English   /   Kannada   /   Nawayathi

منکی ایک اور قابل فخر شخصیت سے محروم

share with us

سابق سکریٹری جماعت المسلمین منکی جناب شاہ بندری قادر میراں صاحب کے انتقال پرملال پر

از: محمد تعظیم قاضی ندوی

(نمائندہ فکروخبر بھٹکل و ایڈیٹر اہل منکی نیوز)

 

رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی

تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی

آفتاب طلوع ہوتے ہوئے یہ بتاتا ہے کہ میں غروب ہوتا ہوں،روشنی منور ہوتے ہوئے یہ اطلاع دیتی ہے کہ مجھے بھی ختم ہونا ہے،صبح روشن ہوتے ہوئے یہ صدا لگاتی ہے کہ شام ہونے کے ساتھ ساتھ مجھے بھی فنا ہونا ہے۔ہر پھول کھلتا ہی ہے پرمرجھانے کے لئے،ہر کوئی پیدا ہوتا ہی ہے دنیا سے جانے کے لیے۔

معمول کے مطابق صبح جب اُٹھا تو موبائل ہاتھ میں لیا ، وہاٹس ایپ چیک کیا تو صدرِ جماعت قاضی ارشاد صاحب کا میسیج تھا جس میں سابق سکریٹری شاہ بندری قادر میراں صاحب کے لئے دعا کی درخواست کی جارہی تھی، پھر میں نے اُن کے فرزند ارجمند اسد شاہ بندری صاحب سے والد صاحب کی طبیعت اور پھر واقعہ کی تفصیلات معلوم کی ، خیر اُس کے بعد سے اِدھر اُن کی صحت یابی کے لئے دعاؤں کا سلسلہ شروع ہوا ۔۔۔ طبیعت کچھ زیادہ خراب ہوئی تو مینگلورو کے ایک بڑے اسپتال میں علاج کے لیے داخل کرایا گیا تھا۔ جب وہاں کچھ افاقہ محسوس نہیں ہوا اور حالت کچھ زیادہ ہی سنگین ہوگئی تو ڈاکٹروں کے مشورہ کے بعد اُن کو واپس وطن لایا گیا ،

دوسری طرف ہم لوگوں کی اپنی الگ دنیا ۔۔

میں کسی کام سے مارکیٹ جارہا تھا جاتے جاتے اِس طرف اُن کے مکان کی جانب نظر پڑی تو کیا دیکھتا ہوں ایک ایمبولینس کھڑی ہے اور ہمارے محلہ کے کچھ افراد اور موصوف کے قریبی احباب اُس کو گھیرے ہوئے ہیں،میں بھی موصوف کے مکان کی طرف آگے بڑھا، یہ اُس وقت کا منظر ہے جب مینگلور سے موصوف کو واپس  گھر لایا گیا تھا،پھر یک نظر دیکھنے کے لئے جوق در جوق لوگ اُن کے مکان کے باہر جمع ہوگئے۔

میں نے اکثر دیکھا ہے کہ آپ کے گھر پر جب کوئی مہمان آتا یا وفد آجاتا تو آپ پہلے ہی سے اُن کے استقبال کے لئے باہر کھڑے ہوتے،سامنے والا اُن کی خیریت پوچھنے سے پہلے وہ خود سامنے والے کی خیریت پوچھتے۔ مگر جس وقت وہ بستر پر زندگی اور موت کی جنگ لڑرہے تھے تب موصوف کی یہ دو چیزیں مجھے رہ رہ کر یاد آرہی تھیں۔

 بالاخیر 24 نومبر  بروز بدھ مغرب کے وقت یہ خبر موصول ہوئی کہ آپ اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔

آپ تقریبا 85 سال کے تھے۔آپ کی پیدائش 1936ء بتائی جاتی ہے۔بہرحال جب متعینہ وقت آجائے؛ توعمر بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے۔ کیا بڑا، کیا چھوٹا، کیا کمزور اور کیا توانا ہر کسی کو اپنے متعینہ وقت معین پر اس دار فانی سے کوچ کرناپڑتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ( ترجمہ) "اور ہر قوم کے لیے ایک میعاد مقرر ہے۔ چنانچہ جب ان کی مقررہ میعاد آجاتی ہے تو وہ گھڑی بھر بھی اس سے آگے پیچھے نہیں ہوسکتے۔" (سورہ الاعراف/34)

یوں تو دنیا میں روزانہ کئی لوگ پیدا ہوتے ہیں اور کئی موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں لیکن چند شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو اپنے کارناموں کی وجہ سے تاریخ کے صفحات پر اپنے نقوش چھوڑ جاتی ہیں اور لوگوں کے دلوں میں  زندہ رہتی ہیں ، جناب قادر میراں صاحب کی شخصیت بھی انہی میں سے ایک تھی جن کو اہالیانِ منکی کبھی بھلا نہیں پائیں گے۔

موصوف میرے لئے ایک والد کا درجہ رکھتے بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ وہ موجودہ دور میں ہم اہالیانِ منکی کے لئے ایک محترم سرپرست کی حیثیت رکھتے تھے۔ ادھر چند سالوں میں میں نے انہیں بالکل قریب سے دیکھا اور جانا ، صحافتی میدان میں میرا بالکل ابتدائی دور تھا ،عیدالاضحیٰ پر میری پہلی ویڈیو رپورٹ تیار ہورہی تھی میں نے چاہا کہ اِس موقع پر سابق سکریٹری قادر میراں شاہ بندری صاحب کا بھی ایک چھوٹا انٹرویو لیا جائے جس میں وہ اپنے تأثرات کے ساتھ دنیا کے مختلف ملکوں میں مقیم منکی سے تعلق رکھنے والے احباب کو عید کی مبارکباد بھی پیش کریں ، یہ شاید پہلا موقع تھا کہ کسی نے اُن کو بٹھا کر اِس طرح کا انٹرویو لیا ہو۔ پھر وقتاً فوقتاً اِس طرح کی مناسبت سے بھی آنا جانا ہوتا رہا۔

کبھی میری اُن کے ساتھ مختلف علمی و فکری موضوعات پر گفتگو بھی ہوتی، میں نے سنا تھا کہ وہ اردو ادب کے کسی زمانے میں عاشق رہے ہیں اور وقفہ وقفہ سے اُس زمانہ میں کچھ کچھ شاعری ، تقاریر،مکالمے وغیرہ لکھتے اور تیار بھی کرتے تھے اس لیے میری عادت کے مطابق میں کبھی کبھی ان کے ماضی کی یادوں کو کریدتا اور وہ بڑے شوق کے ساتھ مجھے تفریحاً خوب واقعات سناتے اور میں خاموشی اور شوق کے ساتھ ان کے تجربات سے فائدہ بھی اٹھاتا۔

اُن کے مکان کے دائیں جانب قادر میراں صاحب کا ایک چھوٹا سا دفتر نما کمرہ ہے کبھی کبھی مجھے یہاں بلا بھیجتے کبھی میرے والد محترم قاضی فاروق صاحب سے میرے بارے میں پوچھتے تو کبھی اپنے نواسے اور میرے عزیز دوست مولوی عوف فکردی کے ذریعے پیغام بھیجتے ، میں حاضرِ خدمت ہوتا تو اپنا کوئ چھوٹا موٹا کام کرواتے ۔۔ مثلاً دیکھو جاسِم (کیٹلے مرتبہ سانگلو مالیکا موجے ناو تعظیم جاسم نھوئی) پھر زور زور سے ہنس کر ہاں دیکھو تعظیم یہ میرے تأثرات ہیں جو کہ تم اِس کو پڑھ نہیں پاوگے اِس کو واپس لکھنا اور کل مدرسہ رحمانیہ کا پروگرام ہے اُس میں میرا یہ خط پڑھنا ۔ وللہ اُن کے لکھنے کا انداز ہی نرالہ تھا ۔۔۔ ایسے ایک دو مرتبہ نہیں بلکہ دسیوں بار اُنھوں نے اپنے تأثرات پڑھنے کی لئے مجھے موقع فراہم کیا جو کہ میں میرے لئے خوش قسمتی سمجھتا ہوں۔

جامعہ سے فراغت پھر ندوہ سے میری فراغت کے بعد بھی انھوں نے جس خوشی کا اظہار کیا تھا وہ میں لکھنے سے قاصر ہوں ۔۔۔ کیوں کے میرے بچپن کے دن ان کی نظروں کے سامنے تھے ، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا کہ جس میں ہم بچے ان کے گھر کے پاس یا محلہ میں کوئی شرارت نہ کی ہو۔

ہم نے سُنا کے اُن کی قیادت کے اُصول بھی نرالے تھے انتظامیہ کو ساتھ لیکر چلنا ، اُس وقت پیش آنے والے مسائل کو حل کرنا ، زمانہ کے چیلنجز کا مقابلہ کرنا ، تعلیمی اداروں کو ترقی کی راہ پر گامزن رکھنے کے لئے فکریں کرنا  یہ سب آپ کی صفات تھی ، آپ جب سکریٹری کے عہدہ پر فائز ہوئے تو اپنی انتھک محنت اور کوششوں کے ذریعہ جماعتی نظام کو مستحکم کرنے میں اپنا نمایاں کردار ادا کیا۔ جسے آئندہ دنوں پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

مرحوم شاہ بندری قادر میراں صاحب کی وفات یقیناً اہالیانِ منکی کے لئے کسی بڑے خسارے سے کم نہیں۔

خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں

 

کوچین ایرپورٹ سے شارجہ جاتے ہوئے

محمد تعظیم قاضی ندوی

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا