English   /   Kannada   /   Nawayathi

لکھیم پور کھیری حکومت کے گلے کی ہڈی

share with us
lakhimpur kheri


  پسِ آئینہ: سہیل انجم


لکھیم پور سانحہ کو ایک ہفتے سے زائد ہو گیا۔ لیکن اس وقت سے جو سیاسی طوفان اٹھا ہے وہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ یہ طوفان اب رفتہ رفتہ حکومت کو اپنی گرفت میں لیتا جا رہا ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے یہ واقعہ اس کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔ تقریباً پانچ ماہ کے بعد اترپردیش سمیت کئی ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور اس سے پہلے اس قسم کا واقعہ پیش آنا بی جے پی کے لیے بدشگونی سے کم نہیں۔ حالانکہ شروع سے ہی یہ کوشش کی جا رہی تھی کہ یہ معاملہ زیادہ نہ بڑھنے پائے لیکن تادم تحریر اس میں کامیابی نہیں ملی ہے۔ سب سے پہلے مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ اجے مشرا کی جانب سے یہ الزام عاید کیا گیا کہ کسانوں نے لاٹھیوں اور تلواروں سے ان کی گاڑیوں کے قافلے پر حملہ کیا تھا جس میں بی جے پی کے چار کارکن ہلاک ہوئے۔ انھوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ یہ لوگ کسان نہیں بلکہ خالصانی ہیں اور یہ کہ یہ دہشت گرد شروع سے ہی کسانوں کی تحریک میں شامل رہے ہیں۔ جب یہ بات سامنے آئی کہ اجے مشرا کا بیٹا آشیش مشرا اُس گاڑی میں سوار تھا جس سے کسانوں کو روندا گیا تو انھوں نے اس کی تردید کی او رکہا کہ ان کا بیٹا جائے واردات سے کئی کلومیٹر دور جہاں دنگل ہو رہا تھا وہاں تھا۔ بعد میں انھوں نے اس کا اعتراف کیا کہ جس گاڑی سے کسان کچلے گئے وہ ان کی تھی۔ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا کہ قصورواروں کو بخشا نہیں جائے گا لیکن انھوں نے اشارو ں کنایوں میں یہ بتانے کی کوشش بھی کی کہ اس واقعہ کے پیچھے کسانوں کی سازش تھی۔ آناً فاناً متاثرین کے ساتھ معاہدہ بھی ہو گیا۔ بعد میں آشیش مشرا کے خلاف قتل کا مقدمہ درج ہوا لیکن گرفتاری نہیں ہوئی۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ جب تک ثبوت نہیں مل جاتا کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ ادھر اپوزیشن جماعتوں اور کسان تنظیموں کی جانب سے آشیش مشرا کے خلاف کارروائی کے لیے حکومت پر دباؤ بڑھنے لگا۔ بالآخر پولیس نے ان کو پوچھ تاچھ کے لیے سمن کیا لیکن وہ مقررہ تاریخ پر نہیں پہنچے۔ وہ دو روز کے بعد پہنچے۔ پولیس نے کئی گھنٹے کی پوچھ تاچھ کے بعد ان کو گرفتار کر لیا۔ لیکن یہ کارروائیاں اس وقت ہوئیں جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این وی رمنا نے از خود نوٹس لیا اور یو پی حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے اسٹیٹس رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی۔ جب یو پی حکومت نے اگلے روز اپنی رپورٹ پیش کی تو تین رکنی بینچ نے اس پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ گویا اگر سپریم کورٹ سخت نہ ہوا ہوتا تو شاید کچھ بھی نہ ہوتا۔ 
لیکن اب رفتہ رفتہ یہ معاملہ کافی گرم ہو گیا ہے۔ جس طرح کئی ویڈیوز سامنے آئی ہیں اور آشیش مشرا کے خلاف کئی ثبوت پائے گئے ہیں اور دوسری طرف وہ پولیس کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے ہیں اور یہ کہ ان کے حق میں ابھی تک کوئی ثبوت نہیں ملا ہے، ان باتوں سے حکومت کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے اور بی جے پی کو بھی یہ لگنے لگا ہے کہ اگر اجے مشرا کو کابینہ سے برطرف نہیں کیا گیا تو جو نقصان ہوا ہے اس سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔ لیکن چونکہ اس حکومت کے پاس اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہے کہ وہ کسی بدعنوان وزیر یا ایسے وزیر کو جس پر الزامات لگے ہوں برطرف کر دے، لہٰذا اجے مشرا کو برطرف کرنے میں بھی لیت و لعل سے کام لیا جا رہا ہے۔ لیکن اب خود بی جے پی کے اندر سے ہی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ یو پی بی جے پی کے صدر سوتنتر دیو سنگھ نے ایک پروگرام میں تقریر کرتے ہوئے جو باتیں کہیں وہ اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ اجے مشرا کی چھٹی ہو سکتی ہے۔ انھوں نے وزیر اور وزیر زادے پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ سیاست داں وہ ہوتا ہے جسے عوام کا پیار ملے وہ نہیں جو فارچونر سے عوام کو کچل دے۔ سیاست داں وہ نہیں ہوتا جس کو دیکھ کر لوگ خوف زدہ ہو جائیں۔ یاد رہے کہ اجے مشرا کا مجرمانہ بیک گراؤنڈ رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ ایک ہسٹری شیٹر ہیں اور ان کے خلاف قتل کا مقدمہ بھی چل رہا ہے۔ انھوں نے خود لکھیم پور سانحہ سے چار روز قبل ایک پروگرام میں بولتے ہوئے کسانوں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایم پی، ایم ایل اے اور وزیر بعد میں ہیں، وہ پہلے کیا تھے اسے یاد کر لیجیے۔ اس طرح بی جے پی کے اندر ہی اب اخلاقیات کا سوال اٹھنے لگا ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق انھیں اس لیے کابینہ میں شامل کیا گیا تھا تاکہ یوپی انتخابات سے قبل برہمنوں کی ناراضگی دور کی جا سکے۔ کیونکہ وزیر اعلیٰ پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ وہ ٹھاکروں کے ہمدرد اور برہمنوں کے تئیں سخت ہیں۔ بلکہ یہاں تک کہا جانے لگا کہ یہ ٹھاکروں کی حکومت ہے۔ اسی لیے پہلے جتن پرساد کو یوپی کابینہ میں اور پھر اجے مشرا کو مرکزی کابینہ میں لیا گیا۔ لہٰذا اب دشواری یہ ہے کہ اگر اجے مشرا کو نہیں ہٹایا جاتا ہے تو کسانوں کی ناراضگی بڑھتی جائے گی اور ہٹایا جاتا ہے تو برہمن ووٹ مزید ناراض ہو جائے گا۔ برہمنوں میں اس پر بھی ناراضگی ہے کہ لکھیم پور میں جو چار بی جے پی کارکن مارے گئے وہ سب برہمن تھے لیکن بی جے پی کے ایک بھی لیڈر نے ان کے گھر جا کر اظہار تعزیت نہیں کیا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس واقعہ کے دو روز بعد وزیر اعظم لکھنؤ میں ایک پروگرام میں گئے لیکن انھوں نے لکھیم پور واقعہ پر ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ اگر وزیر اعظم کو کسانوں سے ہمدردی نہیں تھی تو کم از کم بی جے پی کارکنوں کے ساتھ ہی ہمدردی دکھا دیتے۔ بہرحال بی جے پی اور حکومت میں اندرون خانہ خوب اٹھا پٹخ چل رہی ہے اور اگر اجے مشرا کا استعفیٰ لے لیا جائے تو کوئی تعجب نہیں ہوگا۔ کیونکہ بہرحال بی جے پی لکھیم پور واقعہ اور اس کے بعد کی ناکارکردگی سے ہونے والے نقصان کا ازالہ کرنا چاہتی ہے۔
لیکن کیا حکومت کے کسی قدم سے نقصان کی تلافی ہو جائے گی؟ اس بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ کیونکہ جس طرح حکومت کسانوں کے ساتھ انتہائی بے رحمانہ سلوک کر رہی ہے اس سے کسانوں میں زبردست ناراضگی پیدا ہو گئی ہے۔ یو پی حکومت نے لکھیم پور میں راکیش ٹکیت کے توسط سے سمجھوتہ کرکے اور ان کو بہت زیادہ اہمیت دے کر کسانوں میں پھوٹ ڈلوانے کی کوشش کی لیکن شاید اسے معلوم نہیں کہ کسانوں میں زبردست اتحاد ہے اور ایسے ٹوٹکے ان کے درمیان اختلافات کے بیج نہیں بو سکتے۔ لکھیم پور کے واقعہ نے کسانوں کو حکومت سے مزید برگشتہ کر دیا ہے۔ اُس خطے میں سکھ کسانوں کی بڑی تعداد ہے جو حکومت سے ناراض ہو گئی ہے۔ قریبی ضلع پیلی بھیت میں بھی کسان بڑی تعداد میں ہیں۔ وہاں بھی ناراضگی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کا اندازہ بی جے پی ایم پی ورون گاندھی کے بیانات سے لگایا جا سکتا ہے۔ انھوں نے سب سے پہلے لکھیم پور واقعہ کی مذمت کی اور پھر اس واقعہ سے نمٹنے کے حکومت کے طریقہئ کار پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ انھوں نے حکومت اور بی جے پی پر بہت بڑا الزام بھی عاید کر دیا۔ انھوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ سکھوں اور ہندووں میں لڑائی کرانے کی کوشش نہ کی جائے۔ یہ بہت خطرناک ہوگا اور اس سے ان زخموں کے منہ پھر سے کھل جائیں گے جو کئی نسلوں میں جا کر مندمل ہوئے ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ لکھیم پو رکی لڑائی غریب کسانوں کی ظالم اور مغرور طاقتور لوگوں سے ہے، ایک طرح سے اجے مشرا، وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ پر تنقید کرنا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اجے مشرا امت شاہ کے قریبی ہیں۔ وہ کابینہ میں ان کے نائب بھی ہیں۔ لہٰذا ورون گاندھی نے ایک طرح سے امت شاہ کو بھی للکار دیا ہے۔ ان کے بیانات سے بی جے پی قیادت کتنی برہم ہوئی ہے اس کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھیں اور ان کی والدہ مینکا گاندھی کو بی جے پی کی قومی مجلس عاملہ سے باہر کا راستہ دکھا دیا گیا ہے۔ گویا بی جے پی قیادت کسی بھی قسم کی تنقید برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ لیکن اسے اب لکھیم پور واقعہ کے بعد یوپی میں بڑے سیاسی نقصان کے لیے تیار ہو جانا چاہیے۔ وہ خواہ کچھ بھی کر لے نقصان تو ہو گیا اور اس کا اثر انتخابات میں بھی ضرور نظر آئے گا۔ 

 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

14اکتوبر2021(ادارہ فکروخبربھٹکل)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا