English   /   Kannada   /   Nawayathi

کہانی گھر گھر کی!!؟؟ قسط 3

share with us
bhatkal, bhatkal corona, bhatkalnews, sahil news, kahani ghar ghar ki, fikrokhabar, fikrokhabar bhatkal, bhatkal fikrokhabar, atiqur rahman dangi, atique dangi, atiqur rahman nadwi, jamia islamia bhatkal, bhatkal jamia, fikrokhabar mazameen, fikrokhabar

تحریر : عتیق الرحمن ڈانگی ندوی

رفیق فکروخبربھٹکل

اسکول وین کا ہارن بجتے ہی امّ ضیاء چونک پڑی۔ وہ اپنے پیارے کے انتظار میں کب سے بیٹھی تھی، صبح ساڑھے سات بجے اسکول کے لیے نکلا ضیاء تقریباً دو بجے گھر لوٹ جاتا تھا لیکن آج اسے دیر ہوگئی تھی۔ ٹیمپو گھر کے سامنے والی سڑک سے آگے بڑھی۔ وہ گیٹ کی جانب بغور دیکھ رہی تھی ۔ کچھ ہی لمحے میں ضیاء اندر داخل ہوا ، اس سے پہلے کہ ضیاء ڈور بیل بجاتے اس نے  جھٹ سے دروازہ کھولا تو السلام علیکم کی رس گھولتی آواز کانوں سے ٹکراگئی ، ام ضیاء نے وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہتے ہوئے دروازہ بند کردیا،

ضیاء کو دیکھتے ہوئے ام ضیاء نے محسوس کیا کہ آج وہ کچھ مایوس ہے ، مایوسی اس کے چہرے پر ظاہر ہورہی تھی ، وہ آج کچھ گہری سوچ میں تھا، ہمیشہ جب بھی ضیاء گھر میں داخل ہوتا تو چہرا پر مسکراہٹ ہوتی تھی گویا وہ اسکول کی تھکان باہر ہی چھوڑ آتا تھا لیکن آج معاملہ اس کے برعکس تھا۔

ام ضیاء نے خیریت دریافت کرنے پر اس نے الحمدللہ کہا اور ایک لمبی سانس لی۔ اس سے پہلے کہ  کچھ اور پوچھتی اس نے اسکول میں بیتے لمحات سنانے شروع کردئیے۔ ماں جی! یہ اچھا نہیں ہورہا ہے؟ بار بار اس طرح کے کرنے سے ہمارا دھیان بھٹک رہا ہے ، سب کچھ تو ٹھیک چل رہا تھا! جانے پھر کس کی نظر لگ گئی؟ ماں نے استفسار کیا۔ بیٹا! کیا بات ہے ، کس بارے میں بول رہے ہو، میں کچھ سمجھی نہیں۔ تب ضیاء نے افسوس کرتے ہوئے کہا کہ آج پھر ماسٹر جی نے ویکنڈ کرفیو کے پیشِ نظر سنیچر اور اتوار کو چھٹی کا اعلان کردیا ہے۔ ساتھیوں کے درمیان آج یہی باتیں ہورہی تھیں ، بعض طلبہ کہہ رہے تھے کہ اس ہفتہ ویکنڈ کرفیو نہیں ہوگا لیکن اکثروں نے اپنے والدین کے وھاٹس ایپ پر موصولہ مختلف میڈیا کے پیغامات حوالے سے بتایا کہ یہ سلسلہ 31 جنوری تک چلنے والا ہے۔ یعنی کے اس کے بعد پھر دو ہفتے سنیچر اور اتوار کو چھٹیاں ہوں گی۔ اگر یونہی چھٹیاں ہوتی رہیں گی تو پھر تعلیم کا کیا ہوگا؟

اسی لمحے ڈور بیل بجی، اس سے پہلے کہ ام ضیاء دروازے کی طرف بڑھتی ضیاء نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا، سامنے ابو جان مسکراکر سلام کررہے تھے، اس نے بھی مسکراتے ہوئے سلام کا جواب دیا اور ابو کا ہاتھ تھامے انہیں صوفے کے قریب لے آیا۔ امی نے خیریت دریافت کرتے ہوئے انہیں صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور میری طرف متوجہ ہوئی۔ ضیاء! کیا بتارہے تھے؟! اب ابو نے موبائل ایک طرف رکھتے ہوئے اپنا چہرہ پوری طرح میری طرف کرلیا، ۔ ہاں ضیاء بیٹا! ہم لوگ پہلے کھانے سے فارغ ہوتے ہیں اس کے بعد بات کرتے ہیں۔  ابا کے حکم پر کھانا لگ گیا اور ہم کھانے سے فارغ ہوکر دوبارہ ہال میں آگئے۔ ضیاء نے اپنی داستان سنانی شروع کردی۔ ابو جان! یہ ٹھیک نہیں ہورہا ہے نا ہمارے ساتھ؟ بات کیا ہے بیٹا؟ ابو نے جواب دیا۔  آج پھر ماسٹر جی نے اعلان کیا کہ کورونا کے پیشِ نظر سنیچر اور اتوار کو تعلیم نہیں ہوگی۔ انہوں نے ہمیں خوب پڑھنے لکھنے اور ان اوقات کو کارآمد بنانے کی بھی نصیحتیں کیں لیکن اس طرح بار بار چھٹیوں کے اعلان سے ہماری تعلیم پرگہرا اثر ہورہا ہے۔ ۔ ابھی پیر سے جمعرات صرف چار روز ہی تعلیم ہوپائی ہے اور ابھی پھر چھٹی کا اعلان ہوگیا۔ اس طرح محسوس یہی ہورہا ہے کہ پھر بقیہ دن بھی کورونا کے معاملات کے پیشِ نظر چھٹیوں کا اعلان ہوسکتا ہے۔ ضیاء کی باتوں سے اس کے والد کچھ دیر کے لیے  سکتہ میں آگئے ، ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ضیاء کو کس طرح سمجھائیں۔ وہ ضیاء کے تعلیمی شوق دیکھ کر ایک طرف خوش ہورہے تھے تو دوسری طرف ان کے سامنے حالات کی مجبوریاں بھی تھیں۔ بھلا ضیاء ان حالات کی مجبوریوں کو کیسے سمجھ سکتا ، اس کی چھوٹی سی عقل اس کا ادراک نہیں کرسکتی، وہ کچھ دیرکے لیے خاموش ہوگئے، اتنے میں ام ضیاء کہنے لگی! روزانہ خبریں آرہی ہیں کہ کورونا کے معاملات بڑھ رہے ہیں اور حالات تشویشناک صورت اختیار کرتے جارہے ہیں اور لاک ڈاؤن کا اعلان کبھی بھی ہوسکتا ہے۔ ضیاء کے والد نے ام ضیاء کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ  حکومت نے اس مرتبہ مکمل لاک ڈاؤن نافذ نہ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔  یہ بات صحیح ہے کہ حکومت کی بات پر مکمل یقین نہیں کیا جاسکتا۔ فیصلے حالات کی وجہ سے بدل بھی سکتے ہیں لیکن اس مرتبہ حکومت نے یہ کیا ہے کہ جہاں جہاں کورونا کے معاملات ہیں وہیں پر بندشیں بڑھادی ہیں اور وہیں کے اسکولوں میں ہی چھٹیوں کا اعلان کیا ہے لیکن یہ بات اب بھی سمجھ سے باہر ہے کہ ویکنڈ کرفیو ریاست میں بھر میں نافذ کیوں کیا ہے؟ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ ماہریان کی رائے یہ ہو کہ ویکنڈ کے دوران بڑی تعداد میں لوگ باہر نکل سکتے ہیں اور کورونا کے مزید پھیلاؤ کے لیے اس طرح کرنا ناگزیر ہے ۔ ام ضیاء نے اس بات پر عدمِ اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ جہاں جہاں معاملات ہیں وہیں پر ویکنڈ کرفیو کو بھی لاگو کیا جانا چاہیے اور جہاں معاملات کم ہیں وہاں پر چھوٹ دے دینی چاہیے ، اس سے لوگوں کو بھی راحت ملے گی اور تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔ ضیاء والدین کی اس گفتگو کو بغور سن رہا تھا لیکن کورونا کی وجہ سے نافذ بندشوں کو سمجھنے سے اس کی عقل قاصر تھی ، روزانہ آنے والی خبروں سے پریشانی الگ ہورہی تھی اور والدین کی باتوں سے بھی وہ مطمئن نہیں ہوسکا تھا ۔ بندشوں کے نفاذ کے اصل حقائق ابھی بھی اس سے کوسوں دور تھے۔
 

کہانی گھر گھر کی !!؟؟؟ قسط 1

کہانی گھر گھر کی!!؟؟ قسط 2

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا