English   /   Kannada   /   Nawayathi

فضل وکمال کی ساری جگہیں خالی ہیں

share with us

مدارس كے طلبه اور نوجوان فارغين سے خطاب

بقلم: ڈاكٹرمحمد اكرم ندوى

آكسفورڈ، برطانيہ

مدرسوں كے طلبه اور فارغين اپنے مستقبل كے متعلق  فكر مند رہتے ہيں، وه شكايت كرتے ہيں كه وه جگہيں بہت محدود ہيں جہاں وه عملى زندگى ميں مشغول هوسكتے ہيں،   دينى تعليم نے ان كے سامنے ترقى كى راہيں مسدود كردى ہيں، ان كو مشورے دينے والے بهى ان كى تشويش بڑهاتے رہتے ہيں۔

اس مضمون ميں اسى كى وضاحت كى جا رہى ہے كه وه جگہيں جنہيں آپ اپنا ميدان عمل بنا سكتے ہيں، وه ہرگز محدود نہيں، بلكه صحيح بات يه ہے كه ان جگہوں پر كوئى مقابله ہى  نہيں، مواقع كے كمى كى شكايت اس لئے ہے  كه آپ غلط جگہوں پر نگاه لگائے ہوئے ہيں،  آپ  كى جگه فضل وكمال ہے، آپ فضل وكمال كو چهوڑ كر ان جگہوں كو اپنا ميدان سمجه رہے ہيں جو آپ كے مقام سے فروتر ہيں، پہلے ميں ان غلط جگہوں كى  نشاندہى كرتا ہوں  جنہوں نے آپ كے امكانات كو محدود كرديا ہے، اور آپ كے سامنے ترقى كى راہيں مسدود كردى ہيں، اس كے بعد فضل وكمال كے ان لامتناہى مواقع كى وضاحت كى جائے گى جن سے آپ نے آنكهيں بند كر لى ہيں۔

غلط مواقع:

  ذيل ميں بطور مثال  ان چند چيزوں كا ذكر كيا جاتا ہے، جنہوں نے آپ كے امكانات كو محدود كرديا ہے، اور آپ كى صلاحيتوں كو برباد كرديا ہے:

1        درسوں كے فارغين كى ايك بڑى تعداد ايك نئے مدرسه يا اداره كے قيام كو اپنا مطمح نظر بنا ليتى ہے، اس طرح وه اپنا شغل تلاش كرليتے  ہيں، اور اپنا معاشى مسئله بهى حل كر ليتے ہيں، ظاہر ہے كه فارغين كى تعداد بہت بڑى ہے، سب كے لئے كوئى نيا مدرسه يا اداره بنانا نا ممكن ہے،  آپ جب بهى تعليم كا مقصد كسى اداره كى تاسيس سمجهيں گے آپ پريشانى ميں رہيں گے اور فارغين مدارس كے مسائل كبهى حل نہيں ہوں گے۔

كسى مدرسه يا اداره كى تعمير ايك غلط سوچ ہے، نئے مدرسوں اور اداروں كى كوئى ضرورت نہيں، اور اگر ضرورت ہو بهى تو اس كے لئے دوسرے لوگ موجود ہيں، كوئى مدرسه يا اداره بنانے كے  لئے عالم ہونا ضرورى نہيں، اسلامى تاريخ ميں بالعموم مدرسے ان مردوں اور خواتين نے بنائے ہيں جو خود عالم نہيں تهے، مدرسه بنانے كے وسائل آپ كے پاس نہيں ہيں، آپ چنده مانگنے پر مجبور ہوں گے، جو ايك ذلت آميز كام ہے، اگر آپ نے چنده سے مدرسه بنا ليا تو پهر اسے چلائيں گے كيسے؟ اس كے لئے بهى چنده جمع كرنا ہوگا، اور يوں پورى زندگى چنده كى نذر ہو جائے، اور جب آپ اتنى محنت كريں گے تو سوچيں گے كه اس مدرسه پر آپ كا اور آپ كى آئنده نسلوں كا قبضه برقرار رہے، جو لوگ بهى اس كام ميں لگيں گے وه فضل وكمال كى راه سے دور ہو جائيں گے،  كتنى صلاحيتيں مدرسوں كے بنانے ميں ضائع ہوگئيں۔

2     کچھ لوگ اس كوشش ميں رہتے ہيں كه كسى مدرسه  يا اداره كے مہتمم، ناظم يا صدر بن جائيں، انتظامى عہدے بہت محدود ہيں، ان كے حصول كے لئے مقابله ہوگا، رسه كشى ہوگى،   عداوت ونفرت بڑهے گى، نتيجتًا فضل وكمال كے حصول كے بغير زندگى ختم ہو جائے گى۔

  کچھ لوگ كسى مخصوص مدرسه يا اداره ميں كام كرنے كے لئے مصر ہوتے ہيں، ظاہر ہے كه كوئى مدرسه يا اداره صرف محدود لوگوں كى تقررى كر سكتا ہے، اكثريت محرومى كا شكار رہے گى۔

4   آج كل مدارس كے فارغين كى بڑى تعداد انگريزى زبان يا كمپيوٹنگ وغيره ميں ايك دو ساله كورس كركے كوئى نه كام تلاش كرنے كى كوشش كرتى ہے، اس سے ان كا معاشى مسئله كسى حد تك حل ہو جاتا ہے، ليكن وه فضل وكمال سے محروم ہو جاتے ہيں، اور مدارس ميں علوم وفنون كى تحصيل ميں جو محنت كى ہے وه ضائع ہو جاتى ہے۔

درست مواقع:

  درست مواقع دو ہيں جو لا محدود ہيں،  اور ان ميں مدارس كے سارے فارغين لگ سكتے ہيں، نه كوئى مقابله آرائى اور نه حسد وعداوت، اور حقيقتًا يہى دونوں جگہيں  آپ كا جوہر دكهانے كے جگہيں ہيں، ايك فضل، دوسرا كمال۔

  انسانى فضائل ميں آپ آگے بڑهيں، انسانى فضائل وه صفات ہيں جو انسان كو مزين كرتى ہيں، اور انہيں صفات كا پيدا كرنا مقصد تخليق ہے، يه صفات ہيں ايمان، اسلام، عبادت، تقوى، امانت، عدل، كرم، صبر، حلم، عفو، قربانى، ان صفات كو آپ اپنائيں گے تو خدا سے قريب ہوں گے، آخرت ميں آپ كى نجات كى اميد قوى تر ہوگى، آپ كى محبوبيت دلوں ميں ڈال دى جائے گى، اور يه وه صفات ہيں جو دنيا كے فساد كو ختم كرنے كى ضامن ہيں، آج نه علماء ميں ان صفات كے حاملين ہيں، نه غير علماء ميں۔

  دوسرى چيز ہے كمال، آپ نے جو مضامين پڑهے ہيں ان ميں سے كسى ايك ميں كمال پيدا كريں، كمال كى سارى جگہيں خالى ہيں، صاحب كمال كہيں ہو دنيا اس كى قدر كرے گى، اسے سروں پر بيٹهائے گى، ذيل ميں وه چند موضوعات ذكر كئے جاتے ہيں جن ميں آپ كمال پيدا كرسكتے ہيں:

1-  تفسير وعلوم قرآن۔

2-  حديث وعلوم حديث۔

3-  فقه، اصول فقه، فتوى وغيره۔

4-  نبى اكرم صلى الله عليه وسلم كى سيرت۔

5-  عام سيرت وسوانح۔

6-  تاريخ اسلام۔

7-  علم كلام، يعنى اديان وفرق كے بنيادى مسائل، اور عقائد وافكار كو متاثر كرنے والے نظريات كا مطالعه۔

8-  اسلام اور جديد علوم، معاشيات اور اسلام، ماحوليات اور اسلام، نفسيات اور اسلام، جديد طب اور اسلام، وغيره۔

9-  اردو زبان وادب۔

10-  عربى زبان وادب۔

 

معاشى مسئله كا حل:

  آپ سوال كريں گے كه فضل وكمال كى تحصيل سے  ہمارا معاشى مسئله كيسے حل ہوگا؟ اس كا جواب يه ہے كه فضل وكمال كى تحصيل مجاہده ہے، اس ميں بڑى قربانياں دينى پڑتى ہيں، آپ مردانگى كے ساته اس وقت تك  استقامت اختيار كريں جب تك كه مطلوب كے قريب نه پہنچ جائيں۔

  جب آپ مطلوب كے قريب پہنچ جائيں تو آپ كا فضل وكمال خود بولے گا، دنيا آپ كو تلاش كرے گى، اور آپ كے لئے بڑى بڑى پيشكش كرے گى۔

  چند مثاليں پيش كرتا ہوں:

  قارى ابو الحسن جگديشپورى نے اپنے فن ميں كمال پيدا كيا تو ديوبند نے انہيں خود دعوت دى، اور ان كى تقررى كى، مولانا عبد الحق اعظمى صاحب نے حديث ميں امتياز پيدا كيا تو انہين بلاكر ديوبند ميں حديث كا استاد بنا  ديا گيا، سابق مہتمم دار العلوم قارى طيب صاحب، شيخ الحديث مولانا زكريا ، مولانا حبيب الرحمن اعظمى وغيره كو مختلف با عزت پيشكشيں كى گئيں۔

  مولانا برہان الدين سنبهلى دلى كى فتحپورى مسجد ميں درس قرآن ديتے تهے، ان كے كمال كا علم ہوا تو مفكر اسلام مولانا سيد ابو الحسن على ندوى نے انہيں ندوه ميں مدرس بناديا، جہاں وه ايك كامياب استاد كى حيثيت سے درس وتدريس ميں مشغول رہے، مولانا واضح رشيد ندوى نے عربى زبان وادب ميں كمال پيدا كيا تو ان كو ندوه بلايا گيا، مدرس بنايا گيا اور الرائد كى ايڈيٹنگ ان كے سپرد ہوئى۔

  دنيا كے سارے ادارے شكايت كر رہے ہيں كه انہيں اصحاب كمال نہيں مل رہے ہيں، حد يه ہے كه دار العلوم ديوبند جہاں محدثين پيدا ہوتے تهے اب اس مركز حديث كو با كمال محدثين كى تلاش ہے۔

  آج كل جو لوگ مدارس سے فارغ ہو رہے ہيں ان  كا معيار بہت پست ہے، نه كوئى زبان آتى ہے، اور نه علوم وفنون ميں كوئى دسترس، اور خواہش يه كه ان كو غزالى ورازى كا مقام ملے، جان ليں كه آرزؤں سے كوئى مقام نہيں ملتا، پست معيار كى دنيا ميں كوئى قدر نہيں، تفوق وامتياز پيدا كريں، امتياز كى سارى جگہيں خالى ہيں، سستى اور كاہلى سے پرہيز  كريں، شكايتوں سے بچيں، ہمت وحوصله بلند كريں، اور فضل وكمال كى چوٹى كو اپنا نشيمن بنائيں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا