English   /   Kannada   /   Nawayathi

گویا موت کے منھ میں جاکر واپس آگئے…. شکر ہے رب کائنات کا…

share with us

   ️  ابو فاتح ندوی

حیدرآباد سے منگلور کی اڑان تھی، پائلٹ تجربہ کار اور عمر رسیدہ بھی، اپنے وقت پر پہنچنے میں یہ جہاز اپنی مثال آپ، عموماً اس راستے میں ATR-72 کی اڑان ہوتی ہے جس میں اسّی سے زائد افراد کی گنجائش نہیں ہوتی۔ سب کچھ اپنی جگہ ٹھیک ٹھاک، اور مسافر بھی وقت پر منزل تک پہنچنے کے لیے بے تاب۔ موسم بھی اب تک کوئی ایسا ناخوش گوار نہیں کہ کسی خطرے کا الارم دیا جائے۔ مگر انسان تو بہرحال انسان ہے، مخلوق اپنے خالق کے سامنے مکمل بے بس، چاہے ترقی کے بام عروج پر پہنچ جائے، ہزار اس کا دماغ آسمان کی بلندیاں چھولے اور اس کی تدبیریں فلک رسا بن جائیں۔ مگر ہے تو وہ کائنات کا ایک حقیر ذرہ! اپنے خالق کی طاقت اور اس کی قوت کے سامنے ایک عاجز وبے مایہ مخلوق!

اپنے وقت پر جہاز منگلور ہوائی اڈے پر اترنے کی تیاری میں تھا اور زمین سے قریب آچکا تھا اس طور پر کہ نگاہوں کے سامنے زمین اپنی رعنائیوں دکھا رہی تھی اور انسانی فن تعمیر کی شاہکار فلک بوس عمارتیں سب کچھ نظر آرہی تھیں۔ عموماً جہاز اترنے کے لیے کبھی ایک بار یا دوبار قلابازی کھاتا ہے یا ارد گرد کے چکر لگاتا ہے یا اور تھوڑا سا آگے بڑھ کر دس بیس منٹ فضا میں چکر لگاتا ہے، مگر ایں! آج ہوا کیا ہے کہ ایک بار دوبار نہیں ایک ایک کرکے بلا مبالغہ ساٹھ ساٹھ بار چکر لگا رہا ہے اور منزل پر پڑاؤ ڈالنے کے لیے بار بار پر کھول رہا ہے، پھر بھی کنٹرول روم سے اجازت نہیں مل رہی ہے، اور وہ بھی دس بیس منٹ نہیں بلکہ ڈیڑھ اور پونے دو گھنٹے تک لگاتار! تھوڑی تھوڑی دیر میں کپتان بھی اعلان کررہے ہیں کہ بس اب جہاز اترنے والا ہے، پھر اس کے بعد اعلان ہوتا ہے کہ ابھی موسم اجازت نہیں دے رہا ہے، اب کیسے تصویر کھینچوں آپ کے سامنے بادلوں کی ان قطاروں کی؟ روئی کے ڈھیر کہیے یا کوئی سفید چادر بچھادی گئی ہو! اب تک زندگی میں جتنے سفر کیے بارہا ایسے مواقع پیش آئے بلکہ خوف اور خطرے کے عالم میں دل کو پہلو سے اُڑتے ہوئے محسوس بھی کیا، مگر آج کا خطرہ کچھ اور ! ذہن ودماغ میں “دعوا اللہ مخلصین لہ الدین” کی آیت بار بار آتی! اور زبان پر اللہ سے مدد کی دہائی! دل میں ایک ایک گناہ یاد آتا اور زبان پر سچی پکی توبہ کے عہد وپیمان! بادلوں نے زمین پر ایسا پہرہ بٹھا دیا ہے کہ کہیں سے بھی کوئی شگاف نہیں رکھا! بادی النظر میں تو میں یہی سمجھا کوئی دودھ کی نہر بہہ رہی ہو جس کا اب تک مشاہدہ تو کیا وہم وگمان بھی نہ تھا! ایک طرف سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہوا جس کے بالکل قریب ہوکر پھر جہاز قلابازی کھاتا اور دوسری طرف دودھ کی نہر کہیے یا ایسی سفید چادر جو تا حد نگاہ کا احاطہ کرلے! “ویجعلہ کسفا” کی تفسیر! تہہ بہ تہہ بادلوں کا یہ منظر آج پہلی دفعہ نگاہوں نے دیکھا! اور پھر یہ بادل اگر زمین سے بلندی پر ہوں تو آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ جہاز اپنا راستہ بنا کر ان کو چیرتے ہوئے نکل جاتا ہے اور اپنے مستقر پر پہنچ کر اپنا رخت سفر کھول دیتا ہے، مگر آج جو بادلوں کی فوج ہے اس نے گویا طے کر رکھا ہو کہ اس نالائق انسان کو زمین پر قدم نہیں رکھنے دینا ہے! اس نے خالق ومالک کا دیا ہوا بہت کھایا مگر ہمیشہ ناشکری کرتا رہا، محسن ومنعم حقیقی کے احسانات سے ہر لمحے لطف اندوز ہوتا رہا مگر اپنی من مانی کبھی نہ چھوڑی! بادل زمین کے اتنے قریب اور مسافروں کے لیے اتنے مہیب گویا زمین پر ایستادہ عمارتوں کی چھت پر سنتری بن کر براجمان ہوں! پچاس اور ساٹھ دفعہ کی قلابازیوں کے بعد اعلان ہوتا ہے کہ اب اترنے کی اجازت مل گئی کہ موسم صاف ہوگیا اور کپتان کے لیے رن وے دکھائی بھی دینے لگا! پھر زمین کے قریب آکر اچانک اعلان ہوتا ہے کہ ہم نے کوشش کی مگر پھر اندھیرا چھا گیا اور سو میٹر سے دور کا کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے، لہٰذا ہم دس پندرہ منٹ میں پھر کوشش کریں گے! تین بار کی کوشش کے بعد بالآخر امید جاگی اور بادل چھٹتے ہوئے دکھائی دیے اور زمین بالکل صاف نظر آنے لگی اور ہم اللہ کا شکر ادا کرنے لگے !

اب جہاز لینڈنگ کے بالکل قریب پہنچ چکا ہے، اور پوری تیاری ہوچکی ہے، بلکہ اترتے ہوئے زمین کی دست بوسی کے قریب اور بہت قریب، بس ایک یا دو میٹر کا فاصلہ رہ گیا ہے اور رن وے پر جہاز اترا چاہتا ہے، مگر پھر یہ کیا ہوا؟ دفعۃً ایک جھٹکا لگا اور زور کی آواز آئی اور بس ایک لمحہ کہیے یا لمحے کے بھی اجزا کردیے جائیں تو اس کا ایک چوتھائی جُز یا اس سے بھی کم! بس خدا نے فضل فرمایا اور کپتان دوبارہ جہاز کو فضا کی طرف اڑا لے جانے میں کامیاب ہوگیا! کیوں کہ کپتان کو کچھ نظر نہ آیا اور اس کی نگاہوں کے سامنے بالکل اندھیر چھایا! بس دل کیا دھڑکتا! وہ تو پہلو ہی میں نہیں تھا! “وأفئدتھم ھواء” کا نمونہ! ساتھی ایک دوسرے کو دیکھتے رہ گئے! تھوڑی دیر تک سمجھ میں ہی نہ آسکا کہ کیا ہوا؟ اسی لمحے کپتان نے اعلان کیا کہ اب ہم مجبور ہیں اور کنور کے ہوائی اڈے کی طرف مائل پرواز!

تقریباً نصف گھنٹے کے بعد کنور ہوائی اڈے پر اتر کر دوبارہ پون گھنٹے کے بعد اپنی منزل پر واپس لایا گیا اور اس مرتبہ موسم صاف ہوچکا تھا اور بادل منتشر ہوکر اوپر اٹھ چکے تھے۔

جہاز کے عملے اور خود کپتان نے بھی خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیا، تسلی بھی دی اور اکانومی جہاز ہونے کے باوجود ضیافت سے نوازا۔

مگر سب سے بڑا اور اوّل وآخر شکر اسی رب کریم کا جس نے ہم ناتوانوں کو زندگی میں سنبھلنے کا اور اپنے در سے وابستہ ہونے کا شاید ایک اور موقع دیا! ورنہ منگلور کے ہوائی اڈے پر پیش آنے والے حادثات کو یاد کرنے سے ہی کلیجہ منھ کو آنے لگتا ہے اور دل دہل جاتا ہے۔

فضل وکمال اسی رب کریم کا! شکر واحسان اسی منعم حقیقی کا! اپنوں، رفیقوں، دوستوں، بہن بھائیوں اور سب سے بڑھ کر والدہ، اساتذہ اور گھر والوں، چاہنے والوں اور شاگردوں نے جو دعائیں اب تک دیں اور آئندہ بھی دیں گے وہ اس سیہ کار کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ ورنہ نالائقیاں اور سیہ کاریاں تو ایسی ہیں جو کہیں کا نہ چھوڑیں۔ دعاؤں کی درخواست کے ساتھ۔ بندۂ حقیر وناتواں۔

ابو فاتح ندوی۔

18 صفر 1443ھ/ 26 ستمبر 2021

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا