English   /   Kannada   /   Nawayathi

ندوہ میں ایمان والحاد کی کشمکش (زمانۂ طالبِ علمی کے حوالہ سے)

share with us
akram nadwi

از:ڈاكٹر  محمد اكرم ندوى

آكسفورڈ

            ندوه ميں داخله سے پہلے ميں نے مولانا فضل امام خيرآبادى كى (المرقاة في المنطق) پڑهى تهى، اور اسى وقت سے منطق سے يك گونه دلچسپى ہوگئى، ندوه ميں مولانا ابو العرفان ندوى رحمة الله سے منطق وفلسفه كے دروس لئے، مولانا  معقولات كے ماہر تهے، اور بغير كسى كتاب كى مدد كے زبانى لكچر ديتے تهے، ان كى تشريح  آسان اور دل نشيں ہوتى، اس كا نتيجه ہوا كه فلسفه اور منطق سے قدرے تعلق مضبوط ہوا، اور  ميں نے اردو اور عربى ميں  منطق، فلسفه  اور كلام كى مختلف كتابوں كا مطالعه كيا، اس زمانه ميں ندوه ميں اردو ناول  وافسانه كى كتابيں ممنوع تهيں، ليكن عقلياتى ونظرياتى كتابوں پر كوئى پابندى نہيں تهى ۔

            فلسفه وكلام كے مطالعه سے الہيات كے مسائل سے بہتر واقفيت ہوئى، كلاس روم ميں  الہامى الہيات قرآن وسنت كى روشنى ميں پڑهائى جاتى تهى، عقلى الہيات كا دروازه  ميرے لئے بالكل نيا تها، اور جب يه دروازه كهل جائے تو سوالات كا نه ختم ہونے والا سيلاب امڈ آتا ہے، اوراگر تشفى بخش  جواب نه ملے تو سوال اور زياده علمى لگتا ہے، اور ذہن ميں يه  شبہه پيوست ہونے  لگتا ہے كه درسى كتابيں   عقل كو مطمئن نہيں كرسكتيں، بلكه كبهى كبهى نعوذ بالله اساتذه كى كم علمى كا واہمه  بهى گزرنے لگتا ہے ۔

            فلسفه وكلام كى تشريحات كے اختلاط نے ميرے ذہن  كے سكون كو غارت كرديا،  كچه اشكالات كا حل تو ميں نے تلاش كرليا، اور كچه اشكالات ميرے لئے سوہان روح ثابت ہوئے ۔

 خير وشر كيا ہے؟ كيا دونوں ايك دوسرے سے الگ ہيں؟ خير وشر كے جاننے كا راسته كيا ہے؟ لذتيت صحيح ہے يا افاديت؟، جبر وقدر كى حقيقت كيا ہے؟ انسان مجبور ہے يا با اختيار؟  ان سوالات نے متبعين اديان كى بڑى تعداد كو گمراه  كيا ہے، ليكن خدا كا فضل رہا كه ان سوالات كے جواب مجهے معلوم ہوگئے، اور اب تك انہيں كى روشنى ميں اپنے شاگردوں اور دوسرے سوالات كرنے والوں كے مسائل حل كرتا ہوں، اور لوگوں كو ان جوابات سے تشفى بهى ہو جاتى ہے ۔

            تا ہم درج ذيل  تين  سوالات مشكل تهے، اور ان كا جواب معلوم كرنے ميں بڑا وقت لگا:

1-           كيا خدا ايك ذات ہے جو صفات كمال (علم، قدرت، اراده وغيره)  سے متصف ہے اور كيا وه  كائنات سے جدا ہے؟ يا وه صرف ايك معنى، يا طاقت وتوانائى، لطيف روح، يا ذہنى تصور ہے؟ اور اگر وه ذات ہے تو   كيا وه مجسم ہے يا غير مجسم؟كيا تجسيم سے تركيب لازم آتى ہے؟ كيا تجسيم   اور "ليس كمثله شيء"  ميں تضاد ہے؟ كيا خود قرآن ميں تجسيم يا غير تجسيم كى كوئى صراحت موجود ہے؟

2-         كيا خدا محرك اول يا علة العلل ہے؟  اور اگر ايسا ہے تو كيا وه  كائنات سے بے تعلق ہے؟ كيا ہميں اس كے مثبت اوصاف كا علم ہو سكتا ہے؟ يا ہم صرف غير مناسب اوصاف كى اس سے نفى كر سكتے ہيں؟  دوسرے لفظوں ميں كيا ہم يه جان سكتے ہيں كه خدا كيا ہے؟ يا ہم صرف يه جان سكتے ہيں كه وه كيا نہيں ہے؟

3-           كيا الله غير محدود ہے، يعنى وه ہميشه سے ہے اور ہميشه رہے گا؟ كيا لا محدوديت زمانى كے ساته اسے لا محدوديت مكانى بهى حاصل ہے؟ اور اگر زمان ومكان مخلوق ہيں تو كيا عقل كسى ايسى چيز كا تصور  كرسكتى ہے  جس كى  ابتدا وانتہا نه ہو؟

            اس  آخرى سوال نے خاص طور سے مجهے سخت پريشان كيا،  مجهے ايمان والحاد كے درميان كهڑا كرديا، شكوك كے حملے شديد ہوتے، قرآن كريم كى تلاوت ميں دل نه لگتا، نماز ميں انسيت باقى نه رہى، ان آيات ميں تردد ہونے لگا جن ميں الله تعالى كى غير محدود صفات بيان كى گئى ہيں، خاص طور سے سورۂ اخلاص كا پڑهنا مشكل ہوگيا ۔

            كلام كى كتابوں كى طرف رجوع كيا، اور ان كے دلائل ومناہج كے نقائص ديكهكر ان  سے بيزارى ہونے لگى، اس كى وجه يه ہے كه متكلمين عقل كے صحيح استعمال سے واقف نہيں، عقل اسى وقت حق كى رہنمائى كرسكتى ہے جب وه  غير جانبدار (neutral) ہو، متكلمين نے عقل پر بہت بڑا ظلم كيا ہے، انہوں عقل كو صرف دفاع كے لئے استعمال كيا، مثلا عدالت ميں دو فريق حاضر ہوتے ہيں، اور دونوں وكيل كرتے ہيں، يه وكيل قانون دان ہوتے ہيں، اور اپنے موكل كے دفاع كے لئے ہر طرح كى عقلى موشگافياں كرتے ہيں، ان كا مقصد سچائى جاننا نہيں ہوتا، بلكه اپنے موكل كا دفاع كرنا اور اسے بے گناه ثابت كرنا ہوتا ہے، عقل كا يه استعمال ايك جرم وگناه ہے، اسى لئے متكلمين نے آج تك كسى ايك مسئله كو عقلى طور پر ثابت نہيں كيا، وه صرف اپنے مسلك اور اپنے فرقه كو خوش كرنا چاہتے ہيں، اور يہى ان كى عقلى موشگافيوں كى معراج ہے، اور شايد علم كلام مسلمانوں كى عقلى پسماندگى كا كسى حد تك ذمه دار ہے ۔

            لہذا ميں نے فلسفه ومنطق كى كتابوں كا مطالعه جارى ركها، اور شكوك و شبہات ميں اضافه ہى ہوتا رہا، كسى سے اپنى كيفيت بيان كرنے كى ہمت نہيں ہوئى كه پته نہيں مجه پر كيا الزام لگ جائے، مولانا شہباز عليه الرحمة سے كچه باتيں عام سوال كے انداز ميں پوچهيں، ليكن كسى جواب سے تشفى نہيں ہوئى ۔

            جس قدر مطالعه زياده كرتا اسى قدر عقل كى تقديس غالب ہوتى، اور عقلى علوم كى برترى ذہن ميں راسخ ہوتى گئى، توفيق الہى سے  اسى دوران امام ابن تيميه كى كتاب (الرد على المنطقيين) كے تعارف ميں علامه شبلى كا مضمون پڑها، اس مضمون نے اميد كى ايك كرن پيدا كى، اور پهر ميں نے (الرد على المنطقيين) كا مطالعه كيا، اور شايد كئى بار يه كتاب پڑهى، اس كتاب كے مطالعه سے  پہلى بار عقلى استدلالات كى كمزورياں واضح ہوئيں، اور يه اندازه ہونے لگا كه عقلى استدلال  زياده تر الفاظ كى بازى گرى، عقل كى فسوں كارى يا ذہنى عياشى ہے   ۔

            جب استدلال عقلى كے پائے چوبيں كى حقيقت واضح ہوگئى تو عقلى شبہات بهى كمزور ہوگئے،  خدا كا شكر ہے كه اسى حال ميں ايك اور كتاب ہاته لگ گئى، اور وه ہے   L'Homme, cet inconnu كى (Man, the Unknown) ، اس كتاب نے علم انسانى كى محدوديت اور بے بسى واضح كى، اس كتاب كا  كا مجه پر بہت احسان ہے، اسے بنظر غائر پڑهنے سے ميرے شكوك وشبہات تقريبا نا پيد ہوگئے،  اور دهيرے دهيرے زندگى معمول پر آگئى ۔

اس دوران ميں انگلينڈ آگيا، يہاں ميرے پاس فراغت كے اوقات تهے، اس لئے مغربى فلاسفه كى تاريخ اور ان كے آراء كا مطالعه شروع كيا، اور ان كے خيالات كا موازنه كيا، برطانوى رياضى دان وفلسفى  برٹرينڈ رسل كے فلسفيانه مضامين كا كوئى مجموعه پڑها، جس سے فلسفه كى كمزوريوں كا مزيد علم ہوا، پهر اس كى چهوٹى سى  مگر قيمتى كتاب (The Problems of Philosophy) پڑهى، اس نے فلسفه كى عظمت كے محل كو چكنا چور كرديا ۔

            آكسفورڈ اور لندن ميں كئى بار الغزالى كى (مقاصد الفلاسفة)، (تهافت الفلاسفة)، ابن رشد كى (تهافت التهافت) اور ابن تيميه كى (الرد على المنطقيين)  پڑهائى، اور ابن سينا كى( الشفاء )كے بہت سے مباحث كا مطالعه كيا، اور  اس طرح عقل كے حدود واضح تر ہوگئے ۔

            الله تعالى كى لا محدوديت، اس كى ذات وصفات  كے بے عيب اور كامل ومكمل ہونے كے بيان پر سب سے زياده مفيد مولانا فراہى كى (في ملكوت الله)، (حجج القرآن)، (القائد إلى عيون العقائد) ، اور امام ابن تيميه كے فتاوى كى شروع كى جلديں لگيں، ان  كتابوں كے مطالعه سے معلوم ہوا كه  عقلى استدلال دو  طرح كے ہيں، ايك علمى جو قرآن كا طريقه ہے، پيغمبروں كى سنت ہے، اور سائنس نے اسے اپنايا ہے، دوسرا رسمى عقلى استدلال جو فلسفه كى بنياد ہے، اور جس نے گمراہيوں كو جنم ديا ہے، آئنده مضمون ميں دونوں قسم كے طريقه ہائے استدلال پر ان شاء الله گفتگو ہوگى ۔

            ايك چيز واضح كردوں كه يہاں ايك مخصوص قسم كے عقلى طرز استدلال پر نكير مقصود ہے، خود عقل پر نہيں، كيونكه عقل شريف ترين تحفه ہے جو انسانوں كو ديا گيا ہے، اور بغير عقل كے انسان انسان نہيں، اس لئے عقل دين كے لئے ايسے ہى مددگار ہے جيسے انسان كے لئے حواس خمسه ضرورى ہيں ۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا