English   /   Kannada   /   Nawayathi

ہارون رشید غافل کی شخصیت اور ان کی شاعرانہ بصیرت!

share with us

از۔ڈاکٹر آصف لئیق ندوی،ارریاوی ( عربی لیکچرار، مانو، حیدرآباد)

              ہارون رشید ان کا نام تھا اور غافل ان کا تخلص تھا، وہ اپنے کارناموں کیوجہ سے آبروئے سیمانچل اور شان ارریہ کے خطاب سے نوازے گئے، 1965ء میں وہ اپنے نانیہال موضع بسنت پور، ککڑوا ضلع ارریہ، بہار میں پیدا ہوئے، انکا گھر موضع گیاری تھا، اس لیے وہ بار بار اس شعر کو دہرایا کرتے تھے۔گیاری سے آیا ہوں تیاری سے آیا ہوں۔۔۔۔راہ میں خطرے ہیں لیکن ہوشیاری سے آیا ہوں۔

              وکالت کے موضوع پر اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ اپنے علاقے کے ناگفتہ بہ حالات وکیفیات سے بہت متأثر ہوئے، 1980ء میں انہوں نے اپنا شعری سفر کا آغاز کیا، شاعری کا ذوق وشوق بچپن ہی سے موجود تھا، تقریبا پندرہ سال کی عمر رہی ہوگی جب انہوں نے شاعری کے میدان میں قدم رکھا، تعلیم وتربیت کو انہوں نے قوم و ملت کی ترقی کا راز سمجھا اور کام کیلئے انہوں نے ضلع میں بڑا ابھیان شروع کیا، یہاں تک کہ انہوں نے اسے اپنا اولین موضوع شعر و سخن بنایا اور اس کی بہترین صحیح ترجمانی و عکاسی کی، جس کی وجہ سے انہیں کافی شہرت حاصل ہوئی، گویا کہ انہوں نے اپنے اس فن کا آغاز لفظ ''اقرأ'' سے کیا اور یافتاح یافتاح پڑھ کر حالات کی گرہیں کھولنے کی رب سے درخواست کی اور ''رب یسر ولا تعسر وتمم بالخیر'' کا ورد کر کے خدا سے شاعرانہ بصیرت، کلام کی مقبولیت اور حالات سے مقابلہ کرنے کی دعائیں کیں، حوصلہ طلب کیا۔۔اللہ نے انہیں بلند حوصلوں اور ہمتوں سے نوازا۔

              ظاہر ہے جب کوئی بھی کام ''بسم اللہ۔۔'' سے شروع کیا جاتا ہے تو اس میں خدا کی مدد بھی شامل ہوجاتی ہے، برکت و رحمت کا نزول بھی ہوتا ہے، طالب دعا کو خدا کی طرف سے ذہانت و فطانت کی خاص نعمت بھی عطا ہوتی ہے، خدا داد صلاحیت و قابلیت کے جلووں سے پھر زندگی کے رزم و بزم کو ہزار رنگ حاصل ہونے لگے، عوام و خواص میں ان کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ جیسا کہ موصوف شاعر کی روداد زندگی کے مطالعے سے ہمیں پتہ چلتا ہے اور ہم ان باتوں کا مشاہدہ بھی کرتے ہیں۔۔

              سونے پر سہاگہ یہ کہ جب انسان ہی شریف النفس ہو، اچھے جذبات و احساسات کا حامل ہو، انسانیت کی خیرخواہی انکا مقصد اصلی ہو، ان کے قول و فعل اور شعر وسخن سے حالات کی صحیح ترجمانی ہو، حق بات کہنے کی ان کے اندر جرأت و طاقت ہو، خالق و مالک کی صحیح پہچان بھی ہو، دوسروں کے درد کو اپنا درد سمجھ کر اس کے ازالے کی تدبیریں بھی کرتا ہو، ارباب اقتدار کے درمیان بڑی خوش اسلوبی سے اپنے مسائل و مشکلات کو جامع انداز میں پیش کرنے کی انہیں بے مثال قدرت حاصل ہو، اس کا حل اور تجویز پیش کرنے کی پوری کوشش کرتا ہو اور سماجی و ملی فلاح و بہبود کے کاموں کی بھرپور ترجمانی بھی کرتا ہو۔۔۔۔تو بھلا کیسے انکے کاموں میں ریاکاری اور دکھاوے کا شبہ ہوسکتا ہے؟! انکی مقبولیت میں ہمیں کیوں تردد اوراعتراض ہوسکتا ہے؟انکی شاعرانہ بصیرت پر شک کیوں ہوسکتا ہے؟۔

              یہی وہ گوناگوں اوصاف وکمالات ہیں جن پر ہمارے مرحوم شاعر ہارون رشید غافل کی فکر ونظر نشو ونما پاتی ہے، ان کا ذہن و دماغ خوب پروان چڑھتا ہے، ان کا ذوق ومزاج اسی نھج پر ابھرتا ہے، ان کی شخصیت دیگر شخصیات میں کافی ممتاز ومعروف ہوتی ہے، ان کے فہم و فراست کو بالیدگی حاصل ہوتی ہے، انکی گرانقدر ادبی کاوشوں اور عمدہ علمی صحبتوں سے ان کا چرچا عام ہوتا ہے اور انکا درجہ علما، طلبا، عوام، خواص، وزراء اور ججوں کے نزدیک بھی بلند و بالا ہوتا ہے، وہ اپنے ہنر اور زبان کی خوبی کیوجہ سے لوگوں کی آنکھوں کا تارا اور انکے سروں کا تاج بن کر ابھرتے ہیں۔۔۔

              یہی وہ باتوفیق مقامی اور عوامی شاعر ہے، جنہوں نے بہت کم عمری میں بڑا مقام حاصل کیا اور لگاتار بیالیس سال تک سماجی و ادبی کارنامہ انجام دیا، انکا مقبول شعر امریکہ کی کسی محفل میں جب پڑھاگیا، توسبھوں نے اس فکر کی تائید کی اورخوشی سےمحفل جھوم اٹھی، انکی خدمات کی قدردانی اور اہمیت میں صوبائی و ضلعی سطح پر انہیں کئی ایوارڈ و خطاب سے بھی نوازا گیا، چونکہ انہوں نے علاقائی مسائل و مباحث کو اپنی گفتگو اور شعر وادب کا موضوع بنایا، اپنے حسین اسلوب و انداز سے مقامی زبان کے رنگ میں رنگ کر اسے جو شعری جامہ پہنایا وہ بہت نرالا اور عمدہ شعر سمجھا گیا، اسی زبان میں انہوں نے خوب طبع آزمائی کی، ہر صنف کلام پر انہوں نے اپنے شعری ذوق و شوق کا نمونہ پیش کیا اوراپنی شاعرانہ بصیرت کا لوہا منوایا۔ سارے نمونے مقبول عام ثابت ہوئے، کبھی انسانوں کے مسائل اور مشکلات کو انہوں نے اپنا موضوع سخن بنایا تو کبھی سماج و معاشرے کی برائیوں، کوتاہیوں اور سیاسی خامیوں کو برملا واشگاف کیا اور برائے تعمیر وترقی اسے ہدف تنقید بنایا، کبھی ملک و ملت کی صحیح رہنمائی کی تو کبھی تعلیم و تربیت کے فروغ و ترویج پر اپنی نظریں مرکوز کیں اور عوام وخواص  کے درمیان اس کی خوب وکالت کی، پڑھے لکھوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے کی زبردست وکالت کی، غرض کہ تمام سماجی و ملی موضوع کو اپنی توجہ وعنایت کا محور ومرکز بنایا۔۔۔بڑے عمدہ اسلوب اور لحن کیساتھ اسے پیش کیا،اپنے کلام و تخلیق کو حیات جاوداں بخشی اورعوام کے سامنے اور متعدد محفلوں میں اسے بطورنصیحت وموعظت پیش کی۔

              جناب ہارون رشید غافل کی خاص خوبی یہ ہے کہ انہوں نے اپنی بات پیش کرنے میں جس مقامی زبان کا سہارا لیا یہی ان کا وہ خاص طرہئ امتیاز اورشان شاعری ہے، جس میں ان کا کوئی ثانی وہمسر نہیں!! کلہیا برادری سے ان کا خاندانی تعلق تھا اور اسی زبان میں انہوں نے اپنا بیشتر کلام بھی پیش کیا جو بہت جامع اور خوبصورت انداز میں ہمارے درمیان محفوظ ومحبوب ہے بلکہ بمثل تریاق ہے، اس کے علاوہ انہوں نے ہندی اور اردو زبان میں بھی متعدد خدمات پیش کیں، آکاشوانی ریڈیو میں انکی خدمات بھی قابل رشک ہے،وہ بڑے فصیح وبلیغ اردو زبان و ادب کے بھی ماہرتھے، انکے مجموعہ کلام اور مختلف تحریروں میں انکے متعدد نقوش ہمارے لیے قابل تقلید سرمایہ ہیں، خوبصورت انداز و اسلوب اور عمدہ اظہار خیال انکا اسلامی وطیرہ ہے، جس میں انکو خوب مقبولیت بھی حاصل ہوئی، شہر ارریہ میں پندرہ اگست یعنی آزادی کے دن اور مدارس ومراکز کے بیشتر پروگراموں میں انہیں عمدہ اناؤنسرنگ اور کلام پیش کرنے کا شرف بھی حاصل ہے، انکی ممتاز ترین خوبی یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنا ضمیر ہمیشہ صحیح وسالم رکھا کبھی اسکا سودا ہونے نہیں دیا، اس موضوع پر انکا مشہور ومعروف کلام بھی آپکے بطور استشہاد پیش ہے۔۔۔ضمیر بیچ کر میں زندہ رہوں یہ ناممکن۔۔۔

              آگے مزید ہمت و جرأت کرتے ہوئے فرقہ پرست، شرپسند عناصر اور ظالم حاکم کو مخاطب کرتے ہوئے ببانگ دہل کہتے ہیں۔

زمانہ تجھ کو مسیحا کہے یہ ممکن ہے         مگر میں تجھ کو مسیحا کہوں یہ ناممکن

              اگرچہ کلہیا زبان میں انکازیادہ تر بیش بہا اور عمدہ مجموعہ ہے مگر موضوع کے اعتبار سے انہوں نے نہ صرف کلہیا برادری کی نمائندگی کی بلکہ ملک و صوبہ کے ہر سماج و برادری حتی کہ شہر ارریہ کے مشہور شیخ برادری کو بھی انہوں نے شامل کلام اور عمدہ مقام عطا کیا ہے، ہر فرد اور انسان کے مسائل کو انہوں نے اپنا موضوع سخن بنایا ہے، کسی کو بھی اپنی باتوں کے ذریعے تنگ نظری کا ہدف نہیں بنایا، حتی کہ انہوں نے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت و عداوت، ذات پات اور بھیدبھاؤ کے رونما ہوتے واقعات پربھی اپنے گہرے رنج و ملال کا اظہار کیا اور ان سب باتوں کو ملکی مفاد اور قومی یکجہتی کے خلاف تصور کیا اور ملک و ملت کی ترقی و بلندی میں ان باتوں کو مخل اور رکاوٹ سمجھا، جس کی صحیح ترجمانی کرتے ہوئے اس پر بھی انہوں نے اشعار کہے ہیں۔

نئے سال میں کچھ نیا کر دکھائیں            وطن کو ضرورت ہو تو سر کٹا ئیں

چلو نفرتوں کو مٹائیں اے غافل            محبت کی دنیا کو پھر سے سجائیں

              یہی وہ اوصاف و صفات ہیں جن سے ہمارے شاعر کی پوری زندگی بصیرت افروز نظر آتی ہے، ان کا شعر و ادب بڑا مہذب و باسلیقہ نظر آتا ہے، ان کا جذبہ بڑا قابل قدر اور ان کی فکر لائق ستائش نظر آتی ہے اور ان کا مذاق و مزاج رنگ برنگ اور اعلی و ارفع نظر آتا ہے، عوام و خواص میں انہیں عمدہ خوبیوں کی وجہ سے بلند پایہ مقام اورعوامی شاعر کارتبہ حاصل ہے، اسی لیے ہم انہیں آبروئے سیمانچل اور شان ارریہ کے خطاب سے جانتے اور پہچانتے ہیں، اہل علم و دانش میں بھی وہ بڑے مخلص وخیرخواہ تصور کئے جاتے ہیں، لوگ انکے بڑے مداح و قدرداں ہیں، اگرچہ وہ کسی مدرسے کے فارغ نہیں تھے مگر علما و صلحاء میں بھی وہ بڑے مقبول ومحبوب نظر آتے ہیں، مدارس و مکاتب کے طلبا اور اساتذہ کے درمیان وہ بڑے پسندیدہ شاعر سمجھے جاتے ہیں، اسی لئے وہ دینی و سماجی جلسوں میں رونق اسٹیج اور زینت محفل بنا کرتے ہیں، مشاعروں میں ان کا شمار بڑے شعراء کی فہرست میں ہوتا ہے، ان کا کلام بڑا عمدہ اور انکی آواز بڑی سریلی سمجھی جاتی ہے، وہ حالات حاضرہ کی صحیح عکاسی بھی کرتے ہیں اور اس کا صحیح حل اور تجویز بھی پیش کرتے ہیں، کئی بار راقم السطور کو بھی بنفس نفیس ان کا عمدہ کلام سننے اور انکی فکروں سے مستفید ہونے کا موقع ملا ہے۔۔۔۔ انکی نغمگی آوازوں سے اب تک ہمارا سماع مسحور و مانوس ہے۔۔۔۔۔اللہ انکو شایان شان جزائے خیر عطا فرمائے۔۔۔۔۔۔۔

  غافل انکا تخلص ضرور ہے مگر انکے کارناموں سے ہمیشہ انکی بیدار مغزی اور شعور بیداری ظاہر ہوتی ہے۔۔ وہ خود اسکی تصریح فرماتے ہوئے گویا ہیں۔

غافل ہوں بیدار کروں گا ہر لمحہ ہوشیار کرونگا ……..کرتے ہیں جو مجھ سے نفرت ان سے بھی میں پیار کروں گا۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا