English   /   Kannada   /   Nawayathi

بھٹکل کے بارے میں’’ دی انڈین ایکسپریس ‘‘انگریز ی روزنامہ کیا کہتا ہے ؟؟

share with us


ساحلی علاقہ اُتراکنڑا ، کرناٹکا میں کوئی بھی کمیونل کشیدگی نہیں ہے، یہاں دہشت گردی کا کوئی کیس رجسٹرڈ نہیں۔ بی جے پی کی کافی حمایت حاصل ہے ۔ یہاں کے پولس چیف بغیر سیکوریٹی کے اپنے موٹر بائک پر آتے جاتے ہیں۔ دنیا کا دوسرا بلند ترین شوا کا مجسمہ یہاں موجود ہے ۔ 
بھٹکل پر دہشت گردی کا داغ اس وقت لگایا گیا جب پولس اور انسداد دہشت گردی کے ایجنسیوں نے 2008سے مختلف ریاستوں ہوئے بم دھماکوں میں ریاض ، اقبال شاہ بندری اور محمد احمد سدی باپا عرف یٰسین کے ہاتھ ہونے کا شبہ ظاہر کیا، اور ان کو انڈین مجاہدین تنظیم کے فاؤنڈر کی حیثیت سے پیش کیا ؛
حال ہی میں ایک کنڑا اخبار نے یہ رپورٹ شائع کی تھی کے بھٹکل کے دس مساجد بم تیار کرنے کے کارخانے ہیں، اس کے کچھ ہی وقفہ بعد شائع کیا گیا کہ اُسامہ بن لادن نے ریاض کے گھر پہنچ کر اسکو بم تیا کرنے کی تربیت دی، نیشنل ڈائیلیس (قومی اخبارات)نے کرناٹک کے پولس سے اکتوبر2008میں انڈین مجاہدین کے بھٹکل میں روپوش ہونے کے بارے میں دریافت کیا۔ اور طالبان حامی ویڈیوز کے بارے میں ۔
گذشتہ اکتوبر کے مہینہ میں فصیح محمود جو سعودیہ سے لوٹ رہا تھا اس کو صرف اس وجہ سے گرفتار کیا گیا کہ وہ یہاں کے انجینئرنگ کالج میں تعلیم حاصل کی تھی اور پھر اس کے تعلقات یٰسین سے ہے ۔ 
اتراکنڑا کے ایس پی کے ٹی بالا کرشنا بھٹکل کے اس تصویر سے اتفاق نہیں رکھتے جو ’’ احتیاط سے تیار کی گئی ہے ‘‘ان کا کہنا ہے کہ مجھے اس بات کا علم نہیں ہے کہ بھٹکل شہر نے اسلامک ٹیررزم کی جائے پیدائش کے طوریہ تصویر کہاں سے حاصل کی۔ میں نے یہاں ابھی تک کچھ بھی نہیں پایا۔ بلکہ انڈین مجاہدین کے فاؤنڈرس بھی یہاں نہیں رہتے وہ تو مہاراشٹرا میں رہتے ہیں۔
سابق بی جے پی وزیر سداشوانائک کا کہنا ہے کہ مجھے نہیں پتہ کہ ان تینوں نے کیا کیاہے کہ ان کے خلاف چارج کیا گیا ہے ، مگر نہ وہاں کوئی سلیپر سیل تھا ،اورنہ ہے۔وہاں اسلامک دہشت گردی نہیں ہے ۔
ریاض اور اقبال کو ممبئی سے لایا گیا تھا، اور وہ بھٹکل میں روپوش ہوگئے یا بھاگ گئے۔ تحقیقاتی ایجنسیوں کے مطابق سال 2002-03میں یہ لوگ سیمی کے ساتھ جڑ گئے تھے ۔ اقبال یونانی طبی تربیت حاصل کررہا تھا تو ریاض ایک تعمیراتی (کنسٹرکشن ) تجارت منگلور میں کررہا تھا، یہ دونوں یٰسین کے دوست ہوگئے ۔ اور تینوں نے 2008-9کو روپوش ہوگئے۔ تبھی سے ان کے خلاف الزامات عاید کئے گئے ہیں۔ اس دوران انہوں نے انڈین مجاہدین نامی تنظیم کی بنیاد ڈالی اور بھٹکل میں رہائش پذیر ہوتے ہوئے وہ مقامی نوجوانوں سے دوستی بڑھارہے تھے۔
مقامی آن لائن اخبار ساحل آن لائن کے ایڈیٹر عنایت اللہ گوائی کا یہ کہنا ہے کہ بھٹکل کواسی روپ میں پیش کیا گیا جس طرح مہاراشٹرا کے اے ٹی ایس نے پیش کیا۔ جوجرنلسٹ بھٹکل کے بارے میں لکھ رہے ہیں کیا وہ کبھی بھٹکل آئے ہیں۔انہوں نے وہی الٹی کی ہے جو ان کو کھلایا گیا ہے ۔
ریاض ،اقبال ، یٰسین کو چھوڑ کر بنگلور پولس ہیڈ کوارٹرس میں سے صرف ایک شخص کے خلاف کرمنل مقدم درج ہے ، وہ ہے محمد شبیر حسین گنگاولی ، اس کو مہاراشٹرا میں جعلی نوٹوں کے کاروبار میں ملوث ہونے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ جو بعد میں انڈین مجاہدین کے ممبر کی حیثیت سے پیش کیاگیا کہ وہ جہادی لٹریچر سپلائی کرتا ہے۔ 
یہ امن وامان کا شہر ہے 
پولس رپورٹ کے مطابق 1993 کے فسادات جس میں 17اجانیں تلف ہوئی تھی اس کے بعد شاید ہی فسادات پھوٹ پڑے ہوں ۔ 
بھٹکل پولس چیف اے ایس پی سدھیر ریڈی کے گھر کے پاس ایک بھی سیکیوریٹی گارڈ نہیں ہے ۔ وہ اپنے بائک پلسر میں تنہا گھومتے ہیں۔ ان کی کار اکثر دفتر کے قریب کھڑی رہتی ہے ۔ وہ اپنے بیوی اور بیٹے کے ساتھ ایک کرایہ کے مکان میں رہتے ہیں جو شہر کے شمالی جانب ریژرو فاریسٹ کے کنارے موجود ہے ۔ 
کانگریس ایم ایل اے جے ڈی نایک جو یہاں مسلم مقامی علاقے میں رہائش پذیر ہیں کہتے ہیں کہ یہاں کوئی دہشت گردی نہیں ہے ، آئی بی اور میڈیا نے اس کو بنایا ہے۔ جن تین افراد کے نام لئے گئے ہیں ، وہ یہاں نہیں رہتے، مہاراشٹرا، اے ٹی ایس خفیہ اجلاسوں کے سلسلہ میں بے بنیاد باتیں بیان کررہی ہے۔
بی جے پی کے سداشوانائک نے اس کو ایک مضحکہ خیز بات کہہ دی کہ سابق بی جے پی ایم ایل اے ڈاکٹر چترنجن جن کا قتل 1996میں کیا گیا تھا اس میں یہ تینوں ملوث ہیں۔ ریاض جب مہاراشٹرا میں ہونے کی بات رپورٹ کی گئی ہے تو پھر یہ کیسے ہوسکتاہے۔ سی بی آئی کی رپورٹ بے معنیٰ ہے ۔ 
یہاں کے مسلمانوں کو بی جے پی سے کوئی شکایت نہیں ہے ۔ یہاں کی بی جے پی فرقہ پرست نہیں ہے ۔ یہاں ہمیں کوئی پریشان نہیں کرتا، نہ پولس، نہ سیاستداں ۔دوسری ریاستوں کے پولس ہمیں بدنام کررہے ہیں۔ یہ بات سید خلیل نے کہی ے جو یہاں کے انجمن حامئ مسلمین ایجوکیش ٹرسٹ کے صدر ہیں۔ یہ انجمن کئی انسٹی ٹیوٹ چلاتی ہے یہ وہی انجمن ہے جس میں فصیح نے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی تھی۔
مذہبی سیاحتی مقام جس میں شوا کا مجسمہ موجو دہے آر این شیٹی نے اسے کئی سال پہلے ساحلِ سمندر پر تعمیر کیا تھا، ہر سال یہاں 20لاکھ سے زائد سفیر سیاحت کے لیے آتے ہیں۔ اب سیاحوں کی تعداد ہر دن 35ہزار سے زائد ہوگئی ہے۔ اس بات کی اطلاع مینیجر منجوناتھ شیٹی نے دی ہے ۔ 
یٰسین کے خاندان والوں نے اس بات سے انکار کردیا ہے کہ محمد فصیح نے انجمن کالج آف مینیجمنٹ اینڈ ٹکنالوجی میں ملاقات کیا تھا، یٰسین کے سلسلہ میں کالج کے پا س کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ خاندان والوں کا کہنا ہے کہ چھٹویں جماعت کے بعد ہی اس نے تعلیم منقطع کرلی تھی
مہاراشٹرا اے ٹی ایس نے یٰسین کے بھائی محمد صمد 2010میں جو دبئی سے لوٹ رہا تھا تو منگلور ایرپورٹ سے گرفتار کرکے سخت اذیتیں دی گئیں۔ وزیرِ داخلہ پی چدمبر کی جانب سے اعلان کردہ پرائزڈ کیچ‘‘ کا یہ رد عمل تھا۔ پولس نے یہ گما ن کیا تھا کہ یہی یٰسین بھٹکل ہے ۔ جب شناخت میں غلطی کا انداز ہ ہوا تو ا س کو جون کے مہینہ میں چھوڑ دیا گیا تھا۔
صمد (24) جس کا اپنے خاندانی تجارت کے سلسلہ میں دبئی جانے آنے کا معمو ل ہے ، جو اس وقت بھٹکل کے اپنے گھر میں موجود ہے اس کا کہنا ہے کہ ’’ میں نے چالس دن کسٹڈی میں گذارے‘‘ انہوں نے میرے ساتھ عجیب وغریب رویہ اپنایا، آپ تصور کرسکتے ہیں۔
وہ ہر قسم کے ٹارچر، ظلم و تشدد کو سہہ چکا تھا۔ اس کے چچایعقوب کا کہنا ہے کہ وزیرِ داخلہ نے صمد کی گرفتاری پر معافی مانگی تھی، کیا وہ اس کی عزت والی زندگی اور کیرئر کو واپس کرسکتے ہیں؟
سدی باپا اور شاہ بندری سے پڑوسیوں کا رویہ بدل چکاہے۔ اسماعیل شاہ بندری جو کہ ریاض اور اقبال کے والد ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ ایک بار مارکیٹ سے خریدار ی کرکے کچھ بھاری بھرکم تھیلالارہے تھے ، اچانک وہ پھسل گئے تو ان کی مدد کے لیے کوئی نہیں آیا۔ ہم نے ممبئی میں 35سال رہے ، وہ وہیں پیدا ہوا اوروہیں پروان چڑھا، ہم یہاں 2002میں آئے ۔ اس کے کچھ ہی سالوں بعد دونوں لاپتہ ہوگئے۔ اس کے بعد سے اب تک ہمیں ان کی خبر نہیں ہے ۔

تبصر ہ نگار:اشوتوش بھاردواج /  مترجم : انصارعزیزندویؔ

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا