English   /   Kannada   /   Nawayathi

مسلمانوں کی حکومتوں کو ان کی بدعملی نے گرایا: مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی

share with us

اس معاشرہ کی اقتداء کی جائے تو آدمی فلاح پائے۔ان باتوں کا اظہار مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی نے طلباء جامعہ اسلامیہ کی تنظیم اللجنۃ العربیہ کے زیر اہتمام منعقدہ جلسہ سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ مولانا نے واقعات کے حوالے سے بتایا کہ وہ معاشرہ اللہ کے ہر فیصلہ پر راضی تھا ۔بیوی اپنے شوہر کو تسلی کا باعث تھی اور زندگی کے کٹھن دور میں وہ ساتھ نبھانے والی تھی ۔ فاقہ سے ہوں تب بھی اس کے فیصلہ پر راضی ۔مولانا نے اللہ کی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ اس نے بنایا ہے وہ سب انسانوں کے لئے ہے اس نے اپنے لئے کچھ نہیں بنایا ۔ دنیا کی ساری چیزیں اس بات کی دلیل ہیں کہ اللہ کو اپنے بندوں سے محبت ہے اور قرآن کریم کے دستاویز بھی اس کا ثبوت ہیں ۔ اس نے جس علم سے بندوں کو نوازا ہے وہ اس کو اچھا بنانے کے لئے ہے ۔ مولانا نے کہا کہ اسلام کی شروعات محمد ﷺسے نہیں ہوئی بلکہ تکمیل ہوئی او ر اللہ کا یہ محبت بھر ا تحفہ ہے اس کو قبول کرتے ہوئے لوگوں میں بانٹنا چاہئے ۔ انسان پہلے خود کو سب سے چھوٹا اور دنیا کی چیزوں کو بڑا تصور کرتا تھا ۔اور مشرکانہ عقائد کی بنیاد ہی اسی پر ہے۔مشرک چیزوں کو بڑا سمجھتے ہوئے ان کے خوف سے ان کی عبادت کرتا ہے ۔ اسلام نے انسانیت کو بتایا کہ وہ دنیا کی تمام چیزوں سے بڑا ہے جس کی وجہ سے انسانیت نے بڑی ترقی حاصل کرلی ۔ جب تک معاشرہ ان باتوں کو سمجھتا رہا وہ دنیا پر حکمراں بنا رہا اور جب اس نے خود کو چھوٹا تصور کیا تو دنیا کی باگ ڈور اس کے ہاتھ سے چھین لی گئی ۔ ۔مزید کہا کہ اللہ نے دنیا کی ہرقوم کو دنیا کا حکمراں بنایا اور اخیر میں یوروپ کو دنیا کو باگ ڈور سونپی گئی تاکہ قیامت کے دن شکایت کا موقع نہ ملے ۔ مولانا نے جنگِ آزادی میں قربانیوں میں تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ علماء نے اپنی جانیں حکومتوں کو بچانے کے لئے نہیں دیں ۔ ان کا مقصد یہ نہیں تھا کہ ایک قومی مذہب کو بچانا ہے اور مسلمانوں کا ساتھ دینا ہے بلکہ انہوں نے یہ عظیم قربانیاں اس لئے دیں کہ اسلام کے نظام سے دنیا میں امن وامان رہ سکتا ہے ، سچائی ، امانتداری ، اور اخلاقی قدریں باقی رہ سکتی ہیں اور اس کے نمونے قائم رہ سکتے ہیں ۔ مولانا نے مدرسوں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی تہذیب باقی ہے تو ان مدرسوں اور مکتبوں سے باقی ہے ۔انہوں نے نوجوانوں سے کہا کہ وہ اس تہذیب کو چھوڑ کر مغربی تہذیب کے دلدادہ ہوتے چلے جارہے ہیں اور یوروپ چاہتا ہے کہ اس کی تہذیب پوری دنیا اپنائے اور اس کے آگے سرتسلیم خم کریں ۔ وہ نہیں چاہتا کہ اس کی تہذیب کے ہوتے ہوئے کسی اور کی تہذیب کی نقالی کی جائی اور اس نے دنیا کو اس بات پر مجبوربھی کیا ۔ دنیا کی بڑی قوم جرمن نے ان کا لوہا مان لیا اور چین جیسا ملک اس کی تہذیب کا گرویدہ ہوگیا ۔ مولانا نے اپنے بیان میں اسلام کی پیروی کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اسلامی تہذیب کو اپنانے والے بن جائیں اور اس کے ذریعہ سے دنیا کی باگ ڈور حاصل کرکے دوراہے پر کھڑی انسانیت کو ہلاکت سے بچانے والے بن جائیں ۔ ملحوظ رہے کہ اس پروگرام میں جامعہ اسلامیہ کے علیا درجات کے طلبہ نے ایک ایسی بہترین مجلس سجائی تھی جس میں کئی طلبہ نے عام طو پر بیٹھ کر اہم مسائل پر گفت و شنید کرنے کے انداز کو سامعین کے سامنے پیش کیا۔ اور اس کا موضوع جنگ آزادی میں علماء کے کردار کو مختلف طلباء نے اپنے پنے انداز میں پیش کیا۔ جو سامعین کے لیے معلومات افزا بھی تھا اور قابلِ دیدو تحسین بھی۔ جلسہ کا آغاز عمار قاضی کی تلاوت سے ہوا نعت دانش اٹل نے پیش کی ۔ جلسہ کی شروعات میں طلباء جامعہ نے مختصرپروگرام پیش کرتے ہوئے مکالموں کے ذریعہ اصلاح معاشرہ پر زور دیا اور جنگ آزادی میں حصہ لینے والے اسلاف کی قربانیوں سے لوگوں کو متعارف کروایا ۔جلسہ کا انتظامات رویل اسپورٹس سینٹر نے اپنے ذمہ لیتے ہوئے بحسن خوبی انجام دےئے۔قریب پاؤنے بارہ بجے مولانا مدظلہ ہی کی دعا پر جلسہ کا اختتام ہوا ۔واضح رہے کہ مولانا موصوف کا تعارف مہتممِ جامعہ مولانا عبدالباری ندوی ؔ نے بہترین انداز میں مختصراً کرایا۔

DSCN4626

 

DSCN4573

DSCN4603

DSCN4604

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا