English   /   Kannada   /   Nawayathi

عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ

share with us

بلا شبہ انسانی طبیعت تضادات کا مجموعہ ہے ، وہ بیک وقت بلند ہمت بھی ہے اور پست ہمت بھی ، اس کے اندر خدا اعتمادی بھی ہے اور خود اعتمادی بھی، وہ اپنی جواں ہمتی کی بناء پر آفات سے نبرد آزما ہوتا ہے، تو کبھی خود آفات کا شکار بھی بن جاتا ہے، یہ دونوں متضاد صفتیں کم وبیش ہر شخص میں پائی جاتی ہیں ، اس لئے اگر کوئی کسی کام کا عزم کر تا ہے تو اسے اپنے سامنے مصائب کا ایک پہاڑ نظر آتا ہے، جس سے بچنا محال لگتاہے، اور کسی کو دریائے آفات کا سامنا کرنا پڑتاہے، جسے پاٹنا دشوارمحسوس ہوتا ہے، اگر کوئی انقلاب کا نعرہ لگانے کیلئے بے تاب کھڑا ہوتا ہے تو اس کے سامنے اختلافات کا پٹ کھل جاتا ہے، یا وہ گردشِ زمانہ کا شکار ہوتا ہے، پھر خوف سے لرزہ بر اندام ہونے لگتا ہے یا آغاز کی شکست کو دیکھ کر فتح کے انجام پر یقین نہیں لاتا۔
لیکن یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جو شخص اپنی اولوالعزمی کا ثبوت دیتا ہے وہ با مراد و شاد کام اور فائز المرام ہے اور جو مغلوبِ آفات ہوتا ہے وہ مادیت کے تلاطم خیز موجوں کے بھنور میں پھنس کر ناکامیوں کی گہرائی میں غرقاب ہو جاتا ہے ،اوریہ تو کاتبِ تقدیر کا یومِ ازل کا مکتوب ہے کہ آزمائشیں آئیں گی، آفتیں برسیں گی، مصائب امنڈ آئیں گے، لیکن مردِ حق وہ ہوگا جو دار الاسباب میں رہ کر مسبب الاسباب سے تعلق پختہ کر لے ، اسباب کے اندر حقیقت کو تلاش کرے، اور خود اعتمادی سے پہلے خدا اعتمادی کے زیور سے لیز ہو کر دین وشریعت کے سمندر میں غواصی کرتا چلا جائے ، سائنس وٹکنالوجی کی دنیا میں نئے نئے انکشافات وایجادات میں سبقت لے جائے ، یہاں تک کہ دُرِ شہوار کو پا لے ؂ جس نے غواصی کیا گوہر ملا جو ڈرا موجوں سے وہ بیٹھا رہا
اورمسلمان وہ جو میدانِ عمل میں رہ کر بادِ صرصر کا مقابلہ کرتا ہے،آفات وبلیات پر سوار ہوتا ہے اور اپنی بات کہتا جاتا ہے، کام کرتے رہتا ہے، شکستوں پر شکستیں آتی ہیں مگر احساسِ کمتری کا شکار نہیں ہوتا اور زمانہ کو مخاطب کرکے کہتا ہے ؂
آفات کے دامن میں ہوتی ہے جواں ہمت
ہمت کبھی مغلوبِ آفات نہیں ہوتی
ہمارے سامنے قرآنِ کریم میں جو حقائق بیان کئے گئے ہیں، اور محمدِ عربی ﷺ نے جو اس کی عملی تفسیر بیان فرمائی ہے، اور صحابہ کرام کی زندگیوں اور ان کی بے مثال قربانیوں کے جو نقوش محفوظ ہیں ، اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ زندگی عبارت ہے بندگی اور جانفشانی سے ، سر افگندگی اور عرق ریزی سے، محنت وریاضت سے اور کوشش ومجاہدہ سے، اور نتائج کا حصول بھی انہی پر مرتب ہے چنانچہ ارشادِ باری ہے : وأن لیس للإنسان إلا ما سعی، وأن سعیہ سوف یری ثم یجزاہ الجزاء الأوفی ( سورہ نجم ۳۹۔۴۱ )
اور دسوی جگہ فرمایا ، وقل اعملوافسیری اللہ عملکم ورسولہ والمؤمنون ( سورہ توبۃ ۱۰۵ )
اور ان نتائج کا حصول دنیا میں جس صورت سے بھی حاصل ہو، لیکن آخرت میں تو عین الیقین کی آنکھوں سے دیکھ لے گا، فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہ ( الزلزلۃ ۷ )
احساس اور شعور کے ساتھ زندگی کی راہ گذر پر چلنے کی ضرورت ہے، ساری زندگی خوابوں میں بسر کرنے سے بہتر ہے کہ اپنے حصے کی شمع روشن کرو، سفر چاہے ہزاروں میل کا ہو، مگر آغاز ایک قدم سے ہو، گھر میں بیٹھ کر مایوسی کاماتم کرنے کے بجائے باہر نکل کر اپنا راستہ تلاش کرو، قطرہ قطرہ سے قلزم بنتا ہے، اور تنکے تنکے سے آشیاں تعمر ہوتا ہے، ہر فرد اپنے گھر نہیں بلکہ پوری قوم کے مقدر کا ستارہ بن سکتا ہے، مگر شرط عزم ہے، ارادہ ہے، سفر ہے، کوشش ہے لگن ہے ،محنت ہے، کاوش ہے،اتحاد کو بنیاد بناتے ہوئے ، اخلاق کے زیور سے آراستہ ہونا ہے، اور سب سے بڑھ کر اللہ پرنظر رکھتے ہوئے اسکے وعدوں پرکامل یقین ہے، جس کے نتیجہ میں وعدہ خداوندی ہے کہ ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا ، ویرزقہ من حیث لا یحتسب یعنی جو اللہ سے ڈرتا ہے زندگی کے ہر ہر موڑ پر اس کے حکم کو بجا لاتا ہے، پورا پورا لحاظ رکھتا ہے، اس کے لئے مددِ ا لہی کا نزول ہوتا ہے، مصائب سے نبرد آزما ہونے کا حل نظر آتاہے، اور بعافیت اس سے نکل جاتا ہے، پھر وہ اللہ کی طرف سے نوازشات کا چشم دید مشاہدہ کرتا ہے، نصرت خداندوی کو اترتے دیکھتا ہے، اور ایسی جگہوں سے کام ہوتے نظر آتا ہے جہاں وہم وکمان بھی نہیں کیا جا سکتا، مخالف موافق بن جاتے ہیں ، اگر اسکی عملی مثالیں دیکھنی ہوں ، تو دورِ صحابہ کا مطالعہ کریں، حکایات صحابہ کو پڑھیں، تابعین اور اتباعِ تابعین کی زرین زندگیوں کو کتابوں کے سفینوں میں تلاش کریں، اہل اللہ وعلماء حق کو اپنے اپنے مختلف ادوار میں دیکھیں، اور پھر اپنے اندر نئی تبدیلی لانے کا عزمِ مصمم کرتے ہوئے آگے بڑھیں۔
لیکن آج عالمِ اسلام ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں مسلمانوں کے منظر نامہ میں بے حسی کا نقشہ کچھ یوں سامنے آرہا ہے کہ عملی اقدام کرنے کے بجائے صلاح ومشوروں اور بے جا تبصروں پر زیادہ وقت صرف ہو رہا ہے ، صالح تنقید کے ذریعہ اصلاحی اقدام کرنے کے بجائے بے بنیاد الزامات پر اپنے افکار کو تخریبی رخ دیا جا رہا ہے، خیر خواہانہ ملاقاتوں کے بجائے معاندانہ دوریاں پیدا کی جا رہی ہیں اور عمل سے فارغ ہو کر تقدیرکا بہانہ بنارہاہے ، جس کی طرف شاعرِ مشرق علامہ اقبال کی نگاہوں کی بلندی نے حقائق کی ترجمانی کی ہے اور یہی موجودہ صورتِ حال کی صحیح عکاسی بھی ؂
خبر نہیں کیا نام ہے اس کا خدا فروشی کہ خود فروشی؟
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانا

بتاریخ ۔ ۹ رجب المرجب ۱۴۳۴ ؁ھ مطابق ۱۸ مئی ۲۰۱۳ ؁ء

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا