English   /   Kannada   /   Nawayathi

کہانی گھر گھر کی !!؟؟؟ قسط 1

share with us
bhatkal, bhatkal corona, bhatkalnews, sahil news, kahani ghar ghar ki, fikrokhabar, fikrokhabar bhatkal, bhatkal fikrokhabar, atiqur rahman dangi, atique dangi, atiqur rahman nadwi, jamia islamia bhatkal, bhatkal jamia, fikrokhabar mazameen, fikrokhabar

تحریر: عتیق الرحمن ڈانگی ندوی

رفیق فکروخبر بھٹکل

اجی سن رہے ہو! کورونا کے معاملات میں روز اضافہ ہورہا ہے ، ہر دن نئے معاملات سامنے آرہے ہیں ، نیوز چینلوں پر چیخیں نکل رہی ہیں کہ فلاں ریاست میں کورونا کے اتنے معاملات آگئے اور فلاں جگہ اتنے؟؟ ملکی سطح پر کورونا کے اثرات کا تذکرہ زوروں پر ہے۔  ام ضیاء وھاٹس ایپ دیکھتے ہوئے اپنے شوہر کو حالات سے باخبر کرنے کی کوشش کررہی تھی۔

شوہر نے بھی چائے کی چسکی لیتے ہوئے جلے پرنمک چھڑکنا شروع کردیا ، پہلے ہی سے خوف میں مبتلا ام ضیاء نے شوہر کی باتیں سن کر دوسروں کو بھی فون اور میسیج کرکے بتانے لگی۔ اس نے اپنی سہیلی کوفون کرکے بتایا ۔ کورونا کے معاملات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ، پتہ ہے کہ ویکنڈ کرفیو میں ٹرافک بہت کم تھی ، نیوز میں بتایا جارہا ہے کہ آنے والے دنوں میں اس تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے؟

ہندوستان میں کورونا کی تعداد میں روز بروز اضافہ درج ہوتا جارہا ہے۔ ریاستی حکومتیں اپنے اپنے طرز پر اقدامات کررہی ہیں۔ پی ایم مودی نے بھی اعلیٰ افسران کے ساتھ میٹنگ کی اوراپنے من کی بات کہی ، انہوں نے عوام کو ان حالات کا مقابلہ کرنے کا گر بھی بتایا۔  ام ضیاء کے شوہر نے اس کی توجہ حاصل کرتے ہوئے کہا۔

اتنے میں بیٹا ضیاء بھی ہال میں پہنچ گیا ، وہ بہت دیر سے والدین کی باتیں سن رہاتھا، ہر چیز پر غور کررہا تھا ، حکومت کی جانب سے کیے جارہے اقدامات پر بھی اس کی نگاہ تھی ۔ اس نے یہ کہتے ہوئے اپنی بات شروع کی۔

حکومتِ کرناٹک نے بھی کرونا کے بڑھتے معاملات دیکھتے ہوئے اس مرتبہ ویکنڈ کرفیو لاگو کیا۔ جس میں روز مرہ کی ضروری اشیاء کے علاوہ تمام قسم کے کاروبار بند رکھے گئے۔ ماہرین کے مطابق کورونا پر قابو پانے کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر نہ کیا جائے اور یہ اسلامی اصول بھی ہے کہ وبائی امراض میں ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ میں نہ جائیں لیکن یہاں تو معاملہ الٹا دیکھنے میں آیا۔ پبلک ٹرانسپورٹ کو اجازت دی گئی جس کا مطلب صاف ہے کہ عوام سفر کرسکتی ہے ، ضروری اشیاء کی خریداری کے لیے بھی گھروں سے باہر نکل سکتے ہیں ، عوام کو تو باہر نکلنے کا بہانہ چاہیے بلکہ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس کو کسی بھی طرح کے بہانے کی ضرورت نہیں رہتی وہ تو بس تفریحاً گھروں سے نکل جاتے ہیں ، انہیں کہاں جانا ہے یہ بھی پتہ نہیں ہوتا بس جب سڑکوں پر پہنچ جاتے ہیں تو کسی بھی جگہ کا انتخاب کیا جاتا ہے اور اس کی طرف نکل پڑتے ہیں ، بعض تو ایسے بھی ہیں جنہیں کرفیو کے وقت میں بازار بند کا نظارہ کرنا رہتا ہے ، ایسے لوگوں کے لیے آپ جس طرح کے بھی اقدامات کریں انہیں تو اپنا کام کیے بنا سکون ہی نہیں ملتا ، ایک سڑک بند ہے تو دوسرے کا انہیں پہلے سے پتہ ہوتا ہے ۔ اس سلسلہ میں انہیں اتنا تجربہ رہتا ہے اور پہلے ہی سے انہیں معلوم رہتا ہے کہ کن سڑکوں پر پولیس کی آمدورفت کم ہوتی ہے ، انہیں تو بس بازار کا نظارہ کرنا ہے چاہے اس کے لیے پٹرول خرچ کرنا پڑے۔

کورونا کا خوف دلاتے ہوئے آپ عوام کو بے وقوف بناکر گھروں میں بند کرسکتے ہیں لیکن آخر الذکر قسم کے لوگوں کو کون روک سکتا ہے؟

اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ایسے محسوس ہورہا ہے کہ کورونا صرف رات اور ویکنڈ میں ہی آتا ہے اسی لیے حکومتیں اس پر قابو پانے کے لیے یہ نسخہ آزماتی ہیں، پیرصبح  پانچ سے جمعہ کی رات دس بجے تک کورونا نے حکومتوں سے کہدیا ہے کہ میں ان دنوں میں کسی کو نہیں لگ سکوں گا، یہ تو میرے آرام کا وقت ہے  اور میں اپنے آرام کے اوقات میں کسی دوسرے کے آرام میں خلل نہیں ڈالتا۔ ریاست کرناٹک میں ایک سیاسی جماعت نے دس روزہ پد یاترا کا اعلان کیا  اور کرفیو کے دوران افتتاحی نشست بھی منعقد ہوئی ، لاء اینڈ آرڈر نافذ کرنے والے محکمہ کے بھی افراد موجود رہے یہاں تک کے کے پی سی سی کے صدر نے کہہ دیا کہ چاہے کچھ بھی ہو ہم پدیاترا نکال کر ہی رہیں گے؟ تو اب اس کا جواب کسی کے پاس ہے؟ انہوں نے صرف ایسے ہی نہیں بلکہ حوالوں کے ذریعہ بات کی اور حکومت سے سوال بھی کیا کہ انتخابات کے لیے کورونا کیوں نہیں ہے؟ پی ایم مودی ریلیوں پر ریلیاں کریں وہاں کورونا نہیں ہے، بس کورونا تو غریبوں کو لگ جاتا ہے جی! مزدوروں اور روز کما کر روز کھانے والوں کو دبوچ لیتا ہے ، اس کے پاس ایک ایسا آلہ موجود ہے جس کے ذریعہ سے وہ عوام میں کھلا فرق محسوس کرتا ہے ، سیاستدانوں کے لیے کورونا نہیں ہے اور نہ ان کے لیے کسی طرح کا کرفیو ، یہ تو بس ووٹ دینے والی عوام کا کام ہے ، جیسے انہوں نے ووٹ دیا ہے ، اب ان کی طرف سے کوئی احکامات مل جاتے ہیں تو ان کی پاسداری بھی بہت ضروری ہے۔ یہ کہتے ہوئے ضیاء کچھ جذباتی بھی ہوگیا۔

آپ کو معلوم بھی ہے کہ سیاسی رہنما کے پیچھے چلنے والوں کو بھی کورونا کا خطرہ نہیں ہے۔ خبردار! کورونا اپنے آقا کی نافرمانی کرے ، جب نیتاؤں کو کورونا نہیں لگ سکتا تو پھر ان کے پیچھے چلنے والوں کو بھی لگنے کی اجازت وہ کیسے دے سکتے ہیں، ان کی دکان کا دارومدار تو انہیں لوگوں پر ہے ، جئے جئے کار کرنے والے نہ رہیں تو یہ لوگ کسے بیوقوف بنائیں گے؟؟

والدین اسے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے تھے ، اس کی باتوں پر کچھ تبصرہ کرتے اتنے میں وہ پھر گویا ہوا۔

ہاں ایک بات اور رہ گئی! کورونا طالب علموں پر جلد اثرکرجاتا ہے ، اسکول اس کے خفیہ ٹھکانوں میں ہیں ، کورونا کی خبریں آتے ہی تعلیم پر بھی مصیبتوں کے بادل منڈلانے لگ جاتے ہیں، اساتذہ سوچنے پر مجبور! طلبہ اپنے مستقبل کو لے کر پریشان! اسی لیے اسکولوں میں جلد چھٹیوں کا اعلان کیا جاتا ہے کہ کورونا کو اپنے ٹھکانوں پر آنے جانے میں کسی طرح کی دقت نہ ہو، وہ بلاخوف وخطر اسکولوں میں اپنی میٹنگیں منعقد کرسکے اور علاقہ کا روڈ میپ تیار کرسکے!

ایک سانس میں ضیاء نے والدین کے سامنے اتنے دلائل رکھے کہ وہ دم بخود ہوکر رہ گئے۔  وہ نظریں جھکائے ضیاء کی باتوں پرسوچنے پر مجبور ہوگئے، ان کے ذہنوں میں گردش کرنے والے سوالات کے کئی جوابات انہیں مل گئے تھے۔

اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتے! ضیاء تیز قدموں کے ساتھ اپنے کمرے کی طرف بڑھ چکا تھا ۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا