English   /   Kannada   /   Nawayathi

ہندوستان اور مسلمان۔ جبرو استبداد کے پنجہ میں!!( آخری قسط)

share with us
indian muslim

   از: ڈاکٹر آصف لئیق ندوی

ملک کے ایک ایک فرد بالخصوص مسلمانوں کو بہت ہوشیار اورنہایت  محتاط رہنے کی ضرورت ہے، اپنے اخلاق وکردار کو مثالی بنانے کی شدید ضرورت ہے اور ہندو مسلم ایکتا اور آپسی اخوت ومودت کے دیا کوجلائے رکھنے اور اسے کبھی گل نہ کرنے کی متحدہ کوشش درکار ہے۔کیونکہ تکثیریت میں ہی ہماری خوبصورتی ہے،جمہوریت میں ہی ہماری فلاح و بہبود مضمرہے،گنگاجمنی تہذیب میں ہی ملک کی عافیت و بھلائی ہے، ہمارے پرکھوں کی تاریخ اور انکی وصیت بھی ہے،ملک کے ہمدرد سورماوں، امن پسند لیڈروں، آزادی کے مجاہدوں، وطن کے شہیدوں کا سچا خواب ہے اورامن پسند ہندووں اور مسلمانوں کایہی نصب العین ہے، اسلئے اپنے واضح نشانات و امتیازات کو ہرگزمٹنے نہ دیجئے اور کسی سرکاری سستی سیاست کاہدف نہ بنئے۔کیونکہ جو مردوں کوبلا وجہ بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حقیقت میں وہی لوگ بدچلن اور سیاہ کردار کے مالک ہیں۔کسی مردہ کو برا بھلا کہنا ہرگز جائز نہیں، بلکہ بعض علما کا خیال ہے کہ اگر کسی مردہ کافر کو برا بھلا کہنے سے انکے زندوں کو تکلیف ہوتی ہے تو اسے بھی برا بھلا کہنا درست نہیں۔پھر کیوں ہم مسلم حکمراں کو کھلے عام اور اخبارات و میڈیا کے ذریعے بدنام کرتے ہیں۔اصل میں اسکے ذریعے  ہندوستان کو برہمنیت کی عیاری اور مکاری میں جکڑنے کا پلان ہے۔

            حقیقت یہی ہے کہ شاہانِ مسلم جب ہندوستان آئے تو اپنے ساتھ نفرت و عداوت کی ٹوکریاں نہیں بلکہ عروج وارتقا کے نسخے لے کر آئے، ملک کو اقتصادی و معاشی پستی سے نکالنے کیلئے اپنے ساتھ قیمتی تجربات ومشاہدات لائے، بڑی بڑی حکمتیں اور تدبیریں لے کر آئے،اپنا بہترین ذہن ودماغ، وسیع سوچ وفکراور عمدہ مزاج ومذاق لے کرآئے، ملک کو پستی سے نکالنے کیلئے انہوں نے بہترین کارنامے انجام دئے، زراعت وصنعت، تعمیر وعمارت اورعلم و معرفت کے میدان میں بھی ملک کو بلندی کے اونچے مقام پر لے گئے۔جبکہ ہندوستان کی آبادی مسلم حکمرانوں کی آمد سے قبل معاشی و اقتصادی اورمذہبی و اخلاقی پستی کے غار میں گری ہوئی تھی، کھیتیوں کا ہنر اور درختوں سے مختلف پھل حاصل کرنے کا طریقہ بھی انہیں نہیں معلوم تھا،لال قلعہ، قطب مینار، تاج محل اور ہند وپاک میں قائم فوجی قلعے اور اڈے انہیں مسلم حکمرانوں کی دین اور قابل فخر یادگارہیں اورانکے عظیم کارناموں میں ناپاک سازشوں اور اوچھی سیاستوں کا ہرگز کوئی عمل دخل نہیں ہے،نیک جذبات و احساسات کیساتھ انسانیت کی خدمت کرنا انکاجذبہ اوراخلاقی فریضہ تھا،جو انہوں نے آٹھ سو سال تک بخوبی انجام دیا، جو لوگ انکے خلاف بولتے ہیں وہ تاریخ کو توڑ مڑوڑ کر نفرت کی فضاہموار کرنے کے لئے اپنا ایمان ویقین بیچ رہے ہیں، مسلم حکمرانوں کے دور میں ملک میں جوامن وامان قائم تھا،سازگار ماحول اوربہترین فضا موجودتھی،جس میں نفرت و عداوت کا کوئی عنصر پایا نہیں جاتا تھا،آج کے حکمرانوں میں بالکل متضاد سوچ وفکر،مخالف رویہ اور مسلم مخالف ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے، جس سے ملک ترقی کرنے کے بجائے تنزلی،اونچے معیار پر جانے کے بجائے سطحیت اوربلندی پر پہونچنے کے بجائے پستی کا شکار ہوتاجارہا ہے۔مسلم حکمرانوں کوبدنام کرنے کا ہدف اصل میں مسلمانوں سے بدظن کرواناہے۔اسلئے مسلمانوں کو یہ ہرگز پسند نہیں کہ ان کے مرے ہوئے حکمرانوں اور بادشاہوں کی بلاوجہ برائی اور شناعت بیان کی جائے۔

            تاریخ گواہ ہے!مسلم حکمرانوں کے کارناموں کا انکار کرنے والاکوئی بدبخت اور بدخواہ انسان ہی ہوسکتا ہے!گڑے ہوئے مردوں کی قبرکھودنا عقلا کوئی مناسب کام نہیں ہے اور یہ وہی کرسکتا ہے جوملک کا غدار اوراسکی روشن تاریخ کو داغدار کرنے والاہو، جو جھوٹی اور گڑھی باتوں کے ذریعے لوگوں کومسلمانوں سے دور اورگمراہ کرتا ہو، بے قصورعوام کا ذہن ودماغ سچائی سے موڑکر برائی پرآمادہ کرتاہو،وہ پست اخلاق اورگندے کردار کا حامل شخص ہی ہوسکتاہے جوتحقیق شدہ باتوں کو اپنی سیاسی اور دنیوی مفادات کی خاطرجھٹلاتاہو،ملک کی تاریخ کیساتھ اسکی یہ بڑی خیانت اور غداری بھی ہے،جسے کبھی معاف نہیں کیا جاسکتا!شرپسند عناصر اور فرقہ پرستوں کے منہ پر تالالگنا چاہیے،آج نہیں تو کل ضرور لگے گا ورنہ قیامت کے دن تو حتمی طور پر لگے گا، جب ان کے اعضا وجوارح حق بات کی گواہی دیں گے تو سب سنکر حیران و ششدر ہوجائیں گے،اسوقت اپنے کئے پر پچھتائیں گے اور پچھتانے کے بادجود کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

یادرکھئے!احسان فراموش شخص اور تنگ نظرقوم پر خدا کی لعنت ہوتی ہے، اسکی دوکان تادیر نہیں چل سکتی!پرفتن دور، برے حالات اورشرپسندوں کے سیاہ کارنامے اور تنبیہات ربانی کے نزول سے ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ قیامت کا وقت اب بہت قریب آگیاہے!جیسا کہ اسوقت مسلمانوں کیخلاف عالمی سازشیں چل رہی ہیں، انسانیت نام کی کوئی چیز باقی نہیں بچ گئی ہے،مسلمانوں کے عظیم احسانات کو جھٹلانے کی کوششیں ہورہی ہیں، انکی انتھک محنتوں اور قربانیوں پر پانی پھیرنے کی ناپاک سیاستیں ہورہی ہیں، امن وامان کے داعی اور محسن قوم وملک پربیجا ظلم وزیادتیاں ہورہی ہیں، انکے خلاف اور انکی مذہبی آزادی کے خلاف طرح طرح کے پروپیگنڈے ہورہے ہیں۔مسلمانوں کی وقف شدہ جائیدادوں کوسرکاری تحویل میں لے کر ان کو ہی کسی کھلی جگہوں پرجمعہ کی نماز اداکرنے سے زبردستی روکا جارہا ہے اوراس پرواویلا مچایا جارہا ہے۔انکے خلاف سیا ہ قوانین بنائے جارہے ہیں، پھر تو مسلمانوں کوانکی ساری وقف جائیدادیں سرکاری ونجی تحویل سے واپس ملنی چاہیے۔تاکہ مسلمان اس پراقلیتی ادارے اور مساجد ومراکز قائم کرسکیں اوراپنی وقف شدہ جائیداد پر نماز ادا کرسکیں، اپنی غربت وافلاس اور مظلومیت کے عالم میں بھی ان کوآمدنی کا ذریعہ بناسکیں،تعلیم وتربیت کیلئے وہاں کوئی راستے ہموار کرسکیں۔

            اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کے سارے مسلمان امن پسند ہندوستانی شہری ہیں اورسارے مسلم بادشاہ سرزمین ہند پرترقی کا سرچشمہ بن کر داخل ہوئے، گلستان ہند کیلئے باغباں بن کر آئے اور اپنی بوقلمونی اذہان و افکار اوروسیع پسندانہ نظر یات کے ذریعے پورے ملک کی ہریالی کے کام کئے، دنیا میں ملک کا نام روشن کیا، اپنی مذہبی رواداری اور وسعت قلبی کیساتھ ہر میدان میں ناقابل تسخیر خدمات انجام دیں، بلاتفریق مذہب وملت سماجی وملی اوررفاہی وفلاحی پالیسیاں اختیار کیں، اپنی طاقت وقوت کواوچھی سیاستوں کے بجائے ملک کی باغبانی میں لگایا، اس کی فضا کو خوشگواراور اسکے ماحول کوپرامن بنائے رکھنے کی ہرممکن جد وجہد کی،ملک کوخوشحال بنائے رکھنے میں اپنی پوری طاقتیں صرف کردیں، نہریں کھدوائیں، تالاب بنوائے، فن تعمیر اور کاغذ سازی میں نمایاں ریکارڈ قائم کیا، گرینڈ ٹرینڈروڈ، سڑکیں،مسافر خانے اور عبادت وپوجا کے واسطے مسجد و مندر بنوائے غرض کہ انسانیت کی خیرخواہی اور اسکی بھلائی کی خاطر بے شمار کارنامے انجام دئے،جنکا احاطہ اس مختصر تحریر میں نہیں کیا جاسکتا۔۔ تاریخ کے حوالے سے اصل میں غدار تو وہ انگریز ہے جو ملک میں تجارت کے بہانے داخل ہوا اوررفتہ رفتہ شرپسندعناصر کے سہارے ملک کے اقتدار پرہی قبضہ جمالیااور جاتے جاتے پورے ملک کو لوٹ کرلے گیا۔

پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ ہم وفادار نہیں۔۔۔۔ہم وفادار نہیں تو بھی تو دلدار نہیں

جبکہ مسلم حکمرانوں نے ملک کو سنوارنے کا کام کیا،لوٹ کھسوٹ کے ذریعہ کوئی مال ہرگز جمع نہیں کیا بلکہ ملک کیلئے جب قربانی کی ضرورت پیش آئی تو سب سے مسلمانوں نے ہی بڑھ جڑھ حصہ لیا اور ہر طرح سے اپنا قیمتی تعاون پیش کیا اور اسمیں حیدرآباد کے نظام سرکار نے تو اپنا بہترین ریکارڈ قائم کیا،بادشاہوں کو بھی جب اپنے لئے بقدر ضرورت زمین کی ضرورت پڑی توانہوں نے کسی کا حق غصب کرنے کے بجائے اپنے پیسوں سے ذاتی زمین خریدی، خس و خاشاک اورکانٹوں کو صاف کرکے از سر نو ایک شاندار اور متنوع گلوں کی پھلواری قائم کی، ہرطرح سے اس کی آبیاری کی اور اس کے وہ پھول جو صدیوں سے ہلاکت وتباہی، طبقہ واریت، علمی وفکری تنزلی، معاشرتی لاقانونیت،دیوتاؤں کی کثرت اور نفسانیت و رہبانیت کے بادِ سموم میں جھلس رہے تھے- کو نئی زندگی عطا کی اور اسمیں تازہ روح پھونکی، پھلنے پھولنے کی مکمل راہیں ہموار کیں۔آج کے ارباب اقتدار ملک میں یکجہتی ویگانگت، رواداری و وطن پرستی اور اخوت ومودت میں مسلم حکمرانوں جیسی کوئی ایک بھی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں۔بلکہ وہ تو ظلم وزیادتی کرنے، سیاہ قوانین بنانے،مسجدیں منہدم کرانے اور شریعت میں کتربیونت کرنے میں اپنا ریکارڈ بنارہے ہیں! بھلا وہ قوم وملک کی ترقی میں کیا رول ادا کرسکتے ہیں؟

صرف آٹھ سالہ دور اقتدار میں انسانیت کے دم گھٹنے لگے ہیں، معیشت کی چولیں ہل کر رہ گئی ہیں،سارے بلند بانگ دعوے کھوکھلے ثابت ہوگئے ہیں جبکہ مسلم حکمرانوں نے آٹھ سو سالہ دورحکمرانی کاشاندارریکارڈ قائم کیا اوربڑے آب و تاب اور شان و شوکت کیساتھ یکجہتی وجمہوریت کا بہترین نمونہ پیش کیا،ہرطرح سے قوم وملک کونفع پہونچایا، ملک کو اگر مہیب صورتحال سے نکالنا ہے اورسرخروئی اور سرفرازی کے مقام پرپہونچانا ہے،تو پہلے ہمیں انسانیت کا درس حاصل کرنا ہوگا، پھر ہندوراشٹریہ اور منووادی نظر یات سے بالاتر ہو کربلاامتیاز مذہب و ملت بے لوث خدمات کاسلیقہ سیکھنا ہوگا۔ تبھی ہم ملک کے سچے شہری اور وفادار وطن پرست اور حکمرانی کے قابل اور اسکے اہل ہو سکتے ہیں!! صرف جھوٹے دعووں اور من کی باتوں کے ذریعہ قوم وملک کا ہرگز کوئی نفع ہونے والا نہیں ہے۔۔۔جب تک ہمارا نصب العین اس شعر کا سراپامصداق نہ بن جائے۔۔اسوقت تک ہم انسانیت کی کشتی کو مسائل کے گرداب سے ساحل مراد تک لے جانے کے قابل بھی نہیں بن سکتے ہیں!!! وہ شعر آپکی نذر ہے۔۔

شودر برہمن مغل پٹھان نربل نردھن یا دھنوان

سب ہیں آدم کی سنتان سب کو سمجھو ایک سمان۔

مضمون نگارمولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد میں عربی لیکچرار ہیں 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا