English   /   Kannada   /   Nawayathi

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے( 7 )

share with us
ABULHASAN ALI ACADEMY

ذاتی ڈائری کا ایک ورق
   سب سے بڑا انعام


 عمار عبد الحمید لمباڈا


جامعہ اسلامیہ سے قدیم بھٹکل کی طرف جاتے ہوئے مدینہ کالونی جامعہ آباد میں لب سڑک ابو الحسن علی اکیڈمی کی ایک خوبصورت اور پر شکوہ عمارت تیار کی گئی ہے ،یہ عمارت ڈیڑھ ایکڑ وسیع قطع اراضی میں وسیع اور بین الاقوامی طرز کی عمارت ہے، جہاں اکیڈمی کے دفاتر کانفرنس ہال، کتب خانہ، قرآن میوزیم، میٹنگ ہال، مہمان خانہ، رابطہ ادب اسلامی، کل ہند حلقہ پیام انسانیت اور مجلس تحقیقات و النشریات لکھنؤ کے دفاتر بھی ہیں ، اکیڈمی کی عمارت دس ہزار مربع فٹ پر مشتمل ہے اور اس کی تعمیرات دس ہزار اسکویر فٹ پر مشتمل ۔،،، اس کو انتہائی پر شکوہ اور خوبصورت بنایا گیا ہے تاکہ اس کے کارکنان کو گھر سے زیادہ یہاں دل لگے اور ہر کام پروفیشنلی انجام پا سکیں۔ 

اکیڈمی کا کتبخانہ:-

اکیڈمی کے کتبخانے میں قرآن، علوم قرآن اور تفسیر کے موضوع پر اہم علمی خزانہ موجود ہے۔
اسی طرح مولانا علی میاں رح پر لکھی گئی تقریبا تمام کتابیں موجود ہیں، اکیڈمی کی لائبریری میں ڈیڑھ سو سے زائد مجلات اور رسائل آتے ہیں ۔اسی طرح ایک قرآن میوزیم ہے جس میں قرآن کے نادر مخطوطات اور نایاب چیزوں کو جمع کیا گیا ہے جس میں قدیم سکوں کا ایک بڑا کلیکشن بھی ہے۔

اکیڈمی کا پسمنظر و مقاصد:-

مفکر اسلام سید ابو الحسن علی ندوی رحمة الله عليه نے آج سے تقریبا ۷۰ سال قبل محسوس کیا تھا کہ مسلمانوں کے متعلق بکثرت غلط فہمیاں تیزی سے عام ہوتی جا رہی ہیں اور اس بات کا آپ کو یقین ہوگیا تھا کہ اگر ان غلط فہمیوں کو دور نہ کیا گیا تو آگے حالات خطرناک ہوجائیں گے۔ لہذا آپ نے 1950ء یا 1951ء میں پیام انسانیت کا کام شروع کیا ۔ مخلوط اجتماعات کیے، جن میں ہزاروں کا مجمع ہوتا تھا اور انسانیت کی بات ہوتی تھی، اکثر حضرت مولانا خطاب فرمایا کرتے تھے لیکن جب حضرت مولانا کے بیرون ممالک کے اسفار شروع ہوگئے تو یہ سلسلہ ایک عرصہ تک موقوف رہا۔ اس کے بعد دوبارہ 1974 میں الہ آباد سے مولانا نے باقاعدہ “تحریک پیام انسانیت” کا آغاز کیا ۔
لیکن ۱۹۹۲ کے مسلم کش فسادات کے بعد یہ خطرہ بڑھ گیا اور پھر بڑھتا ہی چلا گیا اور ۱۹۹۹ میں حضرت مولانا کے انتقال کے بعد مولانا کے منتسبین نے اس تحریک کو اپنے اپنے طور سے جاری رکھنے کی کوششیں کیں اور مولانا الیاس صاحب نے حضرت مولانا سے اپنے تعلق کا اظہار کرتے ہوئے ان کے انتقال کے بعد ابو الحسن علی ندوی اکیڈمی کی بنا ڈالی۔
ہم مولانا کے آفس میں مولانا کے روبرو تھے اور وہ فرما رہے تھے ۔۔۔
پچھلے کچھ سالوں میں عالمی سطح پر مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا ہے، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ اسلام کو جاننے کا جذبہ یورپ، امریکہ بلکہ دنیا کے اکثر ممالک میں پروان چڑھ رہا ہے، گذشتہ سالوں میں اس کی نظیر نہیں ملتی ۔ اس وقت ایک بڑے طبقے میں حق کی تلاش و جستجو کا جذبہ و پیاس کا احساس ہے ۔
اور جس دن امت کی اکثریت دعوت کے میدان میں قدم رکھ دے گی اسی دن دشمن کی شکست اور ہماری فتح کا فیصلہ ہو جائے گا۔ اور یہی اس اکیڈمی کا اصل ہدف ہے۔ اور اس کے لیے یہاں سے کم از کم درجہ میں اسلام کے تعارف اور اتمام حجت کا کام کیا جا سکے۔
اور میں اتنی باتیں سنتے ہی ماضی کے جھروکوں سے دیکھ سکتا تھا کہ ساحل پر کسی مدرسہ کے پروگرام میں(سال ۲۰۱۳) ایک متحرک ،فعال، رواں دواں، سلیم الطبع، تعمیر پسند و انسانیت نواز ایک شخص تقریر کر رہا ہے جن کی باتوں سے ان کا عزم و حوصلہ عیاں اور شاہین پرواز ہونا یقینی۔۔میں نے پوچھا یہ مرد مجاہد کون ؟کہا مولانا الیاس صاحب ندوی اب میرے ذہن میں ایک اور تصویر ابھری ایک ادیب کی ایک مورخ کی ایک منجھے مصنف کی ایک انشاء پرداز کی ایک اکیڈمی کے بانی کی ایک بڑے تاجر کی،میرا دماغ الجھا تھا کہ ایک فرد میں انجم سما کیسے گئی؟اور ایک صدائے بے سمت گونجی کہ وہ صرف گفتار کے نہیں کردار کے بھی غازی ہیں ،یقینا اللہ تعالٰی نے انہیں بڑی صلاحیتیں عطا کی ہیں ۔آج مولانا کے روبرو ہو کر کچھ کر گزرنے کا جذبہ تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی ابھرا ضرور۔
مولانا دعوت کی اہمیت اور اکیڈمی کے مقاصد پر روشنی ڈالتے رہے اور ہم محو حیرت و انگشت بدنداں ۔۔
مولانا نے اکیڈمی کے مقاصد اور اسکے حصول کے لیے جاری سرگرمیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا۔
ہمارا اہم مقصد طلباء اور تعلیم یافتہ طبقہ تک اسلام کی دعوت پہنچانا اور اسلام کے تعلق سے شک و شبہات دور کرنا ہے، نیز فارغین مدارس کو دعوتی میدان میں کام کرنے کے لیے عصری علوم سے واقف کرنے کا خصوصی اہتمام بھی اکیڈمی کرتی ہے اسی طرح اسکولوں کے لیے اوپن اسلامک دینی کورس کی تیاری بھی اکیڈمی کا مقصد ہے۔
ہاں حصول مقاصد کی شکلیں بہت ہی مختلف ہوتی ہیں جیسے تعلیمی مقابلے یا امتحانات کا طریقہ 
(جس میں بڑے بڑے انعامات کا اعلان ہوتا ہے چنانچہ ہر طبقہ کے لوگ اس میں حصہ لیتے ہیں اور اثر لیے بغیر نہیں رہتے۔)
اسی طرح اسلامی عقیدہ اور تعارف اسلام کی کتب روانہ کر کے رائے طلب کرنا۔
انتہائی تعلیم یافتہ اور با اثر ہم وطن شخصیتوں کو کچھ کتابیں ان کی زبان میں ارسال کرکے اسلام اور دہشت پسندی، اسلام میں برادران وطن سے سلوک اور اسلام میں عورتوں کے مقام و مرتبہ پر ان کے تاثرات تحریری طور پر ارسال کرنے کی گزارش کی جاتی ہے تاکہ ان کی آرا کو کتابی شکل میں مرتب کر کے شائع کیا جا سکے۔
طلبا میں نبی کے قصوں پر تحریری مقابلہ اور پر کشش انعامات، یہ بھی ایک طریقہ ہے۔
اسی طرح اکیڈمی نے مراسلاتی کورس بھی رکھا ہے
مراسلاتی کورس میں داخلہ لینے والوں کو انگریزی ہندی کنڑی زبان میں اسلام کا تعارفی لٹریچر دیا جاتا ہے ، اور پھر سال کے آخر میں طلبا کے تحریری امتحانات ہوتے ہیں ، اور امتیازی نمبر سے کامیابی پر ان کو ۲۰ ہزار روپے نقد دیے جاتے ہیں ۔اور اعزازی انعام سب کو دیا جاتا ہے۔
پہلے سال کے امتحان میں ۳۲۱ برادران وطن نے داخلہ لیا اور حوصلہ افزا جوابات آئے ۔ اس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ حصہ لیتے ہیں ایک سال ۲۲ ہزار طلبا و طالبات نے شرکت کی تھی۔اس کے بعد ۴۴ ہزار کا عدد بھی سامنے آیا ہے۔
جس کے ذریعہ طلبا گھر بیٹھے اس کورس میں داخلہ لیتے ہیں اور سال کے آخر میں اپنے اپنے سینٹر میں امتحان دیتے ہیں ، امتیازی نمبروں سے کامیاب ہونے والے طلبا کو ایک ایک لاکھ روپے تک کا انعام گولڈ میڈل کی شکل میں دیا جاتا ہے ۔اس کے کئی سارے اوپن سینٹرز بھی ہیں۔
 یہ اکیڈمی گزشتہ کئی سالوں سے دینی بنیادوں پر عصری نصابی کتابیں بھی تیار کررہی ہے۔
اکیڈمی نے وقت کی ضرورت حالات اور مسلم معاشرہ کی خراب اخلاقی حالت کے مد نظر ، پرائمری، ہائی اسکول اور کالج کے مسلم طلبہ کے لیے انگریزی اردو ہندی اور کنڑ زبانوں میں دینی نصابی کتابیں تیار کی ہیں جو بنیادی اسلامی تعلیمات پر مشتمل ہے، اسلامیات کے نام سے اس مخصوص نصابی سیریز میں دس اہم دینی مضامین:حفظ و ناظرہ اور ترجمہ قرآن حدیث شریف عقائد سیرت نبوی ، فقہ اسلامی تاریخ دعاؤں اور اخلاقیات کو شامل کیا گیا ہے ۔یہ نصاب طلباء کی نفسیات اور ان کی علمی سطح کو سامنے رکھتے ہوئے آسان عام فہم زبان میں مرتب کیا گیا ہے۔
نیز مولانا نے بتایا کہ ان کا ہدف اکیڈمی کو یونورسیٹی تک لے جانا ہے۔
اور اسکا سنگ بنیاد ۲۰ جمادی الاولی ۱۴۳۱ مطابق ۵ مئی ۲۰۱۰ کو مولانا رابع صاحب کے ہاتھوں رکھا جا چکا ہے۔ اور اس کے ابتدائی تعلیمی امر کے طور پر APS پبلک سکول کا افتتاح ۳ جون ۲۰۱۱ کو باقاعدہ ہو چکا ہے۔
مولانا نے اکیڈمی کی کارگزاری سناتے ہوئے فرمایا
اس کے منعقدہ مقابلوں میں اول آنے والوں کے ایسے بھی واقعات پیش آئے کہ انہوں نے انعامات لینے سے انکار کر دیا کہ سب سے بڑا انعام ہمیں یہ ملا ہے کہ ہم اب توحید آشنا اور شرک بےزار ہو گئے ہیں۔
اور بہتوں نے کہا کہ اسلام کے بارے میں ہماری غلط فہمیاں ختم ہو گئی ہیں۔

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے قسط 1

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے قسط 2

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے (3)

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے(4)

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے قسط (5)

 

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے(6)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا