English   /   Kannada   /   Nawayathi

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے (11)

share with us

آبِ حیواں

عمار عبد الحمید لمباڈا

محفل نیم شبی کے بعد کچھ ہی دیر آرام کیا تھا کہ اذان کی صدا بلند ہوئی اور نماز ختم ہوتے ہی وہی یاران محفل نیم شب حاضر ہو گئے اور ہزار خواہش آرام کے باوجود سیر صبح پر بضد ہوئے، بائک تیار تھی،طلوع شمس سے قبل ہی پہاڑی و پتھریلی زمین سے گزرنے میں ایک خاص لطف آیا، تھوڑی ہی دیر میں بھٹکل شہر آنکھوں سے اوجھل تھا ، ایک کاجو کا گنجان جنگل جہاں راستہ تک ختم، پار کر کے ایک انتہائی خوبصورت ساحل پر پہنچے،لیکن اس کی خوبصورتی کا اندازہ اس کے نام سے نہیں ہو سکتا معلوم کرنے پر پتہ چلا اسے ہوڈموڈے ساحل کہا جاتا ہے، بہرحال اگر ہمارے رہنما جناب عبد البدیع صاحب اور مولانا ناصف صاحب نہ ہوتے تو یہ سیر ناممکن تھی ،میرے سفر کے ساتھی میری اس لغویت میں میرا ساتھ نہ دے سکے ، اور میں اپنے پرانے (گنگولی کے)ساتھیوں کے ہمراہ تھا ،اور صرف ہم ہی ہم تھے اور دور کہیں جنگلوں سے سورج نے جھانکنا شروع کیا تھا ،اور سامنے سمندر جیسے جنگلی ہاتھی کی مانند چنگھاڑ رہا ہو ، اسکی موجیں اچھی خاصی اوپر تک اچھل رہی تھی اور ایک طرف دور سے لائٹ ہاؤس کا منار ہماری ہی طرف نگاہیں گاڑے کھڑا تھا ، سورج کی شعاعیں سمندر کی طوفانی لہروں سے ٹکراتی اور بجلی دل میں کوند جاتی، لہروں کا شور ایک انجان سا خوف پیدا کرتا لیکن دنیا کے ہنگاموں سے دور سمندری ہنگاموں کا یہ منظر نور کے تڑکے کے ساتھ وہ خوبصورتی پیدا کرتا کہ دیکھئے اور دیکھتے ہی رہئے، اور دل کی دھڑکنوں کو یہ کہتے ہوئے سنتے رہئے "فتبارك الله أحسن الخالقين"، ایسی جگہوں پر صبح صبح اللہ کی یاد اور ذکر کی ضرورت ہی نہیں ، انسان کا رواں رواں خدا کی بڑائی کے گن گانے پر مجبور ہو جاتا ہے، کچھ ہی دیر میں سویرا ہوتے ہی سنسان جنگل میں جہاں سمندر کے علاوہ کسی کی کوئی آواز تک سنائی نہ دے خوان نوائط چن گیا ، پیچھے جنگل، آگے سمندر ، پرانے یار ساتھ اور سامنے خوان نعمت اور وقت سہانا خدا کی کن کن نعمتوں کا انکار کریں ، میں حیرت میں تھا کہ اس جنگل میں یہ دسترخوان کیوں کر ممکن ہوا ؟ لیکن یہ خوان نوائط تھا جس کا قانون ہی یہی ہے کہ کہیں پانچ منٹ کے لئے بیٹھ جاؤ وہ خود بخود چن جاتا ہے۔ جنگلوں سے پرے سمندر کے کنارے پرانے دوستوں کی یہ محفل سفر کی صعوبتوں ، راتوں کی باقی نیند کو شکست دے گئی ،

صبح ساڑھے آٹھ بجے کے قریب میں پھر مہمان خانہ کے دسترخوان پر ناشتہ کر رہا تھا ،تقاضا بالکل نہ تھا لیکن خوان کی نعمتیں خواہشیں جگا رہی تھیں اور ساتھیوں کا ساتھ بھی لازم تھا۔

ناشتہ کے بعد مولانا منیری صاحب کی رہنمائی میں سیر بھٹکل کو نکلے ،پہاڑی راستوں سے ہو کر گزرے راستوں کے اطراف بستیاں تھیں لیکن نگاہوں سے اوجھل ، درختوں کی ہارمار کے بیچ ، کچھ دیر کے لئے وہیں کا ہو کر رہ جانے کی خواہشیں انگڑائی لیتیں، اور مولانا منیری کی باتیں ان خواہشات کو تقویت دیتیں، روح پرور مناظر اور علم پرور باتوں سے لطف لیتے ہوئے بھٹکل بندرگاہ پہنچے اب یہ بندرگاہ بند پڑی ہے کچھ سالوں قبل یہاں سے ممبئی کے لئے جہاز لنگر اٹھاتے اب صرف ایک بڑی ندی سمندر میں اپنا وجود کھوتی ہوئی نظر آتی ہے اور اس ندی کے کنارے ناریل کے درخت اپنے سر جھکائے عظمت تاریخ کے آگے آداب بجاتے ہوئے نظر آتے ہیں، یہاں کا پانی بالکل نیلا نیلا آسمان کی رنگت سے مقابلہ کرتا نظر آتا ہے، فطرت کے مناظر کی خوبصورتی یہاں کی مہمان نوازی کی مانند ہے ۔ دونوں کا خوان بہت ہی وسیع اور متنوع ہے۔

یہاں سے سڑک کے مشرق کی جانب حضرت فقیہ اسماعیل کا مرقد ہے جن کا تذکرہ ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامہ میں کیا ہے ،(مولانا منیری صاحب نے اپنے سفرنامہ"نقوش پا کی تلاش میں" میں فقیہ اسمعیل اور ان کے والد فقیہ اسحاق کا تذکرہ کیا ہے) تھوڑی دیر کے لئے ان کے مزار پر حاضری ہوئی اور ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی ہوئی، فقیہ اسماعیل بہت ہی آرام کے ساتھ دنیا کے ہنگاموں سے دور ایک پر فضا جگہ میں آرام فرما ہیں یہاں لوگوں کا جمگھٹا ہے اور نہ ہی چادر و ناریل کا کوئی تماشا، قبر کا جائے وقوع اور وہاں کی خاموش فضا حضرت فقیہ اسماعیل کے جنت میں آرام کی خبر دے دیتی ہے۔ بندرگاہ اور فقیہ اسماعیل کے مرقد پر قلب کی عجیب کیفیت تھی وہ منظر باربار آنکھوں میں پھرتا تھا ، جب عرب تاجر و جہازراں کشتیوں کے ذریعہ یہاں آیا جایا کرتے، اور ان سواحل کی تمام تر تجارت ان ہی عرب تاجروں کے کے ہاتھ میں تھی۔

نیز ابن بطوطہ کی باتوں کے ساتھ فکر کی دھارا آٹھویں صدی ہجری میں قدیم ہنور اور بھٹکل کی بندرگاہوں پر بہنے لگی تھی۔

ابن بطوطہ نے لکھا ہے کہ :

"ھنور میں ہر سمت سے بے شمار جہاز آتے ہیں ، یہاں کے باشندے مسلمان اور شافعی ہیں ،اگرچہ یہ لوگ صلح پسند ہیں مگر اکثر جہاد میں مصروف رہتے ہیں ،ھنور کا بادشاہ آجکل سلطان جمال الدین بن حسن ہے جو ایک ہندو راجہ کا باج گزار ہے ۔ اس کی فوج میں چھ ہزار سپاہی ہیں ، یہاں کے اکثر باشندے حافظ قرآن ہوتے ہیں ۔ ان اضلاع میں جہاں مسلمان تاجر ہوتے ہیں امیر و غریب مسلمان مسافر سب ہی ان کے یہاں اترتے ہیں ۔ہر طرف سرسبزی اور ہریالی ہے،ہر شخص کے پاس اپنا باغ ہے جس میں اس نے اپنا گھر بنا لیا ہے۔"-

اب گاڑی بھٹکل مچھلی بندر سے ہو کر ایک پہاڑی پر چڑھنے لگی تھی ،اونچائی پر جاتے ہوئے گاڑی تقریبا سیدھی ہو گئی تھی اور میری طبیعت الٹی (قے ہونے کو تھی) کچھ دیر میں لائٹ ہاؤس پہنچ گئے ، ایک اچھے خاصے اونچے پہاڑ پر یہ لائٹ ہاؤس بنا ہے، یہ تقریبا لب ساحل دوسو فٹ بلند پہاڑی پر واقع ہے، اس کا مینار تقریبا ۵۰ فٹ اونچا ہے، اس کی تعمیر انگریزوں کے دور میں ہوئی کیوں کہ ساحل کے قریب ہی برطانیہ کا ایک بہت بڑا جہاز کسی سمندری پہاڑ سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا تھا،چنانچہ حکومت برطانیہ نے لائٹ ہاؤس تعمیر کیا تاکہ جہازوں کو اس سے رہنمائی ملٹی رہے ، کیوں کہ اس علاقہ میں سمندری پہاڑیاں بکثرت ہیں۔کسی وجہ سے آج وہ بند تھا لیکن کوئی غم نہ ہوا کہ یہاں پہاڑی سے ہی جنت کے نظارے ہو سکتے تھے، اور میں لائٹ ہاؤس کے کھلے، بند ہونے کی خبر سے قبل ہی مناظر قدرت میں کھو گیا تھا، نیلے پانی کی ایک ندی سمندر سے ہم کنار ہو رہی تھی ان کی محبت کا مظہر ان کے کنارے کا سبزہ تھا ،دوسری طرف ایک پہاڑی سلسلہ دور سمندر میں چلا گیا تھا،میں انتہائی طرب انگیز ،خوشگوار، مسرت آمیز اور دل آویز جادوئی منظر سے محظوظ و مسرور ہوتا رہا، مولانا منیری صاحب بتا رہے تھے اس پہاڑ کے مغربی دامن میں ایک میٹھا چشمہ ہے یہ خدا کی عجیب قدرت ہے کہ یہ چشمہ سمندر سے ملا ہوا ہے سمندر کا پانی کھارا اور ایسا نمکین کہ منہ میں بھی نہیں رکھا جا سکتا اور وہیں پر یہ شیریں چشمہ کا پانی ہمیشہ رواں رہتا ہے، وہاں جانے کی خواہش ہوئی لیکن مولانا نے کہا کہ وہاں تک پہنچنے کا راستہ انتہائی دشوار اور پیچیدہ ہے۔

اور آج جمعہ کادن بھی ہے اور جمعہ کی تیاری بھی باقی ہے ۔

 

۱ اکتوبر ۲۰۲۱

دوپہر سوا گیارہ بجے۔

 

 

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے قسط 1

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے قسط 2

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے (3)

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے(4)

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے قسط (5)

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے(6)

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے( 7 )

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے( 8 )

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے( 9 )

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے( 10 )

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا