English   /   Kannada   /   Nawayathi

حیدرآباد بم دھماکوں سے ’’ شہر منگلور ‘‘ کا رشتہ

share with us

سرخی :۔ حیدرآباد بم دھماکوں کا رشتہ شہر منگلور سے 
دوسری سرخی:۔ ضلع میں چھپے انڈین مجاہدین سے ملک میں ہوئے مختلف بم دھماکوں کے لیے دھماکہ خیز مادہ کی اسمگلنگ 
منگلور / حیدرآباد میں حالیہ پیش آئے بم دھماکوں کے معاملہ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ آندھرا کے ایک بی جے پی لیڈر کے ہاتھوں ایک لیٹر موصول ہواتھا جس میں لشکرِ طیبہ نے بم دھماکوں کی ذمہد اری قبول کی تھی اور ساتھ ہی بھارت کے دیگر اور شہروں میں بم دھماکے کئے جانے کی بات تحریرکی گئی تھی ، مگر ادھر بم دھماکوں میں انڈین مجاہدین کے ہاتھ ہونے کی بات منگلور پولس نے پورے وثوق کے ساتھ اپنے شبہ میں ظاہر کیا ہے ۔ کیونکہ حیدرآباد بم دھماکے میں استعمال کی گئی اشیاء اور کئی سال پہلے منگلور میں پیش آئے ایک بم دھماکے کی اشیا ء یکساں ہیں۔ میڈیا کے سامنے منگلور کے ایک سینئر پولس افسر نے بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ 2008میں ہلے انگڈی شہر سے احمد باوا نامی ایک شخص کو گرفتار کیا گیاتھا، یہ حیدرآباد کے لمبنی پارک میں پیش آئے بم دھماکوں میں ملوث ہونے کا اقرار کرچکا ہے، اُس(منگلور) بم دھماکوں میں سید احمد ضرار سدی باپا عرف یٰسین بھٹکل، (آئی ایم کمانڈر) ریاض بھٹکل (آئی ایم ڈائرکٹر) اور خود احمد باوا نے مل کر سردار سروور بم دھماکہ کا منصوبہ رچا تھا۔جس جگہ کو بم دھماکے کے لیے مختص کیا گیاتھا اس سے ہمارا مقصد زیادہ سے زیادہ افراد کے ہلاک کرنے کا مقصد تھا، مگر اس بار سردار سروور کے آس پاس سخت حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے ، تو ہم نے ارادہ بدل کر لمبنی پارک میں بم دھماکے کا منصوبہ بنایا۔اس طرح کا بیان محمد باوا نے دیا ہے ۔ 
انڈین مجاہدین اس سے پہلے جتنے بھی بم دھماکے کئے ہیں اس کے لیے دھماکہ خیز مادہ منگلور اور اُڈپی سے حاصل کیا گیا تھا، ایک فرد مسلسل یہاں آکر یہ اشیاء لے جایا کرتاتھا، باوا نے یہ بات پولس کو بتائی ہے، مگر انڈین مجاہدین کبھی بھی دھماکے کے لئے آر ڈی ایکس کا استعمال نہیں کیا ہے ،بم بنانے کے لیے مقامی پتھروں کے کانکنی میں موجود جیلیٹن سلاخ، امونیم نائٹریٹ، اور ڈیٹونیٹر وغیرہ استعمال کیا جاتا تھا، زہے قسمت پولس ان اشیاء کی رسائی کے اہم سراغ تک پہنچنے میں ناکام ہوئی ہے۔ 
بم میں ٹائمر نصب کرنے کے لیے ممبئی سے خریدا جاتا تھا، جس شہر میں بم دھماکوں کا ارادہ ہوتا ہے وہاں دہشت گرد پہلے ہی سے کرایہ پر گھر لے کر مقیم ہوجاتے ہیں ، اور سیکوریٹی انتظامات پر کڑی نظر رکھتے ہیں، پھراسی کرایہ کے مکانوں میں بم تیار کئے جاتے ہیں، پھر بم دھماکے سے ایک گھنٹہ پہلے یہ لوگ شہر چھوڑ دیتے ہیں۔ دہشت گرد بم نصب کرنے کے لئے زیادہ تر سائیکل کا ہی استعمال کرتے ہیں کیوں کہ پولس کبھی سائیکل کی چھان بین نہیں کرتی۔ 
سرخی :ساحلی پٹی میں انڈین مجاہدین دہشت گرد 
3اکتوبر 2008 میں دکشن کنڑا ضلع میں پولس، نکسل مخالف پولس، کے ایس آر پی ، اور ممبئی پولس کی جانب سے منگلور کے مختلف مقامات پر چھان بین کرتے ہوئے دھاوا بولا گیا تھا، اس مو قع پر ، الال کے مکا چیری سے محمد علی، ان کا لڑکا، جاوید علی، نوشاد (سبھاش نگر مقیم ) اور ہلے انگڈی کے احمد باوا کو گرفتار کیا گیا تھا، ان کو دہلی ، ممبئی اور سورت کے بم دھماکوں کے معاملے میں حراست میں لیا گیا تھا، اس کے پندرہ دن بعد پولس نے رفیق نامی شخص کو گرفتار کیا تھا، یہ ریاض بھٹکل اور اُڈپی ضلع کے ملور سے تعلق رکھنے والے فقیر باوا کا ڈرائیور تھا۔ اس کے بعد پولس نے کوپا شہر میں ایک بم تیار کرنے والے اڈے کا پتہ لگاتے ہوئے گن پاؤڈر، کیمیکل تھرما میٹر، کیمیکل سیلیوشن،کارپنٹری کٹ، الیکٹرکلس کٹ، مکسنگ جار، تیر و کمان، اور ایر گن سمیت بڑے پیمانے پر دھماکہ خیز مادہ ضبط کیا تھا۔ کوپا کے ہکل منے اور وٹھل مکی نامی دیہاتوں میں بم تیار کرکے چھپا دئے گئے تھے۔ 
اس کے بعد انڈین مجاہدین کے رہنما شبیر نامی شخص کو گنگولی میں گرفتار کیا گیاتھا، یہ اب بنگلور کے پرپنا اگراہارا جیل میں مقید ہے ۔ اسی موقع پر مدھیہ پردیش کے پولس نے اُجین سے احمد آباد اور دہلی بم دھماکوں کے میں ملوث انڈین مجاہدین کے مشتبہ دہشت گرد خواجہ محی الدین کپاڈی کو گرفتار کیا تھا، یہ منگلور آنے کے بعد اُلال کے ایک گھر میں مقیم تھا ۔ انڈین مجاہدین اور منگلور سے پرانا رشتہ ہونے کی وجہ سے حیدرآباد بم دھماکوں کے بعد منگلور پولس نے اس بات کی تردید نہیں کی ہے کہ منگلور کے مضافاتی علاقوں میں یہ لوگ چھپے ہوسکتے ہیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا