English   /   Kannada   /   Nawayathi

پانچویں صدی ہجری کی ایک یادگار مسجد، جس کے احاطے میں حضرت مخدوم فقیہ اسماعیل علیہ الرحمہ کے والد بزرگوار آرام فرما ہیں (سفر گجرات (6)

share with us

✍️محمد سمعان خلیفہ ندوی
استاد جامعہ اسلامیہ بھٹکل

علی الصباح سورت کے یارانِ مہرباں کو الوداع کرتے ہوئے ان کی یادوں کی خوشبو دل میں بساتے ہوئے ہم احمد آباد کے لیے نکل پڑے۔ راستے میں ہمیں کھروڈ، ماٹلی والا اور بھروچ سے ہوکر گزرنا تھا، وقت کی تنگی کی وجہ سے ماٹلی والا کے مدرسے کی زیارت نہ ہوسکی، مگر کھروڈ کے جامعہ قاسمیہ عربیہ کی زیارت ضرور ہوئی، وہاں کے احباب سے ملاقات ہوئی، بلکہ طے شدہ نظام کے تحت ناشتہ وہیں کرنا تھا، اس لیے وہیں ناشتہ ہوا، میزبانوں نے بڑی خاطر کی، یہ گجرات کا مشہور و معروف ادارہ ہے، افتاء تک تعلیم ہوتی ہے، یہاں کے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد حنیف صاحب لوہاروی ہیں، کینیڈا کے سفر پر رہنے کی وجہ سے آپ سے ملاقات نہیں ہوسکی، جامعہ کے ناظم حضرت مولانا ایوب صاحب فلاحی مظاہری انتہائی متواضع اور یادگارِ اسلاف ہیں، دفتر میں آپ سے ملاقات ہوئی اور قرآنیات پر گفتگو ہوئی، نیز حضرت مولانا عبد اللہ کاپودروی مرحوم کے صاحب زادۂ گرامی قدر مولانا اسماعیل کاپودروی نے بھی محبت کا معاملہ فرمایا اور کئی کتابیں تحفے میں دیں۔
اس سفر سے پہلے ہماری آمد کی اطلاع ملتے ہی مفتی جابر صاحب کا یہاں کی زیارت کے لیے مسلسل اصرار تھا اور ہماری خوش قسمتی تھی کہ اسی راستے سے ہمیں احمد آباد جانا تھا، مفتی صاحب نوجوان وفعال عالم دین ہیں، علم وتحقیق کا ذوق رکھتے ہیں، شیخ الحدیث مولانا یونس جون پوری علیہ الرحمہ کے افادات کو انھوں نے مرتب کیا ہے، مولانا اطہر صاحب نے اس کا عربی ترجمہ کیا ہے، علم وکتاب کے حلقۂ احباب میں شامل ہیں اس لیے ان سے غائبانہ شناسائی تھی۔ 
کھروڈ کی مختصر ملاقاتوں اور یہاں کی پرلطف ساعتوں کے بعد اب ہماری اگلی منزل بھروچ تھی، بھروچ کا نام آتے ہی تاریخی طور پر اس کی اہمیت ذہن میں گردش کرنے لگتی ہے، ویسے بھی مولانا منیری صاحب کے توسط سے اس سفر کا اصل محرک بھروچ کی حاضری اور یہاں کے نقوش کا مشاہدہ بھی تھا، اس لیے شوق نے مہمیز کیا اور ہم بھروچ داخل ہوئے، یہاں ہمارے رہبر مفتی طاہر صاحب کے ہم زلف اویس صاحب تھے جو ایک ایک چیز دکھا اور بتا رہے تھے ، سب سے پہلے ہمیں یہاں کے کسی نواب کے قلعے کے پاس لے گئے، جو بالکل شہر کے ایک سرے پر واقع تھا، جہاں اونچائی سے نہر کا نظارہ ہوتا تھا، یہیں اوپر سے ایک برج نما عمارت دکھائی اور بتایا کہ یہی وہ مقام ہے جہاں سے حجاج کے قافلے حج بیت اللہ کے لیے روانہ ہوتے تھے اور ایمیگریشن پوائنٹ یہیں ہوا کرتا تھا۔ اسی لیے اسے باب مکہ کہا جاتا تھا۔ ہندوستان کے مختلف ساحلی شہروں میں واقع اس طرح کے مقامات اب تو تاریخ کا حصہ بن کر رہ گئے ہیں اور ایک پارینہ داستان۔ جذب و شوق اور جنون و عشق کی کیسی آنچ ان مبارک مقامات پر حجاج بیت اللہ کے سینے میں فروزاں ہوتی تھی۔
یہاں ہم نے پانچویں صدی ہجری کی ایک مسجد کی بھی زیارت کی، جو لکڑی کے ستونوں پر ایستادہ تھی، قدیم طرز تعمیر کی یادگار اور فن کی شاہکار۔ دروازے پر 430 ہجری مطابق 1037 عیسوی یعنی تقریباً ایک ہزار سال قبل کی تاریخ کندہ تھی، مسجد خستہ حال ہے، اور خطرہ اس بات کا ہے کہ کسی وقت اس کی چھت بیٹھ جائے۔ مگر اسلاف کے سجدوں کی خوشبو سے آباد تھی۔ مسجد کا حوض بھی قدامت کا پتہ دے رہا تھا۔ یہاں ہمارے قافلے کی دلچسپی کی ایک بات مولانا منیری صاحب نے یہ بتائی کہ بھٹکل کے بزرگ مخدوم فقیہ اسماعیل علیہ الرحمہ کے والد بزرگوار فقیہ اسحاق کا مرقد یہیں ہے، اگرچہ کہ تاریخی اعتبار سے ان کے والد کے نام  کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس مزار میں کئی قدیم قبریں نظر آئیں۔ مولانا کے بقول آپ کا خاندانی سلسلہ حضرت مخدوم صاحب سے ملتا ہے تو اس طرح یہاں آپ کے جد امجد آسودۂ خاک ہیں۔
ہم یہاں مسجد میں بیٹھے ہوئے اس کے سجادہ نشین سے ملاقات کی کوشش کررہے تھے کہ ان کی طرف سے صرف مولانا منیری کو اجازت ملی اور مولانا ان سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے۔
تقریباً نصف گھنٹے سے زائد مولانا کی ملاقات رہی، اس کا احوال مولانا ہی بتائیں گے۔ مگر اس کی روداد سن کر اندازہ یہ ہوا کہ یہ ملاقات آپ کے لیے سفر کا حاصل ہے، کیوں کہ جناب صادق صاحب اس سلسلے کی یادگار ہیں اور چہرے مہرے سے شباہت بھی اس خاندان کے بزرگوں کی، مدراس میں قاضی حبیب اللہ وغیرہ کے خاندانی بزرگوں جیسی۔ جناب صادق صاحب عمر کے اس مرحلے میں ہیں کہ کورونا کی ہلاکت خیزی کے پیش نظر وہ لوگوں سے ملنے میں احتیاط کرتے ہیں۔ مولانا نے جب ان سے مسجد کی خستہ حالی کا تذکرہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ ان کے سلسلے میں اس بات کی تاکید ہے کہ کسی سے چندہ نہ لیا جائے، کسی کو بیعت نہ کی جائے اور کسی کو تعویذ نہ دی جائے۔ اس لیے وہ اس ہدایت پر عمل پیرا ہیں اور فی الحال ان کے پاس اس کی گنجائش نہیں کہ وہ مسجد کی تعمیر نو کا بوجھ برداشت کریں۔
یہاں سے فارغ ہوکر ہمیں احمد آباد کے لیے نکلنا بھی تھا، اس لیے جلد ہی وہاں سے روانہ ہوئے، راستے میں ایک بوسیدہ عمارت کے متعلق بتایا گیا کہ یہ آنجہانی اندرا گاندھی کی سسرال ہے، اسی سے متصل ایک پارسی معبد یا آتش کدہ بھی ہے، اس کے دروازے پر پہنچ کر ہم لوگوں نے داخلے کی اجازت چاہی تو اس کے پجاری کی طرف سے اجازت نہیں ملی تو وہیں کھڑے کھڑے سوالات جوابات کا سلسلہ شروع ہوا، مولانا نے کئی ایک سوالات ان کے مذہب اور ان کی رسوم وغیرہ سے متعلق کیے، جوابات سن کر اندازہ ہوا کہ اصل پارسی مذہب میں بھی بہت کچھ تبدیلی ہوچکی ہے۔ پھر وہاں سے ہمیں بابری مسجد کی طرز پر بنی ہوئی ایک قدیم مسجد لے جایا گیا، یہ مسجد خاصی وسیع، ہوا دار اور قدیم فن تعمیر کا شاہکار ہے، اس کے محراب و منبر اور گنبدوں کی نقاشی اور اس کی فن کاری دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، ہم نے مینار پر چڑھ کر مسجد کی چھت سے پورے شہر کا نظارہ کیا، مسجد کے گنبد ایک خوب صورت منظر پیش کررہے تھے۔
جلد ہی یہاں سے فارغ ہوکر ہم نے شہر کی ایک مسجد میں ظہر کی نماز ادا کی، اب ہمیں احمدآباد کے لیے نکلنا بھی ہے، دوپہر کے ڈیڑھ بج چکے ہیں، ساڑھے چار بجے سے پہلے احمد آباد کی پیر محمد شاہ لائبریری پہنچنا ہے کیوں کہ پانچ بجے کے بعد لائبریری بند ہوجاتی ہے۔

محمد سمعان خلیفہ ندوی
بھروچ سے احمد آباد جاتے ہوئے 
8 صفر  1443ھ مطابق 16 ستمبر 2021

 

سلسلہ وار مضامین کی شائع گذشتہ قسطیں ان لنکس پر کلک کرکے پڑھ سکتے ہیں۔

 

ایک یادگار شب - جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل میں

چلتے چلتے مگر حیرت کی تصویر بنتے | جامعہ اصلاح البنات، سملک- خواتین کی ایک مثالی درس گاہ قسط 2

تاریخ کے سینے میں مدفون یادیں- راندیر اور سورت کا ایک مختصر سفر قسط 3

'بہت جی خوش ہوا حالی سے مل کر' : سورت کے اربابِ “ساحل” سے وابستہ خوش گوار یادیں سفر گجرات 4

ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں: سورت کے جواں عزم کاروانِ علم ودعوت سے امیدیں (سفر گجرات 5)

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا