English   /   Kannada   /   Nawayathi

حالات ناسازگار! مسلمان بے کردار ؟ قسط (۱)

share with us
muslaman

حقائق وشواہداورتصوراتوتوقعات کے آئینے میں ایک حوصلہ افزا تحریر (قسط اول)

   از: ڈاکٹر آصف لئیق ندوی

آج نہ صرف ملک ہندوستان  بلکہ پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جبر و استبداد، ظلم و بربریت اور عداوت ومنافرت کا برتاؤ ہورہا ہے، ان کیساتھ ہرمیدان میں امتیازی سلوک کیاجارہا ہے ، انکے اوپرہوتے ہوئے ظلم وتشدد اورحق تلفی وناانصافی کے اندوہناک واقعات کوروکنے کے بجائے مزید انکے خلاف سازشیں کی جارہی ہیں،انکے آپسی اتحاد واتفاق میں رخنے پیدا کئے جارہے ہیں،انکو نظریاتی  اختلافات میں الجھاکرکبھی دیوبندی بریلوی  توکبھی  سلفی شیعی تنازعات میں بانٹاجارہاہے تاکہ وہ کبھیباہم شیروشکر نہ ہوسکیں اور ظلم وتشدد کے خلاف متحد ومتفق ہونے کےبجائےہمیشہ آپسی  انتشار وافتراق میں الجھے رہیں،ان جھگڑوں میں پھنس کر وہ طاقتور قوم بن کر ابھرنے کے بجائے مزیدکمزور ہو کررہ جائیں اورکبھی کسی میدان میں  مثالی کردار ادا کرنے کیطرف متوجہ نہہو سکیں  تاکہ دشمنان اسلام کوخود بخود انکے مفادات حاصل ہوتے رہیں، اسطرح  مسلمانوں کی عقلوں پر پردہ ڈال کر انکے حقوق غصب کئے جارہے ہیں ،انکے ساتھ ناانصافیاں ہورہی ہیں،مختلف تنازعات،مقدمات  اورمصائب ومشکلات میں غرق کرکے مسلمانوں کے صبر واستقامت کا ناجائز فائدہ اٹھایا جارہا ہے، کبھی اگریہ قوم ہوش میں بھی آئے تو اپنے آپ کوسازشوں اور فتنوں میں اسطرح جکڑا ہواپائے کہ چاہ کر بھی وہ کچھ نہ کرسکے،غفلت کی نیند میں ہی سوتی رہے،اسلامی بیداری کا خواب بھی نہ دیکھ سکے ،خوشگوار ماحول اورپرامن  زندگی  ہی انکے پھلنے پھولنے کاذریعہ ہے ، اسلئے کسی طرح  یہ موقع انہیں فراہم نہ کیا جاسکے، اسبات کی کوشش اب ملک وبیرون ملک میں شباب  پر ہے ،دشمنان اسلام نےاسی موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئےاسکا بھرپور فائدہ اٹھایاہےاورمسلمان قوم بڑی تعداد اورزبردست افکار ونظریات کے  حامل  رہنے کےباوجوددوسری قوموں سے پیچھےاوربے وزن  ہوکر رہ گئی ہے، بلندی  وترقی کے تمام نسخےاورآثار وقرائنہمارے پاس موجود ہیں، قرآن و حدیث کی کتاب  تو ہے مگر ہم نے اسے پس پشت ڈال دیا ہے، نبی وصحابہ کی بہترین سیرت اور آباو اجداد کی بے مثال زندگی بھی ہمارے درمیان محفوظ ہےمگر ہم کردار کے غازی بننے کے بجائے صرف گفتار کے غازی ہیں، علما وادبا کیقیمتی باتیں ، محنتیں، کوششیں ،کارنامے ،بڑی بڑی کتابیں، قدرت کی تنبہات ،نبی کی پیشن گوئیاں،انٹرنیٹ کی وسیع دنیا اوراخبارات  ومجلات میں تازہ ترین مقالات ومضامین کی شکل میں موجود ہیں مگر ان سے سبق حاصل کرنے کا موقع  ہمیں دستیاب نہیں ہے، حالات حاضرہ پرتازہ اور محقق گفتگوبھی ہماری رہنمائی کیلئے ممد ومعاون ہیں ،مگرتوفیق الہی سے ہم دور ہیں،ہماری ہی غفلت کے نتیجے میں فتنوں اور سازشوں نے ہمیں آدبوچا ہے کہ ہم  زبردست اسلامی تصورات رکھنے کے باوجود قوم وملک کی توقعات پرکھرے نہیں اتر سکے اور نہ ہی اسلامی سانچے میں ڈھل کر اپنی دینی ذمہ داریوں کے تقاضوںکویہاں پورا کرسکے ،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مرض "وھن"نے  ہمیں جکڑ لیا ہے  کہ دنیاکی چمک دمک سےشدید محبتاور موت  وشہادت سے کراہیت نے ہماریحکمت وبصیرت کی دولت چھین لی ہےکہ ہمصدیوں قوموں کے درمیان  رہنے کے باوجود بھی اپنے کردار وعمل سے  انہیں اپنا گرویدہ نہیں بناسکے اور نہ ہی انسانیت کی خیرخواہی اور مستقبل کی امید و کرن کے طور پر اپنے آپ کو پیش کرسکے!جسکے نتیجے میں دنیا کی قومیں دشمنان اسلام کیطرف سے پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کے شکار ہیں اور ہم اپنے ہی ملک میں ان دنوں ڈرے اور سہمے ہوئے زندگی گزارنے پرمجبورولاچار ہیں!! شاعر مشرق نے ہمارے عروج وزوال کا نقشہ کھینچتے ہوئے ہماری بے بسی اور کمزوری کی حقیقی نشاندہی کی ہے۔۔

نشان راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو۔۔

ترس گئے ہیں کسی مرد راہ داں کے لیے

بڑے افسوساور عبرت کی بات ہے کہ سنگین حالات میں بھی ہمارا کردارنہایت حیرتناک ہے!خود ہمارے ملک میں مسلمانوں کے خلاف مظالم کے جو پہاڑ توڑے جارہے ہیں،کیا یہ اندوہناک واقعات اورالمناک حادثات جونہایت وحشیانہ اور سفاکانہ ہیں پھربھی  ان سے ہمارا ضمیربیدار نہیں ہورہا ہے ؟ دشمنوں کے لاکھ حربے اور متعدد حادثات کے باوجودہمارا احساس  وشعورزندہ نہیں ہوپارہاہے؟ تعجب خیز بات  ہے کہ اب نہ صرف شرپسند عناصر اور سادھو سنتوں کی جانب سے اسلام اور مسلمانوں پر پے درپے حملے ہونے شروع ہو چکے ہیں بلکہ ملک کی پارلیمنٹ سے بھی اسی انداز کے قوانین پاس ہورہے ہیں جو دستور وآئین کےبالکل مخالف ہیں،جن کا تعلق ڈائریکٹ مسلمانوں کی مذہبی آزادی اور شرعی قوانین سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف مسلمانوں کے خلاف ملک میں جگہ جگہ  وارداتیں اور زیادتیاں پیش آرہی ہیں تودوسری طرف انسداد ظلم وتشد اوراسکے لئے  ٹھوس اقدامات کے سلسلے حکومت بالکل خاموش ہے ، اسکی سرد مہریاں اور کھلی لاپرواہیاں اسی بات کی غماز ہیں کہ وہ مسلمانوں کے تئیں مخلص  وہمدردنہیں ہے؟ ایسا محسوس ہوتا جارہاہے کہ ملک  میں جمہوریت،رواداری اورگنگاجمنی تہذیب سمیت پورا دستور وآئینہی خطرے میں ہے۔ جسکی بقا وتحفظ کی ذمہ  داری جتنی مسلمانوں کی بنتی ہے اتنی ہی مخلص برادران وطن اورامن پسند شہریوں کی بھی ذمہ داری ہے بلکہ حکومت،عدلیہ ، انتظامیہ اور میڈیا کے  کندھوں پربھی  اسکی عظیم اور اولین ذمہ داری عائدہوتی ہے اوریہی وقت کا  اہم تقاضہ اور ملک کی روح  اور اسکی سلامتی کو شدید ضرورت بھی ہے۔اگر خدانخواستہ ہم نے اس میں کسی طرح کی کوتاہی ہوئی   تو ملک میں ایک بڑافساد برپا ہوجائےگا۔جس پرکنٹرول  اسوقت مشکل طلب امر اور بڑا چیلنج  بن  کرابھرے گا۔مگر موجودہ حکمرانوں سےاسطرح کی امیدیں موہوم ومجہول نظر آرہی ہیں۔خود ہی ہمیں اپنی اپنی  ذمہ داریاں ادا کرنی ہونگی۔۔

ان سے امید نہ رکھ، ہیںیہ سیاست والے

یہ کسی سے بھی محبت نہیں کرنے والے۔۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اندرون و بیرون ملک  اسلام اور مسلمانوں کے خلاف حالات نہایت ہی ناسازگار اور ناگفتہ بہ ہیں، سب سے بڑا مسئلہ نئی نسلوں میں ایمان و یقین اور اسکی روح  کی بقا و تحفظ کا مسئلہ ہے۔ جس کے لئے ہر مسلمان کا بے چیناورمضطرب ہوجانا اسکا ایمانی تقاضہ ہے، اگر انکی بے چینی و اضطرابی کیفیت میں کچھ بھی کمی باقی ہے تو پھر وہ زندہ مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں! بلکہ ایک مردہ مسلمان ہے، جن کی رگوں میں اسلامی حمیت وغیرت کا زندہ اور گرم خون نہیں!بلکہ ٹھنڈا اور لال پانی دوڑ رہا ہے! جن کا صرف نام اور خاندان تو مسلمانوں کاہے مگر اسلام سے انکا رشتہ بالکل مردہ ہوچکا ہے اور اسلامی تصورات وتوقعات میں انکا رول بزدلوں جیسا ہے۔ وہ ایمان و یقین کی حلاوت و چاشنی سے کوسوں دور ہے، جس کے لیے انہیں سب سے پہلے اپنا احتساب اور تجدید ایمانویقین  کی شدید ضرورت ہے۔ بقول شاعر مشرق۔جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی۔۔۔روح امم کی حیات کشمکش انقلاب۔

ملکی وعالمی سازشیں کوئی اچنبھی یا نئی چیز  نہیں ہیں کہ ہم ڈراور خوف کھاکرہمہ وقت سہمے سہمے اور ڈرے ڈرے  رہیں! بلکہ اسلام اور مسلمانوں نے اس سے زیادہ سنگین حالات دیکھے ہیں اوربے شمار مصائب ومشکلات سے گزر کر عروج وارتقا کی منازل حاصل کئے ہیں، بیشتر زمانہ اسلام اور مسلمانوں کےعروج وارتقا کا زمانہ رہا ہے،اسلامی،اموی ،عباسی ،اندلسی ،عثمانیحکمرانی کے زرین  ادوار اورخود ملک  ہندوستان  میں صدیوں تک مسلم حکمرانوں کادوربھی قابل مطالعہ  ہے، جن کے آثاروقرائن ہمیں پھر سے دعوت مبارزت دے رہے ہیں، مگر سوئے اتفاق ان دنوں ہماری اخلاقی پستی، دینی غفلت، خود فراموشی، اجتماعی بے نظمی، سیاسی کمزوری، مسلکی اختلافات، علمی تنزلی اور فکری انتشار نے ہمیں انحطاط وزوال کا شکار بنا دیا ہے ،اگر آج بھی ہمارا احساس بیدار ہوجائے  اور ہمارا ارادہ وحوصلہ ہمالہ سے بلند وبالا ہوجائے تو آج بھی ہماری تقدیر بدل سکتی ہے ،آسمانوں سےہمارے لئےمدد نازل ہوسکتی ہے ،بس!حسن کردار سے نور مجسم ہو جا !!!!         کہ ابلیس بھی دیکھے تو مسلمان ہو جائے۔۔ کاش کہ ہمارا عزم۔ قوم وملک کو تاریکی، پستی، بدحالی اور تنزلی سے نکال کر روشنی، بلندی اور سرفرازی کا بہترین مقام عطا کرنے کےلئے جواں ہوجائے، ہمارا حوصلہ ۔شروفساد اور ضلالت وگمراہی کومٹانے اور توحید ورسالت کا شمع روشن کرنے کے لئے بلند وبالاہوجائے،زندگی میں روانی ،ایمان میں حرارت،نگاہ میں بلندی اور خون جگر میں اسلامی تصور کی آمیزش ہوجائے!تو پیاسی انسانیت کا بیڑہ پار ہوجائے۔مگر افسوس!کہ آج ہمارا حال ہی قابل غوروفکر  ہے ، ہم نہ تو دین کے لئےمخلص  ہیں اورنہ ہی دنیا ہماری قدموں کے نیچے ہے ، آج ہم سےہمارا خدا اور رسول بھی ناراض ہوگیاہے،اسی لئے آج دنیا والے بھی ہمارا مذاق اڑارہے ہیں۔بقول شاعر۔ اپنے بھی خفا مجھ سے، بیگانے بھی ناخوش۔۔۔حالانکہ یہ زمیں وآسمانبلکہ پورا جہاں ہمارے لئے پیدا گیا ہے مگر ہماری تخلیق  انسانی قیادت و رہبری اور آخرت کی دائمی زندگی کے واسطےکی گئی ہے۔جن اغراض  و مقاصد سے ہم اور ہماری خیر امت فی الوقت دور ہیں۔آزمائشوں اور فتنوں کے شکارہیں اور در در کی ٹھوکریں کھاتے پھررہے ہیں۔سوائے اللہ کے کوئی ہمارا حامی وناصر نہیں ہے۔شاعر مشرق نے ہماری تخلیق کا حقیقی مقصدبتاتے ہوئے ہمیں جگایا ہے۔

نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے

جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا