English   /   Kannada   /   Nawayathi

محسن انسانیتﷺکا امتیازی انقلاب

share with us


      عطاء الرحمن القاسمی،شیموگہ 
   

        اٹھا یا غار ِ حرا سے ابرِ رحمت شان ِ حق لے کر    لب اِ قراءباسم  ربّک  الذی خلق  لے کر    
        سنایا آکے اہل بیت کو مژدہ رسالتﷺ کا    انہیں ایماں پہلے ہی سے تھا حق و صداقت کا
        کہا اُس خالق ہستی کے جلوے پر رہو شیدا    اُسی کا  نام  لینا  چاہئیے جس نے کیا  پیدا
نورتوحید کی کرنیں:
    دور ِ نبوت کے ابتدائی دور میں رسول اکرم ﷺ رویائے صادقہ (سچے خواب)سے نوازے گئے۔کبھی غیبی آوازیں سنائی دیتی، کبھی فرشتہ دکھائی دیتا،یہاں تک کہ عرش ِ الہٰی سے پہلا پیغام آپہنچا،فاران کی چوٹیوں اور غار ِ حرا کی بلندیوں سے اسلام کی روشنی توحید کی چنگاریوں کے پھیلنے کا وقت آپڑا،جبرئیل ِ امین آتے ہیں اور پکار تے ہیں کہ ”اپنے رب کے نام سے پڑھو جس نے آپ کو پیدا کیا“وحی الہٰی کے اولین تجربے میں ہیبت و جلال کا بہت سخت بوجھ آپ ﷺ نے محسوس کیا۔گھر آکر اپنی رفیقہ ئ رازداں سے سارا واقعہ بیان کیا۔انہوں نے تسلی دی کہ آپ ؐ کا خدا آپ ؐ کا ساتھ نہ چھوڑے گا،ورقہ بن نوفل نے تصدیق کی کہ یہ تو وہی آخر ی رسول اور ناموس ہے جو موسیٰ ؑ پر اُترا تھا،بلکہ مزید یہ کہا کہ یقینا لوگ آپؐ کی تکذیب کریں گے،آپ ؐکو تنگ کریں گے،آپ ؐ کو وطن سے نکالیں گے۔اگر آپ ؐ سے لڑیں گے،اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو میں خدا کے کام میں آپ ؐ کی حمایت کروں گا۔اب گویا آپ ؐ خدا کی طرف سے دعوت ِ حق پر باقاعدہ مامور ہوگئے۔اور آپ ؐ پر ایک بھاری ذمہ داری ڈال دی گئی،چنانچہ یہ دعوت ِ اسلامی کا ابتدائی دور کا آغاز ہوچکا تھا،اس کے بعد بتدریج اسلام کا یہ قافلہ بڑھتا گیا اور مختلف علاقوں اور ملکوں میں اسلام کا انقلاب برپا ہوگیا۔
زندگی کی ہم آہنگی:
    محسن ِ انسانیت کی مقدس تحریک نے انقلاب لاکر جو نظام ِ زندگی قائم کیا اس کی امتیازی شان یہ تھی کہ اساسی کلمہ کی روح زندگی کے تمام شعبوں میں یکساں سرایت کئے ہوئے تھی۔پورے تمدن میں ہم آہنگی تھی۔سارے ادارے یک رنگ تھے۔جس خدا کی عبادت مسجد کی چار دیواری میں ہوتی اسی کی اطاعت کھیت اور بازار میں بھی ہوتی تھی۔جو قرآن نماز میں پڑھا جاتا تھا اسی قرآن کے قانون کے ذریعے عدالت میں معاملات کے فیصلے ہوتے تھے۔جو اخلاقی اصول گھروں کی محدود فضاؤں میں کار فرماتھے۔وہی بین الاقوامی دائرہ ربط میں بھی چھائے ہوئے تھے۔جن صداقتوں کی تعلیم منبر سے دی جاتی تھی۔انہی صداقتوں پر حکومت کا نظم نسق چلتا تھا۔جو اعتقادات افراد کے ذہن نشین کرائے جاتے تھے وہی اعتقادات اجتماعی ہیئتوں پر بھی غالب تھے۔جو طرز ِ فکر نظام ِ تعلیم میں کام کرتا تھا اسی کے مطابق پوری ثقافت تشکیل پار ہی تھی۔جو رضائے الہٰی نماز روزہ میں مطلوب تھی،وہی میدان ِ جنگ میں تیر کھاتے اور تلوار چلاتے ہوئے بھی مطلوب تھی۔
    یہ ایک ایسا نظام تھا جس میں پوری انسانی زندگی ایک ہی خدائی ضابطہ ئ ہدایت کے تحت تھی اور مختلف دائروں میں مختلف اقتدار اور ضابطے نہیں چلتے تھے۔اس نظام میں تضادنہ تھے۔اس کے اجزاء آپس میں ٹکرانے والے نہ تھے۔اس کے مختلف عناصر میں الجھاؤ نہ تھا۔اس میں کوئی پیوندکاری نہیں کی گئی تھی۔اِسے معجون ِ مرکب نہیں بنایا گیاتھا۔یہی وجہ ہے کہ اس کے تحت انسان نے جس رفتار سے ترقی کی اس کی کوئی دوسری مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔
انقلاب کی روح:
کام ہے میراتغیر نام ہے میرا شباب    میرا نعرہ انقلاب و انقلاب وانقلاب
    انسانیت کی شاید سب سے بڑی بد نصیبی یہ رہی ہے کہ جس کسی کو بھی بر سرِ قوت آنے کا موقع تاریخ میں ملا ہے۔تلوار کے زور سے،سازش کے بل پر،جمہوری انتخاب کے راستے سے یا کسی اتفاقی حادثے کے تحت۔اسی کو اپنے متعلق یہ زعم ہوگیا ہے کہ وہ نوع ِ انسانی کا معلّم اور زندگی کا مصلح بھی ہے۔ایسے مصلحین و مسلمین کے ہاتھوں میں جب اقتدار کا لٹھ آجاتا ہے تو وہ عقل ِ کُل بن بیٹھتے ہیں۔وہ اپنے آ پ کو بہترین مفکّر سمجھنے لگتے ہیں۔وہ ہر سرچشمہ ئ علم سے بے نیاز ہوکر اور معاشرہ کے بہترین زیرک اور حسّاس عناصر کو بر طرف رکھ کر اندھا دُھند محیّر العقول اقدامات کرنے لگتے ہیں جن میں سے ہر اقدام ایک خوف ناک حادثہ ثابت ہوتا ہے۔وہ تشدّد کے ہتھیاروں سے انسان کو انسان بنانا چاہتے ہیں اور زندگی کی پیٹھ پر کوڑے برسا برساکر اس کی اصلاح کرناچاہتے ہیں۔بسا اوقات اصلاح وانقلاب کے ایسے مدعیوں کو سرے سے انسان کی فطرت کاپتہ نہیں ہوتا۔انہیں زندگی کے بناؤ اور بگاڑ کے موجبات کا مبتد یا نہ علم بھی نہیں ہوتا۔انہوں نے کبھی یہ کاوش ہی نہیں کی ہوتی کہ انسان کو انسانیت سکھانے کے صحیح طریقے کیا ہیں اور بگاڑ کا سرچشمہ کہاں واقع ہے اور اس کی اصلاح کا آغاز کہاں سے ہوتا ہے۔اور اس کی تکمیل کہاں جاکے ہوتی ہے۔وہ پچھلے تجربات سے فائدہ اٹھائے بغیر اپنا تجربہ الف با سے شروع کرتے ہیں۔وہ مشورہ وتنقید کے دروازے بند کر دیتے ہیں تاکہ ان کا کوئی خیر خواہ اور انسانیت کا کوئی مُحبّ ان کے مہلک تجربہ کی تکمیل میں رکاوٹ نہ ڈال سکے۔ان کے پاس ہر دور کی ایک ہی دوا ہوتی ہے۔جبروتشدّد!سخت ترین قوانین بنانا،نت نئے کڑے احکام جاری کرنا،عوام الناس کے چاروں طرف قدغنیں کھڑی کردینا اور پھر ان کی تواضع باربار اپنے غیظ و غضب کے تازیا نے سے کرتے رہنا۔
آپؐ کو انسانیت سے حد درجہ محبت تھی:
    محسن ِؐ انسانیت نے جو انقلاب برپا کیا اس کی روح تشدّد کی روح نہ تھی،محبت وخیر خواہی کی روح تھی۔حضور ؐ انسانیت کے لئے حد درجہ رحم دل تھے اور ابنائے آدم کے ساتھ آپ ؐ کو سچا پیارتھا۔اپنی دعوت کی نوعیّت کو آپ ؐ نے مثال دے کر سمجھا یا۔کہ تم لوگ پروانوں کی طرح آگ کے گڑھے کی طرف لپکتے ہو اور میں تم کو کمر سے پکڑ پکڑ کر بچانے کی کوشش کررہاہوں۔قرآن نے اسی لئے آپ ؐ کو پیغامبرِ رحمت قرار دیا۔ذرااس حقیقت پر غور کیجئے کہ وہ ہستی اتنا عظیم انقلاب لاتی ہے مگر تشدد سے کام لینے کی کوئی ایک مثال بھی نہیں ملتی،مدینہ حضور ؐ کی دس سالہ زندگی میں سنگین درجے کی ایمرجنسی کے زیر ِ ِ سایہ رہا ہے۔ہر آن حملے کا خطرہ رہتا۔قریش نے تین بار بڑے بڑے حملے کئے،چھوٹی چھوٹی جھڑپوں اور سرحدی آویز شوں کے واقعات آئے دن ہوتے رہتے تھے،متفرق قبائل مدینہ پر دھاوابولنے کے لئے کبھی ادھر سے سراٹھاتے کبھی اُدھر سے،باربار طلایہ گردی کرنے اور فتنوں کی سرکوبی کے لئے مدینہ سے فوجی دستوں کی ترسیل ہوتی۔راتوں کو فوجی پہرہ لگایا جاتا۔غرض یہ کہ ایک جنگی کیمپ کی سی زندگی تھی۔اس پر مستزاد یہود اور منافقین کی سازشیں تھیں۔جنگ کی سازشیں اسلامی معاشرہ کو پھاڑ دینے اور مختلف عناصر کو ٹکرادینے کی سازشیں،حضور ؐ کی قیادت کو ناکام کرنے کی سازشیں،اور پھر اس زندگی بخش ہستی کو قتل کردینے کی سازشیں ایمرجنسی کا اس سے بڑھ کر اور کیا عالَم ہوسکتا ہے۔مگر حضورؐ نے نہ کبھی اپنے لئے کوئی مستبدانہ اختیار حاصل کیا،نہ کوئی ہنگامی آرڈی نینس جاری کیا۔نہ کوئی جابرانہ ایکٹ نافذ کیا،نہ کسی ایک فردکو نظر بندی میں ڈالا نہ کوئی ہنگامی عدالتیں بٹھائیں،نہ تازیانے برساکر لوگوں کی کھال اُدھیڑی،نہ جرمانے اور تاوان ڈالے،نہ کسی شہری پر کوئی بار خدائی قانون سے تجاوز کرکے ڈالا۔نہ اختلاف اور تنقید کا حق سلب کیا۔نہ کسی کی زبان بندی کی،اور نہ کسی پر پابندی عائد کی۔حتیٰ کہ عبداللہ بن اُبّی جیسے فتنہ پر دازتک سے کوئی تعرض نہیں کیا۔سارا دار و مدار اپنی دعوت کی صداقت اوراپنے کردار کی پاکیزگی پر رکھا۔کبھی کسی پر دھونس نہیں جمائی،کبھی رعونت نہیں دکھائی۔کبھی کسی کی انسانیت کی تحقیر نہیں کی،دوسروں کی مدد کی جو درحقیقت کمزور اور بے بس تھے،رعونتوں کو صبر سے برداشت کیا۔یہی وجہ تھی کہ دشمنوں کے دل مسخر ہوجاتے تھے۔ساتھ آنے والے دیدہ ودل فراش ِ راہ کرتے تھے۔مخالفت کرنے والے اپنے آپ کو پست اور ذلیل محسوس کرتے تھے۔اور پھر جب حضور ؐ کی صداقت وشرافت کے آگے سرجھکادیتے تھے تو ان میں ایسی تبدیلی آتی تھی کہ گویا کا یاپلٹ ہوگئی ہو۔
    حضورؐ کے سینے میں خدا کی جو محبت کار فرماتھی اسی کا دوسرا روپ یہ تھا کہ حضور ؐ انسانیت سے گہری محبت رکھتے تھے۔اس محبت انسانی کاا گر ہم انداز ہ کرنا چاہیں جو محسن ِ انسانیت کے سینے میں کارفرماتھی۔تو ہم اس واقعہ سے کر سکتے ہیں کہ وہی مکّہ جس کے باسی جنگ کی تلوار لئے آپ ؐ کے مقابلے میں کھڑے تھے۔اس پر قحط کا زمانہ آتا ہے تو آپ ؐ غلّہ کی رسد جاری کراتے ہیں۔اور اسی شہر کے غرباء کے لئے پانچ سوا شرفی نقد بھجواتے ہیں۔آپ ؐ کی محبت ِانسانی کا اندازہ ہم اس واقعہ سے بھی کرسکتے ہیں کہ بدر کے قیدیوں کی کراہیں گوش ِ مبارک تک پہنچیں تو حضور ؐ کی نینداُڑگئی۔اور آپ ؐ اس وقت تک آرام سے سو نہ سکے۔جب تک کہ اُن کے بندھن ڈھیلے کرکے اُنھیں آرام نہ پہنچا دیا گیا۔آپ ؐ کی محبت ِانسانی کا اندازہ اس سے بھی ہوسکتا ہے کہ بنو ہوازن کے چھ ہزار قیدی ایک

 اپیل پر حضور ؐ کے اشارے سے رہا کردیے جاتے ہیں۔اور پھر آپ ؐ کی محبت ِ انسانی کا اندازہ کرنا ہوتو فتح مکّہ کے موقع پر اس کا عظیم الشان مظاہرہ دیکھئے۔انسانیت کا محسن ؐ مکہ میں کامل فاتحانہ شان سے داخل ہوتا ہے۔او راس کے خلاف بیس برس تک لڑنے والے دشمن اس کے سامنے بے بس ہوکر کھڑے ہوتے ہیں۔کوئی دوسرا ہوتا تو ایک ایک واقعہ کا نتقام لیتا۔قتل ِ عام کا حکم جاری کرتا۔اور خون کی ندیاں بہادیتا۔کُشتوں کے پُشتے لگائے بغیر نہ ٹلتا۔وہ لوگ عرفاً،قانوناً،اخلاقاً ہر لحاظ سے مجرم تھے۔اور دین وسیاست دونوں پہلوؤں سے گردن زدنی کے مستحق تھے،مگر اس لمحے حضور ؐ کی محبت انسانی اُبھرتی ہے اور قریش کے مظالم کی ساری تاریخ پر خط ِ عفو پھیر کرکہتی ہے کہ”لا تثریب علیکم الیوم اذھبووانتم الطُّلقاء“!!اُلٹاان کی تالیف قلب کے لئے حضور ؐ ان کو مال ودولت عطاکرتے ہیں اور ان کو ذلیل اور مسترد کرنے کے بجائے ان کو ذمہ داریاں سونپتے ہیں اورگلے لگالیتے ہیں۔حضور ؐ پر یہ حقیقت روشن تھی کہ جو انقلاب انتقام پر اُترآتا ہے۔وہ اپنی موت آپ مرجاتاہے۔اور جو انقلاب عفو اور دلبری سے کام لیتا ہے وہ دشمنوں کو رام کرتا ہے اور مزاحمت کرنے والوں کو خادم بنالیتا ہے۔
    یہ قریش کا ذوق ِ تشددتھا جس کے تحت اُنھوں نے محسن ِ ؐ انسانیت کو مجبور کردیا کہ ان کی تیغ ِ خون ِ آشام کی دھار توڑدی جائے اور جنگ کے سر آپڑنے پر حضور ؐ نے نظام ِ حق کے بچاؤ میں پوری طرح بازی لگادی۔حضور ؐکی محبت انسانی نے جنگی پالیسی اوردفاعی تدابیر ایسی نکالیں کہ کم سے کم جانی نقصان ہو اور کم سے کم خون بہے،نیز حضور ؐ نے کڑا اہتمام کیا کہ میدان ِ جنگ میں بھی انسانیت کا احترام برقرار رہے۔محبت ِ انسانی کی ایسی روشنی اور وسیع مثال کسی دوسرے انقلاب میں نہیں ملتی۔حضور ؐ کا انقلاب خالص تعلیمی انقلاب تھا۔اور اس کی اساس بنی آدم کی خیر خواہی پر تھی۔
محسنِ انسانیت کا مثالی ایثار:
    آپ کا یہ انقلاب اس لحاظ سے بھی لا جواب ہیکہ اسے برپا کرنے والے نے اگرچہ بے انتہا قربانیوں سے اسکی تکمیل کی۔لیکن اس نے کوئی عوض اور صلہ نہ لیا،اپنا سب کچھ انسانیت کی بھلائی کے لئے دے دیا،اس نے اتنا بھی نہ لیا جتنا اگر لیاجاتا تو عقلا،شرعا عرفا ہرطرح جائز اور رواہوتا،اتنے بڑے بڑے کارناموں پر ذاتی غرض و لوث کا ہلکا سا دھبہ بھی دکھائی نہیں دیتا۔کوئی بھی اس کی مثال نہیں پیش کر سکتا۔
معاشی لحاظ سے آپکی قربانی:
    معاشی لحاظ سے دیکھئے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کامیاب تجارت قربان کی،اس سے حاصل ہونے والا سرمایہ اپنے مشن پر نچھاور کردیا اور جب کامیابی و دولت کی فراوانی کا دور آیا تو دولت کے ڈھیر اپنے ہاتھوں سے تقسیم کئے مگر اپنے گھر کیلئے فقروفاقہ اور سادہ زندگی وقناعت پسندی کو اختیار کیا۔اپنے گھر والوں کیلئے کوئی ذخیرہ اندوزی اور نہ کوئی جائداد بنائی۔اور نہ کوئی ان کیلئے مستقل مالی حقوق کا نظام قائم کیا،نہ ان کیلئے کسی عہدے و منصب کی مستقل موروثی گدی چھوڑی،نہ دربان و خادم اور نوکر وچاکر بھرتی کئے،نہ کوئی سامانِ زیست کو جمع کیا،اپنے گھر میں نہ سامانِ آرائش و زیبائش کو پسند کیا،نہ ہی اونٹ گھوڑے اور سواریاں جمع کیں۔مِلّت ِ اسلامیہ کے موجودہ نام نہادقائدین اور رفائی تنظیموں کے موروثی اور مختار ِ کُل مالکان اور انسانیت کی ہمدردی کا دم بھر نے والے،بلند و بانگ دعویٰ کرنے والے آپ ؐ کی قناعت پسندی اور بے لوثی سے سبق سیکھیں اور اپنی زندگیوں کو اس روشن اسوہئ نبوی میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔
 سیاسی لحاظ سے آپکی قربانی:
    سیاسی لحاظ سے دیکھیں تو اپنے لئے کوئی ترجیحی حقوق حاصل کئے نہ ہی کسی کے خلاف خداکے احکام و حدود سے تجاوز کرکے کسی چیز کا اختیار اپنے ہاتھ میں لیا۔اپنا سیاسی مقام اونچاکرنے کیلئے نہ کوئی من ماناقانون نافذ کیا۔مدینہئ منورہ میں شدید ایمرجنسی جاری رہی اور یہود و منافقین کی نئی نئی شراررتوں اورسازشوں سے سابقہ رہا مگر کسی کو نظربند نہیں کیا۔کسی پر پابندیاں نہیں لگائیں،کوئی ضمیر کش احکام کا نفاذ نہیں کیا،ہنگامی عدالتیں نہیں بٹھائیں اور لوگوں کی چمڑی تازیانوں سے نہیں ادھیڑی،برخلاف اس کے لوگوں کو تنقید اور رائے زنی کا حق دیا، یہ حقوق صرف کاغذ پر لکھے ہوئے نظری حقوق نہ تھے،بلکہ لوگوں نے ان حقوق و اختیارات کو عملًا استعمال کیا،بسا اوقات یہ شاہِ بطحا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قیمتی رائے ترک کرکے اختلافی رائے قبول فرمائی۔اگر کسی کو کوئی رعایت دینا چاہی تو جماعتِ صحابہ سے اجازت مانگی۔مثلا اپنے داماد ابوالعاص قیدی بنکر آئے تو ان کے فدیہ میں حضرت زینب نے وہ ہار بھیجا جو حضرت خدیجہ کی یادگار تھا اس ہار کی واپسی کیلئے حضور نے مجلسِ عام میں اپیل کی۔شاعر ِ اسلام حفیظ جالندھری نے اس کا کیا خوب نقشہ کھینچا ہے۔
        ملا  تھا  قیمتی  ایک ہار اُن کو تحفہ ئ  شادی        اس کو بھیج کر چاہی گئی شوہر کی آزادی
        نظر آیا جوں ہی یہ ہار دل حضرتؐ کا بھر آیا    سمٹ کر ابر ِ گو ہر بار پلکوں پر  اُتر  آیا
        خدیجہ  ؓ طاہرہ  کا ہار  مرحومہ  رفیقہ  کا    رسالت کی انیسہ اور اُمّت کی شفیقہ  کا
        خدیجہؓ طاہرہ اس قلب میں آباد تھی اب تک    محبت اور نیکی اور خدمت یاد تھی اب تک
        کہا بیٹی نے ماں کی یاد گار ارسال کردی ہے    یہ دولت بہر ِ شوہر آج استعمال کردی ہے
    اسی طرح ان کا مال بطورِغنیمت لاگیا تو وہ جماعت کی اجازت سے واپس آیا۔جعرانہ کے مقام پر معرکہ حنین کے قیدیوں کو چھوڑنے کیلئے ایک وفد آیا جس نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی قرابت کا واسطہ دلاکر اپنی درخواست پیش کی۔قیدی تقسیم ہوچکے تھے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو ہاشم کے حصے کے قیدی چھوڑناتو بطورِخود منظور کیا لیکن بقیہ کیلئے فرمایا کہ مجمعِ عام میں مسلمانوں سے درخواست کرو۔لوگوں کو جب معلوم ہواکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان کے حصے کے قیدی چھوڑدئے ہیں تو سب نے قیدیوں کو رہا کردیا۔ایسے معاملات میں حضور صلی
 اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی دباؤ اور جبر سے کام نہیں لیا۔ 
سماجی لحاظ سے آپکی قربانی :
    سماجی اور مجلسی لحاظ سے دیکھیں تو آپ نے اپنے لئے مساوات کو پسند کیا۔امتیاز پسند نہیں کیا۔نہ کھانے پینے میں۔نہ رہن سہن اور نہ لباس پوشاک میں کوئی غیر معمولی پن رکھا،نہ مجالس میں نمایاں مقام پر نشست پسند کی،نہ یہ مرغوب تھا کہ لوگ تعظیم کے لئے کھڑے ہوں اور نہ آقا و سردار اور اسی طرح کے القابِ احترام استعمال کرنے کی حوصلہ افزائی کی،جنگ اور سفر میں بھی خندق کی کھدائی میں بھی،مساجد کی تعمیر میں بھی اپنے رفقا کے ساتھ ملکر مٹی ڈھونے،گارا اٹھانے۔پتھر توڑنے اور لکڑیاں چننے کے کام اپنے دستِ مبارک سے انجام دئیے،قرض خواہوں کو اپنے خلاف سختی ودرشتی سے تقاضا کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔اپنے آپ کو مجلسِ عام میں انتقام کیلئے پیش کیا۔جس کسی کے خلاف مجھ سے کوئی زیادتی ہوئی ہو تو وہ مجھ سے اپنا بدلہ لے لے۔
 سیرت کسی درویش کی سرگشت نہیں:
    رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ایک فرد کی سیرت نہیں ہے بلکہ وہ ایک مستقل تاریخی طاقت کی داستان ہے جو ایک انسانی پیکر میں جلوہ افروز ہوئی،وہ زندگی سے جدا اور کٹے ہوئے کسی درویش کی داستانِ پارینہ وسرگزشت نہیں ہے جوکنارے بیٹھ کر صرف اپنی انفرادی تعمیر میں مصروف رہا ہو بلکہ وہ ایک ایسی عظیم ہستی کی آپ بیتی ہے جو ایک اجتماعی تحریک کی روحِ رواں تھی۔وہ محض ایک انسان کی نہیں بلکہ ایک انسان ساز کی مثالی روداد ہے،وہ ایک نئے عالم کے معمار کے کارنامے پر تفصیل اپنے اندر لئے ہوئے ہے،سرورِ عالمؐ کی سیرت غارِ حرا سے لیکر غارِ ثور تک،حرمِ کعبہ سے لیکر طائف کے بازارتک،امہات المومینین کے حجروں سے لیکر میدان ہائے جنگ تک چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے۔اس کے نقوش بے شمار افراد کی کتابِ حیات کے اوراق کی زینت ہیں،ابوبکر و عمرؓ،عثمان وعلیؓ،عمار ویاسر،خالد وخویلد اور بلال وصہیب رضوان اللہ علیہم اجمعین سب کے سب ایک ہی کتابِ سیرت کے اوراق ہیں ایک ہی چمن کا گلستاں ہے کہ جس کے لالہ گل اور نرگس و نسترین کی ایک ایک پتی پر اس چمن کے مالی کی زندگی نقش ہے۔وہ مبارک قافلہ وقت کی جس سرزمین سے گزرا ہے اس کے ذرّے ذرّے پر نگہت کی مہریں ثبت کر گیا ہے۔
    دنیا کی اس بلند ترین شخصیت کو اگر سیرت نگاری میں اکیلاایک فرد بنا کے پیش کیاجائے اور سوانح نگاری کے مروّجہ طرز پر اس کی زندگی کے بڑے بڑے کارناموں،اس کی نمایاں مہمّات اور اس کے اخلاق وعادات کو بیان کردیا جائے،کچھ تاریخوں کی چھان بین اور کچھ واقعات کی کھوج کُرید کردی جائے تو ایسی سیرت نگاری سے صحیح منشا ہرگز پورا نہ ہوگا۔
بڑی شان و شوکت ملی ان کو دامنِ رسالت میں 
روم و فارس اور نصف دنیا مل گئی عہدِ خلافت میں 
    پھر سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اُس رُکے ہوئے پانی کی طرح نہیں ہے کہ جس کے ایک کنارے کھڑے ہوکر ہم بیک نظر اس کا جائزہ لے ڈالیں۔بلکہ سیرت وہ ایک بہتا ہوا سمندر ہے جس میں حرکت ہے،روانی ہے کشمکش ہے،موج حباب ہیں،سیپیاں اور موتی ہیں،جس کے پانی سے مردہ کھیتوں کو مسلسل زندگی مل رہی ہے، اس سمندر کا رمز آشنا ہونے کیلئے اس کے ساتھ ساتھ رواں دواں رہنا پڑتا ہے،یہی وجہ ہے کہ سیرت کی بہت سی کتابیں پڑھ کر،سیرت سرائی کی مجلسوں میں شریک ہوکر،مروجہ مجالسِ سیر اور نعتیہ محافل میں جلوہ افروز ہوکر اوربڑی بڑی سیرت کانفرنس و سیمناروں کو منعقد کرکے ہمیں نادر معلومات تو ملتی ہیں لیکن ہمارے اندر تحریک پیدا نہیں ہوتی،جذبے انگڑائی نہیں لیتے۔عزم وہمت کی رگوں میں نئی اُمنگ،نئی تڑپ، نیا خون،نیا جوش،نیا ولولہ پیدا نہیں ہوتا،ذوقِ عمل میں نئی حرارت پیدا نہیں ہوتی۔ہماری زندگیوں کا جُمود و ٹہراو نہیں ٹوٹتا،وہ شرارِ آرزو اور تمنا ہم حاصل نہیں کرسکتے جسکی گرمی نے یکّہ وتنہا اور بے سروسامان فرد کو قرنوں اور زمانوں کے جمے ہوئے فاسد نظام کے خلاف معرکہ آرا کردیا۔ معرکہ ئ کارزار کو گرمادیا۔آخر ہمیں وہ سوز وسازِ ایمان کیوں نہیں ملتا؟جس نے ایک مکّہ کے درِّ یتیم اور یتیمِ بے نوا کو عرب و عجم کی قسمتوں کا فییصلہ کرنے والا اور سارے عالم کے لئے باعث ِ رحمت بنادیا۔
انسان ِ اعظم کی سیرت کی اجتماعی شان:
    آپ ؐ کی سیرت کے مدرسے سے ایک حاکم،ایک امیر،ایک وزیر،ایک افسر،ایک آقا،ایک سپاہی،ایک تاجر،ایک مزدور،ایک جج،ایک معلم،ایک واعظ،ایک لیڈر،ایک ریفارمر،ایک فلسفی،ایک ادیب ہر کوئی یکساں اس درس گاہ سے حکمت وعمل لے سکتا ہے،وہاں ایک باپ کے لئے ایک ہم سفر کے لئے ایک پڑوسی کے لئے یکساں مثالی نمونہ موجود ہے،ایک بار جو کوئی اس درس گاہ تک آپہنچتا ہے پھر اُسے کسی دوسرے دروازے کو کھٹکھٹانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔انسانیت جس آخری کمال تک پہنچ سکتی تھی وہ ایک ہستی میں جلوہ گر ہے،اسی لئے اس ہستی کو انسانِ اعظم کے لقب سے تاریخ میں پکارا گیا ہے،جس کو چراغ بنا کر ہر دور میں ایوان حیات روشن کرسکتے ہیں،کروڑوں افراد ِ انسانی نے اس سے روشنی لی،لاکھوں بزرگوں نے اپنے علم و فضل کے دئیے اسی کی لَو سے جلائے۔دنیا کے گوشے گوشے میں اُس کا پیغام گونچ رہا ہے اور دیس دیس کے تمدن پر گہرے اثرات اُس کی دی ہوئی تعلیم کے پڑے ہیں کوئی انسان نہیں جو اس ”انسان ِ اعظم“کا کسی نہ کسی پہلو سے زیر ِ بار احسان نہ ہو۔لیکن اس کے احسان مند اس حقیقت کو جانتے نہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں سیرت کے اور اُس کے پیغام کے بحرِ نا پیدا کنارذخیرے سے زندگی کے ہر ہر پہلو کو روشن اور تابناک بنانے کی توفیق ِ دائمی بخشے۔آمین

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

14اکتوبر2021(ادارہ فکروخبربھٹکل)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا