English   /   Kannada   /   Nawayathi

لو جہاد : سرخیاں بٹورنے کے لئے پولس نے حل شدہ کیس میں درج کردی ایف آئی آر !

share with us

مفروضہ  لوجہاد کے نام پر یوپی میںنافذ کئے گئے سخت ترین تبدیلی مذہب مخالف قانون کوآرڈیننس کی شکل میں نافذ کرنے کے  چند گھنٹوں بعد ہی  بریلی میں پولیس  نے ’لوجہاد‘  کی  ایف آئی آر درج کرلی جس نے قومی میڈیا میں سرخیوں  میں جگہ بھی  پائی۔ اب یہ بات سامنے آرہی ہے کہ  پولیس کی یہ  جلد بازی  مذکورہ قانون کی افادیت  اوراس کی شدید ضرورت کو ثابت کرنے کی ایک کوشش تھی کیونکہ پولیس نے جس معاملے میں ایف آئی آر درج کی ہے وہ    ۲۰۱۹ء میں حل ہوگیاتھااور کیس بند کر دیا گیا تھا۔
 سنیچر کودیورنیا پولیس  نے جو ایف آئی آر درج کی ہے اس  کے مطابق شریف نگر میں رہنےوالے ٹیکا رام نے شکایت کی ہے کہ ایک مسلم لڑکے  نے جو ان کی بیٹی کے ساتھ پڑھتا تھا،ان کی بیٹی کے ساتھ دوستی کی اور پھر اسےمذہب تبدیل کرنے کیلئے’’دباؤ ڈالا، خوشامد کی اور للچایا۔‘‘ایف آئی آرمیں ٹیکارام کا یہ بیان درج ہے کہ ’’  میری اور میرے خاندان کی جانب سے بار بار انکار کرنے کے  بعدبھی ، وہ لڑکا بات نہیں سن رہاہےاور اپنی خواہش پوری کرنےکیلئے گالیوں اور جان سےمارنےکی دھمکیوں  کے ذریعہ ہم پر دباؤ ڈال رہاہے۔‘‘ دی  ہندو اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق نئے قانون کےمعرض وجود میں آنے سے بہت پہلے لڑکے پر لڑکی کو اغوا کرنےکا کیس درج کیاجاچکاہے۔ نئے قانون کے تحت اس کے خلاف نئی ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ مقامی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سنسار سنگھ  نے اخبار کو بتایا ہے کہ ’’وہ لڑکی پر مذہب تبدیل کرکے اس سے شادی کرنےکا دباؤ ڈال رہاتھا۔‘‘ اس سلسلے میں جب  دی ہندو اخبار کے نمائندہ  نے لڑکی کے بھائی کیسر پال راتھوڑ سے گفتگو کی تواس نے انکشاف کیا کہ یہ معاملہ بہت پرانا ہے جو ۲۰۱۹ء میں ہی حل کرلیاگیاتھا۔ کیسر پال کے مطابق لڑکی اکتوبر ۲۰۱۹ء میں لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی تھی مگر پولیس نے ان دونوں کو ڈھونڈ نکالاتھا۔لڑکی کے بھائی نےبتایا کہ ’’کورٹ کے فیصلے کے بعد یہ کیس ایک سال پہلے ہی ختم ہوگیاتھا۔‘‘اس نے بتایا کہ مئی ۲۰۲۰ء میں اس کی بہن کی دوسرے لڑکے شادی بھی    ہوگئی جس کے بعد سے مذکورہ لڑکے کے ساتھ اس کا کوئی رابطہ نہیں ہے۔
 دلچسپ بات یہ ہے کہ کیسر پال راتھوڑ   نے بتایا کہ اس معاملے میں  نئے سرے سے کیس درج کرنےکیلئے ان کے اہل خانہ نے پولیس سے رابطہ بھی نہیں کیاتھا بلکہ خود پولیس اہلکار وں نےان کے گھر پرپہنچ کر اس  پرانے معاملے  کے تعلق سے پوچھ تاچھ کی۔ دی ہندو اخبار کے مطابق  لڑکی کے بھائی نے بتایا ہے کہ ’’پولیس ہمارے گھر آئی تھی، اس نےبتایا  کہ پرانی فائل پڑی ہوئی ہے۔ پھر انہوں  نے مجھ سے کہا کہ وہ پتاجی کو جانچ پڑتال سے متعلق کچھ پوچھ تاچھ کیلئے تھانے لے جا رہے ہیں۔‘‘ پہلے ہی حل ہوچکے معاملے میں نئے قانون کےتحت کیس درج کرنے کے سلسلے میں دی ہندو کےسوال کے جواب میں    کودیورنیا پولیس  اسٹیشن کے ایس ایچ او کا جواب ہے کہ لڑکی کے اہل خانہ نے پہلے اپنی عزت کیلئے معاملے کو جلدی رفع دفع کردیاتھا مگر وہ لڑکا شادی کے بعد بھی لڑکی کوپریشان کررہاہے۔ بہرحال  یہ اب بھی واضح نہیں ہے کہ اگر سابق عاشق کسی  خاتون کو پریشان کررہا ہے تو  اس پر ’’لوجہاد ‘‘ مخالف قانون کا اطلاق کیسے ہوسکتاہے۔

 گھر واپسی پر قانون کا اطلاق نہیں

 یوپی سرکار کے ذریعہ آرڈیننس کی شکل میں  نافذ کئے گئے تبدیلی ٔ مذہب مخالف قانون     کا اطلاق اُس وقت نہیں ہوگا جب کوئی شہری  اپنا سابقہ مذہب دوبارہ اختیار کرےگا۔ عام  طور پر ہندوانتہا پسند تنظیمیں اسے ’’گھر واپسی‘‘ قرار دیتی ہیں۔  نئے قانون کے مطابق تبدیلی ٔ مذہب کیلئے ۶۰؍دن پہلے ضلع مجسٹریٹ کو اطلاع  دینا لازمی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس قانون کے اطلاق کے ۲؍ سال بعد تک اس میں کوئی ترمیم بھی نہیں کی جاسکتی۔ یوگی سرکار کا یہ آرڈیننس سنیچر کو گورنر آنندی بین پٹیل کے دستخط کے بعد نافذ ہوگیاہے۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا