English   /   Kannada   /   Nawayathi

نئے سال کا سورج نئی صبح و امنگ کیساتھ طلوع کیا جائے!!

share with us
new year

 

ڈاکٹر آصف لئیق ندوی

لیکچرار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد

 

 

          سال 2020 اپنے تلخ تجربات کیساتھ گزرنے کو تو گزر گیا، مگر اسکی تلخ یادیں بدستور ہماری آنکھوں کے سامنے اور مظلوموں کے دلوں میں قائم و دائم ہیں، دراصل جسم اور بدن کا زخم چند دنوں میں مندمل ہوجاتا ہے اور تھوڑے بہت علاج و معالجے کے بعد انسان مکمل شفا یاب ہوجاتا ہے، مگر زبان کا زخم، ظلم و زیادتی کا اثر اور نفرت و عداوت کی سیاست کا گھاؤ چاہ کر بھی مندمل نہیں ہوپاتا! کیونکہ سچے اور ہمدرد انسانوں کی پہچان ہی انکی زبان سے نکلی ہوئی دو میٹھی بول اور دل سے ابھرتے ہوئے دررمند جذبات و احساسات سے ہوتی ہے،زمانہئ جاہلیت کے کسی مشہور شاعر کا بہترین شعر ہے۔لسان الفتی نصف و نصف فؤادہ۔۔۔   ولم یبق الا صورۃ اللحم والدم۔یعنی انسانی شخصیت میں آدھی چیز اسکی زبان ہوتی ہے، جس سے وہ نفرت و عداوت یا محبت و الفت کا اظہارکرتا ہے اور ماحول کو سازگار یا زہر آلود بناتا ہے اور نصف حصہ اسکا دل ہوتا ہے، جس سے وہ اپنی تعمیری یا تخریبی افکار و خیالات کا بیج بوتا ہے، اسکے بعد گوشت پوست اور خون کے سوا انسان میں اور کیا باقی بچتا ہے؟

          افسوس کہ یہ دور جس سے ہم اور آپ گزر رہے ہیں اور بالخصوص 2020 کا سال جس کا ابھی ابھی اختتام پذیر ہوا، مگر اس سے بے شمار تلخ تجربات اور تباہ کن مشاہدات جڑگئے ہیں، جن کے بارے میں سوچ کر اور سن کر زندہ دل انسانوں کا ضمیر چیخ اٹھتا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم لوگ مردہ ضمیر انسانوں کی بستی میں آباد ہوگئے ہیں، جہاں نہ انسانیت کی قدر ہے اور نہ اسکی خیرخواہی کی فکر۔۔ ہم اپنی تمام تر ترقیات اور ایجادات کے بلند بانگ دعووں کے باوجود بھی دل و زبان اور انسانیت کی خیرخواہی و بھلائی والے اوصاف و صفات سے عاری ہوتے جارہے ہیں۔ انسانوں کی جان سے زیادہ جانوروں کو فضیلت دی جارہی ہے، نعوذ باللہ جہاں گائے کو ماتا اور معبود، اسکے گوبر کو بدن پر لگانے اور اسکے ناپاک پیشاب کو پینے پر کورونا وبا سے چھٹکارا کا نسخہ بتارہے ہیں؟! زمانہ جاہلیت اور ہمارے دور کی جہالت میں کیا فرق باقی بچ گیاہے؟! بلکہ ہم تو 2020 میں زبان و دل کے اعتبار سے ان جانوروں کے اوصاف سے بدتر نظر آئے ہیں، جوا پنے مالک کی وفاداری میں اپنی مثال آپ رکھتے ہیں؟! گائے کے گوشت کے بہانے اور شک کی بنیاد پر کتنے بے قصورلوگوں کو شر پسند عناصر نے جان سے مار دیاہے، ہجومی حملوں میں کتنے مسلمانوں کو شہید کردیا گیاہے، ملک ہندوستان کے مشہور صوبہ کیرلا میں ایک ہتھنی کی موت کو لے کرہندو مسلم پر کیا کیا سیاسی ڈرامہ ہوا، یوپی کی یوگی سرکار نے تو ظلم و زیادتی کی انتہا کردی ہے کہ اسکے دور اقتدار میں کتنی بے قصور جانوں کا نقصان ہوا حتی کہ معقول کھانے پینے کی اشیاء پر بھی پاپندیاں عائد کردی گئیں،لوگ چاہ کر بھی اپنی پسند کی غذا نہیں کھاسکے، لو جہاد پر متنازعہ قانون بنا لیا گیا، اسکی گھسی پٹی سیاست سے عوام و خواص تا حال اپنی پریشانی کا اظہار کر رہے ہیں، بیس کی ٹیس،اسکی تباہ متعددکاریاں و بربادیاں اور سارے زخم ابھی بھی ہمارے دلوں میں تازہ اور ہرا ہیں۔ملک کی معیشت اور تعلیم و تربیت کے نظام کو کس غار میں دھکیل دیا گیا ہے، جسکی تلافی فی الحال ناممکن اور محال بن گئی ہے، کاش 2021 کا نیا سال اور اسکا سورج ہماری سوچ و فکر اور زبان و ادب میں نمایاں تبدیلی کا سال ثابت ہو، زخموں پر مرہم پٹیوں، امراض واسقام سے ہماری مکمل نجات کے ایام ثابت ہوں، کاش! نئے سال کی آمد کے موقع پر حکومت اپنی پالیسیوں کو مظالم سے پاک، فتنوں سے صاف اور سازشوں سے دور تیار کرکے ایک ایسا نظام نافذ کرے جو ہم سبھوں بالخصوص ہندومسلم کیلئے امن وسلامتی کا داعی، اتحاد واتفاق کا پیکر، یکجہتی و یگانگت کاجامع اور مودت و اخوت کا حامل ہو، ہم سب ایکدوسرے کو محبت کی نگاہوں سے دیکھنے والے اور دعائیں دینے والے ہوں،نئے سال کا سفر پوری انسانیت کیلئے نئی صبح و شام، نئی امنگوں اورنئے حوصلوں کا پیکر ہو،اور ہم اس شعر کو گنگناتے ہوئے ایکدوسرے کو استقبال کرنے والے بنیں، نئی زندگی کی شروعات کرنے والے بنیں۔

تم  سلامت  رہو  ہزار  برس۔

ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار

          سال 2020 کی ہولناکیوں سے کون شخص ہے جو واقف نہیں ہے؟ اندھا بینا بھی اسکے کسک اور ٹیس کو محسوس کررہاہے، جسکی شدید چوٹ اور زخم سے پورا ملک متاثر ہے، اسکی معیشت تباہ و برباد ہوکر رہ گئی ہے، عوام وخواص برے حال میں ہیں، فرقہ پرستوں کی بد اعمالیوں اورحکمراں طبقے کی بعض غلط پالیسیوں کے نتیجے میں پورا ملک بدحال ہوکر رہ گیا ہے، اسلئے اگر اسے فتنوں اور آزمائشوں کا سال کہا جائے تو بالکل بے جا نہ ہوگا۔ بلکہ ارباب اقتدار کی اوچھی سیاستوں اور فرقہ پرستوں کی بعض نحوستوں اور ظلم و زیادتی کی بے برکتی سے عوام کی پریشانیوں میں حد درجہ جو اضافہ ہوا ہے، اسکی مثال کسی دور میں نہیں ملتی ہے، اس لئے اسکو مودی -شاہ کی ملی بھگت والا تباہ کن سال کہنا زیادہ مناسب اور موزوں ہوگا۔ حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے شرپسند عناصر نے بھرپور فائدہ اٹھایا، مظلوموں پر ظلم و ستم کا پہاڑ توڑا، کمزوروں کا جتنا جانی اور مالی نقصان کیا، اللہ کوہی معلوم ہے، اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت و عداوت کی جو آگ بھڑکائی، جس سے پورے ملک کی خوشگوار فضا متأثر ہوگئی، ایوان پارلیمنٹ میں کالے قوانین کو متعارف کرایا گیا اور اس طرح ملک کے دستور پر حملہ اوراس پر حلف سے کھلواڑکیا گیا اور ہندوستان کے آئین میں ترمیم کے ذریعے جس جرم کا ارتکاب کیاگیاہے،وہ جمہوریت کے تانے بانے کو بکھیرنے کی ناپاک کوشش ہے، ہندوراشٹریہ بناے کی سازش ہے، اسکے لیے ہندو مسلم منافرت کا جو بیج بویا گیا، ناپاک پروپیگنڈے کیے گئے، گندی سازشوں کا جال پھیلایا گیا، نفرت و عداوت کادیوار کھڑا کیا گیا، اور قتل و غارت گری جو بازار گرم کیا گیا،جس سے کتنے بے قصور مسلمانوں کا ناجائز خون بہا، اور آج بھی مسلمانوں کو ٹارگٹ بنایا جارہا ہے،انکے خلاف ججوں کو خریدا جارہا ہے، عدالتوں کو رسوا کیا جارہا ہے اور انہیں غلط فیصلے سنانے پر مجبور کیا جارہا ہے، دن دہاڑے دھاندلی کی جارہی ہے، حق کو ناحق، مسجد کو مندر بتایا جارہا ہے، حق پرستوں کے خلاف مقدمات درج کیے جارہے ہیں، سچ بولنے والوں کے منہ پر تالا لگایا جارہا ہے، طاقتوروں نے کمزوروں کے حقوق کودبانے کی ہر ممکن کوشش شروع کردی ہے، بلکہ انسانی حقوق کی کھلے عام پامالیاں ہورہی ہیں، آزادیئ رائے پر شکنجہ کسا جارہا ہے، شریعت سے چھیڑ خوانی ہورہی ہے، حتی کہ طلاق کے فیصلے میں حکومت نے جس ھٹ دھرمی سے کام لیاہے وہ بالکل نامناسب ہے،یہاں تو مدارس ومساجد کے احترام کو نیلام کیا جارہا ہے، کورونا وبا کا الزام تبلیغی جماعت والوں پر لگا کر دعوت و تبلیغ کے نظام پر تلوار لٹکائی جارہی ہے، فی الحال مدارس و مکاتب بند کردیے گئے ہیں، دیر و حرم کو مقفل کردیا گیاہے، تعلیم و تربیت کے کارخانے کو کھوکھلا بنانے کی پلاننگ ہورہی ہے، شراب کی دکانوں کورہنمائی فراہم کی جارہی ہے،مگر تعلیمی ادارے بدستور بند پڑے ہیں۔ حکمرانوں کے عجیب و غریب فیصلوں اور پالیسیوں سے عوام کا اعتمادبالکل اٹھ گیاہے، لاک ڈاؤن کے عرصے میں بھی رحکم و کرم کے بجائے انسانوں پر ظلم و ستم ڈھایا گیاہے، آرٹیکل 370 پر ڈاکہ ڈالا گیاہے، کشمیریوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے ہیں، شرپسندوں کو کھلی چھوٹ فراہم کی گئی ہے۔ اور آج بھی یہاں حالات جوں کا توں بلکہ بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ اللھم احفظنا من کل بلاء الدنیا والآخرہ۔

          یہ سب کام بی جے پی سرکار بالخصوص سن 2020 میں مودی-شاہ کی ناک کے نیچے بلکہ انکی سرپرستی میں انجام دیئے گئے، ہنوزمظلوموں کے جان ومال سے ہولیاں کھیلی جارہی ہیں، ان کے کاروبار کو تہس نہس کیا جارہا ہے،ستم بالائے ستم یہ کہ مظلوم کو ظالم کے طور پر پیش کیا جارہا ہے اور ظالموں کی پیٹھ کو تھپتھپاکر ان کو بڑھاوا دیا جارہا ہے،کئی فساد و جھڑپ میں پولیس کو ناجائز اختیار دیا گیا حتی کہ انہوں نے طلبا و طالبات پر بے جا ظلم کئے، ڈنڈے برسائے، کسی کا سر،کسی کا پیر تو کسی کی آنکھیں پھوڑدیں، کیسے کیسے ظلم وستم ہیں جو بے جا ڈھائے گئے ہیں! کیسی کیسی سازشیں ہیں جو جان بوجھ کر رچی گئی ہیں! حتی کہ شیطانوں کو بھی ظالموں نے پیچھے چھوڑ دیا، حکمرانوں کی بے حسی اس حد تک آگے بڑھ گئی کہ ان کے کانوں پر جوئیں تک نہیں رینگیں اور مظلوموں پر ظلم و ستم کا سلسلہ بند ہونے کے بجائے روز بروزدراز ہوتا چلا گیا، آخر ظلم کو روکنے یا دو فریقوں میں صلح کرانے کی ذمہ داریاں اعلی وزراء کی نہیں بنتی ہے؟ اسی لیے خدائے واحد نے پوری دنیا بشمول ملک ہندوستان کوآزمائشوں اور مصیبتوں میں گرفتار کردیا اور وہی ہمیں نجات دینے والا بھی ہے۔

          سال 2020 میں مودی حکومت کی غلط پالیسیوں اور حکمرانوں کی نحوستوں نے ملک کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، شرپسندوں کی ظلم وزیادتی خود ان کے لئے سبق آموز بن گئی۔ ان کی وجہ سے ملک کومختلف بیماریوں اور آفتوں بالخصوص کرونا وائرس نے آدبوچا، لاک ڈاؤن کیوجہ سے اچھے اچھوں کی حالت تباہ ہوکر رہ گئی، کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گئے، ملک کی معیشت تباہ و برباد ہو گئی، ملک قرضوں میں ڈوبتا چلا گیا، مظلوموں کی آہ وبکا نے ساری دنیا کو بڑی آزمائشوں میں گرفتار کردیا، خدا نے ظلم کے خلاف آواز بلند نہ کرنے والوں کو بھی پکڑ لیا، کتنے بڑے بڑے لوگ اس مرض میں ہمیشہ کیلئے موت کی نیند سو گئے، لاکھوں انسانوں کا جانی و مالی نقصان ہو گیا، کیونکہ جب خدا کاعقاب و قہر اترتا ہے تو وہ کسی اچھے برے کی تمیز نہیں کرتا ہے، وہ سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے، سچ یہی ہے کہ خدا کا قانون ہی ہمیشہ غالب رہنے والا ہے، ظلم و زیادتی اور نفرت و عداوت کوخدا کو سخت ناپسندکرتا ہے، ظلم وزیادتی کیساتھ کبھی کوئی حکومت تادیر باقی نہیں بچ سکتی! آج مودی- شاہ حکمراں ہیں، کل کسی اور کو خدا موقع دیگا، جو خود اچھے ہونگے اور عوام وخواص کیساتھ بھی اچھا معاملہ وبرتاؤ کرینگے۔ اوراللہ اسکا بھی بھلا کریگا۔

اب تو موجودہ حکومت اور ارباب اقتدار کو ہوش کے ناخن لینا چاہیے، کیونکہ لاک ڈاؤن کسی مرض کی دوا نہیں ہے، اصل دوا تو گناہوں سے اجتناب، غرور وتکبر سے گریز، ظلم و زیادتی سے پرہیز ہے، دوائی کا ایجاد تو ایک انسانی تخلیق ہے، مرض اور شفا دونوں کامالک تو اللہ ہے جو ہمارا بھی خالق ہے  اور تمام مرض کا شافی بھی، مرض بھی اسی کی مخلوق ہے اور شفا کا بھی وہی مالک ہے، مودی جی کے اس بیان سے کہ: ''2020 صحت کے چیلنجوں کا سال تھا، 2021 صحت کا حل نکالنے کا سال ہوگا'' کچھ بھی ہونے والا نہیں ہے، جب تک انسان اپنے ناراض رب کو راضی نہ کرلیں یا اس بات پر آمادہ نہ ہوجائیں! ظلم و ستم سے بالکل باز نہ آجائیں! عدل و انصاف کو اپنا مزاج نہ بنا لیں! اپنے ماضی کا احتساب اور مستقبل کو نصیحت و عبرت تصور نہ کرنے لگیں!اسوقت تک انسان ایک مصیبت سے نکل کر دوسری مصیبت میں گرفتار ہوتا رہے گا۔

           ہرطرح کا ظلم وزیادتی یقینا مرض اور بڑا گناہ ہے، جس کا علاج و معالجہ جسمانی بیماریوں سے قبل ہونا ضروری ہے، ہمیں اسکے لیے توبہ و استغفار کی کثرت کرنی چاھئے، کیونکہ پوری دنیا اللہ کی مخلوق ہے،بلکہ اس کا ایک کنبہ ہے، سب کو ایک خدا کی پرستش کرنی چاھئے اور سارے انسانوں کو ایک سمجھتے ہوئے سب کا سمّان کرنا چاہیے، ورنہ ہمارے جرائم و مظالم کہیں پوری انسانیت کی تباہی و بربادی کا ذریعہ نہ بن جائے اور قیامت میں سوائے پچھتاوے کے ہمیں کچھ اورہاتھ نہ آجائے، اس سے قبل ہمیں اپنے گریبان کو جھانکنا چاہیے اور اپنی جفاؤں سے توبہ اور استغفار کرتے ہوئے اپنے خالق و رازق کا بھرپور خیال کرنا چاہیے تاکہ سال 2021 میں اللہ ہمیں ہزاروں آفتوں بشمول کورونا وائرس اور دیگر عذاب و عقاب سے کلی طور پر نجات عطا فرمائے،ہمارے لئے سال نو کی سب سے بڑی مبارکبادی اور خوشخبری یہی ہوگی کہ اسکی صبح ہمارے لیے نوید ثابت ہو،باہمی محبت پیدا کرنے کا سال ثابت ہو،اسکے لیے ہمارے پاس جو کچھ بھی سبیل بن سکے اس موقع سے بڑا فائدہ اٹھانا چاہیے اورناراض خدا کو راضی کرنے کی ہر ممکن فکر کرنی چاہئے۔ اللہ ہمیں آفتوں سے چھٹکارا دے،ظلم و زیادتی سے پورے ملک کو پاک کر دے اورنئے سال کے سورج کو ہمارے لیے نئی صبح و امنگ کیساتھ طلوع فرمادے!!

 ورنہ۔۔۔۔۔ راقم السطور اپنا تخلیقی شعر پڑھتا رہے گا۔

نہ توبہ کی جفاؤں سے نہ خالق کا خیال آیا

ہزاروں آفتیں لے کر کورونا کا  وبال آیا!!

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا