English   /   Kannada   /   Nawayathi

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے قسط 13

share with us
bhatkal,jamatul muslimeen bhatkal, bhatkal jamtul muslimeen

عمار عبد الحمید لمباڈا

اب ہم دار القضا کے دفتر میں ہیں ، یہ در اصل جماعت المسلمین تنظیم کا ایک ذیلی شعبہ ہے اس کے اغراض و مقاصد میں مسلم معاشرے میں احکام کا نفاذ اور جمعہ و عیدین کی نماز کا انصرام ہے ، اس کے علاوہ محکمہ شرعیہ ، دینی مدارس اور بیت المال کا قیام ہے۔اسی جماعت کے زیر انصرام دار القضا بھی قائم ہے جہاں مسلمانوں کے باہمی نزاعات کے فیصلے اور طلاق و وراثت کے مسئلے حل کیے جاتے ہیں اور اس پر عمل در آمد بھی ہوتا ہے۔

دار القضا کا نام آتے ہی ذہن شیخ الہند مولانا محمود حسن، مولانا ابو الکلام آزاد اور مولانا ابو المحاسن سجاد حسین اور دیگر ان اکابر کی طرف منتقل ہو جاتا ہے جن کی مخلصانہ کوششوں کے نتیجہ میں امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ کا قیام عمل میں آیا تھا اور پھر ۱۹۲۲ سے مستقل نظام قضا و بیت المال قائم ہوا، لیکن بھٹکل کا یہ دار القضا ایک الگ ہی تاریخ رکھتا ہے، یہاں کا محکمہ شرعیہ گزشتہ ۸۰۰ سال سے قائم ہے جہاں مسلمانوں کے باہمی نزاعات بالخصوص نکاح و طلاق اور میراث وغیرہ کے مسائل فیصل ہوتے ہیں۔

ا

در اصل جن مقامات پر اسلام براہ راست عرب باشندوں کے ذریعہ پہنچا وہاں آج بھی بنیادی اسلامی اور عرب خصوصیات پائی جاتی ہیں ہندوستان کے ساحلی علاقوں پر عرب تاجر آئے اور اپنے ساتھ پیام اسلام بھی لائے، ان میں سے بہت سوں نے یہیں سکونت بھی اختیار کر لی ،یہیں شادی بیاہ کیا، کوکن، کیرالا اور گجرات کے ساحلی علاقوں میں اسلام براہ راست پہنچا۔ چنانچہ بھٹکل شہر بھی ان گنے چنے علاقوں میں سے ایک ہے جہاں ابتدائی عہد اسلامی میں اسلام پہنچا۔ ان سب جگہوں پر دار القضا کا نظام ہمیشہ سے رہا ہوگا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلم عہد سلطنت میں ہر جگہ یہ نظام رہا لیکن اس نظام کو ہر حالت میں باقی رکھنا اور اسی سے استفادہ کرنا یہ صرف اہل بھٹکل کی خوبی بلکہ ان کے خالص اسلامی ہونے کی بین دلیل ہے۔

دار القضا کے ذمہ داران ہمیں قدیم دستاویزات اور دار القضا کے فیصلے دکھائے جا رہے تھے نیز جامع مسجد بھٹکل کا قدیم کتبہ بھی دکھایا اور ذمہ داروں کی یہ بات ہم سب کو چونکا دینے والی تھی کہ تقریبا سو سال کے بعد اہل بھٹکل کا ایک قضیہ سرکاری کچہری میں گیا اور وہ بھی اس لئے کہ صاحب قضیہ بھٹکل کے نہیں ہے بلکہ دوسری جگہ سے یہاں آکر آباد ہوئے ہیں۔

آفس میں جگہ کم تھی اور ہمارے ساتھی زیادہ، سو بہت سی باتیں سننے سمجھنے سے بندہ قاصر رہا لیکن اہل بھٹکل کی مہمان نوازی سے بھرپور لطف اٹھاتا رہا، سامعین ہمہ تن گوش تھے لیکن کاجو اور مشروبات نے سامعین کی زبان کو بھی چلا دیا اور لگاتار چلایا۔

دار القضا کے سامنے ایک محلہ ہے جو راندیر و دیگر سورتی سنی ووہرا گاؤں کے محلوں سے بالکل مشابہ ہے، ان کے مکانات بھی قدیم اور مٹتی ہوئی طرز تعمیر کا نشان ہیں اور وہ بھی ان مکانات سے ۹۰ فیصد مشابہ۔

اس محلہ کا ایک گھر باہر سے دیکھنے کا اتفاق ہوا جو عہد قدیم میں درخت کی لکڑیوں سے تعمیر کیا گیا تھا ، دروازے و کھڑکیاں خوبصورت نقش و نگار سے آراستہ اور اس مہارت سے اس کے پٹ میں لکڑیوں کی پٹیاں لگی ہیں کہ اندر سے باہر کا آدمی دیکھا جا سکتا ہے ، مگر باہر والا اندر کی کوئی چیز دیکھنے سے محروم رہتا ہے ۔

اس طرح کے گھر گجرات کے شہر بھروچ اور پٹن میں بھی ہیں، گھر کا ڈیزائن حویلی کے مانند لگا اور حویلی فن تعمیر گجرات و راجستھان میں زیادہ عام رہا اس میں بھی گجرات کی حویلیاں راجستھان سے مختلف ہیں اور بھٹکل کا یہ گھر گجرات کی حولییوں سے زیادہ مشابہ ہے۔

آج کا ظہرانہ مولانا سمعان صاحب کے گھر پر تھا مولانا بہت ہی باذوق و با صلاحیت جوان عالم دین ہیں، آپ کا موضوع قرآنیات ہے لیکن ادب و سخن کا نہایت اعلی ذوق رکھتے ہیں،اور ان کا یہ ذوق صرف علم فن تک ہی نہیں بلکہ مہمان نوازی اور فن دسترخوانی تک ممتد ہے، حقیقت یہ ہے کہ خوئے عرب یعنی جذبہ مہمان نوازی ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے ، آج ان کے ہاں ظہرانے کی  انتہائی پرتکلف دعوت رہی، بھٹکل کی خاصی ڈشیں کھانے کا موقع ملا اور ساتھ ہی دستر خوان پر آتے ہی بکرا مسلم بھی لایا گیا گویا آج کی تقریب کا دولہا ، عام طور پر دعوتوں میں رسائی مرغ مسلم تک ہی ہوتی ہے لیکن آج بکرا مسلم تھا ۔ ویسے مومن کی نگاہ بلند ہونی چاہئے کہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ، سنا ہے عربوں کے ہاں اونٹ مسلم بھی ہوا کرتا ہے۔

کھانے کے بعد بھی چین سے بیٹھنے نہ دیا گیا ، پھلوں کی سجی ہوئی پلیٹیں انتظار میں تھی ، مولانا کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ہر دسترخوان کو بہترین ڈشوں سے ضرور سجایا تھا لیکن سہرا وہ کسی ایک کے سر رکھتے، کھانے کے دسترخوان پر بکرا مسلم توجہ کا مرکز تھا تو پھلوں کے دسترخوان پر طرح طرح کے پھل تو تھے ہی لیکن سہرا چکوتر کے سر تھا ۔

ہمارے لئے ان سب سے زیادہ توجہ کا مرکز مولانا مفاز شریف صاحب کی ذات گرامی تھی بلکہ زیادہ سچی بات یہ ہے کہ مولانا کی موجودگی ولكم فيها ما تشتهي کے ساتھ ولدينا مزيد کے مصداق تھی۔

مولانا نحیف الجثہ، لطیف طبیعت کے آدمی ہیں، مولانا سے تعارف علم و کتاب واٹساپ گروپ کے ذریعہ ہوا، مولانا کی علمی و ادبی تحریروں سے استفادہ کرتے ہوئے یہ خیال پختہ ہوتا گیا تھا کہ مولانا کوئی ادھیڑ عمر مشاق مصنف مؤلف اور نقاد ہیں، میری ساری باتیں درست نکلیں سوائے اس کے کہ وہ کوئی ادھیڑ عمر شخصیت ہوں مولانا تو کوئی ۲۲/ ۲۳ سالہ نوجوان ہیں لیکن میدان علم و فن کے شہسوار، اور اس وقت جامعہ اسلامیہ میں تدریسی خدمت بھی انجام دے رہے ہیں۔ مولانا سے ہمیں بہت کچھ جاننا و سیکھنا تھا لیکن وقت کی کمی نے اس کا زیادہ موقع نہ دیا اس کے باوجود کم وقت میں بہت کچھ ان سے سیکھنے اور جاننے کو ملا۔

عصر کی نماز مولانا سمعان صاحب کے گھر پر ہی ادا ہوئی اور اسکے بعد مولانا الیاس صاحب کے گھر پر حاضر ہوئے مولانا فرش راہ تھے، مولانا بہت کچھ ارادے و عزائم کرواتے رہے کہ گجرات پہنچ کر آپ کو یہ کرنا ہوگا وہ کرنا ہوگا اور ساتھ ہی پر تکلف عصرانہ ان عزائم میں خلل ڈالتا رہا ۔۔۔۔

 

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے قسط 1

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے قسط 2

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے (3)

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے(4)

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے قسط (5)

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے(6)

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے( 7 )

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے( 8 )

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے( 9 )

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے( 10 )

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے( 11 )

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے( 12 )

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا