English   /   Kannada   /   Nawayathi

مولانا رحمانی_ انداز تکلم اُنکا

share with us
moulana wali rahmani

 

      ظفر عبد الرؤف رحمانی (خانقاہ رحمانی مونگیر)


مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت واقعی ایک انجمن تھی، وہ عالم تھے، بزرگ تھے، مقررتھے، دور اندیش اور مفکرتھے، حالات کے نبض شناس، قوم وملت کے پاسبان تھے، آپ کی شخصیت گوناگوں صلاحیتوں کی حامل تھی، آپ کو مکتب کی نگرانی سے حکومت وقت تک کی ورق گردانی کاتجربہ تھا، آپ کی صلاحیت، ذہانت، اور بروقت فیصلہ اور جرأت اقدام کے غیر بھی مداح تھے، لیکن آپ کی تمام تر صلاحیتوں میں ایک نمایاں اور باوقار خوبی آپ کی زبان تھی، لفظوں کے استعمال کا انوکھا پن، طرز استدلال کی جدت، بیان وانداز کا حسن آپ کے فکر وفلسفہ کو تقویت پہونچاتا تھا، لوگ آپ کے بیان میں بندھ جاتے تھے، اور تقریر کے بعد بھی سننے والوں کی تشنگی باقی رہتی تھی۔  
میں نے خانقاہ کی مجلسوں میں گفتگو کرتے سنا ہے، اونچے درجہ کے سمینار، یونیور سٹی کے سیمپوزیم  گاؤں دیار کے عام فہم لوگوں میں بھی نقطہئ نظر کی وضاحت کرتے دیکھا ہے، بڑی بڑی محفلوں، چھوٹے بڑے جلسوں اور عظیم الشان کانفرنس میں مجھے تقریر سننے کو ملی ہے، جو چیز ہر جگہ، ہر اسٹیج اور ہر مرحلہ میں مفکراسلام حضرت مولانا محمدولی صاحب رحمانیؒ  کی تقریر اور گفتگو میں بہت نمایاں نظرآئی، وہ ہے۔
۱۔     علاقہ، موقعہ اور ضرورت کے مطابق موضوع کا انتخاب۔
۲۔    موضوع کی وضاحت۔
۳۔     طرز استدلال کی مضبوطی۔ 
۴۔     الفاظ کابر محل انتخاب اور استعمال۔
۵۔     آسان سے آسان تر زبان کا استعمال۔ 
۶۔     صاف، ستھرا اور ٹھہرا ہوا انداز بیان۔
 معاملہ تصوف کاہو، یا کوئی فقہی نکتہ، صرف اور نحو کی بات ہو، یا کوئی تفسیری گتھی، قانونی باریکیوں اور آئینی موشگافیوں کی نوبت ہو، اقتصادی سسٹم یا بینکنگ کے نظام پر نقطہئ نظر کو پیش کرنا ہو، یا حکومت کے غیر متوازن پروگرام، پراجکٹ، یا بجٹ پر تبصرہ ہو، وہ پورے موضوع پر حاوی نظر آتے تھے، ان کی نگاہ وہ سب کچھ پڑھ لیتی تھی، جو دوسروں کو ماہ و سال میں نظر آتے اور موضوع کے ایک ایک حصہ کو الگ الگ کرکے اس کی تہ در تہ کمزوریوں یا خوبیوں کوواضح کرتے چلے جاتے تھے، جس کے نتیجہ میں سننے والے کی عقل سونچنے پر آمادہ ہوتی، اور غور وفکر کی لہریں ابھرنے لگتی تھیں۔ 
موضوع پر بھرپور گرفت کے ساتھ اپنی دلیل کو اس طرح پیش کرنا کہ بات دماغ میں اترتی اور دل میں سرایت کرتی جائے، یہ بڑا مشکل کام ہے، خدانے انہیں یہ صلاحیت بھی خوب دی ہے، کہ ہر بات اور ہر مسئلہ اور مشکلہ کی دلیل بڑے مؤثر انداز میں پیش کرتے تھے، جس سے فرار کی راہ باقی نہیں رہتی، اور زبان سے انکار کرنے والادل سے اقرار اور اعتراف کرنے پر مجبور ہوجاتا، اور مجبوراً زبان بھی ساتھ دینے لگتی۔ 
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھرتے ہیں 
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں 
یہ بھی بہت مشکل مرحلہ ہے کہ دل ودماغ میں موجود مفہوم کے لیے مناسب اور بر محل الفاظ کا انتخاب کیا جائے، عام طور پر موضوع جتنا مشکل اور مفہوم جتنا الجھا ہؤا ہوتا ہے، اسے سمجھانے کے لیے کچھ زیادہ ثقیل الفاظ زبان سے نکلنے لگتے، شاید یہ موضوع کے دباؤیا ذہنی بھینچاؤ کا نتیجہ ہوتا ہے__ میں نے حضرت مولانامحمد ولی رحمانی صاحبؒ کو ایسے مشکل مرحلہ سے کامیاب گذرتے دیکھا ہے، وہ سمجھانے اور بتانے کے لیے الفاظ کا بڑا انوکھا انتخاب کرتے تھے، غور کرنے پر لگتا ہے کہ اس سے زیادہ مناسب لفظ اس جگہ دوسرا نہیں ہوسکتا۔ 
پھر لفظوں کے انتخاب میں یہ روش بھی انہیں دوسرے معاصرین سے ممتاز کرتی تھی، کہ وہ عام طور پر آسان لفظوں کو چنتے اور بولتے تھے، ایسے الفاظ کا انتخاب کرتے وقت لفظ کے معنی، لفظی ساخت اور صوتی آہنگ کی باریکیوں کو برتنا کوئی کھیل نہیں ہے، اس میدان میں اچھے اچھے شعراء بھی کبھی کبھی پھسل جاتے ہیں، ان مشکل مرحلوں میں وہ مضبوط، ثابت قدم اور کامیاب نظر آتے تھے۔ 
مجھے یاد ہے گاؤں میں کہیں بڑا جلسہ تھا، تصوف پرتقریر ہورہی تھی، ایک تو گاؤں، دیہات کے لوگوں کاعلم اور الفاظ کے فرق کی سمجھ اور پھر تصوف کاموضوع،بولتے بولتے انہوں نے فرمایا__جس طرح الاؤ کی گرمی سردی میں بڑا فائدہ دیتی ہے، اور آپ چاہیں یا نہ چاہیں الاؤ سے فائدہ پہونچتا رہے گا، سمجھئے کہ اسی طرح بزرگوں، اللہ والوں کے ذکر اور اللہ اللہ کرتے رہنے کی دھاہ سے لوگوں کو فائدہ پہونچتا رہتا ہے، فائدہ اٹھانے کی چاہ نہ ہو تب بھی فائدہ ہوتا رہتا ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بتایا ہے کہ کونوا مع الصادقین   یعنی بھلے لوگوں،سچے لوگوں کے ساتھ رہا کرو، ان کے ساتھ رہو گے، تو چاہونہ چاہوفائدہ ہوتا رہے گا، دین وایمان کی دھاہ ملتی رہے گی۔  
دربھنگہ ضلع کے سپول (محلہ شیخپورہ کی مسجد میں) تقریر ہورہی تھی،مسجد اندر باہر بھری تھی، اور وہ نماز کے فلسفہ کو بڑے واضح انداز اور آسان زبان میں سمجھارہے تھے، اور مجمع پوری طرح متوجہ تھا، ایک عالم صاحب بیچ میں بول پڑے کہ نماز کی ہر رکعت میں ہرکام ایک دفعہ کیا جاتا ہے، قیام، قومہ، رکوع ایک دفعہ مگر سجدہ دو دفعہ _اس کی وجہ کیا ہے؟کچھ عجیب سا سوال تھا، سچی بات یہ ہے کہ ایسے سوال پر کوئی بھی بڑا عالم جھنجھلا جاتا یا غضبناک ہوجاتا، مگر انہوں نے فرمایا کہ اچھا سوال ہے، نماز کی سب سے اہم حالت کھڑے رہنے کی ہے، کیونکہ اس حالت میں عبادت اور تلاوت ملے ہوتے ہیں، سجدہ میں نمازی پورے طور پر جھک جاتا ہے، اس سے زیادہ جھکنا ممکن نہیں ہے، ناک اور پیشانی بھی زمین پر ڈال دیتا ہے، اور پھر اللہ جل جلالہ کی عظمت، بڑائی اور بلندی کا ذکر کرتا ہے، یہ جھکاؤ کی حالت میں اللہ کی یاد،اللہ کی بڑائی کا بیان بڑی اہم چیز ہے، بندہ کی یہ ادااللہ کو پسند ہے، اور اس حالت میں بندہ اللہ تعالیٰ سے بہت قریب ہوجاتا ہے، اور یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہے، کہ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ بندہ اللہ سے قریب رہے___ اس لیے دوسجدے ہر رکعت میں رکھے گئے، تا کہ بندہ کو زیادہ دیر تک اللہ سے قریب رہنے کاموقعہ ملے، اور ہر رکعت میں ایک بار نہیں دو بار ملے__ 

ارریہ میں عظیم الشان اجلاس ہورہا تھا، اندازہ ہے کہ دولاکھ سے زیادہ کامجمع رہا ہوگا، اجلاس کا عنوان تھا ”تحفظ شہریت کانفرنس“۔ اس زمانہ میں لالو پرشاد چیف منسٹر تھے، اور پورنیہ کمشنری سے اڑتالیس ہزار مسلمان مردوں اور عورتوں کی فہرست بنائی گئی، جنہیں اس کمشنری میں بنگلہ دیشی قراردیا گیا تھا، حضرت مولانا کو یہ تفصیل اعتماد کے واسطہ اور سرکاری ذریعہ سے ملی تھی، مونگیرمیں سالانہ فاتحہ کاموقعہ تھا، کمشنری کے ذمہ دار لوگوں کو جمع کرکے مشورہ کیا گیا، اور طے پایا کہ ۹۲/ نومبر کو تحفظ شہریت کانفرنس ارریہ شہر میں ہوگی، اور سارے حاضرین سے فرمایا کہ زندگی کا ثبوت دینے کے لیے سب لوگ جٹ جائیں، اور کچہری میدان اور قریب پاس کی جگہوں اور سڑکوں کو بھردیں، میں بھی پورے حلقہ کا پانچ دن کا دورہ کروں گا، لوگ لگ گئے، محنت بہت کی گئی، اور پانچ دنوں تک حضرت کادورہ ہوتا رہا، روزانہ بارہ تیرہ تقریریں، ہر جگہ کا پروگرام پہلے سے طے، اور لوگوں کو اس کی پیشگی خبر، یہ سارے چھوٹے جلسے بہت کامیاب رہے، اور مکمل فضا سازی ہوگئی، ان دنوں دن کا کھانا بند تھا، ہر جگہ جلسہ ہوتا رہتا، متعین اور موضوع سے واقف لوگ تقریر کرتے رہتے، حضرت کا کارواں پہونچتا ۰۳/ سے ۰۴/ منٹ تک کی تقریر ہوتی، دعاء ہوتی اورآگے بڑھ جاتے، ہرجلسہ میں حضرت ہدایت دیتے،عورتوں اوربچوں کو گھر میں رکھئے، باوضو دو رکعت نفل پڑھ کر گھر سے نکلئے، بے خوف نکلئے اور وقت پر ارریہ پہونچئے، لوگوں نے اس کی پابندی کی، آزاد ہندوستان کایہ سب سے بڑا احتجاجی جلسہ بن گیا۔
اس موقعہ پر حضرت نے بڑی واضح، مدلل اور جرأتمندانہ تقریریں کیں، اور دسیوں نام لے کر بتایا کہ یہ فلاں خاندان کے فلاں صاحب کے پوتے، پوتی یا پرپوتے، پرپوتی ہیں، ان کا نام بھی بنگلہ دیشیوں کی فہرست میں ہے، سرکاری دفتر کے لوگوں نے پٹنہ کی ہدایت پر اپنے دفتر میں بیٹھ کر ووٹرلسٹ سامنے رکھ کر فہرست تیار کی ہے، جس میں کوئی سچائی نہیں ہے، اگر اس فہرست سے ایک آدمی بھی بنگلہ دیش روانہ کیا گیا،تو سب سے پہلے میں اس کامقابلہ کروں گا، اور آپ سب میرے ساتھ ہوں گے، میرا وکیل کورٹ میں ثابت کرے گا یہ ہندوستانی ہے، بنگلہ دیشی نہیں، اگر حکومت پولیس کا استعمال کرے گی اور غلط بات پر اڑے گی تو ہم سب صحیح بات کے لیے جمیں گے، لڑیں گے، یہ چار ضلع کے سات ہزار وردی والے، لاٹھی والے، گولی والے ہمارا اور ہمارے لاکھوں بھائیوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے، ”مؤمن ہے تو بے تیغ ہی لڑتا ہے سپاہی“ __ حق اور انصاف میرے ساتھ ہے، اس لیے اللہ میرے ساتھ ہے، اور جس کے ساتھ اللہ ہے، وہ کبھی ہار نہیں سکتا۔ 
اس موقعہ پر انہوں نے کہا کہ زندہ رہنے کے لیے، حق پانے کے لیے گُر سیکھئے، اجتماعی زندگی میں حوصلہ جذبہ اور ہمت پیدا کیجئے،یہ جو آپ کے ووٹ لینے کے لیے میٹھی میٹھی باتیں کرتے ہیں، جو اس تحریک میں کھل کر آپ کے ساتھ نہیں ہیں، انہیں آج ہی بتا دیجئے، کہ ووٹ، ووٹ خور، سود خور، اور حرام خور کو نہیں دیا جاسکتا، ہمارے ایمان کا تقاضہ ہے، کہ اگر غلط کام ہورہا ہے تو پنجہ کی طاقت اور کلائی کے زور سے اسے روک دیں، سونچئے اس سے زیادہ غلط کا م کیا ہوگا، کہ ہمارا ووٹ لے کر گدی پر بیٹھے، حاکم بن گئے اور اب کہتے ہیں کہ تم یہاں کے نہیں ہو، یہ لوگ آپ کو شہر بدر نہیں ملک بدر کرنا چاہتے ہیں، اپنے اتحاد،اپنی حساسیت اپنے جذبہ انتقام سے آپ انہیں در بدر کردیں، یہ اسی کے حقدار ہیں، اپنی زندگی کا ثبوت دیتے رہئے، تاکہ کوئی نگاہ ترچھی نہ اٹھے، زندگی کاثبوت دیجئے، تاکہ زندہ انسانوں کے حقوق آپ کو ملتے رہیں، ورنہ یادرکھئے، مردہ انسانوں کوکفن دیا جاتا ہے، اور مردہ قوم کو ہمدردی کے بے جان،بے نتیجہ میٹھے بول دیئے جاتے ہیں۔

دیکھ زنداں ہے پرے رنگ چمن، رنگ بہار
رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ
بمبئی میں اجلاس ہورہا تھا، ابو عاصم صاحب تقریر کرچکے تھے، اور حضرت والا کی اختتامی تقریر ہورہی تھی، موضوع تھا، دہشت گردی بہت تفصیل کے ساتھ آپ نے ملک میں پھیلی انارکی، منظم قتل وخون اور دہشت کواعدادو شمار سے ثابت کیا اور کہا کہ وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق دانتے واڑہ (چھتیس گڈھ) میں ایک لاکھ چھ ہزار ہندوستانی سڑک کے کنارے پنا ہ گزین ہیں، مرکزی حکومت انہیں کھانے کے سامان دے رہی ہے، اور بی ایس ایف کے جوان ان کی حفاظت کررہے ہیں، یہ چاہے نکسلائٹ کہلائیں، ایم سی سی کے ورکر ہوں یا انہیں کچھ نام دیا جائے، اس طبقہ نے چیف منسٹر کو سکریٹریٹ میں اڑا دیا، ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل آف پولیس، ایس پی، ڈی ایس پی کی جان لی، پولیس اور آرمی کے سیکڑوں جوانوں کو دہشت گردانہ حملہ میں ختم کردیا، ہزاروں افراد ان کے حملوں اور حرکتوں سے موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں، مگر انہیں دہشت گرد نہیں کہا جاتا، ۳۱۱/ ضلعوں کے افسران اپنی جان بخشی کے لیے انہیں ماہانہ رقم دیتے ہیں، ملک کے ۳۱۱/ ضلعوں میں متوازی حکومت چل رہی ہے، مگر مسلمانوں کو بدنام کیا جارہا ہے، کوئی حادثہ ہوتا ہے یہ ٹی وی والے، اخبار والے فوراً اس کارشتہ مسلمانوں سے جوڑ دیتے ہیں، شجرہئ نسب اور شجرہئ سفر بھی بیان کردیتے ہیں، نکسلائٹ اور ایم سی سی کے حملوں کے وقت یہ کیوں نہیں کہتے کہ مارنے والوں کا نام یہ یہ اور یہ ہے،اور اس طرح وہ یہاں تک پہونچے، یہ شجرہئ سفر صرف مسلمانوں کے نام کے ساتھ کیوں ؟ 
اعدادو شمار اور واقعات کی تفصیل کے ساتھ ایسی مضبوط تقریر ہوئی کہ درمیان تقریر جناب ابو عاصم صاحب نے کہا کہ یہ اعدادو شمار تو غیر معمولی ہیں، مجھے دیجئے اسمبلی میں بولوں گا۔ 
بھوپال کا سفر تعلیمی کانفرنس میں شرکت کے لیے ہؤا تھا، جناب ڈاکٹر فخرالدین صاحب حیدرآباد کی خواہش پر آپ نے اسلامی اقتصادیات اور اسلامی بینکنگ سے متعلق اجلاس میں شرکت فرمائی، ماہرین نے تقریریں کیں، اس موقعہ پر آپ نے بالکل آسان زبان میں اتنی جامع اور مدلل تقریر کی، اور سودی بینکنگ اور اسلامی بینکنگ کے عملی پہلوؤں اور ان کے اثرات نتائج کے واضح فرق کو اس طرح پیش کیا،کہ موقعہ پر ہی ذمہ دار شخصیتوں نے کہاکہ اندازہ نہیں تھا کہ اس موضوع پر بھی آپ کی اس درجہ پکڑ ہے !
حضرت والامدراس کے سفر پر تھے، عشاء کی نماز مدراس کی جامع مسجد میں اداکرناتھی، اور نماز کے بعد آپ کا مختصر بیان ہونا تھا، جامع مسجد میں بعد نماز عشاء روزانہ قرآن مجید کی تفسیر سنائی جاتی ہے، حضرت والا بھی تفسیر قرآن کی مجلس میں شریک تھے، مجلس کے بعد آپ سے تقریر کی درخواست کی گئی، آپ نے اپنی تقریر عام فہم زبان میں شروع کی اور قرآن مجید کی عظمت واعزاز پر روشنی ڈالی، اور فرمایا کہ قرآن کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہوسکتے، یہ زندہ کتاب ہے، اور اس کی عظمت کا ثبوت ہر زمانہ میں تلاش وجستجو کرنے والوں کو ملتا رہے گا، جس کی واضح مثال قرآن کریم کی آیت ”انا نسوی بنانہ“ ہے، اللہ تعالیٰ بتارہے ہیں کہ ہم چاہتے تو ہم نے انگلیوں کے پوربرابر بناتے، قرآن مجید کانزول چودہ برس پہلے ہؤا، لیکن جن کی نگاہ ترقی یافتہ دنیا پر ہے، وہ جانتے ہیں، کہ ان انگلیوں کے نشانات کی اہمیت دنیا کے سامنے کب آئی، اور اہم معاملات میں انگلیوں کے نشان کو کتنی اہمیت حاصل ہوئی، انگلیوں کے نشانات کا معاملہ صرف ساٹھ ستر سال پہلے دنیا کے سامنے آیا، اور یہ بات معلوم ہوئی، کہ دنیا کے تمام انسانوں کے انگلیوں کے نشانات جدا جداہیں، یہ قرآن مجید کا اعجاز ہے، جو ہرزمانہ میں اپنے اندر چھپے راز کو وقت کی ضرورت کے تحت ظاہر کررہا ہے۔
حضرت مدظلہ کی ایک خاص خوبی یہ بھی ہے، کہ دنیاوی معاملات ہوں، یا سیاسی ضرورت،شخصی بحث ہو یا سماجی ہر جگہ دین اور دین کی اشاعت کی راہ نکالتے ہیں، اور قوم وملت کے استحکام کی کوشش کرتے ہیں، ۲۰۰۲ء کی بات ہے، ملک میں بی جے پی کی حکومت تھی، اور اٹل بہاری واجپئی جی وزیر اعظم اور ایل کے اڈوانی ہوم منسٹر تھے، بابری مسجد کا معاملہ اس وقت چل رہا تھا، لیکن اڈوانی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے حساس ذمہ داروں میں گفت وشنید کے ذریعہ نرم روی لانے کی کوشش کررہے تھے، اور مختلف افراد کو اس کام پر مامور کررکھا تھا، ان کی فہرست میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذمہ داروں میں نمایاں نام حضرت ؒ کا تھا اس لحاظ سے یہ اہم تھا،کہ ان کو سمجھانا مشکل کام ہے، حضرت ؒ سے گفت وشنید کے لیے جناب چنمیانند جی کو ذمہ داری سونپی گئی کہ آپ مولانا محمد ولی رحمانی صاحب سے بابری مسجد کے معاملے میں بات کریں، حضرتؒ کا ذہن تھا، کہ”جمہوریت میں بات چیت سے دامن نہیں بچانا چاہئے، بلکہ بات چیت کادروازہ ہمیشہ کھلا رکھا جائے“ تاکہ ذہنی جنگ کے اس دور میں دین کی بلند ی کی جنگ جیتی جاسکے، جناب چنمیانند جی نے مختلف لوگوں کے ذریعہ مختلف حضرات سے ملاقات کی پیشکش کی، مگرآپ نے کہاکہ میں چٹائی والا ہوں، اور اپنی چٹائی پر بیٹھ کر سب سے ملتا ہوں، دہلی میں میں الرحمن کیسٹ ہاؤس میں ملاقات کے لئے چنمیانندصاحب آئے، اور انہوں نے ایک لانبی تمہید کے بعد بابری مسجد کے معاملہ کو چھیڑا،  جناب چنمیانند جی کے سامنے حضرت ؒ نے بابری مسجد کی بحث سے الگ مذاہب عالم کی بقا اور تحفظ کی بات شروع کی، اور ساڑھے تین گھنٹوں کی اس ملاقات میں آپ نے انہیں اپنے علم، دور اندیشی،معاملہ فہمی اور خداد صلاحیتوں کے ذریعہ یہ سمجھایا کہ مسئلہ مسجد یامندر کی بقا کانہیں ہے، معاملہ خود آپ کے اپنے مذہب کی بقا کا ہے، جو آپ کے لیے زیادہ اہم ہے، اسلام، عیسائی یا دوسرے عالمی سطح کے مذاہب کی دیواریں مستحکم اور مضبوط ہیں،لیکن ہندوستان میں ہندو مذہب کئی تہذیبوں میں گھر کر اپنا وجود کھورہا ہے، چنمیانند جی نے مذہب کی بقا اور تحفظ پر اس دور اندیشی کے ساتھ نہ کبھی سوچا تھا، نہ ان کی نگاہ اس فرق وفاصلہ کو پہچانتی تھی، انہوں نے کہا کہ مولانا صاحب آپ نے میرے سامنے ایک بڑا مارگ درشن گھول دیا ہے، جس پر مجھے خود سونچنے کی ضرورت ہے، میں آپ کے پاس آیا تھابابری مسجد پر بات کرنے، لیکن جو سمجھ کر جارہا ہوں، وہ دوسری جگہ نہیں مل سکتا ہے، اس ذہین انسان نے حضرت کی شخصیت اور بلندی مقام کا لوہا مانا، یہ رخ ہے حضرت کے طرز استدلال، معلومات اور فکر انگیز ذہن کا، جس نے چنمیانند جی جیسے ذہین انسان کے سونچ کا رخ موڑ دیا۔   
مدارس اسلامیہ پر ہر زمانہ میں حکومت وقت کی ترچھی نگاہ رہی ہے، واجپئی جی کی حکومت میں ہندوستانی مدارس پر ہوم کی ایک رپورٹ تیار کی گئی،جسمیں ملک کے تمام مدارس کو دہشت گرد کا اڈہ شمار کیا گیا، یہ خفیہ رپورٹ ہوم ڈپارٹمینٹ میں تھی، لیکن ایک وزیر نے اپنے بیان میں اسکا ذکر کر دیا۔ جسکی خبر اخبارات کے ذریعہ حضرت ؒ کو ملی، آپنے اس رپور ٹ کی مخالفت میں اپنی پوری صلاحیت لگادی اور ملک کے کئی سیکولرلیڈروں سے اس حساس مسئلہ پر بات کی، پورے ملک میں گھوم کر خطاب کیا اور عوام کو بیدارکیا اور تحفظ مدارس اسلامیہ کی تحریک چلائی، لیکن آواز جس دروازہ تک پہونچا نی تھی وہاں ابھی نہیں پہونچی تھی، آپ نے آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے وفد کے ساتھ وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی صاحب سے ملاقات کا وقت لیا، جسمیں ملک کے نامور علماء جناب مولانا فقیہ الدین صاحب، ؒ جناب مولانا احمد علی قاسمی صاحب ؒ جناب مولانا محمد سالم قاسمی صاحب، جناب مولاناعمید الزماں صاحب ؒ، سی، ایم ابراہیم اور جناب مولانا عبیداللہ خاں صاحب اعظمی کے ساتھ کل ۲۲ /افراد تھے، وزیر اعظم کے دفتر میں ملاقات ہوئی، اور وقت آدھا گھنٹہ کا تھا وفد نے ہوم کی رپورٹ کے خلاف وزیر اعظم کو میمورنڈیم دیا، جسے واجپئی جی نے اپنے پاس رکھ لیا، اور لوگوں سے عام گفتگو شروع کی، ساتھ میں کچھ شعرو شاعری بھی شروع ہوئی، لوگوں نے اسے محسوس نہیں کیا، لیکن حضرت والانے محسوس کیا کہ وقت گذاری ہورہی ہے، آپ نے اپنے بیباک آہنگ میں فرمایا کہ واجپئی جی شعروشاعری کیلئے الگ سے بیٹھئے گا، تو ہم آپ کو بتا ئینگے کہ اشعار کیا ہوتے ہیں، ابھی ملک میں جس مسئلہ پر آگ لگی ہوئی ہے، اس پر آپکی توجہ کی ضرورت ہے، معاملہ یہ ہے کہ ہوم ڈپارٹمنٹ میں کمیٹی بنی، مدارس اسلامیہ پر خفیہ رپورٹ بھی تیار ہو گئی، لیکن اس کمیٹی اور رپورٹ کا کوئی قانونی ذکر پارلیمنٹ میں نہیں ہے، ملک کے تمام مدارس پر بے بنیاد الزامات لگا ئے جارہے ہیں،اس پر آپ کیا فرماتے ہیں، جبکہ معاملہ یہ ہے کہ آج تک ہندوستان کے کسی مدرسہ میں ۲۰۳ کا ایک بھی کیس نہیں ہوا، اور بعض یونیورسیٹی اور اکثر کالج میں ہر طرح کے جرائم ہو رہے ہیں، اس پر ہوم نہ کمیٹی بناتی ہے اور نہ رپورٹ تیار کرتی ہے، ایسا کیوں؟ ملک کے صوبوں میں معصوم ائمہ کرام اور علماء کو جیل میں رکھ کر مہینوں  اذیتیں دی گئیں، ان کے ناخن اکھاڑ لئے گئے، اور بعد میں وہ بے گناہ رہا ہوئے، معاملات میں اتنا بڑا فرق کیوں آرہا ہے؟ جبکہ مسلمان اور مدارس نے اس ملک کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، اگر آپ ثابت کریں،کہ کسی مدرسہ میں کوئی جرم پنپ رہا ہے، وہاں ہم خود تالالگائینگے، لیکن جس یونیور سیٹیوں اور کالجوں میں آئے دن جرائم ہو رہے ہیں، کیا آپ وہاں تالا لگائینگے؟حضرتؒکے اٹھارہ منٹ کے مرصع اور مدلل گفتگو سے واجپئی جی کے چہرے کارنگ اڑ گیا، پورے ہال پر سکوت تھا،بہت دیر کے بعد واجپئی جی نے کہا کہ یہ معاملہ حساس ہے، میں خود اسے دیکھوں گا، اور اسی دن شام کو انہوں نے میڈیا کے سامنے کہا کہ مدارس اسلامیہ پرلگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں، حضرتؒ کے اس بیباک گفتگو کے بعدموجودہ بڑے علماء نے حضرت سے فرمایا، کہ آج حضرت امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی  ؒکی یاد تازہ ہوگئی اور آپ نے قوم وملت کا حق ادا کردیا۔ 
حضرتؒ کی زندگی کے ہر لمحہ میں قوم وملت کی فکر مندی او رہندوستانی مسلمانوں کے قانونی تحفظ کی کوشش نظر آتی ہے، آپ ہر نششت اور ملاقات میں ملت کی ترجمانی کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، اور اس مزاج کے ساتھ آپ کی شخصیت اور بھی نمایاں ہوجاتی تھی۔
 ملک کی آزادی کے بعد آئین ہند بنا جس میں اقلیتی طبقہ کو ادارہ کھولنے اور چلانے کا اختیار دیا گیا، لیکن جس دفعہ کے تحت اس آئین کا ذکر ہؤا، اس میں صرف اتنی بات کی گئی کہ اقلیتوں کو اس ملک میں ادارہ کھولنے اور چلانے کا حق ہے، اس کے بعد آئین خاموش تھا، یہ ادارہ کس طرح کے ہوں گے، ان کی نوعیت کیاہوگی، یہ ادارے ٹیکس کے دائرے میں آتے ہیں یا نہیں؟ اس طرح کی کسی بھی بات کی کوئی وضاحت آئین میں نہیں تھی، جس کی وجہ سے ملک کے اقلیتوں میں خصوصاً مسلمانوں کو ادارہ کے قیام میں بڑی دشواری ہوتی تھی، آپ کی ملاقات ایک پروگرام میں وزیر تعلیم جناب ارجن سنگھ صاحب سے ہوئی، حضرت والا کو بھی تقریر کاموقعہ دیا گیا، آپ نے اپنی تقریر میں فرمایا، جناب ارجن سنگھ صاحب تعلیم کے نام پر آپ اقلیتوں کو بہت کچھ دے سکتے ہیں، لیکن میں آپ سے بہت کچھ کی تو نہیں، بلکہ ایک قانونی اصلاح کی امید رکھتا ہوں، اگر آپ وہ کام کردیں، تو اقلیتی طبقہ یہ محسوس کرے گا کہ ملک میں ان کے مسائل پر بھی نگاہ رکھی جاتی ہے، ارجن سنگھ جی اسٹیج پر تھے، پورے طورپر متوجہ ہوگئے، حضرت والا نے فرمایا کہ آئین ہند کے دفعہ ۰۳ اور ۱۳ کے تحت اقلیتوں کو ادارہ قائم کرنے اور چلانے کا حق دیا گیا ہے، لیکن آج تک اس کی تشریح نہیں ہوپائی، جب آئین کے ذریعہ دیا گیا حق ہی ادھورا ہے، تو تعلیم کا چراغ کیسے روشن ہوگا، آپ ان دونوں دفعات کی تشریح فرمادیں اور اقلیتوں کی شکایتوں کی شکایت سننے اور فیصلہ دینے کا بااختیار ادارہ بنادیں، اور کوئی ایسا میکانزم بنادیں،جو واقعی اقلیتوں کی نمائندگی پر مشتمل ہواور وزارت اور آپ کے دربار میں ان کی بات کو وزن دیا جائے__ یہ کام کردیجئے، یقین کیجئے، اقلیتی طبقہ خود ہی تعلیمی ادارے قائم کرلے گا، آپ کی اس تقریر کا ارجن سنگھ صاحب پر بڑا اثر پڑا، اور انہوں نے پہلی فرصت میں مائنوریٹی ایجو کیشن انسٹی ٹیوشن کمیشن اور مونیٹرینگ کمیٹی اور اسٹینڈنگ کمیٹی بنادی۔
جناب ارجن سنگھ کے زمانہ میں بعض مشہور مسلمانوں نے مرکزی مدرسہ بورڈ کی تجویز پیش کی، اور ارجن سنگھ جی نے اس کے لیے ایک لائحہ عمل بنانے کا حکم جاری کردیا، ملک میں صوبائی سطح پرمدرسہ بورڈ کی جو حالت ہے، اگر اسے مرکزی حیثیت مل جاتی تو اندازہ لگائیں ملک کے خدمت گذار مدارس کی کیا صورت وحالت ہوتی، آپ نے حسب ضرورت اس کی مخالفت شروع کی، بڑے سیاسی رہنماء اور بعض سماجی کارکن کو اس کی جانب متوجہ کیا، تاکہ یہ معاملہ ختم ہوجائے، لیکن اس کی کاروائی وزارت میں چلتی رہی، حضرت ؒ نے جناب ارجن سنگھ صاحب سے ملاقات کی، اور کہا کہ ہندوستان کے کئی صوبے کے مدرسہ بورڈ کی کارکردگی پرپہلے آپ خود اطمینان کرلیں، تو مرکزی مدرسہ بورڈ کے قیام کی تجویزپر فیصلہ کریں، ارجن سنگھ جی خاموش رہے، حضرت والا نے فرمایا کہ اس ملک میں صوبائی مدرسہ بورڈ کے قیام سے پہلے اور آزادی ہند سے پہلے تمام لوگ مدرسہ ہی میں پڑھتے تھے، اور انہیں تعلیم یافتہ مانا جاتا تھا، اس میں ہندومسلم کی کوئی تمیز نہیں تھی، بلکہ اس وقت کے فارغین ہندو بھائی کو بھی مولانا / مولوی کہا جاتا تھا،لیکن مدرسہ بورڈ بننے کے بعد مدرسوں کی تعلیم خراب ہوتی گئی، اور اب مدرسہ بورڈ سے متعلق اکثر مدرسوں میں تعلیم نہیں کے برابر ہے، ایسی چیز کو پورے ملک پر کیوں مسلط کرنا چاہتے ہیں، حضرت والاکی پوری گفتگو سن کر ارجن سنگھ جی مسکرانے لگے، اور کہا مولانا صاحب آپ کی بات سچی ہے، اور اس کا جواب میرے پاس نہیں ہے، لیکن اس انسان نے حضرت والا کی گفتگو سے متأثر ہوکر مرکزی مدرسہ بورڈکے پروگرام کو سرد بستہ میں  ڈال دیا۔
حضرت ؒ کی بیباک گفتگو اور بر محل اقدام سے حالات وخدمات میں نمایاں فرق پڑتا ہے، آپ کے انداز تخاطب اور اظہاربیان سے یہ کبھی ظاہر نہیں ہوپاتا کہ مقابل کی آپ کی نگاہ میں کیا سطح ہے، آپ علم اور خدمت کی قدر کرتے ہیں، مگر شخصیتوں کا دباؤ آپ پر نہیں ہوتا، ہمیشہ پرسکون چہرہ، سونچتی نگاہ،متوجہ ذہن اور حاضر دماغی کے ساتھ لوگوں سے ملنا ان کے ذہن ومزاج کی رعایت کرتے ہوئے، اپنی بات پیش کرنا اور شخصیتوں پر اثر چھوڑجانا ہی آپ کی خاصیت ہے۔
۲۰۰۲ء میں اے پی جے عبد الکلام سابق صدر جمہوریہ ہند کا خانقاہ رحمانی آنا ہؤا، صدر جمہوریہ صاحب نے تنہائی میں چند منٹ حضرت والا سے ملاقات کی اور چند منٹ کی ملاقات کے بعد طلبہ کی مجلس میں تشریف لے گئے، لیکن لوگوں نے محسوس کیا کہ صدر جمہوریہ جس انداز میں آئے تھے، حجرہ سے نکلنے کے بعد ان کے انداز نشست وبرخواست میں فرق تھا، اور وہ حضرت سے متأثر نظر آرہے تھے، جب مجلس عام میں حضرت نے ان کا تعارف کرایا، اور ان کی انگریزی تقریر کا ترجمہ بھی کیا، تو صدر جمہوریہ کے ساتھ مونگیر کے معزز شہری اور جامعہ رحمانی کے اساتذہ اور طلبہ بھی ان کی انگریزی سے عمدہ واقفیت پر حیران تھے، اور اس کا اثر چند دنوں کے بعد ظاہر ہؤا، کے جناب ابے پی جے عبد الکلام صاحب نے دہلی کے سمینار میں کہا کہ جب بہار کے شہر مونگیر پہونچا تو مجھے وہاں روحانیت محسوس ہوئی، اور میرے دل کو بڑا سکون ملا، ساتھ ہی انہوں نے حکومت کے ذمہ داران سے کہا کہ حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب کی شخصیت وصلاحیت کی ملک کو ضرورت ہے، آپ لوگوں کو ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
  اندور کے ایک طالبعلم کو اسکول سے اس بنیاد پہ نکالا گیا، کہ اس نے داڑھی کٹوانے سے انکار کیاتھا، اور یہ معا ملہ سپریم کورٹ تک پہونچا اورسپریم کورٹ میں جسٹس کی حیثیت سے جناب مارکنڈے کاٹجو صاحب اس معاملہ کو دیکھ رہے تھے، انہوں نے اپنی سطح سے بلند ہوکر یہ فیصلہ سنایا کہ ادارہ کے انتظامیہ کو حق ہے، وہ جس طرح چاہیں ضابطہ بنائیں، اور میں اس ملک میں مزیدطالبانیزم کوپسند نہیں کروں گا، جناب کاٹجو صاحب کو اس طالبعلم کے داڑھی میں طالبانیت نظر آئی، اور دوسرے دن یہ معاملہ ملک کے تمام بڑے اخبار میں آیا، حضرت ؒنے اس کے خلاف تحریک چلانا شروع کیا، ساتھ ہی تدبیر بھی کرتے رہے، اور بعض سیاسی لیڈروں سے ملاقات کی، پورے ملک سے اس کی مخالفت میں خطوط بھیجے گئے، اخیر میں حضرت ؒ نے جنا ب دگ وجئے سنگھ سکریٹری کانگریس پارٹی کو لے کر وزیر اعظم جناب منمنوہن سنگھ جی سے ملاقات کی،منموہن سنگھ نے کہا کہ کیا معاملہ ہے، آپ نے برجستہ کہا کہ ہماری داڑھی سپریم کورٹ نے صاف کرنے کا حکم دیدیا ہے، آپ کی داڑھی کا کیا ہوگا؟ زیادہ بہتر ہے کہ ایک دن ہم لوگ اس کام کو کرلیں،تاکہ سپریم کورٹ کے حکم پر اجتماعی عمل کا ثبوت فراہم ہو، منموہن سنگھ نے دگ وجئے جی کی جانب دیکھا اورفرمایا کہ دگ وجئے جی ایسی کیا بات ہوگئی، کہ مولانا صاحب اس قدر برہم ہیں، پھر دگ وجئے جی نے جناب مارکنڈے کاٹجو صاحب کا تبصرہ سنایا، جو انہوں نے عدالت کی کرسی پر بیٹھ کر کیا تھا، پھر انہوں نے جنا ب مارکنڈے کاٹجو صاحب سے ملاقات کی اور پورے معاملے پر بات ہوئی، حضرت نے فرمایا کہ آپ نے ہندوستانی عدلیہ کی اونچی کرسی پر بیٹھ کر مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہونچایا ہے، اس لیے آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ اسی سطح پر اس معاملہ کی تلافی کریں، جناب مارکنڈے کاٹجو صاحب نے کہا کہ سپریم کورٹ ابھی بند ہے، جس دن کھلے گا آپ محسوس کریں گے، کہ میں اس معاملہ میں کیسی پیش رفت کرتا ہوں، اور پورے ملک نے اس تاریخی واقعہ کو پڑھا، اور دیکھا کہ سپریم کورٹ نے، جس معاملہ میں مخالفانہ فیصلہ کیا تھا، اسی کرسی پر بیٹھ کر اسی جسٹس نے اس فیصلے کو واپس لیا، اور مسلمانوں سے تحریری معافی مانگی، ساتھ ہی اس طالبعلم کو اسی اسکول میں پڑھنے کی اجازت دی، یہ پورا واقعہ اس طرز استدلال اور تحریک وتدبیر کا غماز ہے، جسے حضرت والا نے اپنی ذہانت وفطانت سے بروئے کار لایا۔ 
موضوع چاہے جیسا ہو حضرت والا کی تقریر بہت آسان زبان میں بالکل واضح ہوتی تھی، اور حسب ضرورت دلائل وشواہد سے بھر پورالفاظ کا انتخاب بھی موضوع کے لحاظ سے اور لب ولہجہ بھی موضوع سے ہم آہنگ! ای ٹی وی نے مسلمانوں کے حالات اور رجحانات پر مختلف پارٹیوں کے نمائندوں اور اہم شخصیتوں کا ایک پروگرام پٹنہ رابندر ناتھ ٹیگور بھون میں رکھا، جس میں وزیر اعلی، نائب وزیر اعلی کے علاوہ حزب اختلاف کے لیڈر، قانون سازیہ کے ارکان اور رام بلاس پاسوان جی، عمران قدوائی، ڈاکٹر محمد ایوب (پیس پارٹی)نے بھی تقریریں کیں، وزیر اعلیٰ نے بھی عمدہ تقریر کی، حضرت صاحب نے اس موقعہ پر مختصر مگر بہت مدلل خطاب کیا، یہ پروگرام براہ راست ای ٹی وی سے نشر ہورہا تھا، دور دور سے دیکھنے والوں نے بھی اس تقریر کو کمیونٹی کی بہترین ترجمانی قرار دیا، خود پروگرام کے ذمہ دار ڈاکٹر منیش کمار نے اپنی مطبوعہ رپورٹ میں لکھا: 
”مولانا محمد ولی رحمانی صاحب نے جب بولنا شروع کیا، تونتیش کمار کی پول پرت در پرت کھل گئی مولانا کی تقریر سن کر ایسا نہیں لگا کہ وہ کوئی مولاناہیں، بلکہ وہ ایک وکیل کی طرح اپنی دلیل دے رہے تھے، حزب اختلاف کے لیڈروں کی طرح بول رہے تھے، ”ڈاکٹر منیش کمار نے آگے لکھا ہے“۔ انہوں (مولانا)نے کہا کہ اسٹیج پر اچھی اچھی باتیں سننے کو ملتی ہیں، لیکن اصلیت یہ ہے کہ چاہے بہار سرکار ہویا مرکزی حکومت، اس نے مسلمانوں کے ساتھ صرف دھوکا کیا ہے، تعلیم کے میدان میں جب مسلمان آگے بڑھتے ہیں، تو ان کی ٹانگ کھینچ دی جاتی ہے، معاملہ قبرستان کی گھیرا بندی کا ہو، کٹیہار میڈیکل کالج ہو، یا پھر مسلمانوں کے درمیان کام کرنے والے این جی او یا مرکزی حکومت کی اسکیموں کا__حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب نے پوری تحقیق اور اعداد وشمار کے ساتھ حکومت کی ناکامی کواجا گر کیا__“     (ڈاکٹر منیش کمار، ہفت روزہ چوتھی دنیا، دہلی ۳۱/ جون تا ۹۱/ جون ۱۱۰۲ء)
جناب وصی احمدنعمانی (ایڈ وکیٹ سپریم کورٹ) کہتے ہیں: کہ حضرت مولانا رحمانی کی تقریروں کے جملوں کو یاد رکھنے کی برابر کوشش کرتا ہوں، وہ حاصل اجلاس ہوتے ہیں، چاہے پرسنلٹی ڈیولپمنٹ پر افتتاحی تقریر ہو، فرقہ پرستی یا دہشت گردی پر ہو، حکومت کی کارکردگی یا کسی ایکٹ سے متعلق ہو، یا کوئی دینی موضوع یا سیرت کا کوئی پہلو، ان کی باتیں دل میں اترتی چلی جاتی ہیں، اور ان کا زوردار استدلال دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ 
حضرت مولانامفتی ظفیر الدین صاحبؒ (سابق مفتی دارالعلوم دیوبند) نے ایک موقع پر فرمایاتھا: ان کی باتوں میں کشش ہے، ان کی تقریر میں تاثیر ہے، میں نے بارہا مجمع میں ان کی تقریر سنی ہے، مجلسوں میں باتیں سنی ہیں، ان کی تقریر مفصل ہو یا مختصر، سننے والوں کے دلوں پر اثر کرتی ہے۔ 
 اللہ کا فضل ہے کہ انہوں نے تقریر وتحریر، زبان وبیان کی غیر معمولی صلاحیتوں کو بڑی کامیابی اور اخلاص کے ساتھ دین اور ملت کے لیے وقف کررکھا تھا، اور اپنی ان خوبیوں سے بڑی خدمت انجام دی ہے۔
آواز کا جادو، لفظوں کا وہ نکھار، گفتگو کا بلند معیار، علم کی چاشنی، موضوع کا نیا پن، دلیوں کا وزن، فکر انگیز خطاب، پرمغز اور تاثیر سے لبریز بیان حضرت امیر شریعت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب ؒ کی مجلس کا خاصہ تھا جو ہر بارسننے والوں کو نئی لذت دیتا تھا، نگاہیں اس سحر انگیز اور جاذب شخصیت کے انداز باوقار کو دیکھنے کو ترستی رہیں گی، دور دور تک نہ وہ آواز ہے، نہ جرأت و بیباکی کا وہ بلند قد آور شجر سایہ دار ہے، اب تو تنہائی ہے، اور یاد شیخ ہے، اللہ انہیں اپنی رحمتوں کے سایہ میں رکھے۔ آمین۔ 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

28نومبر2021
 

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا