English   /   Kannada   /   Nawayathi

اسلام،علم،ایمان اور ہدایت:جنت کے چار پڑاؤ ہیں 

share with us

 

 ابونصر فاروق

    دنیا کے تمام لوگ اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے اور اپنی منزل تک پہنچنے کے درمیان راستے میں کئی پڑاؤ آتے ہیں جہاں سے گزرنا ضروری ہوتا ہے۔یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ایک انسان اپنی جگہ سے چلے یا اُڑے اور سیدھا اپنی منزل تک پہنچ جائے۔پٹنہ سے دہلی جانے میں الٰہ آباد، کانپوراور علی گڑھ سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ہندوستا ن سے امریکہ جاتے ہوئے بحر اوقیانوس کو پار کرنا ہی پڑتا ہے۔
    اسی طرح وہ انسان جو اس دنیا میں آ کر واپس جنت میں جانے کو اپنی منزل بنا نا چاہتاہے،وہ دنیا سے نکل کر سیدھا جنت میں نہیں چلا جائے گا۔دین سے جنت کا سفر کرتے ہوئے اُس کو اوپر بتائے ہوئے چار پڑاؤ سے گزرناہی ہوگا۔اور یہ جو چار پڑاؤ ہیں ان کو اِدھر سے اُدھر بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ان کو لگاتار اسی ترتیب سے پار کرنا ہوگا۔
    پڑاؤ نمبر ایک: اسلام
    اے ایمان لانے والو تم پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ (البقرہ: ۸۰۲) اس فرماں برداری کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اُس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا۔(آل عمران: ۵۸)تمہارا رب کہتا ہے مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔ جو لوگ گھمنڈ میں آ کر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں، ضرور وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔(مومن:۰۶)اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے اُنہیں خود اپنا نفس بھلا دیا۔یہی لوگ فاسق  ہیں۔ (الحشر:۹۱)جو کوئی نیک عمل کرے گا اپنے ہی لئے کرے گا، اور جو برائی کرے گا وہ آپ ہی اس کا خمیازہ بھگتے گا۔(جاثیہ:۵۱)
    ان پانچ آیتوں میں سب سے پہلے یہ کہا جارہا ہے کہ اسلام کو اپنانے کے لئے پورے اسلام کو اپنانا ہوگا، ادھورے اسلام کو نہیں۔دوسری آیت میں کہا جا رہا ہے کہ اسلام کے علاوہ کوئی اوردین یا مذہب کوئی انسان اپناتا ہے تو اُس کو اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرے گا اور وہ جنت کا حقدار نہیں بن پائے گا۔اسلام اللہ کی مکمل بندگی کرنے کا مطالبہ کرتا ہے،تیسری آیت میں کہا جارہا ہے کہ جو آدمی اللہ کی جگہ کسی اور کی عبادت کرے گا وہ دنیا میں بھی ذلیل و خوار ہوگا اور قیامت میں جہنم اُس کاٹھکانہ ہوگا۔چوتھی آیت میں کہاجارہا ہے کہ جو آدمی دنیا کی رنگ رلیوں میں پھنس کر اللہ کو بھول گیا وہ دراصل خود کو بھول گیا۔ جو خود کو بھول گیا کہ وہ کون ہے اور کیا ہے، وہ دنیا میں کسی کام کا آدمی نہیں ہو سکتا ہے۔ایسا آدمی اللہ کے نزدیک فاسق ہے اوراُس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔چوتھی آیت میں کہا جارہا ہے کہ ہر انسان کی اپنی نیکی اُس کے کام آئے گی اور اُس کی اپنی برائی اُس کی جان کا جنجال بنے گی۔نہکسی دوسرے کی نیکی اُس کو   فائدہ پہنچا سکے گی، نہ دوسرے کی برائی اُس کو نقصان پہنچا سکے گی۔
    مکمل اسلام سے غافل رہنا، آدھے ادھورے اسلام کی پیروی کرنا،اللہ کی جگہ دنیا کا بندہ بن کے رہنا،اللہ نے آدمی کو کس کام کے لئے پیدا کیا ہے اُس سے انجان رہنا اور اپنے عمل کی جگہ دوسروں سے امید رکھنا کہ اُن کا وسیلہ اور اُن کی پیروی جنت میں پہنچا دے گی، کیا کوئی سمجھ دار اورعقل مند انسان ایسا سوچ اور سمجھ سکتا ہے۔ گویا اس وقت ایسے تمام مسلمان جن کا یہ رویہ، چلن اور طور طریقہ ہے، وہ جان بوجھ کر جنت میں جانے کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔دنیا میں اُن کو جو ذلت و رسوائی اور ناکامی وپریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اُ س کے ذمہ دار وہ خود ہیں کوئی دوسرا نہیں ہے۔

     پڑاؤنمبر دو:علم
    جو بندوں کے سامنے ہے اُسے بھی وہ جانتا ہے اورجو کچھ اُن کی نگاہوں سے اوجھل ہے، اُس سے بھی وہ واقف ہے اور اُس کی معلومات میں سے کوئی چیز اُن کی سمجھ کی پکڑ میں نہیں آ سکتی، مگر یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی اُن کو دیناچاہے۔ (البقرہ:۴۵۲)اوریہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہل ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے، مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی آبادی کے ہر حصے میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جا کر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے تاکہ وہ (غیر مسلموں کے چلن سے) پرہیز کرتے۔(توبہ:۲۲۱)کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے زمین او ر آسمان کی ساری چیزیں تمہارے لئے مسخر (پالتو بنا)کر رکھی ہیں اور اپنی کھلی اور چھپی نعمتیں تم پر تما م کر دی ہیں۔ اس پر حال یہ ہے کہ تم میں سے کچھ لوگ ہیں جو اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں، بغیر اس کے کہ اُن کے پاس کوئی علم ہو، یا ہدایت، یا کوئی روشنی دکھانے والی کتاب۔(لقمان:۰۲)اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ پیروی کرو اُس چیز کی جو اللہ نے نازل کی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو اُس چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا  ہے …… ……(لقمان:۱۲)
    مکمل اسلام پر عمل کرنے کے لئے شریعت کا علم حاصل کرنا انتہائی ضروری ہے۔پہلی آیت میں کہا جارہا ہے کہ اللہ کی اجازت اور حکم کے بغیر شریعت کا علم کسی آدمی مل ہی کو نہیں سکتا ہے۔دنیا کے جتنے پڑھے لکھے قابل اور فاضل لوگ شریعت کے علم سے انجان ہیں وہ اللہ کی نگاہ میں جاہل ہیں۔علم حاصل کرنے کے لئے اللہ سے منت اور فریاد کرنی ہوگی کہ یا اللہ ہمیں علم کی دولت سے نواز دے۔دوسری آیت میں علم حاصل کرنے کا طریقہ یہ بتایا جارہا ہے کہ ہر بستی اور علاقے کے کچھ لوگ علم کے مرکز میں آکر علم حاصل کرتے اور واپس جا کر اپنے علاقے اور بستی والوں کوشریعت کا علم سکھاتے، تاکہ وہ غیر مسلم جیسی زندگی نہیں گزارتے۔تیسری آیت میں کہا جارہا ہے کہ جولوگ دین کے معاملے میں روشنی دکھانے والی کتاب قرآن کا علم حاصل کئے بغیر اپنے خیال اور خواہش سے بحث کرتے ہیں اور قرآن کی باتوں پر عمل کرنے کی جگہ اپنے باپ دادا یا شیخ اور پیر کی باتوں پر عمل کرنے کی ضد کرتے  ہیں۔ایسے تمام لوگ اسلام اورعلم دونوں سے محروم ہیں اور اللہ کی رحمت کی جگہ عذاب کے حقدار ہیں۔ایسے تمام لوگ غیر مسلموں جیسی زندگی گزار رہے ہیں 
    پڑاؤ نمبر تین: ایمان
    ان سے کہو فیصلے کے دن ایمان لانا اُن لوگوں کے لئے کچھ بھی فائدہ مند نہ ہوگا جنہوں نے کفر کیا ہے اور اُن کو پھر کوئی مہلت نہ ملے گی۔یقینا تیرا رب ہی اُن باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں یہ باہم اختلاف کرتے رہے ہیں۔(حم سجدہ:۹۲)کوئی آدمی اللہ کی اجازت کے بغیر ایمان نہیں لا سکتا۔ اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے وہ اُن پرگندگی ڈال دیتا ہے۔(یونس:۰۰۱)
    پہلی آیت میں کہا جارہا ہے کہ جو لوگ اس دنیا میں مومن اور مسلم کی جگہ کافرومشرک بن کر جی رہے ہیں یا خود کومومن اور مسلم کہتے ہوئے کافر و مشرک جیسے بنے ہوئے ہیں، وہ قیامت کے دن جہنم کو دیکھ کر سچے دل سے ایمان لانا چاہیں گے، لیکن اُس دن اُن کا ایمان لانا اُنہیں کوئی فائدہ نہیں دے گا۔دوسری آیت میں کہا جارہا ہے کہ کوئی آدمی اگر سچے دل سے مومن اور مسلم بننا نہیں چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اُس کو سچا مومن اور مسلم بننے کی توفیق  نہیں دیتا ہے۔یعنی جو لوگ آج بے دین بن کر جی رہے ہیں اور سچے مومن و مسلم بننے کو تیار نہیں ہیں،وہ چاہیں گے بھی تو اللہ تعالیٰ اُن کو سچا مومن اور مسلم بننے کی توفیق نہیں دے گا۔ایسا اس لئے ہوگا کہ اللہ نے اُن کو ایمان کی عظیم نعمت دینے کا ارادہ کیا تھا لیکن اُنہوں نے شیطان کو اپنا دوست بنا کر اللہ کی نعمت  کی ناقدری کی تو اللہ نے بھی اُن کے رویے کی وجہ سے اُنہیں ایمان کی نعمت سے محروم کر دیا۔موجودہ بے دین مسلمان ایمان اور علم شریعت سے محروم ہیں۔
    پڑاؤ نمبر چار:ہدایت
    اگر اللہ چاہتاتو ا ن سب کو ہدایت پر جمع کر سکتا تھا، لہذا نادا ن مت بنو۔ دعوت حق پر لبیک وہی لوگ کہتے ہیں جو سننے والے ہیں۔ (انعام:۵۳)مگر جو لوگ ہماری نشانیوں کو جھٹلاتے ہیں و ہ بہرے اور گونگے ہیں۔ تاریکیوں میں پڑے ہوئے ہیں۔اللہ جسے چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے سیدھے رستے پر لگا دیتا ہے۔(انعام:۹۳)
    پہلی آیت میں کہا جارہا ہے کہ دنیا میں اللہ چاہتا تو سب کو ہدایت دے دیتا۔لیکن اُس نے ایسا نہیں کر کے ہر آدمی کو آزادی عطا کی ہے کہ چاہے تو ہدایت پانے کی کوشش کرے اور چاہے تو ہدایت سے محروم رہے۔جس طرح وہ اپنی زندگی اپنی پسند کے مطابق گزارتا ہے، اُسی طرح یہ بھی اُس کا اپنا فیصلہ ہوگا کہ وہ مومن و مسلم بن کر جئے گا یا غیر مومن اور غیر مسلم بن کر۔اس لئے اللہ کا قاعدہ یہ ہے کہ اُس کا جو بندہ اسلام، علم، ایمان اور ہدایت کا چاہنے والا اور اللہ سے ان نعمتوں کا طلب کرنے والا اور اس راہ میں جد و جہد کرنے والا ہوتا ہے اُسی کو اللہ ان نعمتوں سے سرفراز کرتا ہے۔رہے وہ لوگ جن کو ان نعمتوں کی نہ قدر ہے نہ پروا،اُنہیں اللہ تعالیٰ اپنی دوسری مخلوق کی طرح اُن کی زندگی بھر روزی روٹی تو دیتا رہتا ہے لیکن وہ اوپر بتائی ہوئی چار نعمتوں سے محروم رہتے ہیں۔اور جب اللہ ہی نہ چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت اُن کو اسلام، علم،ایمان اور ہدایت کی دولت نہیں دے سکتی ہے۔
    یہ چاروں باتیں نہ تو کسی کا خیال ہیں نہ منطق اور فلسفہ، کہ کوئی چاہے تو مانے یا نہ چاہے تو نہ مانے۔یہ چاروں باتیں قرآنی آیات کی تشریح کرتے ہوئے سمجھائی گئی ہیں۔یعنی یہ باتیں اللہ کا فرمان ہیں، جو اُس نے اپنے تمام بندوں کے لئے نازل کیا ہے۔اللہ نے اپنے بندوں پر یہ بھی فرض کیا ہے کہ جو دین و شریعت کی باتیں جانتے ہیں وہ دوسروں کو بتائیں۔اور یہ کام علم دین رکھنے والے پر فرض اور لازم ہے۔اس پر اُ س کا اختیار نہیں ہے کہ وہ چاہے تو دین کی دعوت کا کام کرے اور نہ چاہے تو نہ کرے۔انتہا یہ ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:تم اگرمیری کہی ہوئی ایک بات بھی جانتے ہو تو اُسے دوسروں تک پہنچاؤ۔دوسری جگہ یہ فرمایا کہ:جو میری باتوں میں ملاوٹ کرے گا یا الٹ پلٹ کرے گا اُس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔
    کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت مسلم ملت کی جو بے دینی اور گمراہی ہے اُس کے سو فیصد ذمہ دار وہ عالم اور فاضل ہیں جن کو مدرسے میں اسی کام کے لئے تعلیم دی گئی تھی، لیکن وہ فراغت کے بعد اس قیمتی فریضے کو نظر انداز کر کے دنیا داروں کی طرح دنیا کمانے میں لگ گئے اور اُن کی حیثیت قرآن کے الفاظ میں کتے جیسی ہو گئی۔
    خاکسارنے اسی فریضے کے شعور و احساس کے ساتھ اللہ کی توفیق سے دعوت دین کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ہے اور دن رات اسی کام میں مصروف عمل ہے۔اللہ کے اس حکم کے ساتھ کہ لوگوں سے اس کام پر نہ کوئی بدلہ چاہئے اور نہ شکریہ۔نہ تعریف و توصیف کی تمنا ہے اور نہ تنقید و ملامت کی پروا۔سب کچھ اللہ کے لئے اور اللہ کے حکم کے مطابق کیا جارہا ہے۔دعا ہے کہ اللہ اپنے نادان، کم عقل، غافل اور انجام سے بے پروابندوں کو اس تحریر کی بدولت اسلام، علم، ایمان اور ہدایت کی نعمت کی طلب کی توفیق دے اور اُن کے حق میں خاکسار کی دعا قبول کر لے۔آمین

    غالب نے دعا کی تھی:    یارب نہ وہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
        دے اور دل اُن کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور
     علامہ اقبال کو امید تھی:    نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
        ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
    اور صارمؔ تبصرہ کرتے ہیں:    فضل کا اُس کے ادا شکر ہو کب ممکن ہے
        آج ناشکری کا مجرم ہر اک انسان ہوا ہے
        عقل و دانش کا ہے دعویٰ مگر عالم یہ ہے
        غافل انجام سے اپنے یہی نادان ہوا ہے

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ اک متفق ہوناضروری نہیں ہے 

04اکتوبر2021۰(ادارہ فکروخبربھٹکل)


 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا