English   /   Kannada   /   Nawayathi

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے (17)  آخری قسط

share with us
chalte ho to bhatkal chalye 17 aakhiri qist -  ammar ahmed limbada nadwi, ammar ahmed limbada, bhatkal, bhatkal safar nama , moulana ammar ahmed limbada, imam hasanul banna shaheed institute, moulana nasir akrami, Fikrokhabar bhatkal, fikrokhabar , chalte ho to bhatkal chalye 17 -  ammar ahmed limbada nadwi

خدا آباد رکھے اس چمن کو! الوداع الوداع

عمار عبد الحمید لمباڈا

رات نیند کب آئی پتہ نہ چل سکا بس الارم نے جگایا تو آنکھیں بہت بھاری تھی اور کہہ رہی تھیں ابھی سوئے تھے ابھی جاگ گئے تم۔ فجر کی نماز سے فارغ ہوئے چائے ناشتہ ہوا اور صبح جھٹپٹے میں ہی کار ریلوے اسٹیشن کی طرف دوڑ پڑی، وداع کرنے کے لئے ایک دو آدمی کے بجائے ایک دو جماعتیں آئی تھیں، مولانا عبد اللہ شریح ندوی اور مولانا زفیف شنگیری ندوی صاحب سڑک حادثہ کا شکار ہوکر زخمی ہوئے انہیں ڈاکٹر کے پاس جانا تھا لیکن گویا انہوں نے مہمان نوازی ہی کو سب کچھ جانا تھا، مولانا عبد اللہ شریح کو زیادہ چوٹ آئی تھی پیروں سے خون بہے جا رہا تھا لیکن وہ مہمان کیلئے بچھے جا رہے تھے اور مولانا زفیف صاحب تو اپنے نغموں سے سب کو سرشار کئے جا رہے تھے جبکہ خود چوٹ سے پریشان تھے لیکن ہماری خوشی کے لئے مولانا عبد اللہ شریح کے خون کی طرح وہ بند ہی نہیں ہو رہے تھے۔۔ ٹرین کچھ تاخیر سے پہنچی لیکن یہ تاخیر محسوس نہیں ہوئی زفیف صاحب کی سریلی آواز جیسے پیروں کے زخموں کے درد کے بالمقابل  زیادہ سریلی ہو گئی ہو، اور ہر نغمہ کا ساز و الاپ گویا "غم اٹھاتے رہو مسکراتے رہو" ہو گیا ہو۔

میرے گنگولی کے ساتھی مولانا مزمل صاحب بھٹکل کی کئی ساری روایتی چیزیں گھر سے بنوا کر لائے تھے اور ٹرین کے نکلنے تک اور بھی بہت کچھ اپنی میٹھی آواز کے ساتھ دیتے رہے۔ ٹرین ایک گھنٹہ تاخیر سے آئی کوئی ایک صاحب بھی وہاں سے نہ ٹلے ، مولانا منیری صاحب مولانا سمعان صاحب مولانا عبد اللہ شریح صاحب مولانا زفیف صاحب مولانا مزمل صاحب اپنا سب کچھ قربان کرکے ہمارے لئے وقت فارغ کئے ہوئے تھے۔

ایک سرنگ سے ٹرین باہر نکلتی ہوئی دکھائی دی اور

جی چاہا کہ ایسی پیاری اور عمدہ جگہ ، محبوں اور مخلصوں کے درمیان کچھ اور دن رہ لیں ، مگر رخصت کی گھڑی آن پہنچی تھی، استقبال سے کہیں زیادہ قدر و محبت ، جوش و جذبہ کے ساتھ بھٹکل اسٹیشن پر رخصت و وداع کیا گیا ،

ٹرین کے چل پڑنے تک سب قدم رک سے گئے تھے میزبان ٹرین کے دروازے کے باہر اور مہمان کے قدم اندر، نگاہیں تھم سی گئی تھیں، زبانیں جیسے سی دی گئی ہوں خدا حافظ بولنے کے علاوہ اور کچھ کہنے کی سکت کہاں تھی، ٹرین چلدی اور ہم دروازے پر کھڑے دور تک انہیں تکتے رہے۔ لیکن اچانک ایک سرنگ ہمارے درمیان حائل ہو گئی۔ تھوڑی دیر کے لئے اپنوں کو کھوتے ہوئے محسوس کیا کہ ایک دن اسی طرح موت کی سرنگ سب کو مجھ سے اوجھل کر دے گی۔ میں اس سوچ سے کانپ سا گیا لیکن دوسرے ہی پل کہنے لگا انہیں سرنگوں نے اہل بھٹکل کو زندگی میں کچھ کر گزرنے کے لئے متحرک کر رکھا ہے کہ یہ انہیں موت کی سرنگ سے غافل نہیں ہونے دیتی ، پھر کہیں قدرت کے بہترین مناظر میں کھو گیا ۔ ٹرین سے دنیا بہت تیزی کے ساتھ گزرتی ہوئی نظر آ رہی تھی جیسے میری زندگانی ہو کتنی تیز ! شاید ۱۰۰ کی سپیڈ سے یا اس سے زیادہ لیکن میری زندگی کی رفتار سے بہت کم ہاں بہت کم۔

میں اپنی سیٹ پر آ پڑا کہ نیند کی آغوش میں دماغ کو کچھ شانتی مل سکے۔

ٹرین ایک جنگل سے گزری اور میرے خیالوں کا جنگل اور گھنا ہو گیا ایک ہی خاردار خیال کہ کیوں اہل بھٹکل اتنے متحرک اور متفکر ہیں؟میں کیوں نہیں؟ ، اور ٹرین کی رفتار کے ساتھ ہی میری یادوں کا سفر بھی تیز تر ہوگیا ماضی کی یادیں سب تازہ ہو گئیں جب مجھے بھی بہت ہی بہتر خیال قوم کے لئے کچھ کر گزرنے کے آیا کرتے تھے میں بھی ان خیالوں کی آبیاری کے لئے بھوکا پیاسا رہا تھا اور اسی پر بس نہیں تھا اپنوں کو بھی میرے خیالات کی گرمی محسوس ہوتی تھی وہ بھی ایک جہنم سی لپٹ اس دنیا میں محسوس کرتے تھے کہ کل قیامت میں جنت کی ٹھنڈک پا سکیں لیکن میں کہاں ؟بھٹکل میں تھا  جہاں چھوٹوں کے خیالوں کی آبیاری ہو، ان کے خواب شرمندہ تعبیر ہوں، انکے حوصلے ہمالہ کی چوٹی کو چھوتے ہوں،

ہمیں ہر پل پست ہمت کیا گیا، بلکہ ٹانگ کھینچ کر بٹھایا گیا کبھی تو ٹانگیں توڑنے کی کوشش کی گئی کہ کبھی کھڑے ہی نہ ہو سکیں۔

اچھے خیالوں کا طوفان صرف ساحلی علاقوں میں بسنے والوں کے ذہنوں میں ہی نہیں اٹھتا ،بنجر زمینوں کے قلاش نظر آنے والے فقیروں کے ذہنوں کو بھی مضطرب کرتا ہے، بس انہیں بھٹکل کے سے اکابر میسر نہیں ہوتے۔

ان خیالوں سے آزادی ابھی ملی نہیں تھی کہ ٹرین نے زور کی سیٹی بجائی اور چوکنا کیا کہ بس اب سفر کا اختتام ہوا اور میں نے دعا کی۔۔۔

اللہ تعالٰی آباد رکھے اس چمن کو ۔

گھر پہنچتے پہنچتے یہی سوچتا رہا

بلا شبہ بھٹکل کی نوا خون دل و جگر سے ہوئی ہے۔

وقت بڑی رفتار سے گزرا جس کے خوشگوار اور شیریں لمحات ہمیشہ یاد آتے رہیں گے۔

 

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے قسط 1

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے قسط 2

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے (3)

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے(4)

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے قسط (5)

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے(6)

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے( 7 )

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے( 8 )

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے( 9 )

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے( 10 )

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے( 11 )

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے( 12 )

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے( 13 )

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے( 14 )

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے( 15 )

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے( 16 )

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا