااور اور وہاں جاری تبلیغی دعوتی کام کے نتائج اور ثمرات کو تفصیل سے بیان کیا،اخیر میں کہا کہ ہم اللہ سے مانگیں اور کام کرنے کے لیے تیار ہوجائیں ۔ اسباب خود پیدا ہوجائیں گے ۔ واضح رہے کہ مولانا موصوف کا یہ دورہ کل چھ دنوں کا تھا ۔ مولانا موصوف اس سے پہلے کئی ممالک کا سفر کرچکے ہیں جس میں جاپان، سنگاپور، تھائی لینڈ، ملیشیا، مالدیپ، سری لنکا، شام، اردن ، فلسطین اور مصر وغیرہ ہیں،ان میں سے بعض دعوتی اسفار کی روداد کتابی اور سفرناموں کے شکل میں شائع ہوچکی ہیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا