English   /   Kannada   /   Nawayathi

شیر میسور ٹیپو سلطان: ہم نے بھی کی ہے اک دن گلشن کی آبیاری

share with us

   آفتاب احمد منیری

ہندوستان کی تاریخ آزادی کا ایک عظیم کردار، جنھیں دنیا بین المذاہب ہم آہنگی کے نقیب اور جذبۂ حریت کے پیکر شیر میسور ٹیپو سلطان کے نام سے جانتی ہے۔ سلطان ٹیپو کا شمار ان مظلوم مجاہدین آزادی میں ہوتا ہے جنھیں آج کی فرقہ وارانہ سیاست ایک مخصوص عینک سے دیکھتی ہے اور اپنے سیاسی مفادات کی خاطر انھیں ہندو دشمن قرار دے کر ان تمام قربانیوں پر نفرت کی سیاہی پوت دیتی ہے۔ ایسے میں عدل اور انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ مادر وطن کے اس عظیم فرزند کی جدوجہد آزادی کا تذکرہ بار بار کیا جائے تاکہ ہماری آئندہ نسلوں کو یہ معلوم ہو سکے کہ

ہم نے بھی کی ہے اک دن گلشن کی آبیاری

مالک نہیں تم ہی ہو گلشن کی ہر کلی کے

سلطان ٹیپو کا پورا نام فتح علی ٹیپو تھا۔ ان کی پیدائش 20 نومبر 1750 کو حیدر علی کے گھر میں ہوئی۔ ان کے والد سلطان حیدر علی جو بذات خود ایک عظیم مجاہد آزادی تھے، نے بیٹے کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی اور فوجی ٹریننگ کے بعد محض 17 سال کی عمر میں ٹیپو کو اہم ترین سفارتی اور فوجی امور پر آزادانہ اختیار دے دیا۔ میدان جنگ میں قیادت کے اعلیٰ ترین جوہر دکھا کر ٹیپو نے خود کو اس ذمہ داری کا اہل بھی ثابت کیا۔ مشہور مغربی مصنف مارک ولکس سلطان ٹیپو کا خاکہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ٹیپو سلطان قد میں اپنے والد حیدر علی سے چھوٹے تھے۔ ان کا رنگ کالا تھا۔ آنکھیں بڑی بڑی تھیں۔ وہ عام سے دِکھتے تھے اور وزن میں ہلکے کپڑے پہنتے تھے۔ ان کو بیشتر گھوڑے پر سوار دیکھا جاتا تھا۔ وہ گھڑسواری کو بہت بڑا فن مانتے تھے۔ اور اس میں انھیں مہارت بھی حاصل تھی۔‘‘

سلطان ٹیپو کا عہد حکمرانی ہماری تحریک آزادی کا روشن ترین باب ہے۔ انھوں نے انگریزی استعمار کے خالف جنوبی ہند میں ایک انتہائی مضبوط دفاعی نظام قائم کیا اور ہندوستانی عوام کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرانے کے لیے عملی اقدامات کیے۔ سلطان ٹیپو کے پاس جدید اسلحوں سے آراستہ ایک انتہائی طاقتور فوج تھی۔ جسے یورپین طرز کی جنگی تکنیک سکھانے کے لیے ٹیپو نے فرانسیسی افسروں کی خدمات حاصل کی۔ اس کے علاوہ ریاست میسور کے ساحلی علاقوں کی حفاظت کے لیے انھوں نے بحری فوج قائم کی۔ سلطان ٹیپو نے فرنگیوں کے خلاف متحدہ محاذ قائم بنانے کے لیے فرانس، ترکی، ایران اور افغانستان میں خصوصی سفارتی وفود روانہ کیے۔ اندرون ملک بھی ایک قومی اتحاد قائم کرنے کے لیے ٹیپو نے حیدر آباد کے نظام اور مرہٹوں کو اپنے ساتھ ملانے کی انتہائی کوششیں کیں۔ لیکن ان ناعاقبت اندیش حکمرانوں نے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ملک کی آزادی اور سالمیت کو خطرے میں ڈال کر انگریزوں سے اتحاد کر لیا۔ اگر ان علاقائی نوابوں اور راجاؤں نے سلطان ٹیپو کا ساتھ دیا ہوتا تو شاید ملک کی تاریخ کچھ اور ہوتی۔

شیر میسور سلطان ٹیپو جب تخت نشیں ہوئے تو اس وقت ان کی عمر صرف 32 سال تھی۔ لیکن فنون سپہ گری کے ماہر اس عظیم قائد نے نہایت مختصر سے وقف میں اقتدار پا اپنی گرفت مضبوط کر لی اور مرہٹوں اور نظام کی اندرونی سازشوں کو ناکام کرتے ہوئے فرنگیوں کو پے در پے ذلت آمیز شکست سے دو چار کیا۔ جس کے نتیجہ میں جون 1784 کے اندر انگریزوں نے ٹیپو سے صلح کر لی۔

 

سلطان ٹیپو نے اپنی ریاست کو مملکت خدا داد کا نام دیا تھا۔ ایک عظیم ریاست کے حکمراں ہونے کے باوجود وہ خود کو ایک عام انسان تصور کرتے تھے۔ ان کی زندگی ایک مومنانہ زندگی تھی۔ وہ مذہبی تعصب سے پاک ایک مثالی فرماں روا تھے۔ یہی سبب ہے کہ ایک برہمن پرنیّا پنڈت کو ان کے مشیر خاص ہونے کا شرف حاصل تھا۔ مذہبی رواداری ٹیپو کے خون میں شامل تھی۔ انھوں نے اپنی مملکت خدا داد کے اندر متعدد ایسے فلاحی کام کیے جو انھیں ایک مثالی حکمراں ثابت کرتے ہیں۔ مثلاً اپنے فرانسیسی افسروں کی درخواست پر ریاست میسور میں پہلے چرچ کی تعمیر کرائی۔ اس کے علاوہ وہ سینکڑوں مندروں کو سرکاری امداد بھی دیتے تھے۔ اس سلسلے میں سری نگر، کشمیر میں واقع ایک مندر کا واقعہ بہت مشہور ہے جس پر مرہٹہ سردار رگھوناتھ راؤ نے حملہ کر کے مندر میں موجود ہیرے جواہرات لوٹے تھے۔ اس مندر کے پجاری کی فریاد پر سلطان ٹیپو نے رگھوناتھ راؤ کو سبق سکھانے کے لیے فوج کی ایک ٹکڑی روانہ کی۔ اس ضمن میں مندر کے پجاری اور سلطان ٹیپو کے درمیان جو مراسلت ہوئی، اس سے متعلق 30 خطوط میسور کے تاریخی کتب خانہ میں آج بھی موجود ہیں۔

مذکورہ تمام واقعات پر غور کریں تو ٹیپو کے اوپر مذہبی عدم رواداری کے تمام الزامات باطل قرار پاتے ہیں اور ایک ایسے محب وطن فرماں روا کی تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے جس نے اپنی آخری سانس تک ملک کی آزادی اور خود مختاری کو برقرار رکھنے کی غیر معمولی کوششیں کیں۔ اھوں نے انگریزی فوج کو منھ توڑ جواب دینے کے لیے اپنے وقت کی ایک انتہائی ترقی یافتہ اور جدید تکنیک سے آراستہ فوج تیار کی، جو بری اور بحری قوت سے لیس ہونے کے ساتھ ساتھ فضائی حملہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی تھی۔ واضح ہو کہ سلطان ٹیپو نے ٹگرس نام ک ایک راکٹ ایجاد کیا تھا، جس نے میدانِ جنگ میں انگریزوں کے ہوش اڑا دیے۔ لندن کے معروف سائنس میوزیم میں ٹیپو کے کچھ راکٹ آج بھی رکھے ہوئے ہیں، جنھیں انگریز 18ویں صدی کے آخر میں اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام اپنی کتاب ’وِنگز آف فائر‘ میں لکھتے ہیں کہ انھوں نے ناسا کے ایک سنٹر میں سلطان ٹیپو کے راکٹ والی پینٹنگ دیکھی تھی۔

ٹیپو کے عہد حکومت میں ریاست میسور ہندوستان کا ایک انتہائی خوشحال اور ترقی یافتہ خطہ بن چکا تھا، جس کا اعتراف کرتے ہوئے ایک انگریز مصنف نے لکھا:

’’میسور ہندوستان کا سب سے سرسبز علاقہ ہے۔ یہاں ٹیپو کی حکمرانی ہے۔ میسور کے باشندے ہندوستان میں سب سے زیادہ خوشحال ہیں۔ اس کے برعکس انگریزی مقبوضات صفحہ عالم پر بدنما دھبوں کی حیثیت رکھتے ہیں جہاں رعایا قانون کے شکنجوں میں جکڑی ہوئی پریشان حال ہے۔‘‘ (کمپنی کی حکومت ازباری، صفحہ 227، نیا ادارہ، لاہور، 1969)

مذکورہ تمام صفات کے باوجود اگر سلطان ٹیپو اپنے آزادی کے خواب کو شرمندۂ تعبیر نہ کر سکے تو اس کا سبب ملک کے راجاؤں، نوابوں کی خود غرضی اور اپنوں کی غداری تھی، جس سے سلطان ٹیپو تاحیات نبرد آزما رہے۔ بالآخر 4 مئی 1799 کو اپنے قلعہ کی دیواروں تلے پچاسوں فرنگیوں کو واصل جہنم کرتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے۔

قبائے نور سے سج کر لہو سے باوضو ہو کر

حضور حق وہ پہنچا کتنا سرخرو ہو کر

چوتھے اینگلو میسور جنگ میں ٹیپو کی شکست کا ایک سبب انھیں بروقت فرانسیسی حکمراں نیپولین کی جنگی امداد نہ ملنا بھی تھا۔ نیپولین سے ٹیپو کے گہرے سفارتی تعلقات تھے۔ اور وہ انگریزوں کے خلاف ٹیپو کی مدد کے لیے ملک سے نکل بھی چکا تھا۔ لیکن ناگزیر حالات کے پیش نظر اسے بیچ راستے سے ہی اپنے ملک لوٹنا پڑا۔

بہر حال، سلطان ٹیپو نے محدود وسائل کے ساتھ جس عزیمت کا مظاہرہ اور ایک طویل عرصے تک تن تنہا آزادی کی جنگ لڑتا رہا، یہ تمام باتیں اسے ایک عظیم مجاہد آزادی قرار دیتی ہیں۔

(مضمون نگار سینئر سیکنڈری اسکول، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے استاذ ہیں)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا